ناڑی کے آثار قدیمہ
ناڑی کےٰ آثارقدیمہ
وادی سندھ کی تہذیب بلکہ کوٹ ڈیجی کی تہذیب سے بھی قدیم ہیں اور یہ دوا بہ سندھ ساگر اور رچنا دو اب میں بھی ابھی تک دریافت ہونے والی ایسی دریافت ہے جس پر ابھی تک کسی ماہر نے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ناڑی کے آثار اس پورے علاقے میں سب سے قدیم دریافت ہے۔ اس لئے یہ بھی کیا جا سکتا ہے دریائے راوی اور سندھ کے درمیان ابھی تک کوئی جگہ قدامت کے لحاظ سے اس کی ہمسری نہیں کر سکتی۔
ناڑی کا موجودہ قصبہ خوشاب پنڈی شاہراہ پر واقع ہے یہاں 26 مساجد ہیں۔ خوشاب سے 21 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے کٹھہ کے قریب ہے۔ باہر سے آنے والے حضرات کلر کہار پیل روڈ کے ذریعے اللہ انٹر چینج کے ذریعے اور سرگودھا خوشاب سڑک کے ذریعے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ کوہستان نمک یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ زمانہ قدیم سے ناڑی اپنے پہاڑی چشمنوں کے پانی سے سیراب ہوتی تھی ۔
یہ آثار قدیمہ تین ٹیلوں پر واقع ہیں جن کو سیف الرحمن ڈار صاحب نے سہولت کے لئے اے بی سی نام دیتے ہیں۔ یہ تمام ٹیلے شہر سے جنوب کی طرف ہیں۔ اب اس شہر کا قبرستان ہے۔ آہستہ آہستہ یہ جگہ اب قبروں سے پر ہوتی جارہی ہے۔ ابھی تک ماہرین نے اس کی کھدائی نہیں کی سوائے قبر کھود نے والوں کے جو پانچ چھ فٹ تک کھدائی کرتے ہیں لیکن اس سے آگے کیا ہے کچھ پتہ نہیں۔ ابھی مزید اس پر کام کرانے کی ضرورت ہے تا کہ کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ جہاں تک ٹیلہ A کا تعلق ہے وہ سب سے بڑا ہے یہ تقریباً 400 فٹ شرقا اور 375 فٹ شمالاً جنوبا ہے۔ ایک راستہ ان تینوں کو جدا کرتا ہے۔ A دوسروں سے اونچائی میں بھی زیادہ ہے۔ سب کو ملا کر دیکھیں تو یہ 800 فٹ شرقا غربا اور 725 شمالاً جنوبا ہیں۔ ابھی تک مناسب کھدائی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مختلف زمانوں کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اس کے غربی سرے پر ایک جنازہ گاہ ہے جبکہ ٹیلہ بی پر ایک مسجد اور ایک روضہ ہے۔ ان ٹیلوں کی سطح پر ابھی تک کسی قدیم عمارت کے آثار نظر نہیں آئے نہ ہی کسی قسم کی خانہ اینٹ نظر آئی ہے البتہ ایک صدی سے یہ جگہ بطور قبرستان استعمال ہو رہی ہے لیکن گورکنوں نے اتنا کیا ہے کہ اس کے اندر بعض چیزیں سطح پر لا رکھی ہیں جو ہماری تحقیق کا محور ہیں۔
تاریخی اشیاء
تھوڑے سے وقت میں جو چیزیں دیکھی گئیں اور انہیں مزید تحقیق کیلئے اکٹھا کیا گیا، ٹیلہ اے سے کافی تعداد میں تکونی ٹکیاں ، گول ٹکیاں اور سلنڈر نما چیزیں ہٹی سے پکی ہوئی ملیں۔ ان کی ہو بہو وہی شکل ہے جیسی ہر پہ سے ملنے والی ٹکیوں کی ہے۔ اسی طرح ان ٹیلوں سے کافی تعداد میں پتھر کی چھریاں ملیں جو مختلف رنگوں اور سائز کی تھیں جن سے اس کی قدامت کا منہ بولتا ثبوت ملتا ہے۔ جن پتھروں سے یہ بنائی گئی ہیں وہ بھی ملے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ نہیں بنائی جاتی ہونگی۔ جہاں تک یہاں سے ملنے والے برتنوں کے ٹکڑوں کا تعلق ہے، وہ دو خصوصیات کے بیل بوٹوں والے برتن بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔ سرخ سطح سرسیاہ بیل بونے ہر چہ کی صنعت کوزہ گری کی صنعت ہے لیکن یہاں کے برتن ہڑپہ کی صنعت سے قدرے مختلف ہیں۔ یہ نارا صنعت سے کسی قدر ملتی جلتی ہے۔ جہاں تک موٹے برتنوں کا تعلق ہے 1.6 سے 1.5 سنٹی میٹر تک موٹے ہیں۔ موٹائی اوسطاً 1 سنٹی میٹر ہے اور درمیانی سائز کی موٹائی 0.6 سنٹی میٹر اور سب سے پتلی 0.3 سنٹی میٹر ہے۔ ایسی ظروف سازی اعلیٰ قسم کی مٹی سے ہی بنائی جاسکتی ہے جو یہاں کی مٹی کی خاصیت ہے۔ ان میں سے بعض پہلے برتن کمہار نے چک پر بنائے ہیں اور موٹے صرف ہاتھوں سے بنائے ہوئے لگتے ہیں۔
پاٹری کی خصوصیات
ناڑی کی سطح سے ملنے والی ٹھیکریاں ہی ہماری تحقیق کا مرکز ہیں۔ جو تھوڑی بہت یہاں سے ملی ہیں اس کے متعلق ماہرین نے بتایا ہے کہ یہاں سے ملنے والے ظروف کے ٹکڑے بھی بڑے اہم ہیں۔ ان برتنوں کی باقیات میں سے یا تو ان کا گلا یا ان کا پیدا ملا ہے۔ یہ بھی ٹکڑوں کی شکل میں جن کے قطر کے اندازے سے برتن کی چوڑائی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ سب برتن ایک تسلسل سے مختلف جسامت کے ہیں، ان کی موٹائی میں بھی ایک تسلسل ہے جو کچھ ہوں ہے 1.1-0.9-0.8-0.7-0.6-0.5-0.4- یہ سارے ظروف بہت عمدہ ہیں۔ جن جن ٹھیکریوں پر کچھ نقش و نگار بنے ہوئے ہیں وہ چاکلیٹ کے رنگ کی پیتیاں گہری لہروں کے ساتھ ساتھ بنائی گئی ہیں۔ بعض اوقات پیلی مٹی بھی استعمال کی گئی ہے۔ ایک ایسا برتن کا ٹکڑا بھی ملا ہے جو پلیٹ کی شکل کا ہے اور جس کے اندر کسی تیز دھار آلے کی مدد سے کھود کر بیل بوٹے بنائے گئے ہیں اور یہ سب چیزیں کوٹ ڈیجی دور سے میل کھاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ بڑے بڑے ملکے ( جار) بھی انہیں ملے ہیں لیکن ہم نے کوئی نہیں دیکھا البتہ ان کے ٹکڑے ضرور دیکھے ہیں۔ اسی طرح چھ سات گھڑے بھی ایک قطار میں رکھے ہوئے ملے تھے جن میں سے ایک کا منہ دوسرے سے الٹ ہوتا تھا۔ وہ کس مقصد کے لئے رکھے گئے تھے، معلوم نہیں ہو سکا۔ ان میں سے کچھ نکال کر ماہرین کو دکھانے کے لئے اسحاق صاحب سکول بھی لے گئے تھے لیکن جو چھوڑ دیئے تھے وہ دوبارہ ندل سکے۔ ان کے اندر کا فورتسم کی چیز تھی ویسے خالی تھے۔
ہمارے بزرگ استادمحمد رفیق صاحب نے بھی دوران ملازمت بہت سی چیزیں اکٹھی کی تھیں لیکن افسوس کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد دوسروں نے دلچسپی لینے کی بجائے انہیں باہر پھینک دیا۔ ان سے زبانی جو معلومات حاصل ہوئیں وہ بھی ہر یہ کی صنعت ظروف سازی کے مطابق ہیں۔ مثلاً جانوروں کی تصاویر والے برتن، دائرے والے، چوکور والے ڈیزائن جو مختلف زتوں پر بنے ہوئے تھے، یہ بہت عجیب بات ہے کہ ناڑی کی تہذیب ہڑپہ سے اتنی دوری کے فاصلے پر ہونے کے باوجود وادی سندھ کی تہذیب سے ملتی جلتی ہے اور کسی حد تک اس کی پیش رو ہے۔ اس کے بعد ایک دوسری قسم کی ظروف سازی کا ذکر ہے۔ پہلی قسم کے برتنوں کو ڈار صاحب نے 43 اقسام میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل نمبر وائر لکھنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
ہاکڑہ طرز کی کھدی ہوئی ظروف سازی
یہ دو قسم کی ہے، ایک تو وہ ہے جو کوٹ ڈیجی کی صنعت ظروف سازی کی طرز کی ہے جن پر کھرے ہوئے بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں جو بڑی عمدہ قسم کی ہے۔ دوسرے بھدی قسم کی بغیر بیل بوٹوں کے ہے۔ اس میں کھدائی گہری ہے اور کسی حد تک کھلی اور آپس میں متوازی بھی ہے اور اسکی صنعت ظروف سازی کو محمد رفیق مغل نے ہاکڑہ صنعت ظروف سازی کا نام دیا ہے اور اس کا زمانہ چالیس ہزار سال سے میں ہزار سال تک بتایا ہے اور ان کی کثریت کوٹ دیجی اور ہر پہ سے پہلے کی ہے جو چولستان سے دستیاب ہوئی ہے۔ ناڑی کی صنعت اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ یہ ہڑپہ کی ظروف سازی سے مختلف ہے۔ اگر یہ واقعی ہر پہ سے قبل اور ہاکڑہ سے ملتی ہے، اس لحاظ سے ناڑی میں تین زمانے پائے جاتے ہیں (1) قبل از کوٹ ڈیجی کا زمانہ (2) کوٹ ڈیجی کا زمانہ (3) ہر پی کا زمانہ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ٹیلہ پاکستان میں آثار قدیمہ کے لحاظ سے ایک بہت بڑا قیمتی اثاثہ ہے جو پاکستان کے قدیم ترین ملنے والے آثار کو بھی مات کرتا ہے۔ سب سے قدیم زمانہ کوٹ ڈیجی کا ہے لیکن بقول سیف الرحمن ڈار صاحب کے یہ اس سے بھی قدیم ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیق مغل صاحب نے جو چولستان میں کام کیا ہے وہاں سے بھی انہوں نے ایسے ہی آثار دریافت کئے ہیں ان کے اندازے کے مطابق یہ آثار کم و بیش چالیس ہزار سے تمہیں ہزار سال قبل مسیح تک قدیم ہیں۔ چولستان سے ملنے والے ظروف بھی ہر پہ اور کوٹ ڈیجی سے ملنے والے برتنوں سے میل کھاتے ہیں۔ بقول مغل صاحب کے کبھی بہاولپور کا یہ صحرا کثیر بارشوں کی وجہ سے بہت زرخیز تھا اور آبادی بھی بہت تھی۔ بعد میں جغرافیائی حالات کے بدلنے سے آبادی کم ہوتی گئی۔ ڈار صاحب نے اپنے مضمون میں 45 نمبر سے 48 نمبر تک ان برتنوں کی خصوصیات گنوائی ہیں کہ کس طرح یہ ان برتنوں سے ناڑی سے ملنے والے برتن مطابقت رکھتے ہیں۔
ناڑی کا ایک بے مثال برتن
یہ برتن ناڑی ٹیلہ اے (A) سے ملا ہے۔ یہ چھ بڑے بڑے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ اس کا نہ 47.0 سنٹی میٹر ہے اور اس کی موٹائی 0.8 سنٹی میٹر ہے۔ اس کو پکا یا بھی خوب گیا ہے جیسے کہ دوسرے چھوٹے برتن پکتے ہیں۔ سب سے نمایاں چیز جو ہے وہ اس کی بہت خوبصورت سجاوٹ ہے۔ اس کی سجاوٹ میں جو رنگ استعمال کئے گئے ہیں وہ بھی اس علاقے کے لحاظ سے غیر معمولی ہیں۔ اس کے جو نمونے بھی ملتے ہیں وہ بڑی کاریگری سے بنائے گئے ہیں، وہ بڑے عجیب و غریب ہیں۔ اس میں صرف دور تنگ استعمال کئے گئے ہیں۔ یہاں سے ملنے والا یہ ایک بے مثال تحفہ ہے۔ اس طرح کا بڑا خوبصورت جار اور کہیں نہیں ملا۔
سوراخ دار برتن
مختلف اونچائی اور مختلف شکلوں کے بہت سے سوراخ دار برتن ملے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے جاروں سے لے کر چھوٹے برتنوں تک ایسے برتن ملے ہیں جن میں سوراخوں کی موٹائی 1.8 سنٹی میٹر ہے۔ سوراخ کرنے والوں نے بھی مختلف قسم کے ڈیزائنوں کو ذہن میں رکھ کر بہت شاندار نمونے چھوڑے ہیں، سب سے بڑا ٹکڑا 14×14 سنٹی میٹر ہے۔ تھوڑے سے وقت میں 13 سوراخ دار برتنوں کے ٹکڑے ملے ، ان میں سے ایک جار کی شکل بالکل ہٹر پہ کے طرز کے جار سے ملتی جلتی ہے۔ ان ٹکڑوں سے یہ انداز ولگا نا مشکل نہیں کہ ان کی اونچائی خاصی ہوگی اور موٹائی بھی اسی بات کی شہادت دیتی ہے۔ ان میں سے ایک حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ایسا ٹکڑا بھی ملا ہے جس پر وادی سندھ کی لکھائی کے حروف نمایاں ہیں۔ اگر ایسے کچھ اور شواہد بھی سامنے آ جائیں تو ہو سکتا ہے کہ یہاں سے ان حروف کے پڑھنے کی کنجی مل جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایک تاریخی انقلاب ہوگا۔ ایک بیل گاڑی کا حصہ بھی ملا ہے اور اسی قسم کے ہریہ سے بھی ملے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی جانور کا کوئی مجسمہ ابھی تک نہیں ملا۔ دو ایسے چھوٹے چھوٹے انگوٹھے سے بھی کم جسامت کے برتن ملے ہیں جن کی دیوار میں مودی ہیں۔ ایسے برتن گول وادی سے بھی ملے ہیں۔ اس قسم کے چھوٹے برتن دانا منڈی اور کوٹ دیجی سے بھی پہلے کے زمانے کے بتائے جاتے ہیں۔
مٹی کی تکونیاں
یہ تکونیں وادی سندھ کی تہذیب کی خاص نشانی ہیں۔ یہ شکل میں تکونی کے علاوہ گول بھی ہیں، ان پر انگلی کا نشان بھی ہے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کوئی جتنی چاہے حاصل کر سکتا ہے۔ گول محدب شکل میں بھی ہیں۔ بعض مستطیل بھی ہیں ۔ ڈاکٹر خان کو دادی سندھ کی تہذیب کی تشریح کے لئے ان کی رائے کو اتھارٹی خیال کیا جاتا ہے۔ وہ بھی ان تکونیوں کو کوٹ ڈیجی کی اہم نشانیوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان تکونیوں کی لمبائی جس کا ایک ضلع 9.9 ہے اور ان کی موٹائی 2.5 سنٹی میٹر ہے ، گول جو ہیں ان کا قطر 9.4 سم اور موٹائی 4.8 سم ہے۔ کناروں پر موٹائی کم ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ان کے درمیان میں انگوٹھے کا نشان ہے جو بناتے وقت لگا دیا ہوگا۔
مٹی کی مورتیاں
کافی تلاش کے باوجود کسی قسم کی مٹی کی پکی ہوئی مورتی یا انسانی شکل کا کھلونا نہیں مل سکا۔ وہاں موجود لوگوں سے بھی ڈاکٹر سیف الرحمن ڈاکر صاحب ماہر آثار قدیمہ نے بھی دریافت کیا کہ کبھی کوئی ایسی چیز ملی ہو ، سب نے نفی میں جواب دیا۔ ہڑپہ سے تو ضرور ملی ہیں لیکن کوٹ ڈیجی سے سوائے ایک بیل کی شکل کے کھلونے کے کوئی انسانی یا حیوانی مورتی نہیں ملی۔
ملی جلی مختلف اشیاء
ایک نیلے رنگ کا منکا ملا ہے۔ یہ اس پتھر کا بنا ہوا ہے جسے انگریزی میں LAPIS ZULI یالا جور دی پھر کہتے ہیں۔ اس قسم کا پتھر بقول ڈار صاحب کے پورے پاکستان میں کہیں نہیں ملتا سوائے افغانستان کے ۔ یہ کسی طرح وہیں سے لایا گیا ہوگا۔ اس میں سوراخ بھی تھے جس ے اسے پر دیا جاتا ہوگا۔ تین سفید رنگ کے پتلے منکے مختلف جسامت کے ملے ہیں جو شاید ہڈیاں میں کر. بنائے گئے ہونگے ۔ ان میں سے بڑے کا سائز 1.2 سم ہے اور سوراخ 1.2 سم ہے۔ دوسرے دو کی پیمائش کچھ یوں ہے. 0.1،0.9 اور 750.8. سم ہے۔ اس قسم کے پہلے مئے گلا ڈیرہ اسمعیل خان سے بھی ملے ہیں۔ ایک چکور شکل کا بٹن بھی ملا ہے جو 2.4×2.4 سم ہے۔ اس کے کنارے گول کر دیئے گئے ہیں۔ اس میں دو سوراخ ہیں اور چار حصے بنا کر ان میں سے ہر حصے میں چار چار ہم مرکز دائرے بنائے گئے ہیں۔ یہ بٹن یا تو ہڈی کا بنا ہوا ہے یا ہاتھی دانت کا ہے۔ اسی قسم کے بٹن مہر گڑھ اور رحمان ڈھیری سے بھی ملے تھے لیکن سالم حالت میں نہیں ملے بلکہ ٹکڑے ملے ہیں۔ صرف یہ ناڑی سے سالم حالت میں ملا ہے۔ بعض نے COG WHEEL SHAPED SEAL کہا ہے۔ اس طرح تانے کی ہر بھی، نوشہرہ مہرگڑھ سے ملی تھی۔ اس علاقے میں بٹن کی دریافت پاس کازمانہ کوٹ ڈیجی سے قبل کا خیال کیا جا سکتا ہے۔ ڈار صاحب اسے بٹن سیل یا مہر کا نام دیتے ہیں۔
چوڑیاں
ناڑی سے دو قسم کی چوڑیاں ملتی ہیں، ایک سفید رنگ کی ہیں جو کہ سمندر کے گھونگے کو کاٹ کاٹ کر بنائی جاتی تھیں۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سمندری گھونگے دریائی تجارت کے ذریعے یہاں آتے ہونگے۔ اس زمانے میں دریا ہی کے ذریعے آمد و رفت ہو تھی تھی ۔ دریا ملکی تجارت کے لئے موٹر وے ہوتے تھے ۔ سکندر نے بھی واپسی دریائے جہلم کے ذریعے کی تھی۔ غریب لوگ مٹی کی چوڑیاں اور دوسرے زیورات بنا کر آگ سے پکا کر استعمال کرتے تھے۔ ایسے زیورات مورتیوں میں نظر آتے ہیں۔ دو پتھر کے گولے بھی ملے ہیں اور مٹی کے پکے گولے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ پتھر کے اوزار چھریاں وغیرہ نہ ایک پتھر کا بنا ہوا سفید رنگ کا بلیڈ ملا ہے جس پر سیاہ داغ ہیں ۔ یہ 5.2 سم لمبا اور 1.8 کم چوڑا ہے۔ ایسے مختلف رنگوں اور لمبائی میں کافی ملے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی کور (CORE) بھی ملی ہے جس سے یہ کاٹ کاٹ بنائے تھے۔ خلاصہ کلام … در حقیقت ناڑی کے آثار قدیمہ کی دریافت سے جس کا تعلق دریائے راوی کے دائیں کنارے سے لے کر دریائے سندھ تک کا علاقہ ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ بھی دوسرے علاقوں کی ایک قدیم تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ ناڑی کے آثار یقیناً کوٹ ڈیجی اور ہڑپہ کے آثاروں سے بھی قدیم ہیں ۔ کوہستان نمک میں بعض اور آثار بھی ملے ہیں لیکن ان کا رقب اتنا چھوٹا ہے کہ مزید تحقیق کیلئے کچھ نہیں لیکن ناڑی کا رقبہ ابھی اتنا وسیع ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی کافی گنجائش باقی ہے کیونکہ یہ تو ابھی اس کی سطح کا جائزہ لے کر رائے دی گئی ہے ، ابھی اس کی باقاعدہ کھدائی ہو تو مزید انکشافات کی توقع ہے۔ فی الحال یہ ہڑپہ اور کوٹ ڈیجی سے قبل کی تہذیب ہے۔ زمانہ ایک محتاط اندازے کے مطابق مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں اس کا زمانہ میں ہزار سال قبل مسیح سے 15000 سال قبل مسیح تک کا زمانہ کہا جاسکتا ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا قدیم ترین زمانہ ہے۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے