سلطان محمد غوری
سلطان شہاب الدین غوری کے والد کے نام بہا الدین سام تھا اور اس کے بھائی کا نام غیاث الدین محمد تھا۔ اپنے چا زاد بھائی سیف الدین کی وفات کے بعد غیاث الدین بر سر اقتدار آگیا اور اس نے اپنے بھائی شہاب الدین کو افواج کا کمانڈ رانچیف بنا دیا اور اسے تکناباد کا علاقہ بطور جا گیر دے دیا۔ یہ غزنی اور غورستان کے درمیان واقع تھا۔ اس عہد میں غوریوں کے اکثر دو نام ہوتے تھے۔ ایک دینی حوالے سے خطاب یا لقب ہوتا اور دوسرا عہدے میں ترقی کے ساتھ تبدیل کر لیا جاتا۔ دونوں بھائیوں کے نام محمد ہی تھے البتہ دینی خطاب کی رو سے پہلے بڑے کا نام شمس الدین تھا اور پھر برسراقتدار آ کر غیاث الدین لقب اختیار کیا جبکہ چھوٹا بھائی پہلے شہاب الدین تھا پھر غزنی کا حاکم بن کر معز الدین بن گیا۔ گویا اب اس کا نام معز الدین غوری تھا اور پورانام سلطان شہاب الدین سام غوری تھالیکن مشہور شہاب الدین غوری کے نام سے ہی ہوا۔
فتوحات
شہاب الدین غوری نے اپنے بھائی کے نائب کی حیثیت سے برصغیر کی فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور بہت جلد صوبہ سرحد اور سندھ پر قابض ہو گیا۔ آخر 1186 میں لاہور پرحملہ کر کے آخری غزنوی بادشاہ خسرو ملک سے لاہور لے کر پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح پوری وادی سندھ پر قابض ہونے کے بعد اس نے ہندوستان کی فتح کا آغاز کیا۔ ترائن کی پہلی لڑائی میں غوری کو گھوڑے سے گرنے کے سبب شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے اس کا بدلہ لینے کے لئے پوری تیاری کی اور اگلے سال پھر ترائن کے میدان میں پر تھوی راج والے اجمیر سے مقابلے ہوئے جس میں پرتھوی راج مارا گیا اور میدان غوری کے ہاتھ رہا۔ غوری نے اجمیر کی حکومت پر پر تھوی راج کے بیٹے کولا کو ہی دے دی۔ نیز سلطان نے قطب الدین ایک کو خود مختار حاکم بنا دیا۔
1197ء میں ایک نے دہلی کو اپنا پایہ تخت بنایا جو آج بھی بھارت کا دارالحکومت ہے۔ اس سے ایک کی فراست کی داد دینا پڑتی ہے۔
کھوکھر اور غوری
فرشتہ کے بیان کے مطابق لاہور میں قیام کے وقت شہاب الدین کو معلوم ہوا کہ کھوکھر وں نے بڑے ہنگامے شروع کر رکھے ہیں۔ کھوکھر اس وقت لامذ ہب تھے اور انہوں نے پنجاب میں تمام راستے غیر محفوظ بنا دئیے تھے۔ کھوکھروں کی اکثر آبادی دریائے جہلم کے مغربی اور مشرقی کنارے دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے ان کا مرکز کھو کھرانہ ضلع سرگودھا میں کڑا نہ پہاڑی کے قریب تھا، بعد میں وہ اسے تلوارہ لے گئے۔ محمود غزنوی کے بعد کھوکھروں نے بھیرہ سے شورکوٹ تک کا علاقہ قبضے میں کر رکھا تھا۔ خوشاب بھی اس میں شامل تھا بلکہ خوشاب ان کا ذیلی مرکز تھا اور بھیرہ سے زیادہ اہمیت تھی کیونکہ اس طرف ان کی آبادی زیادہ تھی ۔ ملتان کے قرامطی گورنر سے کھوکھروں نے معاہدہ کر رکھا تھا جس کی رو سے انہوں نے محمود اور محمد غوری کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ 1205ء میں کوہستان نمک کے کھوکھر قبیلے نے راجہ رائے سال کی قیادت میں محمدغوری کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس کے باغی دستوں نے لاہور لوٹا اور ملتان کے نائب گورنر کو قتل کر کے خراج کی ادائیگی بند کر دی ۔ سلطان غوری ان کی سرکوبی کے لئے 20 اکتوبر 1205 ء کو خود یہاں آیا۔
جہلم اور چناب کے مابین کڑا نہ پہاڑی کے قریب اپنے دارالحکومت کھو کھرانہ میں کھوکھروں نے مورچے بندی کر رکھی تھی۔ صبح سویرے جنگ کا آغاز ہوا۔ کھوکھر برہنہ پاننگے سر تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے مسلمانوں کی خندقوں تک پہنچ گئے ۔ سلطان کی فوج پر حملہ کر کے سلطان کے چار ہزار سپاہی شہید کر دئیے ۔ قریب تھا کہ سلطان کا لشکر شکست کھا جاتا مگر عین اس وقت پر خوش قسمتی سے قطب الدین ایک تازہ دم فوج لے کر پہنچ گیا اور جنگ میں شامل ہو کر دشمن کی فوج گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دی۔ دو کھو کھر سردار جن کے نام سر کا اور با کان تھے پسپا ہوتے ہوئے کوہستان نمک کی وادی سون میں کھبیکنی کے قریب قلعہ اکرند میں جا کر پناہ گزین ہو گئے مگر مسلمانوں نے محاصرہ جاری رکھا اور آخر کار انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ باغی قلعہ سے بھاگ کر قریبی جنگل میں جاچھیے۔ مسلمانوں نے جنگل کو آگ لگا کر باغیوں کو راکھ کر دیا۔
کھوکھروں کا قبول اسلام
جب کھوکھر سلطان محمد غوری سے لڑ رہے تھے ، اس عرصے میں ایک مسلمان سپاہی اتفاق سے کھوکھروں کے علاقہ میں چلا گیا جسے انہوں نے گرفتار کر لیا۔ یہ مسلمان صوم وصلوٰۃ کا پابند تھا۔ جب کھوکھروں نے اس کی عبادت کے طور طریقے دیکھے تو ان کے سردار سکائے سپاہی سے دریافت کیا کہ اگر محمد غوری کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو جاؤں تو وہ مجھ سے کیسا مسلوک کرے گا۔ مسلمان نے جواب دیا جو بادشاہ سے بادشاہ کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت اچھا سلوک کرے گا۔ چنانچہ اس مسلمان قیدی نے محمد غوری کو سردار کی گفتگو سے بذریعہ عرضداشت آگاہ کرنے کا ارادہ کیا اور پوچھا کہ کیا کرنا چاہئے ۔ سُکا اس وقت لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سُکا نے مسلمان قیدی سے مذہب، فلسفہ حیات اور ثقافت کے بارے میں بھی سوالات کئے ۔ اس مسلمان نے اسلامی تعلیمات عبادات اور تصور زندگی کا تفصیلی بیان ان کے سامنے پیش کیا۔ سُکا بہت حد تک مطمئن ہو گیا اور اس نے کہا کہ اگر میں اسلام قبول کرنے کی خاطر سلطان شہاب الدین کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے جاؤں تو وہ مجھے قتل تو نہیں کوے گا۔ مسلمان قیدی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ تم سے نہ صرف مہربانی سے پیش آئے گا بلکہ عین ممکن ہے که کوهستان کی حکومت بھی تمھارے حوالے کر دے۔ چنانچہ جب سلطان کو پتہ چلا تو اس نے فوراً ایک مرصع کمر بند اور گراں بہا خلعت سردار شکا کے لئے بھجوائی اور اپنے دربار میں طلب کیا۔ سکا نے حاضر ہو کر ملاقات کی اور اسلام قبول کر لیا اور اس کے پہنچنے پر تمام کھوکھر مسلمان ہو گئے لیکن انہیں تو پورے پنجاب کی حکومت کی توقع تھی اور یہاں صرف کوہستان نمک کی حکومت ملی۔ اس لئے وہ مطمئن نہ ہوئے بلکہ مایوس ہو کر سلطان کے خلاف منصوبے بنانے لگے۔
سلطان کی شہادت
سلطان محمد غوری کے بڑے بھائی سلطان غیاث الدین کی 1204 ء میں وفات کے بعد جب یہ خبر پنجاب پہنچی تو ایک بار پھر کھوکھروں نے علم بغاوت بلند کیا اور لاہور پر چڑھائی کی۔ قطب الدین ایک ان کی سرکوبی کے لئے دہلی سے لشکر لیکر روانہ ہوا۔ شمس الدین التمش جو اس زمانے میں ایک کا جرنیل تھا۔ اس یلغار میں ان کے ساتھ تھا۔ یہ دونوں مل کر بھی بغاوت کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے کہ حمد غوری بجلی کی رفتار سے غزنی سے لاہور پہنچا۔ اب تینوں نے ملکر پنجاب کی اس بغاوت کو چل دیا لیکن یہ فتح محمد غوری کو مہنگی پڑی کیونکہ واپس جاتے ہوئے جب وہ جہلم کنارے دھیک (فرشتہ کے بقول بر میک کے مقام پر) خیمہ زن تھا تو 8 مارچ 1206ء کی رات 20 کھوکھر شاہی خیمہ میں داخل ہوئے اور دربان پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ دربان زخمی ہو کر بھاگ گیا۔ باقی محافظ بھی بھاگ گئے ۔ کھوکھروں نے خیمے میں داخل ہو کر سلطان پر چھروں سے اور بنجروں سے حملہ کر دیا ۔ سلطان کو 22 گہرے زخم لگے اور وہ شہید ہو گئے سلطان نے کل 35 سال حکومت کی ۔ سلطان کی ایک ہی بیٹی تھی اور وہ بھی بے اولاد رہی ۔ اس کی کوئی نسل نہیں چلی البتہ اس کے ترک غلام جنہیں اس نے بیٹوں کی طرح پالا اس کے بعد ملک کے وارث بنے ۔ غوری کی شہادت کے وقت سلطانی خزانہ چار ہزار اونٹوں پر لدا تھا۔ فوجی اس خزانے کو لوٹنے پر تل گئے لیکن امرا اور فوجی سرداروں کے سمجھانے پر رک گئے ۔ سلطان کو اس محل میں دفن کیا گیا جو اس نے اپنی بیٹی کے لئے بنوایا تھا ( تاریخ فرشتہ جلد اول ص 231 ) اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سوہاوہ کے قریب دھمیک میں دو کروڑ کی لاگت سے شاندار مقبرہ تعمیر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ سلطان نے انہیں خواب میں آکر قبر کی خستہ حالی کا اشارہ دیا تھا۔ ایک قبر تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں بھی ہے جو شاہ شادی کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر شاندار مقبرہ بھی چھوٹی اینٹوں کا ہے۔ کہا جاتا ہے اصل میں شہاب الدین کی ہے جو بگڑ کر شاہ شامدی بن گیا۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے