تہذیب و تمدن
( رسم و رواج)
پاکستان کی 80 فیصد آبادی اگر چہ دیہات میں رہتی ہے لیکن پاکستان سے پہلے دور اور اس دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب دیہاتیوں کو بھی تقریبا وہ ساری سہولتیں حاصل ہیں جو پہلے شہروں میں بھی نہیں تھیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب معاشرہ ملا جلا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ بھی رہتے تھے۔ بعض رسم رواج ایک جیسے تھے اور بعض میں اختلاف بھی تھا لیکن یہ بھی یادر ہے کہ غیر مسلم اقتصادی اور سماجی لحاظ سے آگے تھے۔ وہ علم کی دولت اور مال وزر کے حساب سے بھی مسلمانوں سے آگے تھے ۔ ہندو دوکاندار تھے۔ محلوں میں بھی ان کی دوکا نہیں ہوتی تھیں جو عام طور پر کریانہ کی ہوتی تھیں۔ اس وقت پیسہ لوگوں کے پاس نہیں ہوتا تھا، بارٹر سسٹم رائج تھا یعنی جنس کے بدلے جنس اور اسی بہانے مسلمانوں کی سال بھر کی کمائی لوٹ لیتے تھے۔ ان کا طریقہ واردات یہ ہوتا تھا کہ مسلمان کو جب کسی چیز کی ضرورت پیش آتی تو وہ بچے کی جھولی میں دانے ڈال دیتا اور اسے دوکان پر سے سود الانے کے لئے بھیج دیتا۔ دوکاندار اس کو اونے پونے تول کر یا من کر اس کے اصل سے نصف پیسے بتاتا اور پھر اس کی مطلوبہ چیز بھی اپنی مرضی سے دیتا۔ بچہ یا اس کی ماں پوچھتی کہ دانے کتنے کے ہوئے تو وہ پوچھتا کہ تم نے لینا کیا ہے۔ بار بار تکرار سے ہار مان گویا ہوتا کہ اگر تم پونے تین پاؤ اور دانے لاؤ تو پھر یہ پونے چار آنے کے ہو جائیں گے ۔ اب ایسا حساب ان کی بلا جانے ، اب سودے کی باری آتی ایک دیا سلائی، ایک چھٹانک گڑ ، پاؤ نمک ، ایک آنہ نقد اور باقی کا مٹی کا تیل دے دو یا بچوں کے لئے بتاشے مانگ لیتے۔ اسے بھی وہ پیچھے کا احسان سمجھتے تھے کہ اس نے ان کی چیز کے بدلے میں اتنی چیزیں دے دیں۔
ہندوؤں کا فلسفہ حیات
ہند و اگر چہ ہمارے ساتھ رہے ہم اکٹھے پڑھتے تھے لیکن انکا رہن سہن تضاد کا شکار تھا۔ قیمتی چیزیں ناپاک نہیں ہوتیں لیکن سستی چیزیں مسلمانوں کے چھونے سے ناپاک ہو جاتی تھیں۔ مثلاً گندم، گھی ، دودھ مسلمانوں سے بلا جھجھک لے کر استعمال کرتے لیکن پانی لسی ، کھانا بھٹ جاتا یعنی نا پاک ہو جاتا وہ اسے استعمال نہ کرتے ۔ جب مسلمان کھانا ساتھ سکول لے جاتے تو وہ شرارتا ہاتھ لگاتے لیکن مسلمان اس کی پرواہ نہ کرتے اور کھاتے جاتے لیکن وہ نہ کھاتے۔ سکھ بچے مڈل تک بالوں میں پراندہ استعمال کرتے اور جب بھی ہمارا ان سے جھگڑا ہو جاتا تو ہم پراندے سے قابو کر لیتے۔ ان کے متعلق مذاق کے طور پر کہا جاتا کہ سکھ ایک ایسا جانور ہے جو پنجاب میں عام پایا جاتا ہے۔ 10 سال کی عمر تک نر اور مادہ کی کوئی پہچان نہیں۔ تلوار اور بندوق سے نہیں ڈرتا صرف حقے کے دھویں سے بھاگتا ہے کیونکہ سکھ تمہا کو پینا گناہ سمجھتے تھے۔ لباس بھی اگر چہ ایک جیسا ہی ہوتا تھا لیکن استعمال میں بہت فرق تھا تہہ بند کرتا ، پگڑی عام لباس ہوتا تھا۔ بعض بزرگ ایک کندھے پر صافہ بھی رکھتے تھے۔ جہاں کہیں زمین پر بیٹھنے کی نوبت آتی تو گوٹھ مار کر اس کو گھٹنوں کے ارد گرد لپیٹ لیتے جس سے تھکاوٹ نہ ہوتی۔ پگڑی دیہاتی ثقافت کا خاص نشان ہوتی تھی۔ اس کے باندھنے کے بھی بہت سے طریقے تھے۔ امیر لوگ پگڑی کے دونوں سروں آٹھ دس انچ تک گاڑھا کلف لگواتے تھے تا کہ شملہ اونچا کرنے میں آسانی رہے اور یہ پگڑی طلائی کلاہ پر باندھی جاتی جس سے اس کی شان و بالا ہو جاتی احمد کے لئے ملک خضر حیات ٹوانہ ، ملک خدا بخش ٹوانہ کا طرہ دار پگڑی باندھنے کا واقعی طرۂ امتیاز تھا۔اس کو باندھنے کے لئے خاص طریقہ تھا، ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔سکھ بھی پگڑی باندھتے تھے لیکن ان کا سٹائل سب سے مختلف ہوتا تھا۔ وہ پگڑی میں دونوں کانوں کو بھی ڈھانپ لیتے تھے اور اکثر رنگدار باندھتے تھے لیکن مسلمان زیادہ تر سفید پگڑی باندھتے تھے۔ سر ڈھانپ کا رکھنے کا رواج تھا۔ ننگے سر پھرنے کا رواج نہ تھا۔ اسے بہت معیوب سمجھا جاتا۔پگڑی، چادر اور دوپٹے کی بڑی عزت کی جاتی ہے۔ اس کے لئے کئی محاورے بنے مثلا بگڑی کی لاج رکھنا پگڑی پاؤں پر رکھنا بگڑی بدل بھائی بنا بگڑی کے تقدس کو بحال کرنے کے لئے نائب قاصدوں کو پگڑی باندھنے کی ممانعت کر دی۔ یہ بھی یادر ہے کہ غریب مسلمانوں کے پاس پہننے کے لئے مناسب لباس نہ ہوتا تھا۔ اکثر لوگ نگے بدن رہتے۔ کہیں آنے جانے کے لئے کرتہ مانگ کر لے جاتے لیکن بدن کو کرتے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے پہنا مشکل ہو جاتا تو وہ تنگ آکر اتار کر اسے لپیٹ کر بغل میں رکھ لیتے ۔ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے پہن لیتے ۔ یہی بات پاؤں کی جوتی کی بھی ہوتی تھی۔ عوام کو جوتی کی عادت نہیں ہوتی تھی۔ بعض پاؤں اتنے سخت ہو جاتے تھے کہ کانٹا بھی نہ چھتا تھا۔ عیدین پر لوگ اپنی حیثیت کے مطابق نئے کپڑے پہنتے تھے۔ اس وقت استری کا رواج نہیں تھا۔ کوئی شہری ہی اسے استعمال کرتا۔ اسی طرح شلوار کا استعمال بھی تقسیم کے بعد زیادہ ہوا۔ اب دھوتی کی نسبت شلوار زیادہ ہوگئی اب مدارس میں پتلون کا رواج پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اب لڑکیاں بھی پتلون پہنے لگی ہیں۔ اب آہستہ آہستہ پردہ رخصت ہو رہا ہے، پہلے پر دہ سادہ برقعہ ہوتا تھا۔ پھر فیشنی سیاہ برقعے بھی بڑے مقبول ہوئے۔ انقلاب ایران کے بعد بر تھے کے بجائے چادر کا استعمال بڑھ گیا لیکن پھر آہستہ آہستہ چادر بھی ختم ہونے لگی اب دوپٹے سر سے گلے میں آگئے ہیں لیکن لباس کا ابھی تک حصہ موجود ہے۔ پہلے جوتی دیسی موچی سے آڈر دے کر بنوائی جاتی تھی۔ موچی کے پاس جب جاتے تو وہ پتھر کی سل پر پاؤں رکھواتا اور انگلی پانی میں ڈبو کر آگے پیچھے نشان لگا کر ماپ لے لیتا اور مناسب وقت پر تیار کر کے دنے دیتا۔ مردوں اور عورتوں کے نمونے مختلف ہوتے ۔ امیر لوگ زری والا کھوسہ پہنتے تھے۔ جوتی کی ایک یہ بھی سہولت ہوتی تھی جس پاؤں میں مرضی پہن لیں۔ انگریزی جوتی تو دوسرے پاؤں میں نہیں پہنی جاسکتی۔ پھر جوتی کو کبھی پالش نہیں کیا جاتا تھا۔ ہاں اسے مزید پائیدار بنانے کے لئے کڑوے تیل سے تر کر لیا جاتا۔ عینک کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہمارے علاقے کا واحد آنکھوں کا ڈاکٹر حاذق تقی شاہ تھے۔ ان کا مزار گروٹ میں ہے۔ وہ موہے کے آپریشن کے ماہر تھے۔ ستمبر اور فروری میں وہ اکٹر آپریشن کرتے تھے ان دنوں محلہ ٹوانہ میں میلہ کا سماں ہوتا تھا۔ بڑی دور دور سے لوگ ان کے پاس آتے تھے ۔ انکا آبائی وطن ہونگا تھا لیکن ملازمت کے سلسلہ میں مختلف شہروں میں پھرتےرہے، آخر جھاوریاں سے ریٹائر ہوکر سرگودھا میں ہسپتال بنایا لیکن ان کے بعد کھیل ختم ہو گیا۔
کھانا پینا
کھانے پینے کا انتظام جیسا کہ آج ہے تقسیم سے پہلے بالکل نہ تھا۔ لوگ صرف دو وقت روٹی کھاتے تھے اب تین وقت ہو گیا ہے جو کہ صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ دن کو ہانڈی پکانے کا رواج نہ تھا۔ رات کو بھی کوئی پکاتا تھا۔ اگر کوئی مہمان آجاتا تو ہمسایہ سے بلا تکلف سالن مانگ لیا جاتا۔ دن کو ہانڈی پکانے کا رواج نہیں تھا۔ دن کو چٹنی سے پیاز سے کسی سے یا پانی سے نمک اور مرچ ڈال کر سالن سمجھ کر کھا لیا جاتا تھا۔ اس سے لوگوں کی صحت قابل رشک رہی ان کو جدید بیماریوں کی ہوا تک بھی نہیں لگی تھی۔ یعنی بلڈ پریشر شوگر ، کینسر، ڈپریشن کوئی جانتا ہی نہ تھا۔
صحت
اس زمانے میں اگر کوئی بیماری تھی تو ملیریا بخار ہوتا تھا۔ کا انگ (فلڈ ) والے علاقوں میں کثرت سے ہوتا یہ عجیب بخار ہوتا ایک دن ہوتا اور دوسرے یا تیسرے دن ناغہ کرتا۔ یکدم ہوتا اور بدن سردی سے کانپنے لگتا، مریض کے اوپر لحاف اور کئی کپڑے ڈالتے رہتے جب تک سردی لگنی ختم نہ ہوتی۔ اس کے لئے میٹھے چوسنا بہترین علاج سمجھا جاتا تھا۔ کونین کی گولیاں نہیں تھیں ایک کو نین لکچر دیتے تھے جو بہت کڑوی ہوتی ، اسے پینا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ باقی چھوٹی موٹی بیماریوں کے لئے گھریلوٹوٹکے ہوتے تھے اور ہر گھر میں سونف کالی مرچ الا چی لازمی ہوتی ۔ بعض لوگ پیٹ درد کی پھکی وافر مقدار میں بنا کر رکھ لیتے اور مریض کو مفت دی جاتی ۔ اسی طرح آنکھ دکھنے آتی تو گھروں میں ثواب کی غرض سے چونڈی بنا کر رکھ دی جاتی اور مریض کو بلا معاوضہ آنکھ میں ڈالی جاتی ۔ اسی طرح بچوں کو گھنڈی یا گلے پڑ جاتے تو بڑی بوڑھیوں کے پاس لے جاتے وہ ایک سفوف جو زردی مائل ہوتا تھا منہ کھلوا کر ھنڈی پر لگاتی تھیں۔ اس زمانے میں گڑ کھانے کا بہت رواج تھا، چھوٹے بچوں کو اکثر پھنسیاں نکل آتی تھیں۔ ان کو پکنے کے لئے پیار گرم کر کے باندھا جاتا تھا۔ اگر بہت بڑی ہو جاتی تو حجام کے پاس لے جاتے وہ چیرا دے کر گندا مواد نکال دیتا۔
اس زمانے میں پجیلی تو نہیں تھی ، گرمیوں میں بہت بہت نکلتی تھی کیونکہ مرد حضرات اکثر باہر دھوپ کام کرتے تھے تو اس پر کھجلی بہت ہوتی تھی ۔ لوگ اپنی پیٹھے کو دیواروں یا چار پائی سےرگڑتے تھے پھر اس پر سرسوں کا تیل مل لیتے تھے۔
شادی شدہ عورت اگر گھر ہوتی تو وہ بیچاری سارا دن کام کرتی رہتی۔ اس زمانے میں ہر گھر میں لیاری ضرور ہوتی تھی۔ وہ گائے، بھینس یا بکری بھی ہو سکتی تھی سورج نکلنے سے کم از کم دار گھنے پیشتر اٹھ کر دودھ بلایا جاتا۔ اس سے فارغ ہو کر پورے گھر کی صفائی کی جاتی اگر محلے کی گلی ہے تو گھر کے سامنے سے اسے بھی صاف کروایا جاتا۔ جن کے گھروں میں ریڑ کا نہ ہوتا وہ چہرخا کاشتیں اور پھر دن چڑھے لسی لینے والیاں آجائیں تو ان کو تقسیم کر دی جاتی۔ اس کے بعد ناشتہ تیار کیا جاتا اور اکثر لسی یارات کے بچے ہوئے سالن کام آجاتے ۔
ہلی سے دودھ یا سائن یا گوشت وغیرہ بچا کر رکھنے کے لئے چھکے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ چھکا پتریوں کا بنا ہوا ایک محفوظ سالن رکھنے کی چیز ہوتی جس میں سالن رکھ کر اسے فضا میں انکا یا جاتا تا کہ ملی اسے خراب نہ کر سکے۔ اس کی گرمیوں میں ضرورت ہوتی سردیوں میں تو ہر چیز گھر کے اندر ویسے ہی محفوظ ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ٹوکرے کو بھی استعمال کرتے تھے۔ بعض اوقات بلیاں کمزور ٹوکرے کو تو ڑ بھی دیتی تھیں۔ بلی کا ذکر آیا تو یہ مرغیوں کے چوزے بڑے شوق سے ہڑپ کر جاتی تھیں۔ آجکل سوشل ہو گئی ہیں۔ چوزے اور مرغیاں پھرتی رہتی ہیں یہ کچھ نہیں کہتیں ۔ چیل اور کوے بھی چوزوں کو نہیں چھوڑتے تھے۔ شاہد اس زمانے میں صحن بڑے ہوتے تھے۔ ان کو اٹھانے کا زیادہ موقع ملتا تھا۔ جب بلی یا جیل لے جاتی تو پھر مالک اس کو چھڑانے کے لئے پیچھے بھاگتے لیکن بہت مشکل سے ہی ہاتھ آتیں۔ گرمیوں میں رات کو سونے کے لئے کمرے کی چھت استعمال کی جاتی تھی، بعض چھتیں آپس میں ملی ہوتی تھیں۔ بچے الگ بوڑھیاں الگ اور بچیاں الگ ہو کر اپنی اپنی پسند کے مشاغل کرتے ۔ بڑی بوڑھیاں بچوں کو و کہانیاں سناتیں اور وہ کہانیاں سنتے سنتے ہی سو جاتے ۔ چاندنی راتوں میں یہ مزہ کچھ اور ہی ہوتا۔ہر ایک اس سے لطف اندوز ہوتا۔
جب بچے سویرے اٹھتے تو ان کی آنکھوں میں اتنی گاد ( گڈ) ہوئی ہوتی کہ پلکیں کھولنا مشکل ہو جاتا۔ بچہ پریشان ہو کر زور لگا تا پلکیں ٹوٹ جائیں۔ والدہ اسے بتاتی کہ اب لگا کر نرم کرو اس طرح اس کی جان چھوٹتی ۔
دیہاتیوں میں آجکل کی طرح نلکے عام نہیں تھے ، ایک صدی پہلے دریا کے قریب والی عورتیں پانی کنوؤں سے بھر کر لاتیں یا مسجد کی کھوئی سے لایا جا سکتا تھا۔ پانی بھرنے کے لئے اگرما ہر کنویں سے لانا ہوتا تو پھر پانچ سات اکھٹی ہو کر جاتیں۔ تین گھڑے ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر آسانی سے اٹھا لیتیں۔ بعض چوتھا بغل میں رکھ کر لے آئیں ۔ عام طور پر نہانا دھونا کنویں پر ہی ہوتا۔ کپڑے دھونے کے لئے اور ڈنڈا گھر سے لے جانا پڑتا۔ ڈنڈے کا اس قدر استعمال ہوتا کہ اکثر بٹن شہید ہو جاتے اور تب پتہ چلتا جب اسے پہنا جاتا۔ اس زمانے میں فالتو جوڑوں کا رواج نہ تھا، وہی کپڑے دھو کر پہنے ہوتے تھے ۔ گرمیوں کی وجہ سے گیلے بھی پہن لئے جاتے اور وہ خودبخو د سوکھ جاتے ۔ سردیوں میں سویٹر یا کوٹ کا رواج نہ تھا یا خریدنے کی طاقت نہ تھی۔ فقط بڑے کھیں اور چھوٹے اپنی عمر کے مطابق چادر ہی کر کے سردی سے بچتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض بچے سردی سے بچنے کے لئے دو دو تین تین اوپر نیچے کرتے پہن لیتے ۔ بنیان کا رواج بھی نہ تھا۔ گرمیوں میں ململ کے کرتے اور سردیوں میں کھدر جسے ہوتی کہتے تھے کے کپڑے پہنے جاتے اور پوتی کے کپڑے عورتیں اپنے ہاتھ سے کات کر جلا ہے سے بنوا تیں تھیں ۔ اس سے پھر آگے لحاف اور تلائیاں بھی بنائی جائیں بعض عورتیں خود کپاس چن کر بطور مزدوری کپاس اکٹھی کرتی رہتیں اور پھر اسے گھریلو بیلنے سے بیل کر پہنچے کے پاس دھنائی کے لئے لے جاتیں۔ پینجے کے پاس ایک بڑا سا آلہ ہوتا تھا جسے تاڑا کہتے تھے اس میں تندی لگی ہوتی تھی تندی ایسی باریک ری کو کہتے تھے جو انتریوں سے بنائی جاتی تھی اور یہ کافی مظبوط ہوتی ، اس کے پاس ایک منگلی ہوتی تھی وہ اس سے تندی کو چھڑ تا جس سے اس میں ارتعاش پیدا ہوتا اور روئی کی دھنائی ہو جاتی ۔ پینجا کمرہ بند کر کے ناک اور کان کپڑے سے لپیٹ کر یہ کام کرتا۔ کافی مشقت طلب کام ہوتا تھا۔ عورتیں کھاری یا کپڑے میں روئی لا کر رکھ جاتیں اور پھر وہ باری باری دھتا رہتا۔ اس کی آواز سارنگی کی طرح مزیدار ہوتی ۔ اب مشینی دور ہے اب نئی پود تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتی آجکل تو چٹنی بھی مشین سے بتائی جاتی ہے، اس زمانے کی عورت کی ذمہ داری آٹا پینا بھی ہوتا تھا۔ منہ اندھیرے کمہاروں کے گھر جاتیں اور آٹا پیس کر لاتیں اور اسے چکی کی اجرت دی جاتی۔ کمہاروں نے اس مقصد کے لئے کافی چکیاں لگارکھی تھیں ورنہ وہاں بھی باری کا انتظار کرنا پڑتا اور وقت گزر جا تا تازہ آٹا پیس کر روٹی پکائی جاتی ۔
بچوں کی صحت کا بہت خیال رکھا جاتا۔ ان کی خوراک حسب توفیق اچھی ہوتی ۔ پراٹھا اور اس سے چوری بنا کر دی جاتی تاکہ بچہ خوش ہو کر کھائے ۔ چوری یہ ہوتی تھی کہ اسی روٹی کو
باریک کر کے اس میں شکر ملا دی جاتی۔ آجکل شکر کا رواج نہیں رہا، یہ گڑ کے ڈلوں کی طرح نہیں بلکہ بھر بھری سی ہوتی ہے۔ آپ اسے چینی اور گڑ کے درمیان سمجھ لیں۔ بعض مائیں بچوں کو بوڑواں بنا کر دیتی تھیں ۔ بوڑواں گھی میں شکر ملا کر دی جاتی اس سے روٹی کھالی جاتی تھی۔ سردیوں میں مائیں بچوں کو بازاری چیزیں خرید کر دینے کے بجائے خود اپنے ہاتھوں سے طرح طرح کی چیزیں بنا کر رکھ لیتی تھیں اور وہ خراب بھی نہ ہوتیں نکڑ نے بنائے جاتے۔ یہ چھوٹی چھوٹی میٹھی جسے گوگا کہتے تھے تھی میں تل کر تیار کی جاتیں اور ضرورت کے وقت دودھ کے ساتھ دے دیئے جاتے ۔ بعض مائیں ایک اور قسم کا حلوہ بنا کر بچوں کے لئے رکھ لیتی گول گول لڈو کی شکل میں بنا کر رکھ لیتی۔ اس میں دودھ کا کھویا، اخروٹ، بادام، میوہ ہوتا جسے بچے بڑے شوق سے کھاتے اور بڑا مقوی بدن ہوتا۔ سمجھ دار ڈاکٹر اب پھر ایسی خوراک کی سفارش کرنے لگے ہیں کیونکہ اس سے بچے کی ٹھیک نشود نما میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اب کی ٹافیاں تو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ پینے کے پانی کی تھل میں کافی تکلیف ہوتی تھی ، کافی عرصے سے کھڑا ہوا پانی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ وہیں سے جانور بھی پیتے اور وہاں سے ہی انسان پیتے ، وہیں نہایا جاتا اور کپڑے بھی دھوئے جاتے لیکن مجبوری تھی، اگر زندہ رہنا ہے تو پھر پینا پڑے گا کے مصداق لوگ پیتے تھے۔ ایسی جگہوں کو میدانی علاقے میں ٹوبہ اور پہاڑی علاقے میں بن کہتے تھے۔ ایسا گندہ پانی پینے سے آدمی کے بدن سے ایک کیڑا بن کر نکلتا جسے اس کے بڑھنے سے کلائی پر لیٹتے رہتے حتی کہ وہ کافی مدت کے بعد ختم ہوتا۔ اگر ٹوٹ جاتا تو وہ کافی نقصان دہ ہوتا۔ پہلو وینس کے استاد ملک محمد عیسی صاحب فرماتے تھے کہ انہیں یہ بیماری ہوئی تھی۔ چوہوں کی وجہ سے ایک بیماری پھیلی جسے طاؤن کہا جاتا تھا۔ یہ بڑی مہلک بیماری ہوتی تھی ۔ شاید بیماری آخری بار 1929 ء میں آئی تھی جس سے گھروں کے گھر خالی ہو گئے۔ اس بیماری سے بغل میں گلٹی پیدا ہو جاتی جو جان لیوا ہوتی ۔ یہ بیماری چوہوں کے کاٹنے سے نہیں بلکہ ان میں پسو پیدا ہو جاتے جو ان کی موت کا سبب بنتے اور انسانوں کو کاٹتے تو ان کی بھی موت کا سبب بنتے ۔ پسو ایک بہت سخت جان بہت باریک سا سیاہ رنگ کا اچھلنے والا جانور ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقے میں تو عام ہوتا ہے لیکن یہ اس وقت بیماری پھیلاتا ہے جب بیار چوہوں کو کاٹ کر خون پیتا ہے اور پھر وہی جراثیم مچھر کی طرح انسان میں منتقل کر دیتا ہے۔
دیہات کے فن کار
جولاہا، موچی، لوہار، کمہار اپنے اپنے فن کے ماہر ہوتے تھے اور دیہاتی کی ضروریات پوری کر دیتے تھے۔ سوائے موچی کے باقی سب کے ہر علاقے میں کام یکساں ہوتے تھے۔ موچی کے لئے ضروری تھا کہ وہ علاقے کی مناسبت سے جوتی تیار کرے مثلا اتھل کے لئے میدانی علاقے کی جوتی موزوں نہیں ہوتی تھی کیونکہ اس میں ریت آجانے سے نکلتی نہ تھی اس لئے انہوں نے ایک سادہ سی چپلی سے کام نکال لیتے تھے اور وہ تھل میں کافی کام آتی تھی اس میں ریت آبھی جاتی تو فوراً نکل جاتی۔ پہاڑی علاقے میں بھی جوتی کی نسبت کھیڑی کو ترجیح دی جاتی کیونکہ جوتی پہاڑوں پر جلدی ختم ہو جاتی۔ جہاں تک رہائش بنانے کا تعلق ہے وہ مختلف قسم کے ہوتے تھے جن کے پاس مال ڈنگر ہوتے ان کے لئے لازمی طور پر علیحدہ کمرہ بنانا پڑتا۔ اس کے علاوہ اپنی رہائش کے لئے صرف ایک بڑا سا سادہ کمرہ ہوتا تھا جسے ہر آدمی دوست احباب کی مددسے تعمیر کرتا تھا۔ مکان عموماً کچے مٹی گارے کے ہوتے تھے ۔ پہاڑی علاقے میں گارے کے ساتھ ساتھ پتھر بھی استعمال ہوتے تھے۔ بعض ذرا امیر گھروں میں تین کمرے ہوتے ، ایک بڑا ہال اور اس کے دو کمرے ہوتے۔ بعض اوقات ایک کمرہ بھی پیچھے ہوتا جسے اگلا کوٹھا کہا جاتا۔ بعض مساجد بھی اسی طرز کی ہوتی تھیں جیسے خوشاب میں شرف الدین کی مسجد سامنے ہال کو پراہ کہا جاتا تھا۔ اس میں نمائش کے برتن سونے کے پلانگ رکھے جاتے اور ایک کونے میں چار پائی پانی پر سارے گھر کے بسترا کھٹے کر کے اوپر سے کپڑے سے ڈھانپ دیتے بستر سے مراد سردیوں کے بستر ہیں جن میں لحاف اور تلائی ہوتی رضائی بعد میں آئی ہے یہ بازاری کپڑے سے بنائی جاتی اور لحاف سے کافی ہلکی ہوتی جن کا گھر صرف ایک کمرے کا ہوتا۔ وہ سامنے والی پوری دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا چہوتر بناتے جس پر مختلف سائز کے برتنوں کی پالیاں رکھی جاتی تھیں اور یہ پالیاں چیزوں کے محفوظ رکھنے کے کام آتی تھیں۔ ان میں جنس بھی ڈال کر محفوظ کر لی جاتی۔ گھر کے صحن میں چھاؤں کے لئے درخت لگالیا جاتا ، اکثر بکائن کے ہوتے ، ان کی چھاؤں گھنی ہوتی۔ دو پہر کو اس کے نیچے چار پائیاں بچھا کر سوتے۔ اگر گھر میں درخت نہ ہوتا تو گھر کے قریب جو بڑا شیشم یا بڑ کا درخت ہو تا لوگ وہاں چار پائیاں لے جاتے اور وہاں شغل میلہ ہوتا۔و ہیں مداری بھی آجاتا اور بندر کا تماشا دکھا کر حاضرین خصوصا بچوں کو خوش کرتا۔ وہاں چار پائی لے کر جانا عزت نفس کا کوئی مسئلہ نہ ہوتا، ہر ایک خوشی سے دوسرے کے لئے جگہ بنا دیتا۔ بعض جگہوں پر مرد دارے پر چلے جاتے اور وہاں رات گئے تک گپ شپ میں وقت گزارتے۔ سردیوں میں وہیں آگ کا الاؤ بھی ہوتا۔ سرکنڈے کا بنا ہوا ایک قالین نما ایک بڑی چٹائی جسے کڑا کہا جاتا بچھا دیا جاتا اور عوام جوتے اتار کر وہاں بیٹھتے ۔ اگر کوئی غلطی سے جوتا لے کر آگے چلا جاتا تو اسے جرمانہ کیا جاتا جو کہ سیر دوسیر گڑ کی شکل میں ہوتا اور وہ وہیں حاضرین میں بانٹ دیا جاتا۔ وہیں حقے کا دور چلتا۔ حقہ بھرنے کے لئے دارے پر ایک آدمی مقرر ہوتا جس کا کام آگ کا انتظام کر نالازمی ہوتا ۔ اس زمانے میں ابھی ماچس (دیا سلائی) کا رواج نہیں تھا، لوگ دارے سے گھر کا چولہا جلانے کے لئے وہاں سے آگ لے کر جاتے تھے۔ ہمسائے کے گھر میں آ کر وہاں سے اگر آگ جل رہی ہوتی تو وہاں سے بھی لے لی جاتی ۔ دارے پر رات کو کہانیاں اور لوک گیت بھی سننے کا انتظام ہوتا۔ اس لئے دارے کا معاشرے میں بڑا مقام تھا۔ سرکاری افسر بھی مارے پر بیٹھتے ۔ مہمان کی خدمت دارے کے مالک کے ذمے ہوتی۔ برات بھی دارے پر پھرائی جاتی۔ یعنی خوشی غم کی صورت بھورا بھی دارے پر بچھایا جاتا۔
ناپ تول اور پیمائش کے پیمائش کے پیمانے
من، سیر، چھٹانک وغیرہ کے باٹ اور ناپ تول کے وہ طریقے جو انگریزی عہد میں رائج ہوئے ، ان سے قبل ان علاقہ میں ان کے اپنے مقامی طریقے جاری تھے۔ سکھوں کے عہد تک انہی پر عمل کیا جاتا تھا اور غالباً یہ طریقے مغل شہنشاہ اکبر کے عہد میں شروع ہوئے تھے۔ ذیلیں
میں ان کا مختصر سا خا کہ دیا جاتا ہے۔کہتے تھے۔
لکڑی سے بنا ہوا ایک گول برتن جس میں عموماً نصف سیر غلہ آ جاتا تھا، اس کو پڑوپی
چار پڑوپی کا ایک تو یہ یعنی لکڑی یا ٹین کا بنا ہوا ایسا برتن جس میں دوسیر کے قریب فلہ
آجا تا تھا ٹو پہ کہتے تھے۔نصف میر کی پڑوپی دوسیر کاٹو پہ چارٹو پے کی ایک پائی ( آٹھ سیر) میں پائی کا ایک بھورا یعنی مٹی سے تیار کردہ تنور نما بڑا برتن جس میں ساڑھے چار من تک غلہ بھر کر کمروں میں رکھاجاتا تھا اور چالیس پائی کا ایک کھروار (قریباً 9 من ) غلہ تصور کیا جاتا تھا۔ بعض اجناس مثال کے طور پر دالیں یا کمی کا ٹو پہ کم و بیش تصور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح اراضی کی پیمائش کے لئے ایک ایک آڑ کی چوتھائی برابر ایک انچ، ایک ہاتھ برابر دوفٹ، تین ہاتھ ایک کرم (قدم ) برابر ایک گز ، تین کرم برابر ایک کا نا، چار کا نا برابر 66 فٹ ایک مربع کرم سرسائی 9 سرسائی برابر ایک مرلہ ہیں مرلہ برابر ایک کنال، چار کنال برابر ایک بیگھہ، دو بیگھہ برابر ایک ٹھماؤں (ایکٹر ) دیسی شمار ہوتے تھے۔ انگریزی عہد کے اوزان اور پیمانہ جات نافذ ہوئے قریباً ڈیڑھ سو برس ہو چکے ہیں مگر اب بھی اراضی کی پیمائش کا پیمانہ دیہاتوں میں وہی پرانا جاری ہے اور دیہاتوں میں غلہ کا وزن کبھی پڑوپی، ٹو پہ اور پائی کے حساب سے کیا جاتا تھا۔ اب متروک ہو چکا ہے۔
کھانا پینا
خوشاب کے لوگوں میں کھانے پینے کی جو سہولت اور وسعت آج موجود ہے، سکھوں سے قبل یہ معیار بڑے رؤسا کا بھی نہیں تھا۔ لوگ سادہ غذا استعمال کیا کرتے تھے۔ اب سے ستر برس قبل تک لوگوں میں دودھ فروخت کرنا ماں بہن کی گالی کبھی جاتی تھی۔ جو لوگ گائے بھینس نہیں رکھ سکتے تھے وہ بھی دوکانوں سے دودہ نہیں خریدتے تھے بلکہ دو کا نہیں نہیں تھیں البتہ غیر مسلموں میں دودھ فروخت کرنے کا رواج تھا۔ بلا تخصیص امیر و غریب ہر گھر میں حسب استطاعت رات کو دوھ لگا کر رکھا جاتا تھا۔ عام رواج تھا کہ عورتیں صبح تڑکے اٹھ کر دہی بلوتیں، مکھن نکال کرلی بنا تیں، مرد کھیتوں میں چلے جاتے ، باسی روٹیاں لسی کا چورا اور مکھن ان کو کھیتوں میں پہنچاتی تھیں۔ یہی صبح کا ناشتہ ہوتا تھا۔ چونکہ لوگوں میں غربت و افلاس تھا ، گھروں میں بلا ناغہ ہانڈی یا سالن پکا ناممکن نہ تھا لہذا گھروں میں گرمی ہو یا سردی، اچار بنانے کا رواج تھا کیونکہ سبزیوں کی کاشت عام نہیں ہوتی تھی۔ ان چیزوں کا اچار عموما گھروں میں ڈالا جاتا تھا۔ کچا آم، ہری مرچ، لیموں، کیکر کی پھلیاں، جنڈ کی پھلیاں (جسے سنگر کہتے ہیں) کھباڑہ، کری کے ڈیلے، بڑا لسوڑہ، سو انچنا کا پھل اور پھول، گاجر ، شلغم ، سرسوں کی نرم شاخوں ( گندل) کا اچار دیہات و شہر دونوں جگہ عام تھا۔ دو پہر کی روٹی دال یا ساگ یا اچار سے کھائی جاتی تھی ۔ اگر یہ تینوں چیزیں میسر نہ ہوں تو پیاز کاٹ کر اسی میں نمک ڈال کر اس سے روٹی کھاتے تھے ۔ گرمی کے موسم میں چٹنی بھی بنائی جاتی تھی ۔ اگر یہ بھی نہ ملے تولسی سے روٹی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ بلا تمیز ہندو، مسلم یہی چیزیں عموماً کھانے میں استعمال ہوتی تھیں البتہ شہروں میں بھلے، کچوریاں ، پکوڑے وغیرہ سے بھی روٹی کھانے کا رواج تھا۔ رات کو بھی عموما دال یا ساگ سے روٹی کھاتے ۔ رات کو اچار استعمال نہ ہوتا تھا۔ دیہات میں رات کی روٹی عموماً دودھ سے کھائی جاتی تھی۔ دالوں میں چنا، ماش، مسور، موٹھ ، اُڑ د مشہور تھیں ۔ ساگ کے لئے بھوا، مکو، دیسی پالک ، اکروڑی ، سرسوں کی گندلیں، اسوں میتھی ، قلفہ وغیرہ من پسند تھے ۔ گوشت کا رواج کم تھایا میر نہیں ہوتا تھا البتہ حلال جنگلی جانوروں اور پرندوں کا گوشت کھاتے تھے۔ گندم کی روٹی دیہات میں کم کھائی جاتی تھی، کی، جوار، باجرہ ، جو ، منڈوا، بیسن کی روٹیاں غریب لوگ کھاتے تھے کیونکہ مذکورہ اجناس گندم کی نسبت ارزاں ہوتی تھیں ۔ پیٹ بھرنے کیلئے چنا، چاول، گندم کا میدہ جسے مقامی زبان میں باٹ کہا جاتا ہے بھی شوقیہ کھایا جاتا تھا۔ عموماً سردیوں کے موسم میں عصر کے وقت چنے کی ، جوار بھون کر کھائی جاتی، گندم ابال کر اس میں شکر ملا کر کھاتے تھے۔ اسے مقامی زبان میں گھگنی کہا جاتا تھا۔ چنے ابال کر ان پر نمک مرچ اور کھٹائی ڈال کر کھائے جاتے تھے۔ یہ لذیذ اور قوت بخش غذا تھی۔ اجناس میں منڈوا، اس قدر قوت بخش اور خشک تھی کہ شہر کے لوگ اسے ہضم نہیں کر سکتے تھے ۔ موسم گرما میں تربوز، خربوزہ ، کڑی، کھیرا اور کھجور میں بھی بطور خوراک استعمال ہوتیں، سبزیوں میں کدو، پالک، بینگن، ٹنڈ نے آلو پیدا ہوتے اور کھائے جاتے تھے۔ غریب لوگ پیلوں ، جوار، بھکڑا اور دیگر بھی ابال کر کھاتے تھے۔
رہن سہن
۔
قدیم دور میں تمام قصبات اور دیہات دریاؤں کے کنارے آباد تھے۔ اس کی وجہ یتھی تجارتی قافلوں کی گزر گاہیں دریائی راستے تھے۔ تجارتی منڈیاں عموماً دریاؤں کے آس پاس تھیں ۔ دریاؤں سے دس پندرہ میل دور کوئی بڑا قصبہ یا شہر آباد نہ تھا۔ گھنے جنگلات تھے، زرعی رقبہ بھی دریاؤں کے زیادہ تر قریب تھا کیونکہ کنووں میں پانی کی سطح بلند ہوتی تھی۔ عام لوگ افلاس و غربت کا شکار تھے ، دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کر سکتے تھے۔ آبادی کا زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد طبقہ رو سایا ساہوکار شمار ہوتا تھا اور پانی سے سات فیصد تا جو لوگ تھے، باقی آبادی زرعی معیشت سے منسلک تھی ، اب سے پچاس برس قبل دیہاتوں میں کوئی پختہ مکان نہ تھا البتہ قصبوں اور شہروں میں پانچ فیصد پختہ مکان موجود تھے جو تاجروں اور ساہوکاروں کی ملکیت تھے ۔ دیہاتوں میں لوگ سرکنڈوں کے چھپر ڈال کر رہائش پذیر تھے ۔ ” سائل قسم کے کچے کوٹھوں کا رواج تھا۔ سائل” کی لمبائی پندرہ سے بیس فٹ اور چوڑائی دس سے پندرہ فٹ ، بلندی سات فٹ عمو ما رکھی جاتی تھی۔ کچی چار دیواری کے اوپر سرکنڈوں کے چھپر اس طرح ڈالے جاتے کہ چھت کا درمیانی حصہ گنبد کی طرح ابھرا ہوا ہوتا تھا۔ امیر ہو یا غریب، زمیندار ہو یا تاجر دیہات میں انہی ساہلوں میں رہتے تھے۔ بارش کا پانی ان کی چھتوں پر نہیں رکھتا تھا کیونکہ ڈھلوان ہوتی تھی۔ ساہل میں پر نالوں کی ضرورت ہی نہ ہوتی تھی۔ ایک خاندان اپنی ضرورت کے مطابق دو یا تین سائل بنالیتا تھا۔ ان کی چاردیواری مٹی سے بنائی جاتی تھی البتہ حسب استطاعت چاردیواری کے اندر اور باہر مٹی سے خوبصورت بیل ، پھول یا جانوروں کی تہیں بنا لیتے تھے۔ قصبوں میں مکانات کیے اور کمرہ کے اندر کمرہ جن کے روشندان وغیرہ نہیں ہوتے تھے ، کا رواج تھا۔ یہ کمرے گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے تھے۔ ٹریک اٹیچی کیس قسم کی مصنوعات کی ایجاد سے قبل لکڑی کے صندوق، کچی کافی کے تو نمک (ایک قسم کا صندوق) اور وابڑے، کانوں کی کڑیاں عموما گھروں میں ہوتی تھیں اور انہی میں سامان رکھا جاتا تھا۔ نگہ وغیرہ رکھنے کیلئے ہر گھر میں کا لوٹی ہوتی جس میں بارہ من گندم سا جاتی جو مٹی سے تیار کی جاتی تھی۔ اس کا قطر پانچ فٹ اور لمبائی پانچ سے سات فٹ ہوتی تھی۔ یہ بھی حسب استطاعت کسی گھر میں ایک اور کسی میں دو یا تین۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں پافتہ مکانات نہ بنانے کی تین وجوہ تھیں، اولا یہ کہ حملہ آور عموماً ان بستیوں کو تباہ کر دیا کرتے تھے اس لئے لوگوں نے کچے کو ٹھے ، جھونپڑے اور چھپروں کو ترجیح دی۔ ثانیا ہر دس بارہ برس کے بعد جہلم میں طغیانی آتی تو بستیوں کو بہالے جاتی تھی، اس وجہ سے یہاں کے لوگ مکانوں کو پختہ کرنا غیر ضروری سمجھتے تھے۔ ثالثاً غربت اور افلاس یہاں تک کہ مغل عہد میں جو قلعے اور چوکیاں اس علاقہ میں بنائی گئیں وہ بھی کچی ہی تھیں جیسے کہ قلعہ خوشاب مٹھ ٹوانہ، دیہاتوں کی زندگی صاف ستھری اور پاکیزہ تھی ۔ کھیتوں کی شادابی لوگوں کے شاداب چہروں کی عکاسی کرتی تھی ۔ ہندو مسلمان دیہی زندگی میں مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے عورتیں گھنے درختوں کی چھاؤں میں مل کر چرخہ کاتی تھیں۔ ان کی شادی بیاہ کے موقع پر گیت یکساں تھے۔ سکھوں کے عہد سے قبل ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات نہ تھے بلکہ ہندو عورتیں مسلمان فقیروں سے دعاؤں کی عموماً طلبگار رہتی تھیں ۔ دیہات کی لڑکی کسی دوسرے دیہات میں بیا ہی جاتی تو اس کا خاوند سارے دیہات کا داماد تصور ہوتا تھا۔ دیہات میں موت جاتی تو بلا تخصیص گاؤں بھر کے چولہے ٹھنڈے رہتے تھے ۔ وضعداری اور احساس فراواں تھا۔
لباس
لباس کی وضع تقریبا ہر طبقہ آبادی میں یکساں تھی۔ شادی سے قبل لڑکیاں عموماً گھگھر باند ھیں جو کھدر سے تیار ہوتا تھا اور اس پر سرخ و نیلے رنگ کے پھول ہوتے تھے۔ شادی کے بعد عورتیں ریشمی لگی باندھتی تھیں ۔ اس میں خوشیاب کی بادامی رنگ اور فیروزی رنگ کی لنگی کا زیادہ رواج تھا۔ شادی بیاہ کے موقع پر سب سے قیمتی لباس علی، ریشم کا چولا عمل کا دوپٹہ اور دوپٹہ پر اطلس و دریائی کے کنارے لگوائے جاتے تھے ۔ منڈ قسم کی جوتی جس پر ریشم کا ایک بڑا سا پھول ہوتا تھا، وہ زیادہ استعمال کی جاتی تھی۔ مردوں میں سفید چادر ( مجھلا ) سفید بیڑے دار کملی آستین کا کرتہ ، پگڑی اور کنے دار جوتی کا رواج تھا۔ زیادہ عمر کی عورتیں نیلے رنگ کی چادر، نیلے رنگ کا دو پٹہ اور ریشمی دریائی سے تیار کی جانے والی چولی استعمال کرتی تھیں۔ چولی سے صرف سینہ کا حصہ ڈھکا رہتا تھا، کمر اور پیٹ ننگے رہتے تھے ۔ چولی کے سامنے کے حصہ پر کشیدہ کاری کا کام ہوتا، بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے شیشے جوڑ کر بیل بنائی جاتی تھی۔ امیر گھرانہ ہو یا غریب لباس کی وضع یہی تھی البتہ کپڑے کی قسمیں مختلف ہوتی تھیں۔ امیر دریائی ، اطلس، کمخواب استعمال کرتے ، غریب کھدر اور سلک استعمال کرتے تھے۔ خوشاب کے سارے علاقہ میں لباس کی یکسانی پائی جاتی تھی۔ نیلا رنگ خوشنما اور ٹھنڈا سمجھا جاتا تھا۔ پنج تانی لنگی کا عام رواج تھا۔ اس کے کنارے سرخ ریشمی ہوتے تھے۔ سادہ کپڑوں پر مختلف رنگوں کے بیل بوٹے بنوانے کا بھی رواج تھا۔
گھر یلو سامان
عہد قدیم میں چند رؤسا کو چھوڑ کر تمام لوگوں کا رہن سہن اور گھر یلو بنیادی سامان قریباً ایک جیسا تھا۔ اس دور میں ہر گھر میں یہ سامان تھوڑا یا زیادہ ضرور سمجھا جاتا تھا۔ گھر کے افراد اور مہمانوں کی جائز ضرورت کے مطابق چار پائیاں عموماً شیشم کی لکڑی سے بنائی جاتی تھیں اور بان کی بجائے کھجور کے خشک پتوں سے تیار کردہ پٹی سے جو ڈیڑھ انچ چوڑی ہوتی بنی جاتی تھیں البتہ رنگین پلنگوں کا رواج تھا۔ جہیز میں لڑکیوں کو بھی رنگین پلنگ دیئے جاتے تھے۔ ان کے پائے اس قدر مضبوط اور منقش ہوتے کہ صدیوں تک نہ رنگ خراب ہوتا اور نہ لکڑی کو گھن لگتا تھا۔ پیڑھیاں اور پیڑھے ہر گھر میں ہوتے۔ پیڑھے رمین اور اس قدر خوبصورت ہوتےکہ ان کے نقش و نگار میں آنکھیں الجھ جائیں۔ خاص طور پر خوشاب کے پیٹڑھے مشہور تھے۔ سردیوں کے لئے نہالی لحاف (پیھ ) جو موٹے چھپے ہوئے سرخ کھدر سے بنائے جاتے ، دوتہی، کھیں اور کھدر کی چادر میں گھر میں ہوتی تھیں۔
برتنوں میں مٹی کے سادہ و منقش پیالے، گھڑے، لوٹے، ڈولے، چٹورے چٹوریاں، گلاس، ہانڈی ( کنی ) مٹی کی پرات ( سہنگ ) مکیاں ان کے منہ چھوٹے ہوتے تھے ۔ چولہوں کا رواج کم تھا بلکہ تین ٹانگوں کی ایک چہل ہوتی تھی تا کہ آگ پوری طرح پھیل سکے ۔ تو ے کا رواج نہ تھا، گرمیوں میں تنور پر روٹیاں پکائی جاتی تھیں اور سردیوں میں مٹی کی گول ٹھیکری پر ٹھیکری کی روٹی غذائی اعتبار سے لذیذ اور قوت بخش کبھی بھائی تھی ۔ گھروں میں لکڑی کے صندوق ہر سائز کے ہوتے اور ان پر جست کی چادریں چڑھا کر خوبصورت و منقش بنایا جاتا تھا۔ سرکنڈہ اور کھجور کے پتوں سے تیار شدہ ہر سائز کے چوکور رنگ پچھے پچھیاں سادہ و رنگین حسب ضرورت ہوتے۔ ان کے علاوہ سرکنڈہ اور کھجور کے پتوں سے تیار کر وہ چھوٹی بڑی چنگیر میں چھپیاں بھی ضروری ہوتیں۔ غلہ صاف کرنے کیلئے کانیوں سے تیار شدہ بھیج بھیجی لو ہے یا پیتل کے پرون۔ غلہ پینے کی چکی، جم محہ کپاس صاف کرنے کے لئے بیلنے، زیورات رکھنے کے لئے لکڑی کے گول ڈبے (سنگار یکس) یا چھوٹی ڈبیاں، چوکیاں، چٹائیاں، کڑیاں، اچار رکھنے کیلئے لکڑی کے بڑے ڈولے، غلہ کے لئے چٹو اور موہلا ( یہ لکڑی کا وزنی ہوتا ) لکڑی کی ڈولی ، لوہے کا چمچا، گھر پہ کڑ چھی لکڑی کا مدھنا، جھنگنا، مدھانی پہیلا جس پر دہی کی چٹوری رکھ کر مدھانی سے بلوایا جاتا۔ نیتر اسگھل اس مقصد کے لئے چھڑے کے بنوائے جاتے تھے۔ یہ سامان حسب استطاعت ہر گھر میں موجود رہتا تھا بلکہ یہی کچھ گھر یلو پونچی ہوتی تھی۔ اس زمانہ میں گھروں میں بعض کھانے پینے کی چیزیں موسم کے مطابق بنائی جاتی تھیں ۔ مثال کے طور پر ھی چوری ، یہ روٹی کے باریک ٹکڑے کر کے شکر اور گھی سے تیار کی جاتی تھی۔ پنجیری، یہ سوجی یا گندم کے آٹا کوگھی میں اچھی طرح بھون کر اس میں گڑ شکر ملائی جاتی تھی یا حسب استطاعت خشک میوے ڈالے جاتے تھے ۔ شادی بیاہ کے موقع پر پنجیری دینے کا عام رواج تھا۔ برسات کے موسم میں صبح بھری پکائی جاتی یعنی ٹھیکری پر ایک روٹی ڈالنے کے بعد اس کے او پر شکر یا اگر مکھن میں ملا کر ڈالا جاتا اور دوسری روٹی اس کے اوپر ڈال دی جاتی۔ اس طرح تھی اور شکر دونوں میں جذب ہو کر ایک روٹی کی شکل بن جاتی تھی اور نہایت قوت بخش اور لذیذ بن جاتی۔ برسات ہی کے موسم میں مسی روٹیاں پکائی جاتی تھیں یعنی بٹر چنا وغیرہ اور گندم کا آٹا ملا کراس میں نمک مرچ، پیاز اور کھٹائی ڈال کر پکایا جاتا تھا۔ قوت بخش اور لذیذ ہوتی۔ بعض لوگ گوشت کا قیمہ بھی اس میں ملا کر پکاتے تھے۔
زیورات
مغلوں کے عہد میں سونے کا بھاؤ دس روپے تولہ اور چاندی تین آنہ تولہ تھی ۔ عام لوگ چاندی کے زیورات بنواتے تھے اور صاحب استطاعت سونے کے۔ قدیم زمانہ میں مندرجہ ذیل قسم کے زیورات کا رواج تھا۔ کنواری لڑکیاں امیر ہوں یا غریب، کانوں میں چاندی کے بندے پہنتی تھیں۔ بندے کنواری کی علامت تھے ۔ عام طور پر چھ برس کی عمر میں لڑکیوں کے کانوں میں سوراخ کرائے جاتے تھے۔ اسے بارے سلانا کہا جاتا تھا اور بارہ تیرہ برس کی عمر میں ناک کے دونوں طرف اور ناک کے درمیان نرم ہڈی میں سوراخ کرائے جاتے۔ ایک کان میں کم سے کم بارہ اور زیادہ سے زیادہ اکیس سوراخ کا رواج تھا۔ ایک کان میں ہیں بندے والی بالیاں پہنی جاتیں۔ کان کے اندرونی حصہ جو رخسار سے ملحق ہے، کی ابھری جگہ پر بھی سوراخ کرایا جاتا تھا۔ ان تمام. بالیوں یا بندوں کا وزن تھامنے کیلئے ریشمی دھاگوں اور خوبصورت طلا سے ( بگھ ) بنوائے جاتے جو تمام وزن اوپر کو اٹھائے رکھتا اور کانوں کو جھکنے نہ دیتا۔ ہر کان میں 11 چھوٹی یا بڑی بالیاں کان کے سب سے اوپر والے سوراخ میں چھوٹی بالی جسے سبھی کہتے ہیں اور رخسار سے محق کان کے اندرونی حصہ کے سوراخ میں مرکیاں پہنی جاتی تھیں ۔ وزن اور ڈیزائن سونا یا چاندی کا انحصار استطاعت پر تھا ۔ ماتھے پر جھومر جس کا سرخ ریشمی دھاگہ مانگ سے گزرتا ہوا چوٹی سے باندھا جاتا تھا۔ سر کے اگلے حصے میں دونوں طرف پڑیاں باندھی جاتی تھیں۔ ماتھے کے لئے ٹکہ بھی مشہور تھا۔ سر کے پچھلے دونوں حصوں میں بالوں کو قابو میں رکھنے کیلئے چاندی یا سونے کی گھنگھری دار سوئیاں، گلے میں چاندی کا پانچ سے سات لڑی والا ہار، سونے کا تین سے سات لڑکی والا لاکٹ، رجمی، درمیان میں تعویذ کی شکل کا زیور ہوتا تھا، اس کے دونوں طرف گھنگھروں والی تعویذ یاں ہوئی تھی جوگی یہ چھوٹے سائز کا انعام ہوتا تھا ، ناک میں سوا انچ قطر کا گنبد نما موتیوں سے جڑا ہوا کنڈا، کو کہ، بینی اور ناک کی درمیانی ہڈی کے سوراخ میں بلاق اور نتھ کا عام رواج تھا۔ ہاتھ کی انگلیوں کے لئے سونا یا چاندی کی انگوٹھیاں اور مہندی جو پانچوں انگلیوں میں ڈالی جاتی اور اس کی زنجیریں کلائی چوڑی سے باندھی جاتی تھیں۔ ہاتھ کے انگوٹھے میں چاندی کی آری (اس میں شیشہ لگایا جاتا تھا ) ، کلائیوں کے لئے سونے یا چاندی کی گھنگھری دار سادہ یا منقش چوڑیاں کڑے اور ہاتھی دانت کا چوڑا جس کی آخری پانچ چوڑیاں سرخ رنگ کی منقش ہوتی تھیں ۔ پاؤں کے لئے تین قسم کی پازیب خالی پھر دارز بیر، هنگری دار اور گنبد کی طرح ابھری ہوئی عام مستعمل تھیں۔ گلے یعنی گردن کے اگلے حصہ کیلئے گلوبند، بچوں کیلئے چاندی کی جسی ، پاؤں میں چاندی کا ایک کڑا بھی استعمال ہوتا تھا۔ جو لوگ سونا چاندی کی استطاعت نہیں رکھتے تھے وہ گندم کے نز ( جس سے بھوسہ بنتا ہے) سے نہایت خوبصورت بالیاں، بندے، گلو بند بنا لیتے تھے اور ان پر چھوٹے چھوٹے شیشے جوڑ کران کی دلکشی میں اضافہ کرتے تھے ۔ نڑ کے زیورات راقم الحروف نے دیکھتے ہیں ممکن ہے زیورات کی اور بھی اقسام ہوں لیکن میرے علم میں نہیں۔
لوک ناچ
خوشاب کا خالص ناچ صرف دھر میں مشہور ہے۔ عام لوگ جھومر اور لڈی کو اس میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں حالانکہ مینوں بالکل مختلف ہیں۔ دھریں ڈھول کی تھاپ اور گیت پر مزہ دیتی ہے۔ اس میں لوک گیتوں کے بول قدموں کی دھمک ، ڈھول کی گت، ہاتھوں کی تالیاں اور زبان سے لفظ شی” کے استعمال میں بڑی احتیاط اختیار کرنی پڑتی ہے۔ دھریں کے رنگ اور لڈی کے رنگ میں نمایاں فرق ہے۔ پہلے زمانہ میں صرف دھریں ہی مشہور تھی ۔ کھارا ، گھڑولی اور سہروں کے وقت اس فن کا مظاہرہ پر جوش طریقے سے عورتیں کرتی تھیں۔ دھریں میں ڈھول کے علاوہ اور کسی ساز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لڈی، جھومر اور بھنگڑا ناچ میں چیڑی ، چمنا ، فنگر و اور ڈھول سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ دھر لیں کے لئے اس علاقہ میں سب سے مقبول ترین لوک گیت یہ ہے۔ دھریسی صاحبان وجد میں آکر جب اس کے بول اچھالتے تو ایک سماں بندھ جاتا ہے۔
مہینوال لے دے آئے نی
جئی رو رو حال ونجائے نی
دے میں پانی بھرنی آں چھک وا
میرا ڈھول مسافر نت دا
کیئن. جادو گھول پیوائے نی
وبے میں پانی بھر ینیاں ڈولیاں
مینوں شریک مریندے بولیاں
کین کوڑے لارے لائے نی
مہینوال لے دے آئے نی
دے میں پانی بھرینیاں پتوں
میرے نین نہ رہندے تکنوں
جٹی رو رو حال ونجائے نی
مہینوال لے دے آئے نی
شادی بیاہ کے رسم و رواج "
علاقہ میں اکثریت مختلف خاندانوں کی تھی۔ ان میں عام عادت تھی کہ اپنی لڑکیاں غیروں میں یا ہر اور ہی کے علاوہ نہیں بیاہتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی لڑکیاں زیادہ عمر تک کنواری بیٹھی رہتی تھیں بلکہ بعض عورتیں بین بیائی بڑھاپے اور موت کی نذر ہو جایا کرتی تھیں۔ دیگر لوگوں میں وٹہ سٹہ کا سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی لڑکی اس شرط پر بیاہتے کہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والی لڑکی کا رشتہ طلب کر لیا جاتا تھا۔ ابتدا میں حجام ( نائی کا پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتے۔ بات پختہ ہونے پر دلہا والے دلہن کے گھر جا کر رشتہ کی ہاں کراتے ۔ اس ہاں کو مقامی زبان میں نشانی کہا جاتا ہے یعنی نشان زدہ کو نا۔ اس موقع پر دلہن کے سر پر دوپٹہ اور کچھ نقدی ، بعض لوگ کھانے پینے کی چیزیں بھی دلہن کی نذر کرتے ، دو چار دن بعد دلہن کی والدہ بہنیں اور قریبی عورتیں دولہا کو دودھ پلائیں۔ اس طرح یہ پہلی رسم مکمل ہوتی ۔ دوسری رسم منگتی تھی۔ اس موقع پر دولہا والے اپنے بڑے چھوٹوں ، عورتوں، عزیز و اقارب کے ہمراہ دلہن کے گھر چند جوڑے کپڑے، ایک آدھ زیور، کچھ مٹھائی اور پھل لے جاتے اور وہاں ایک دوسر بے پر رنگ پھینکتے ۔ یہ رنگ منگنی ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ تیسری رسم گڑھ ” کہلاتی ہے یعنی شادی کی تاریخ طے کی جاتی ہے۔ تاریخ مقرر ہونے کے بعد چوتھی رسم ” میڈھی انجام دی جاتی ہے یعنی دولہا والوں کی عورتیں دلہن کے گھر جا کر دلہن کے چیکو (جسے باندہ بھی کہا جاتا ہے ) لگاتی ہیں، دلہن کی گت یعنی چوٹی کے بالوں کی ایک لڑی کھول دی جاتی ہے۔ اسی طرح دلہا کو بھی چیکو ملا جاتا ہے۔ یہ رسم شادی سے چند دن قبل ادا ہوتی ہے۔ طے شدہ تاریخ پر دلہا کو خاندان کا بڑا سہرا باندھتا ہے۔ اس کے اوپر سرخ رنگ کی ریشمی یا سوتی کرن والا یا سادہ دو پٹہ ڈال کر گھوڑے پر سوار دلہن کے گھر بارات کی صورت لے جاتے ہیں جہاں دلہن کا والد ، ماموں یا بھائی دولہا کو گھوڑے سے اتار کر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور ایک چکر لگوا کر واپس باراتیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس موقع پر دلہن کی سہیلیاں ہر قسم کی شرارتیں کرتی ہیں یعنی اصل دودھ کی بجائے آٹا پانی میں گھول کر پلانے کی کوشش، باراتیوں پر اینٹیں روڑے پھینکنا، ایک چادر پھیلا کر دولہا کے والدین سے انعام جسے مقامی زبان میں لاگ کہتے ہیں، دلہن کی بہنیں یا سہیلیاں وصول کرتی ہیں۔ اس رسم کا نام چھی“ ہے۔ اسی طرح دلہن کی بہنیں یا سہیلیاں دلہا کے ساتھ آٹایا مٹی سے تیار کئے ہوئے کھلونے کھیلتی ہیں۔ اس رسم کو کھڈ کنا کہتے ہیں۔ نکاح سے پہلے دولہا کو نہلایا جاتا ہے۔ اس رسم کا نام کھارے چڑھنا ہے۔ دیہاتوں میں رواج تھا کہ سرکنڈوں سے تیار شدہ تو جنگ ایک قسم کے صندوق پر بٹھا کر نہلایا جاتا اور دلہن والوں کی طرف سے پیش کردہ لباس پہنایا جاتا۔ اس موقع پر تو نگ، لانے والوں اور دیگر پیشہ وروں کو انعام (لاگ) دیا جاتا تھا۔ دلہن کو رخصت کرنے سے قبل نہلانے کی رسم کا نام "گھڑولی ہے یعنی دولہا کی والدہ، بہنیں یا قریبی عورتیں مٹی کا ایک گھڑا اور ایک لوٹا کنویں سے بھرنے ( آج کل نلکوں سے بھرے جاتے ہیں) کے لئے ڈھولک کی تھاپ پر گیت گاتے اور ناچتے ہوئے جائیں اور اسی طرح واپس آکر دلہن کو نہلاتی ہیں اور عروسی لباس پہناتی ہیں جو عمو نا سرخ ریشمی یا سوتی ہوتا ہے۔ رخصتی کے وقت دلہن کا ماموں اگر وہ نہ ہو تو والد، چا یا بھائی اسے ڈولی میں بٹھاتے ہیں اور اپنے کندھوں پر ڈولی اٹھا کر اس کے سسرال کے سپرد کرتے ہیں۔ جو نہی ڈولی گھر سے باہر نکالی جاتی ہے، دلہن اپنے ہاتھ سے جو کی مٹھیاں بھر بھر کر مچھاور کرتی ہے (مگر یہ رواج اب نہیں ہے ) ڈولی میں دلہن کی گود میں کسی عزیز کا نومولود کمسن بچہ بھی بٹھایا جاتا ہے جو اس بات کی علامت تصور ہوتا ہے کہ دلہن صاحب اولا در ینہ ہوگی ۔ جب دلہن کی ڈالی سرال پہنچتی ہے تو مسلمانوں میں سب سے پہلے اس کے سامنے قرآن مجید پیش کیا جاتا ہے، پھر اسے کمرہ عروسی میں لے جاتے ہیں اور راستے بھر اس کے اوپر نچھاور کئے جاتے ہیں۔ تین دن سسرال میں رہنے کے بعد اپنے والدین کے گھر جاتی ہے۔ اس رسم کو ستو داڑ” کہتے ہیں یعنی شادی کے سات دن بعد دلہن پھر سسرال چلی جاتی ہے۔شادی کی تاریخ نزدیک ہونے پر دلہا اور دلہن دونوں کے گھروں میں رات کو لوگ گیتوں اور لوک رقص کی زنانہ مجلس جمتی ہے۔ رات گئے تک ڈھولک کی تھاپ پر گیت اچھلتے ہیں۔ اس رسم کو مقامی زبان میں ” گاون بٹھانا“ کہا جاتا ہے۔ شادیوں پر لین دین کا سلسلہ شروع نے لے کر اب تک آرہا ہے۔ اسے بھائی کہتے ہیں ۔ اب دلہا کے لئے سلام اور دلہن کی منہ دکھائی کے لئے کا رواج بھی ہے۔ بھٹی جھا کا یعنی دلہا کی قریبی عور تیں شادی کی روٹی پکانے کیلئے جمع ہو کر تنور میں لکڑیاں ڈال کر آگ سلگاتی ہیں اور بری یا چیز کی نمائش بھی بارات کی طرح جلوس کی صورت میں کی جاتی تھی اور یہ رسم شادی کا حصہ تصور ہوتی تھی ۔ گاؤں میں رواج تھا کہ لڑکی کے نام پر تمام گھرانے اسے بیٹی سمجھتے ہوئے ایک جوڑ ا لباس یا کم سے کم دو پٹہ دیتے تھے۔ اسی طرح اتفاق سے اگر لڑکی کے گاؤں کا کوئی مرولر کی کے سسرال گاؤں میں جاتا تو اسے اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے کچھ نہ کچھ دیتا تھا مگر اس گھر سے پانی تک پینے کا روادار نہ تھا کیونکہ لڑکی کے گھر سے لینا معیوب سمجھا
جاتا تھا۔
ساز
قدیم زمانہ میں شادی بیاہ یا دیگر خوشی کی تقریبات میں ساز و آواز کی مجلس لگانے کا رواج تھا بلکہ مسلسل کئی روز تک گانے بجانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس دور میں عام طور پر ساز و سنگیت کے سامان میں ڈھولک ، ڈھول، طبلہ، سارنگی، طنبوره، خنجری (دف)، شہنائی، بین تغیری، دیلی، بانسری، اپنی چمٹا، چہلی اور مٹی کا گھڑا ساز کی حیثیت رکھتے تھے ۔ ڈھول کی گت سے لوگ پہچان لیتے تھے کہ یہ ڈھول شادی کا ہے یا کسی حزنیہ مجلس کا بلاوا ہے۔ برات کے ساتھ بجنے والے ڈھول کی گت، ڈولی پر بجنے والے ڈھول سے مختلف ہوتی تھی۔ اسی طرح ختنہ، عقیقہ گھڑولی، کھارا بھٹھی جھلکا وغیرہ کے مواقع پر ڈھول کی گت مختلف ہوتی تھی ۔ گاؤں میں اگر کوئی میلہ ٹھیلہ یا کبڈی یا کوڈی ہوتی تھی ڈھول کی گت تہلوہ مشہور تھی ۔ اسی طرح محرم کی تعزیتی تقریبات کے لئے ڈھول کی آواز سے ہی اندازہ ہوتا کہ اب کیا ہورہا ہے۔ مجلس عزا کی اطلاع دینے کیلئے صبح ڈھول بجتا۔ ماتم کے وقت اس کی گت بدل جاتی تھی۔ تعزیہ اٹھاتے وقت ڈھول کی آواز اور گت میں موقع کی مناسبت سے تبدیلی ہو جاتی ۔ تعزیہ یا واپس لانے کے وقت گت مزید بدل اتی ۔ ہمارے اتے میں ڈھول کی ساخت مخصوص ہے۔ یہ سائز میں بڑا ہوتا ہے اور دیگر علاقوں سےمختلف-
میلے ٹھیلے
خوشاب کی سرزمین میں مختلف اولیاء اور صوفیا استراحت فرما ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کا بھی وسیع سلسلہ موجود رہا ہے۔ ان کے مزارات پر میلے اور عرس دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر نیزہ بازی ، کبڈی، پڑ کو ڈی ، دنگل ، دگتی ، دینی ، بڈھی کے مقابلے اور سازو
سنگیت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر دیہات میں سال میں ایک یا دو مرتبہ بزرگوں کے مزاروں پر یا موسمی طور پر ے منائے جاتے تھے اور دیہی لوگ پوری تیاری سے ان میں حصہ لیتے تھے۔ بعض میلے موسم گرما میں دریائی علاقوں میں منائے جاتے اور لوگ ذوق و شوق سے سیلاب، کیچڑ اور دلدل عبور کر کے شامل ہوتے۔ پتنوں پر کشتیاں چلانے کے بھی مقابلے ہوتے تھے۔ ملاح اپنے فن اور چابکدستی کا خوب مظاہرہ کرتے تھے۔ مگر ان دنوں میں پہلے ایسا شوق میلوں ٹھیلوں کا نہیں رہا بلکہ اکثر میلے ختم ہو چکے ہیں اورجو میلے ہوتے ہیں ان کا پہلے ایسا جو بن ہیں۔
لوک گیت
ہر قوم اور ہر خطہ کی تہذیب و ثقافت میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے۔ وہ ہیں لوگ کہانیاں اور لوک گیت۔ کہانیوں کے کردار ہماری تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور لوک گیت ہمارے جذبات کے ترجمان ہیں۔ قدیم دور کی زبان آج کی زبان سے قدرے مختلف تھی اور میں چاہتا تھا کہ قدیم دور ہی کے لوک گیتوں کے چند نمونے لکھوں تا کہ ان سے زبان و بیان کا بھی اندازہ لگایا جا سکے۔ چنانچہ ایک برس یا زائد عمر کے بوڑھوں کو تلاش کی جنہوں نے سکھوں کے آخری اور انگریزی حکومت کے ابتدائی دور کو دیکھا تھا۔ ان سے قدیم عہد کے گیتوں کے بول سے اور ان کے بیان کے مطابق ہر موضوع پر ڈھولے اور گیت موجود تھے ۔ رزمیہ ڈھولے اور عشقیہ ڈھولے اور اسی طرح نعتیہ ماہیا اور عشقیہ ماہیا عام تھا۔ ان کے علاوہ بیاہ شادی کے مرحلہ وار گیتوں کا سلسلہ موجود تھا۔ مثال کے طور پر، مہندی ، سہرے ، گھوڑی گھڑولی کے لئے الگ الگ گیت تھے جو آج کل مقبول نہیں مگر ان میں غنائی اور تاثر بھر پور ہے۔ خوشی کے موقع پر دھر لیں کولوک ناچ میں نمایاں حیثیت حاصل تھی لیکن اس کے علاوہ کل ( کلی ) جو کمسن لڑکیوں کا من پسند نارچ تھا، کے لئے گیت موجود تھے۔ لوک گیتوں میں یا لوک شاعری میں بارہ ماہ ، پولٹریاں ، مکڑی ، داراں، سمی، ڈھولا ، ما بیا خصوصیت کے حامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سوگ یا مرگ کے مواقع پر ہمارے علاقہ کی عورتیں شاعری میں بین کرتی ہیں اور یہ بین اتنے سوز و گداز کے حامل ہوتے ہیں کہ سخت دل لوگ بھی سن کر آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بین کا ایک خاص انداز اور اس کے لئے ‘ مخصوص الفاظ ہیں، لوک گیتوں میں بولیاں اور لوریاں بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں۔
ڈھولا
-1 کاتر چولے دی اپنے چولے کا کٹا ہوا ٹکڑا ہے (مثال)
اکھیں بے دس دنیاں آنکھیں بے بس ہو کر روئیں اپنے
جدائی دیکھ کے ڈھولے دی ڈھولے کی جدائی کی وجہ سے
-2 سریلا کھوہ بولے رہٹ کا سریلا پن تھا۔ میں کسی سے جا کر
ونج انصاف کرا یکساں انصاف کراؤں گا کہ میرے سجن کا دل
کیوں چایا روح ڈھولے مجھ سے کیوں اکتا گیا ہے
-3 کانے لڑے دیندے میرے ساجن خفگی کا مظاہرہ نہ کر ، ہم
جھنکاں نہ دے ڈھولا پر دینی ہیں، اپنے راہ پر اس طرح چلے
بپردیسی ٹرے دیندے جائیں گے جیسے دریا میں سرکنڈے کا کانا
تجارت
خوشاب سے ملتان، مٹھن کوٹ سے رام نگر ، خوشاب سے ملتان، خوشاب سے سکھر، خوشاب سے کوٹری وغیرہ کے لئے سارا سال سفر جاری رہتا تھا۔ سوداگر کے اپنے علاقہ کی حدود میں فی کشتی ایک روپیہ حصول نافذ تھا جو مال کشتی سے اتار کر آگے خشکی کے راستہ ڈیرہ اسمعیل خان کے لئے جاتا، اس پر محصول کی شرح دگنی لی جاتی تھی ۔ اس کے علاوہ تجارت پر کوئی محصول نہ تھا۔ بڑے ساہو کا ریا تاجر کا ریگروں کو بھاری رقوم چینگی جمع کرا دیا کرتے تھے۔ خوشاب میں ان اشیاء کی تجارت ہوتی تھی۔
ریشمی لنگیان، کھدر، چڑا ، لکڑی، مٹی، کانسی، ایلومینیم کے برتن، صندوق، طاقچے، چڑے کے کچے ، گلوب، سوتی کھیں، جوتے ، رہے، کاٹھیاں، لگا میں، صابن ، جڑی بوٹیاں ، کھار، غلہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ گھی تیل وغیرہ بھی برآمد ہوتا تھا۔ درآمدی سامان میں غلہ ، فروٹ، نمک، ادویات، دھاگہ، طلا وغیرہ شامل تھے۔ ایران اور افغانستان کو اون، چمڑہ، لباس، تیل، صابن کھدروغیرہ فروخت کیا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں مال کے بدلے مال کی تجارت ہوتی تھی البتہ
اراضی کی خرید و فروخت کے لئے سکہ رائج الوقت لیا جاتا تھا۔
غلہ کے نرخ
سکھوں کے عہد سے قبل نلہ کے نرخ حسب ذیل تھے ۔
گندم ایک روپے کی 64 سیر، جو ایک روپے کے دومن، جوار ایک روپے کی 66 سیر،چنا ایک روپے کے دوسن، باجرہ ایک روپے کے 2 من 5 سیر، منڈوا ایک روپے کا ڈھائی من ، چنیا ایک روپے کا ڈیڑھ من، بھی ایک روپے کا پونے تین سیر ، شہد ایک روپے کا چار سیر سر عام فروخت ہوتا تھا۔ سکھوں کے آخری چند سالوں اور انگریزی دور حکومت کے ابتدائی پانچ سالوں کے بارے میں میجر ولسن نے جو رپورٹ مرتب کی اس کے مطابق گندم کے نرخ یہ تھے۔1844ء میں روپے کی 29 سیر، 1845ء میں 30 سیر ، 1846 ء میں 33 سیر، 1847ء میں 27 سیر 1848ء میں 37 سیر ۔ اسی سال انگریزوں نے سکھوں سے حکومت سنبھالی۔ انگریزی عہد کے سال اول 1849ء میں 25 سیر ، 1850ء میں 38 نیر ، 1852ء میں 63 سیر ، 1853ء میں 62 سیر میں فروخت ہوئی تھی۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غلہ کس قدر ارزاں تھا اور صرف ڈیڑھ سو برس میں جبکہ آبادی صرف چار گنا بڑھی، اشیاء کے نرخوں میں ہولناک اضافہ ہوا۔ سکھوں کے عہد سے قبل فی کس آمدنی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے۔ عام مزدور کی اجرت یومیہ ڈھائی تے تین آنه (20 پیسہ ) فنی مزدور یا کاریگر چه آنه تا آٹھ آنہ ( 50 پیسے مقرر تھی۔ ایک چھکڑا یار بڑھا سواروپیہ یومیہ پر، اونٹ چھو آنہ یومیہ پر ہیں گدھوں کا گروپ تین سے چار روپے یومیہ پر کشتی دو سے ڈھائی روپے یومیہ پر بار برداری کیلئےحاصل کی جاتی تھی۔ہمارے ضلع کی نصف آبادی (خواتین) بھی گھروں میں محنت مزدوری کرنے کی عادی تھیں۔ کوئی گاؤں یا کسی گاؤں کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں صحت مند عورتیں بے کار وقت گزارتی ہوں۔ (جیسا کہ آج ہے)
گھر یلو دستکاریاں
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں عورتیں ہل چلانے کے علاوہ باقی تمام کھیتوں یا زراعت سے متعلقہ کام کرتی تھیں۔ کنوؤں کی گادھی پر بیٹھ کر بیلوں کا چلانا، گندم یا دیگر غلہ کاٹنے میں مدد دینا، کپاس چلتا، کپاس کو اس کے بیج سے علیحدہ کرنا ( بلینے سے ) ، گنا بیل کر رس نکالنا اور گڑشکر تیار کرنا، کھیتوں میں بیج اور کھاد ڈالنا، کھیتوں یا باغوں کی حفاظت وغیرہ کے تمام معاملات میں عورتیں مردوں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ جانور چرانے ، دودھ دوہنے وغیرہ میں بھی برابر کی شریک تھیں مگر کچھ امور میں وہ تنہا ذمہ دار تھیں اور وہ امور ہیں گھر یلو دستکاری سے متعلقہ ۔ کھجور کے درخت اور سر کنڈا اس علاقہ میں عام تھا۔ دونوں کو کاروباری مقاصد کیلئے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ عورتیں گھروں میں بیٹھ کر کھجوڑ کے خشک پتوں نے چار پائی کی پٹیاں بنتی تھیں، سر کنڈا اور کھجور سے پچھے، پچھیاں، چنگیریں ، تھالیاں، ٹوکریاں، پیچھے وغیرہ تیار کرتی تھیں اور یہ صنعت اس قدر عام تھی کہ لاکھوں روپے اس نے کمائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ لکڑی کی مصنوعات پر نقش و نگار اور مینا کاری بھی خواتین کے لئے مخصوص تھیں۔ وہ گھروں میں یہ کام کرتی رہتی تھیں ۔ گو ہر گاؤں میں یا قریبی چند بستیوں میں غلہ پینے کے خراس (بیلوں سے چلائی جانے والی چکی) لگے ہوئے تھے ۔ کھٹہ مصرال میں پن چکیاں بھی تھیں لیکن عموما ہر گھر میں دستی چکی بھی موجود رہتی ۔ عورتیں روزانہ کی ضرورت کا غلہ ان چکیوں سے پیستی تھیں۔ یہ انتہائی مشقت طلب کام تھا لیکن اس دور کی عورتیں اسے لازمہ مجھتی تھیں۔ اس طرح عورت اور مرد دونوں مصروف رہتے اور جس معاشرہ میں دن کا بیشتر حصہ مصروف گزرتا ہو، وہاں پر اخلاقی برائیاں کم ہوتی ہیں۔ سارے دن کا تھکا ہوا انسان رات کو جی بھر کر سوتا ہے۔ یہی صورت اس علاقہ کے لوگوں کی تھی۔ خاندانی یا نسلی عداوتوں کے علاوہ بہت کم . جرائم وقوع پذیر ہوتے تھے کیونکہ انسان جس کے دونوں شعبے عورت اور مرد عموما بنیادی ذمہ داریوں میں جتے رہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اس دور کی عورتیں بھی جفاکش، صحت مند اور سخت قد کاٹھ کی تھیں ( آج کے دور کی عورت اس مشقت اور مصروفیت کا تصور بھی نہیں کر سکتی ) لیکن اتنی مشقت اور مصروفیت کے باوجود سہیلیوں کے جمگھٹے ، گیتوں کی مہار، لوک رقص کے انگ، دیہی زندگی کےحسن کا شاہکار تھے۔
مذہبی اور موسمی تہوار
ہندو مسلم مشترکہ معاشرہ میں بعض موسی تہوار مل جل کر منائے جاتے تھے اور ہندو مسلم کی تفریق نظر نہ آتی تھی۔ ہندو تہواروں میں دیوالی، دسہرا، رام لیلا، ہولی خالص مذہبی تہوار تھے۔ ان میں مسلمان عملاً شریک نہ ہوتے تھے مگر ہندو لوگ ان تہواروں پر تقسیم ہونے والی شیرینی مسلمان احباب میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بسنت لو ہری، بساکھی ، سال سمت یہ ہندوؤں کے موسمی تہوار تھے، ان میں مسلمان برابر شریک ہوتے تھے۔ بساکھی کا بڑا میلہ نرسنگھ پھو ہار میں لگتا تھا اور جو لوگ اس میلہ میں نہ جاسکتے وہ نزد یکی دریا یا نہر کے کنارے خوشیاں مناتے تھے۔ کچھ لوگ جہلم کے کنارے گروٹ میں ہر سال یکم ماگھ کو بہت بڑالو ہری کا میلہ لگتا تھا اور اس موقع پر تیر کمان“ اور مٹی کے برتنوں کی وسیع تجارت ہوتی تھی۔ میلہ سے دو دن قبل ” ڈوٹرے ہوتے یعنی اس روز نابالغ لڑکیاں مٹی کے کچے ڈولے (برتن) جس میں چاروں طرف سوراخ ہوتے اس میں مٹی کا چراغ جلا کر رکھتیں اور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں سرشام لے جاتیں۔ ان نے لو بڑی وصول کر تمیں جو نقدی یا جوار کی صورت میں ہوتی۔ اس کے ایک دن بعد پھلوئے منایا جاتا۔ عصر کے وقت ہندو یا مسلمان با تخصیص جوار کے دانے بھون کر کھاتے تھے۔
دور جدید کی جھلک
مساجد
زمانہ قدیم میں پورا گاؤں اور ان کی مساجد کچی ہوتی تھیں۔ میدانی علاقے میں ہر مسجد میں ایک چھوٹا کنواں جسے کھوئی کہتے ہیں ضرور ہوتی تھی کیونکہ نلکوں کا ابھی رواج نہیں تھا۔ سارا گاؤں یہیں سے پانی بھرتا تھا۔ مسجد کی خدمت رضا کارانہ طور پر کی جاتی تھی۔ کسی مسجد میں ایک . پھٹے کے ساتھ بہت سے کپڑے لٹکا کر پنکھا بنا لیا جاتا اور مسجد کے درمیان شہتیر سے لٹکا دیا جا ۔اسے باری باری نمازی رسی سے کھینچتے تھے۔ اسی طرح کے پیچھے دوکانوں اور امیر لوگوں کے گھروں میں بھی ہوتے ان کو کھینچنے کے لیے باقاعدہ ملازم رکھے جاتے۔ مساجد میں طہارت خانوں کے علاوہ فسل خانے ضرور ہوتے جن پر صرف مردی غسل کرتے تھے عورتیں پانی بھر کر گھر پر ہی کرتی تھیں۔ آزادی کے بعد حالات تیزی سے بدلنے لگے۔ شاید ہی کوئی مسجد اب کچھی رہ گئی ہو۔ اب اونچے میناروں کا رواج بھی چل نکلا ہے ۔ لاؤڈ سپیکروں نے تو محلے والوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ مسجدوں میں اب بجلی کے پپ لگ گئے ہیں بٹن دبایا پانی حاضر مٹی کے استادوں (کوزہ) کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ پلاسٹک کے کوزے آگئے ہیں۔ استاد کی صراحی دار گردن ہوتی تھی پرندہ صراحی اس میں چونچ نہ مار سکتا تھا۔ اب ہر کوئی فسل گھر میں کرنے لگا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسجد میں جانے کا رواج اب کم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے نہانے والا شرم کی وجہ سے نماز مجبور اسہی پڑھتا تھا۔ اب کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ تہجد اور اشراق پڑھنے والے خال خال رہ گئے ہیں۔ ایک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی که فقط دو نمازی ایک امام اور دوسرا صرف موذن تھا اور جماعت لاؤڈ سپیکر پر ہو رہی تھی ۔ مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے۔اب ایسے کئی گھرانے مل جائیں گے جن کے گھروں میں تلاوت قرآن حکیم اور نماز
روزہ تک کا بھی ذکر ہی نہیں ہوتا۔ اور بعض مساجد تو اب ایئر کنڈیشن بھی بنادی گئی ہیں۔ لیکن نمازی کہاں سے آئیں گے۔ زمانہ قدیم میں روشنی کے لیے بطور منت تیل ڈالا جاتا تھا۔ اس کے لیے مخصوص برتن پڑا ہوتا تھا۔ اس میں لوگ تیل ڈالتے رہتے تھے ۔ یہ تارا میرا کا کڑوا تیل ہوتا تھا۔ اور مٹی کے دیئے میں جلایا جاتا تھا۔مساجد کی کل کائنات جس کو پھوڑ کہتے تھے ہوتی تھیں اس لیے تا کہ لگانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ۔ چور کے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ اب مساجد کی ہر چیز حفاظت کا تقاضا کرتی ہے۔ صفوں کی جگہ قالین اور دریوں نے لے لی۔ پچھے، ہیٹر، کولر، موٹر پر گیز رلاؤڈ سپیکر، گھڑیاں ہر چیز چوروں کے کام کی ہیں۔ اسی لیے آئے دن چوریاں ہونے کی وجہ سے مساجد کو تالے لگانے کا رواج ہو گیا ہے۔ جو صرف نماز کے وقت ہی کھلتی ہیں ۔ جوتی چوری ہونے کا تو ہر گدھوں کا گروپ تین سے چار روپے یومیہ پر کشتی دو سے ڈھائی روپے یومیہ پر بار برداری کیلئے حاصل کی جاتی تھی۔ ہمارے ضلع کی نصف آبادی (خواتین) بھی گھروں میں محنت مزدوری کرنے کی عادی تھیں۔ کوئی گاؤں یا کسی گاؤں کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں صحت مند عورتیں بے کار وقت گزارتی ہوں۔ (جیسا کہ آج ہے) گھر یلو دستکاریاں
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں عورتیں ہل چلانے کے علاوہ باقی تمام کھیتوں یا زراعت سے متعلقہ کام کرتی تھیں۔ کنوؤں کی گادھی پر بیٹھ کر بیلوں کا چلانا، گندم یا دیگر غلہ کاٹنے میں مدد دینا، کپاس چلتا، کپاس کو اس کے بیج سے علیحدہ کرنا ( بلینے سے ) ، گنا بیل کر رس نکالنا اور گڑشکر تیار کرنا، کھیتوں میں بیج اور کھاد ڈالنا، کھیتوں یا باغوں کی حفاظت وغیرہ کے تمام معاملات میں عورتیں مردوں کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ جانور چرانے ، دودھ دوہنے وغیرہ میں بھی برابر کی شریک تھیں مگر کچھ امور میں وہ تنہا ذمہ دار تھیں اور وہ امور ہیں گھر یلو دستکاری سے متعلقہ ۔ کھجور کے درخت اور سر کنڈا اس علاقہ میں عام تھا۔ دونوں کو کاروباری مقاصد کیلئے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ عورتیں گھروں میں بیٹھ کر کھجوڑ کے خشک پتوں نے چار پائی کی پٹیاں بنتی تھیں، سر کنڈا اور کھجور سے پچھے، پچھیاں، چنگیریں ، تھالیاں، ٹوکریاں، پیچھے وغیرہ تیار کرتی تھیں اور یہ صنعت اس قدر عام تھی کہ لاکھوں روپے اس نے کمائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ لکڑی کی مصنوعات پر نقش و نگار اور مینا کاری بھی خواتین کے لئے مخصوص تھیں۔ وہ گھروں میں یہ کام کرتی رہتی تھیں ۔ گو ہر گاؤں میں یا قریبی چند بستیوں میں غلہ پینے کے خراس (بیلوں سے چلائی جانے والی چکی) لگے ہوئے تھے ۔ کھٹہ مصرال میں پن چکیاں بھی تھیں لیکن عموما ہر گھر میں دستی چکی بھی موجود رہتی ۔ عورتیں روزانہ کی ضرورت کا غلہ ان چکیوں سے پیستی تھیں۔ یہ انتہائی مشقت طلب کام تھا لیکن اس دور کی عورتیں اسے لازمہ مجھتی تھیں۔ اس طرح عورت اور مرد دونوں مصروف رہتے اور جس معاشرہ میں دن کا بیشتر حصہ مصروف گزرتا ہو، وہاں پر اخلاقی برائیاں کم ہوتی ہیں۔ سارے دن کا تھکا ہوا انسان رات کو جی بھر کر سوتا ہے۔ یہی صورت اس علاقہ کے لوگوں کی تھی۔ خاندانی یا نسلی عداوتوں کے علاوہ بہت کم . جرائم وقوع پذیر ہوتے تھے کیونکہ انسان جس کے دونوں شعبے عورت اور مرد عموما بنیادی ذمہ داریوں میں جتے رہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اس دور کی عورتیں بھی جفاکش، صحت مند اور سخت قد کاٹھ کی تھیں ( آج کے دور کی عورت اس مشقت اور مصروفیت کا تصور بھی نہیں کر سکتی ) لیکن اتنی مشقت اور مصروفیت کے باوجود سہیلیوں کے جمگھٹے ، گیتوں کی مہار، لوک رقص کے انگ، دیہی زندگی کےحسن کا شاہکار تھے۔مذہبی اور موسمی تہوار ہندو مسلم مشترکہ معاشرہ میں بعض موسی تہوار مل جل کر منائے جاتے تھے اور ہندو مسلم کی تفریق نظر نہ آتی تھی۔ ہندو تہواروں میں دیوالی، دسہرا، رام لیلا، ہولی خالص مذہبی تہوار تھے۔ ان میں مسلمان عملاً شریک نہ ہوتے تھے مگر ہندو لوگ ان تہواروں پر تقسیم ہونے والی شیرینی مسلمان احباب میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بسنت لو ہری، بساکھی ، سال سمت یہ ہندوؤں کے موسمی تہوار تھے، ان میں مسلمان برابر شریک ہوتے تھے۔ بساکھی کا بڑا میلہ نرسنگھ پھو ہار میں لگتا تھا اور جو لوگ اس میلہ میں نہ جاسکتے وہ نزد یکی دریا یا نہر کے کنارے خوشیاں مناتے تھے۔ کچھ لوگ جہلم کے کنارے گروٹ میں ہر سال یکم ماگھ کو بہت بڑالو ہری کا میلہ لگتا تھا اور اس موقع پر تیر کمان“ اور مٹی کے برتنوں کی وسیع تجارت ہوتی تھی۔ میلہ سے دو دن قبل ” ڈوٹرے ہوتے یعنی اس روز نابالغ لڑکیاں مٹی کے کچے ڈولے (برتن) جس میں چاروں طرف سوراخ ہوتے اس میں مٹی کا چراغ جلا کر رکھتیں اور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں سرشام لے جاتیں۔ ان نے لو بڑی وصول کر تمیں جو نقدی یا جوار کی صورت میں ہوتی۔ اس کے ایک دن بعد پھلوئے منایا جاتا۔ عصر کے وقت ہندو یا مسلمان با تخصیص جوار کے دانے بھون کر کھاتے تھے۔ دور جدید کی جھلک مساجد زمانہ قدیم میں پورا گاؤں اور ان کی مساجد کچی ہوتی تھیں۔ میدانی علاقے میں ہر مسجد میں ایک چھوٹا کنواں جسے کھوئی کہتے ہیں ضرور ہوتی تھی کیونکہ نلکوں کا ابھی رواج نہیں تھا۔ سارا گاؤں یہیں سے پانی بھرتا تھا۔ مسجد کی خدمت رضا کارانہ طور پر کی جاتی تھی۔ کسی مسجد میں ایک . پھٹے کے ساتھ بہت سے کپڑے لٹکا کر پنکھا بنا لیا جاتا اور مسجد کے درمیان شہتیر سے لٹکا دیا جا ۔اسے باری باری نمازی رسی سے کھینچتے تھے۔ اسی طرح کے پیچھے دوکانوں اور امیر لوگوں کے گھروں میں بھی ہوتے ان کو کھینچنے کے لیے باقاعدہ ملازم رکھے جاتے۔ مساجد میں طہارت خانوں کے علاوہ فسل خانے ضرور ہوتے جن پر صرف مردی غسل کرتے تھے عورتیں پانی بھر کر گھر پر ہی کرتی تھیں۔ آزادی کے بعد حالات تیزی سے بدلنے لگے۔ شاید ہی کوئی مسجد اب کچھی رہ گئی ہو۔ اب اونچے میناروں کا رواج بھی چل نکلا ہے ۔ لاؤڈ سپیکروں نے تو محلے والوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ مسجدوں میں اب بجلی کے پپ لگ گئے ہیں بٹن دبایا پانی حاضر مٹی کے استادوں (کوزہ) کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ پلاسٹک کے کوزے آگئے ہیں۔ استاد کی صراحی دار گردن ہوتی تھی پرندہ صراحی اس میں چونچ نہ مار سکتا تھا۔ اب ہر کوئی فسل گھر میں کرنے لگا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسجد میں جانے کا رواج اب کم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے نہانے والا شرم کی وجہ سے نماز مجبور اسہی پڑھتا تھا۔ اب کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ تہجد اور اشراق پڑھنے والے خال خال رہ گئے ہیں۔ ایک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی که فقط دو نمازی ایک امام اور دوسرا صرف موذن تھا اور جماعت لاؤڈ سپیکر پر ہو رہی تھی ۔ مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے۔اب ایسے کئی گھرانے مل جائیں گے جن کے گھروں میں تلاوت قرآن حکیم اور نماز روزہ تک کا بھی ذکر ہی نہیں ہوتا۔ اور بعض مساجد تو اب ایئر کنڈیشن بھی بنادی گئی ہیں۔ لیکن نمازی کہاں سے آئیں گے۔ زمانہ قدیم میں روشنی کے لیے بطور منت تیل ڈالا جاتا تھا۔ اس کے لیے مخصوص برتن پڑا ہوتا تھا۔ اس میں لوگ تیل ڈالتے رہتے تھے ۔ یہ تارا میرا کا کڑوا تیل ہوتا تھا۔ اور مٹی کے دیئے میں جلایا جاتا تھا۔ مساجد کی کل کائنات جس کو پھوڑ کہتے تھے ہوتی تھیں اس لیے تا کہ لگانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی ۔ چور کے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ اب مساجد کی ہر چیز حفاظت کا تقاضا کرتی ہے۔ صفوں کی جگہ قالین اور دریوں نے لے لی۔ پچھے، ہیٹر، کولر، موٹر پر گیز رلاؤڈ سپیکر، گھڑیاں ہر چیز چوروں کے کام کی ہیں۔ اسی لیے آئے دن چوریاں ہونے کی وجہ سے مساجد کو تالے لگانے کا رواج ہو گیا ہے۔ جو صرف نماز کے وقت ہی کھلتی ہیں ۔ جوتی چوری ہونے کا تو ہر وقت ڈر رہتا ہے۔ اس ڈر کی وجہ سے نمازی جوتے کو اپنے سامنے رکھنے پر مجبور ہیں۔ نعلین تحت العین یعنی جو تا آنکھوں کے سامنے رہے۔ تا کہ دوسرا گنہگار نہ ہو ۔ کی مشق
لازمی ہے۔
داره
دارے کی ہمارے دیہاتی معاشرے میں بڑی اہمیت تھی۔ ہر محلے میں ایک دارہ ہوتا تھا جس میں سردیوں اور گرمیوں میں لوگوں کے بیٹھنے کا پورا انتظام ہوتا تھا۔ سردیوں میں ایک بڑے کمرے میں سرکنڈے کی سر کا ایک بیٹھنے کے لیے قالین نما کڑا بنایا جاتا جس پر سب لوگ بیٹھتے اور درمیان میں آگ کا الاؤ روشن رہتا۔ رات کو گانا بجانا ، کہانیاں سنانی اور اسی طرح کے معمافل . ہوتے بعض لوگ وہیں سو بھی جاتے ۔ حقہ ہر وقت تازہ رہتا اس کے لیے ایک خادم دن رات
حاضر خدمت رہتا۔طگرمیوں میں کھلی جگہ پر ایک چھپر بنا لیا جاتا۔ جس کے نیچے کم از کم سو کے لگ بھگ آدمی سا سکتے تھے ۔ وازے پر خوشی غمی کی جملہ تقریبات ہوتی تھیں ۔ کوئی مسافر کسی دارے پر چلا جاتا اس کی روٹی بستر کا انتظام ہو جاتا ۔ اس کے علاوہ مقامی جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے پنچائت کا زبردست انتظام ہوتا اور فیصلہ کرنے کے لیے جو پنچائت بیٹھتی اسے ستھ کہتے تھے وہ کسی کی رو رعایت کے بغیر فیصلہ سناتی اور ہر اک اسے بلا چون و چرا مان لیتا۔ اب یہ ادارے بھی ختم ہونے کے قریب ہیں۔ ہر ایک نے گھر پر بیٹھک بنالی ہے۔ اور دارے پر جانا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے ہر فنکار کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملتا تھا۔
شادی کی رسومات
شادی کی رسومات تقریباً سوائے نکاح کے ختم ہو گئی ہیں دراصل کسی کے پاس ان رسومات کے کرنے کا وقت ہی نہیں۔ اب تو چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات رہ گئی ہے ۔ اب گڑھ حجام یا مراثی کے ذریعے بھیجنے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ اب کارڈ چھپنے لگے ہیں ۔ شادی والے دارے پر جانے کی بجائے شادی ہال میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور گھوڑا سواری کی بجائے کا رسجا کر لے جاتے ہیں۔ رات کو برات مشعلیں لے کر چلتی تھی۔ اب دن کو شادیاں ہونے لگی ہیں۔ آ کر کھانا پلانا ہوتو ہوٹل پر انتظام کر دیا جاتا ہے ایسی تبدیلی کی وجہ سے پیسے کا کمال ہے۔ اب تو ٹیلی فون پر نکاح بھی ہونے لگے ہیں۔ یمنی کے موقع پر بھی اب چالیسویں کی اطلاع کے لیے کارڈ چھپوانے اور اخباروں میں اطلاع دینے کا رواج چل نکلا ہے۔ قل جو تیسرے دن پڑھایا جا تا تھا اب اسی دن یا دوسرے دن پڑھا کر سلسلہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ پہلے سات دن کم از کم فاتح خوانی کے لیے بیٹھتے تھے اب اس مصروفیت کے دور میں یہ رسم بھی خاتمے کے قریب ہے۔ ملازمین حضرات کی چھٹیوں کاغدر پیش کیا جاتا ہے۔
جہیز
جہیزاب وہ قدیم زمانے والے نہیں رہے۔ جس گھر میں بسانے کے لیے ضروری چیزیں دی جاتی تھیں اب ان چیزوں کو پوچھتا ہی کوئی نہیں۔ اب کپڑے دھونے کے لیے واشنگ مشین ، مصالحہ پینے کے لیے گرائنڈر بجلی کی مدھانی پانی ٹھنڈا ر کھنے کے لیے کولر ، فرج ، ڈیپ فریزر، تفریح طبع کے لیے، رنگین ٹی وی معہ ڈش انٹینا، ڈیک ٹیپ ریکارڈر، کار، کوٹھی وغیرہ اس سارے سامان کی فہرست تیار کر کے دولہا کے دستخط کروائے جاتے ہیں تا کہ ناچاقی کی صورت میں پورا
سامان وصول کیا جا سکے۔
لباس
ہمارے لباس میں بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے کھدر کا لباس ہوتا تھا۔ پھر لٹھے کا شروع ہوا ۔ لیکن مرد ہمیشہ سفید رنگ کا کرتہ اور تہہ بند زیب تن کرتے تھے۔ مرد بالکل رنگدار لباس استعمال نہ کرتا تھا۔ عورتیں بھی نیلا یا کالا لباس پہنتی تھیں۔ مردوں میں شلوار کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ آزادی کے بعد مہاجرین حضرات کے میل جول سے لباس میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ اب رنگدار لباس کے گرمیوں سردیوں کے الگ الگ سوٹ بننے لگے ہیں۔ ان سوٹوں کی وجہ سے درزیوں کے مزے ہو گئے ہیں اور اب یہ پیشہ بڑی کمائی والا پیشہ بن گیا ہے۔ مردوں کی نسبت عورتوں نے شلوار کو بہت اپنایا ہے۔ ایک تو اس میں کپڑا کم خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا با پردہ خیال کیا جاتا ہے۔ دیسی جوتی اب تقریبا خاتمے کے قریب ہے۔ نائیلون کے سلیپر اور دوسری قسم کی گرگابی نما جوتوں کا رواج عام ہو گیا ہے۔ اور سر کا لباس مرد وزن میں خاتمے کے قریب ہے۔
ذرائع آمد و رفت
پہلے لوگ زیادہ تر پیدل سفر کرتے تھے کوئی بیل گاڑی بھی استعمال کر لیتا تھا۔ امیر لوگ گھوڑے کی سواری کر لیتے۔ اس کے بعد تھوڑے فاصلے کے لیے ٹانگے اور یکے چلنے لگے۔ پھر بیں چلنے لگیں اور اب تو بسیں بھی ایئر کنڈیشنڈ ہو گئی ہیں۔ جن میں سفر کی کوفت ختم ہو گئی ہے۔ بار برداری کے لیے گدھے اور بیل گاڑی، اونٹ کا استعمال عام تھا۔ گدھا گاڑی، رہڑی کا رواج آزادی سے پہلے بالکل نہیں تھا۔ اونٹ گاڑی کا رواج بھی ضلع سرگودھا میں نہیں تھا۔ اب نیچر اور گدھے کو گاڑیوں میں زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ بھٹے سے اینٹیں لانے کے لیے گھوڑا گاڑی یار بیٹری استعمال کی جاتی ہے اور تھوڑے سامان کے لیے گدھا گاڑی استعمال ہوتی ہے۔ لمبے سفر کے لیے ریل گاڑی اور ٹرک اور ٹرالے استعمال کیے جاتے ہیں۔
دور جدید کا معین
اسلامی دور میں تمام مسلمان چاہے کسی حیثیت کے ہوں مساوی خیال کیے جاتے تھے۔ انگریزی دور حکومت میں ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے ذات پات کو پھر اجاگر کیا۔ کئی قبائل کو مارشل قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا گیا اور ان کے علاوہ باقی قوموں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ حتی کہ فوج میں بھرتی بھی نہیں کیا جاتا تھا اور ان لوگوں میں سید حضرات بھی شامل تھے۔ چنانچہ فضل حق پراچہ کو اسمبلی میں اس کے متعلق گورنمنٹ کو نظر ثانی کرنے کے لیے کہنا پڑا۔ آزادی کے بعد حالات نے پھر پلٹا کھایا۔ ساری رعایا کو برابر کے حقوق مل گئے ۔ غیر کاشتکار پر سے زمین خریدنے کی پابندی اٹھ گئی۔ غیر مارشل تو میں جو انگریزی دور میں پس رہی تھیں نے آزادی سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ سب سے پہلے غیر مسلموں کے جانے سے جو تجارت میں خلا پیدا ہو گیا تھا اسے اس طبقے نے پر کیا۔ زمیندار دوکانداری اور تجارت کو اپنے لیے کسرشان سمجھتا تھا۔ جلد ہی یہ طبقہ تعلیم اور تجلدت بلکہ زراعت کے علاوہ زندگی کے ہر میدان میں زمیندار طبقہ سے بازی لے گیا۔ سرکاری ملازموں میں اسی طبقے کی تعداد بڑھتی گئی ۔ تجارت کی وجہ سے جب پیشہ آ گیا تو زمیندار طبقہ نے جب موروثی زمین اپنے شاہی اخراجات پورے کرنے کے لیے بچنی شروع کی تو اسی طبقے نے وہ ساری زمینیں خرید لیں ۔ اسمبلیوں میں جہاں جاگیردار طبقے کی اکثریت تھی۔ ختم ہونی شروع ہو گئی۔ ہمارے ضلع میں جس جاگیر دار گھرانہ نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بدلا وہ ٹون خاندان ہے۔ اس نے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتوں میں پیس لگا کر اپنی ساکھ کو برقرار رکھا۔ اب ضلع سرگودھا کا نام بھی اسجد علی نون ہے۔ ان کے مقابلہ میں ٹوانے جو کہ سب سے بڑے جاگیردار تھے۔ وقت کا ساتھ نہ دے سکے۔ آج مٹھ ٹوانہ، جہان آباد، خواجہ آباد اور کالرہ سٹیٹ کی وہ نوابی شان و شوکت بہت عرصہ سے رخصت ہو چکی ہے ۔ میگھا جو کالرہ اسٹیٹ کا ابتدائی مرکز تھا کافی عرصہ ہوا بک چکا ہے۔ جہان آباد کی اکثر زمینیں کشمیریوں نے خریدی ہیں یہی حال باقی مراکز کا ہوا۔ سیاست میں ہمو کا شاخ ملک خدا بخش ٹوانہ کی وجہ سے پیش پیش تھا۔ ان کا بھائی غلام محمد ناظم خوشاب بن گیا۔ لیکن 2013 میں سب ہار چکے ہیں وہ لوگ جو زمیندار کا ہاتھ بٹاتے تھے اور اس بناء پر لی یا تین کہلاتے تھے ۔ اب انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کر لی ہے۔ نائی یا حجام جس کا کام نمی یا خوشی کی اطلاع لے جانا یا اپنے پر بھوں کی حجامتیں بنانا تھا جب حالات کو بدلتے دیکھا تو نئی پود نے سیپ کے ساتھ ساتھ حمام بنالیے اور نقد آمدنی وصول کرنے لگے کنوؤں کے نہروں کی وجہ خاتمے پر مستریوں نے فرنیچر کی دوکانیں کھول کر کمائی کی نئی نئی راہیں تلاش کر لیں یا راج گیری میں ہمیشہ کزنڈ افسر کے برابر دیہاڑی کی اجرت رکھی ہوئی ہے۔ اس طرح دوسرے پیشے والوں نے بھی اپنے روائتی پیشوں کے ساتھ ساتھ نئے نئے ہنر سیکھ کر کافی کمائی کرنے لگے ہیں۔ جدید لغت میں کمی کو ہنر مند کہا جاتا ہے۔ ایسے ہنر مند لوگ باہر جا کر کافی رقم کمار ہے ہیں اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ آزادی کے بعد لوگوں پر پیسہ کمانے کی نئی نئی راہیں کھلی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نئی نئی عمارتوں کو دیکھ کر معین اور زمیندار کا اندازہ مشکل ہو گیا ہے۔ دیہات میں جہاں کچے مکان ہوتے تھے وہاں اب شاید ہی کوئی کچا گھر نظر آئے۔ شہروں میں پہلے ڈاکٹر اور وکیل کو ٹھیوں والے ہوتے ہیں اب ان میں اور بہت سے طبقے شامل ہو گئے ہیں۔ اب اللہ کا عمل و کرم ہے کہ ترقی کرنے کے لیے ہر ایک کے پاس مواقع ہیں لیکن جو اپنے آپ کو ستحق ثابت کر سکے۔ آزادی سے پہلے ہندو بنیا نے مسلمان زمیندار کا بھی جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ فصل اٹھاتا تو بنیا ترازو لے کر پہنچ جاتا اور ساری فصل اٹھا لاتا کیونکہ سود در سود کا شکنجہ اتنا سخت تھا کہ زمیندار بول ہیں سکتا تھا۔ اور بنیا میٹھی چھری بن کر آتی دفعہ کہ آتا۔ یہ سب ہمارا مشترکہ ہے اگر ضرورت پڑے تو آ جانا جتنی مرضی ہے لے آنا۔ اسی طرح یہ نہ ختم ہونے والا چکر چلتا رہتا۔ زمیندار اپنے خون پسینے کی کمائی سے ہمیشہ ہاتھ دھو بیٹھتا۔ یہ حقیقت ہے کہ آزادی سے پہلے اور بعد کی اپنی معاشرتی زندگی کا جب موازنہ کرتے ہیں تو اتنا فرق نظر آتا ہے کہ شاید نئی نسل جس نے آزادی میں آنکھ کھولی ہے یقین نہ کرنے۔ شاید چند مثالوں سے بات واضح ہو جائے گی مسلمان اقتصادی طور پر سوائے چند گھرانوں کے جو حکومت کے منظور نظر تھے سخت بدحال تھے نہ پاؤں میں جوتی نہ تن پر کپڑا انظر آتا۔ مرد ساری زندگی ایک دھوتی میں گزار دیتا۔ اگر کہیں آنا جانا ہوتا تو کرتہ مانگ کر پہن لیتا یا ایسے موقعوں کے لیے محفوظ رکھا ہوتا تھا۔ لیکن گرمی کے موسم میں بدن کو چونکہ کرتے کی عادت نہ تھی تو سخت گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا اور کرنا اتار کر بغل میں رکھ لیتا اور شہر کے قریب پہن لیتا۔ بدن موسمی اثرات کی وجہ سے سیاہ ہو جاتے۔ برسات میں مچھروں سے بچنے کی کوئی – تدبیر نہ تھی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اتنا بخار ہوتا کہ گھر میں کوئی پانی دینے والا نہ ہوتا۔ پاؤں ننگے چل چل کر اتنے سخت ہو جاتے کہ جوتا پہنا مشکل ہو جاتا۔ اگر کبھی کبھار پہننا بھی پڑتا تو اتار کر سر پر رکھ لیتے اور منزل مقصود پر پاؤ کی دھو کر تھوڑی دیر کے لیے پہن لیتے۔
خوراک
گندم اگر چہ پیدا ہوتی تھی۔ لیکن کھانی نصیب نہ ہوتی ۔ جنگلی پھل سے ہی پورا کیا جاتا۔ جون جولائی میں پہلوں پر گزارہ ہوتا۔ پوٹلی کوٹ کر اس کا بیج بھون کر کھایا جاتا۔ جنڈ کی سنگری بھی پکا کر کھائی جاتی۔ اس کا واحد سبب ہندو بنیئے کی عیاری تھی۔ ہندوؤں پر ایسی سخت کر ر
اوقات نہیں ہوتی تھی۔
جدید مشروبات
پیاس بجھانے کے لیے گرمیوں میں کورے گھڑے منگوائے جاتے ان کا ٹھنڈا پانی استعمال کیا جاتا۔ اس کے بعد بڑے قصبوں میں برف آنی شروع ہوگئی۔ مہمان کے لیے خصوصی
طور پر برف کا اہتمام کیا جاتا۔ پہلے گڑ کا شربت پیش کیا جاتا تھا۔ پھر چینی کا شربت شکنجبین کی صورت پیش کیا جانے لگا۔ سوڈا واٹر کی بوتلیں بھی ہوتی تھیں وہ بوتل بناوٹ کے لحاظ سے دوسری بو مکوں سے بہت مختلف ہوتی تھیں۔ اس کے اندر اتنے کی بناوٹ کی ایک گول کی شیشے کی گولی ہوتی تھی۔ یہ گولی گیس کے جوش سے اوپر اٹھ جاتی اور بوتل کا منہ بند کر دیتی۔ اس کو کھولنے کے لیے ایک خاص قسم کی چیز ہوتی جو گول ہوتی اور بوتل کے منہ پر رکھ کر زور سے دبایا جاتا تو وہ گولی نیچے چلی جاتی۔ سوڈا واٹر کو گلاس میں ڈال کر پیا جاتا۔ یہ یمن اور حجر کی ہوئی تھیں۔ گلاس میں برف ڈال کر سوڈاواٹر کو ٹھنڈا کر کے پیا جاتا ۔ اب امریکن کمپنیوں کے مختلف برانڈ پینے کے لیے مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ مثلا کو کا کولا ، پیپسی، فاٹا، سیون اپ، کناڈ ڈرائی، سپرائٹ وغیرہ۔ یہ بوتلیں کارخانوں میں تیار ہوتی ہیں اور ان کے ترک ڈیلروں کے ذریعے ہر شہر کو سپلائی کرتے ہیں۔ یہ فرج ، فریز ریا برف میں لگا کر پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں شاید ادھ پاؤ سے زیادہ پانی ہوتا ہو ۔ اس سے اور پیاس بھڑکتی ہے۔ مہمان اور میزبان دونوں مجبوراً ایک ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ویسے اب کمپنیوں نے اسے لیٹر اور ڈیڑھ لیٹر کی بوکھیں بھی مہیا کرنی شروع کر دی ہیں۔ ان کے ساتھ جوس بھی گتے کے ڈبوں میں دستیاب ہیں ۔ یہ سب ایک مکلی کے ذریے پیئے جاتے ہیں۔ کسی اور دودھ پینے کا رواج اب آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ہے لوگوں نے اس کا بدل جائے کو بنالیا ہے۔ اور ہر ایک نے غیر ملکی کمپنیوں کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر اس طرح اپنا لیا ہے کہ گلی گلی میں چائے کے کھوکھے نظر آتے ہیں بس کہیں رکے تو مسافر فورا چائے کی پیالی پینے کے لیے ہوٹل کا رخ کرتے ہیں۔
سگریٹ
سگریٹ نے حقے کو ختم کر دیا ہے۔ سگریٹ پینے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ بھی سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کا پرو پیگنڈہ ہے۔ حکومت کی طرف سگریٹ کی ڈیوں پر ہدایات لکھنے کے باوجود اس میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ بس میں ایک سگریٹ لگا تا ہے تو پھر ساری بس کے سگریٹ نوش شروع ہو کر تمام بس کو دھواں دھار کر کے باقی مسافروں کا بیٹھنا محال کر دیتے ہیں۔ حکومت نے پابندی بھی لگا ہوئی ہے لیکن ذمہ دار افسران سگریٹ کمپنیوں کی ٹی بھگت سے چشم پوشی سے کام لیتے ہیں البتہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں کسی حد تک عمل ہوتا ہے۔
نشے
پرانے زمانے کے نئے اتنے خطرناک نہیں ہوتے تھے۔ نشئی اپنی طبعی عمر کسی نہ کسی حد تک پوری کر لیتا تھا۔ ایسے نشوں میں افیون اور بھنگ تھی ۔ بابر بادشاہ خود افیون جسے وہ مجنون کا نام دیتا ہے استعمال کرتا تھا۔ اس طرح بھنگ بھی جسکے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ لیکن اب جو نئے آ گئے ہیں اس سے تو نسل انسانی تباہ ہورہی ہے۔ ان میں سر فہرست ہیروئن ہے۔ اس کے استعمال کرنے والا تھوڑی ہی مدت میں زندہ درگور ہو جاتا ہے۔ اس قبیل کے اور کیمیاوی نشے آگئے ہیں جن کا راقم کو معلوم نہیں۔ نئی بیماریاں کینسر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، ڈیپریشن اور شوگر جدید دور کی اہم بیماریاں ہیں۔ ان کا اہم سبب روایاتی رہن آن کا خاتمہ ہے۔ مقابلے کی دوڑ ہے ذہنی سکون کا خاتمہ ہے۔ نیند نہ آنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سب سے بڑا سبب چائے اور سکرٹ کا بے دریغ بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ فرج میں پڑا ہوائی روز کا باسی کھانا ، سبزیاں اور پھل ہیں۔ لیکن عادات اتنی پختہ ہو چکی ہیں ہم سے کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سی میں سوائے چکنائی کے دودھ کے سب اجزا موجود ہوتے ہیں مگر آج کوئی پینے کو تیار نہیں۔
کھیل
روایتی کھیل ختم ہو گئے ہیں جو بغیر کچھ خرچ کے کھیلے جاسکتے تھے۔ مثلا کبڈی، سنتی، پیرا کی اور دوڑ وغیرہ اب جدید دور میں کوئی کھیل بھی کافی رقم خرچ کے بغیر نہیں کھیلا جا سکتا کرکٹ کے لیے گیند بلا اور بیچ بہت ضروری ہیں پھر کھلاڑی کے لیے مخصوص و روی بھی چاہیے۔ یہی حال ہا کی اور فٹ بال کا ہے۔ لیکن آج کل کرکٹ کا کھیل زوروں پر ہے۔ بازاروں میں ویڈیو گیمز کی دو کا نہیں عام ہیں۔
جدید طرز زندگی اور بجلی
بجلی نے ہماری زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ اس کی سپلائی عام ہونے سے ہرگھر میں موسیقی سننے کا سامان موجود ہے۔ جو ٹی وی ریڈیو ٹیپ ریکارڈرڈش انٹینا نے کو ساری ارزؤں کو پورا کر دیا ہے۔ فرج کی وجہ سے باس سالن کھانے کا عام رواج ہو گیا ہے۔ برف گھر پر ہی بننے کھی۔ بیلی کے پنکھوں کی بدولت اب گرمی میں چھتوں پر سو ناختم ہو گیا ہے۔ رات کو اکثر لوگ اندر ہونے لگے ہیں۔ موٹر پمپ کی سہولت کی وجہ سے فلش لیٹرینیں بن گئی ہیں۔ باہر جانے کی زحمت ختم ہوگئی ۔ واشنگ مشین اور استری سب بجلی سے چلتی ہیں ۔
گیس
اس کے استعمال سے پرانا روایتی طریقہ ختم ہو گیا۔ اب جہاں کیس نہیں وہاں بھرے ہوئے سلنڈرمل جاتے ہیں برتن کالے نہیں ہوتے ۔ اور لکڑی خریدنی نہیں پڑتی۔ یہ جدید دور کی چند مثالیں بیان کی ہیں۔ تا کہ نئی پود کو قدیم اور جدید طرز زندگی کے نمایاں فرق کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
مہمان نوازی
آج اس نفسانفسی کے دور میں مہمان اور میزبان دونوں ایک دوسرے کتراتے ہیں۔ ہوٹلوں نے مشکل آسان کر دی ہے۔ مسافر یہ سمجھتا ہے کہ خواہ خواہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔ کیونکہ شہروں میں دیہاتوں کی طرح مہمان رکھنے کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے۔ اگر مجبوراً کوئی آہی جائے تو دونوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ذرائع آمد و رفت کی آسانی کی وجہ سے ہر ایک ہی کوشش کرتا ہے کہ کام سے فارغ ہو کر گھر واپس آ جائے تو بہت بہتر ہے۔
کھیتی باڑی
کھیتی باڑی میں بہت ترقی ہوگئی ہے۔ صبح سویرے ہل چلانے جانا اب ختم ہو چکا ہے۔ رات کو ٹریکٹر کی روشنی میں بھی ہل چلائے جاتے ہیں۔ گاہ کی بھی اب ضرورت نہیں رہی تھریشر نے کام آسان کر دیا ہے۔ پانی کے لیے ٹیوب ویل آگئے ہیں۔ فصل کاٹنے کے لیے اب مزدوروں کی بجائے مشینیں آگئی ہیں۔ طرح طرح کے بیج اور کھادیں استعمال ہونے لگی ہیں جس سے پیداوار میں زیر دست اضافہ ہوا ہے۔ گندم کے معاملے میں پاکستان خود کفیل بنی نہیں برآمد کرنے کے قابل ہو
گیا ہے۔
قدیم و جدید ملازمین
پرانے لوگ اپنی قسمت پر شاکر رہتے تھے زیادہ حرص نہیں تھی۔ سب ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے تھے۔ محکمہ تعلیم ہی کو لیں۔ اساتذہ ٹیوشن کے لفظ سے نا آشنا تھے۔ علماء کو اپنے بچوں کی طرح پڑھاتے تھے۔ ٹیٹ پیپرز ، گائیڈ کا بالکل رواج نہ تھا رشوت کا رواج آج کل کی طرح عام نہ تھا۔ لوگوں کو اپنی عزت کا پاس تھا۔ اس واسطے اپنے کام نہایت دیانت داری سے سرانجامدیتے۔ اب ہر آدمی بالائی آمدنی کی تاک میں رہتا ہے۔ ہر محکمے نے آمدنی والی برانچیں تاڑی ہوئی ہوتی ہیں اور حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں کوٹھیوں اور کاروں والے ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اب گورنمنٹ سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔
برتن
پہلے زمانے میں اکثر مٹی کے برتن ہوتے تھے۔ پھر ایلومینیم کے استعمال ہونے لگے۔ کچھ گھروں میں تانبے اور کانسی کے برتن بھی ہوتے تھے۔ جوا کثر دیواروں کے ساتھ ٹانگ دیئے
جاتے۔ پھر چینی کے برتن استعمال ہونے لگے لیکن یہ بہت مہنگے ہوتے تھے اس کے بعد سٹیل کے بر تن آگئے۔ اور اب پلاسٹک کے برتنوں کو زور ہے۔ لیکن یہ برتن ابھی پکانے کے کام نہیں آتے ۔
اجناس کی قیمتیں ایک روپے میں (ایک صدی پہلے )
گندم روپے کی 19 سیر دو چھٹانک
جو 25 سیر گیارہ چھٹانک
پنے 23 سیر پانچ چھٹانک
جوار 20 سیر ایک چھٹانک
باجرہ 21 سیر
چاول محمد و 5 سیر 13 چھٹانک
گھی دو یر ”
جلانے کی لکڑی ساڑھے چھے من
چنے کی دال 16 سیر
نئے مشاغل
ایک زمانہ تھا مرد اور عورت اپنی پوری زندگی اپنے گاؤں میں گزار دیتے تھے۔ انہیں باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی۔ ضروریات زندگی کی ساری چیزیں انہیں اپنے گاؤں سے مل جاتی تھیں۔ سارا گاؤں برادری کی طرح ہوتا اور ایک دوسرے پر زندگی کا دارو مدار ہوتا ۔ سارا گاؤں مل کر زمیندار کی مد کرتا اور جب فصل پک جاتی سب میں بانٹ دی جاتی ۔ سارے کام بارٹر سسٹم کی بلر ز پر ہوتے ۔ ملازمت نام کی کوئی شے دیہات میں نہ تھی۔ کمہار سارے گاؤں کو برتن مہیا کرتا۔ حجام سارے گاؤں کی حجامتیں کرتا اسی طرح دوسرے معین سارے گاؤں کے کام کرتے ۔ جدید دور میں سارے کا سارا نظام تقریبا ختم ہونے کے قریب۔ نئی تعلیم سے مردوں اور عورتوں کے لیے زندگی کی نئی نئی راہیں کھل گئی ہیں ۔ اب عورتیں گھر سے نکل کر زندگی کے ہر شعبے میں مرد کا مقابلہ کرنے لگی ہیں۔ اب وہ کو نسلر ہیں ناظم ہیں بیج ہیں وکیل ہیں وزیر اور صدر ہیں۔ انجینئر ہیں اور ڈائریکٹر ہیں اور اسی طرح مردوں نے بھی نئے نئے پیشے اپنائے ہیں۔ کتنے ہی خاندان بجلی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اور لکھا اسی طرح ہر جسم کے کام کرنے لگے ہیں۔ کوئی پڑھا لکھا آدمی جب اپنے کسی ہم جماعت سے کافی دیر بعد ملتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آج کل کیا مغل ہے وہ ایک دوسرے اپنے اپنے مشاغل بتاتے ہیں۔ جن کو ان کے باپ دادا نے کبھی سنا بھی نہ ہو گا۔ ملازمتوں کے بھی اتنے شعبے کھل گئے ہیں کہ ان کو شمار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ سب جدید دور اور جدید تعلیم نیز مملکت خداداد پاکستان کی بدولت ہوا ہے۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے