سلطان محمود کی یلغار
سلطان محمود 971ء کو پیدا ہوا اور 1998 ء میں والد کی وفات کے بعد بادشاہ بنا سینگین کی وفات کے وقت امیر اسمعیل جس کی عمر صرف سولہ سال تھی اور محمود سے چھوٹا تھا، امیر بنادیا گیا۔ محمود اس وقت نیشا پور میں تھا۔ محمود کی ماں ایک زابلی امیر کی بیٹی تھی اور اسمعیل کی ماں امیر اتیکتین والی غزنی کی بیٹی تھی۔ ان دونوں میں تخت نشینی کے لئے جنگ ہوئی۔ محمود کامیاب رہا اور اسمعیل ساری عمر قید میں رہا جہاں اسے تمام سہولتیں دی گئیں۔
غزنی پر قبضہ کرنے کے بعد محمود نے اپنی ریاست کو ایک عظیم سلطنت میں تبدیل کرنے کے لئے جد و جہد شروع کر دی۔ اس وقت سامانیوں کی جگہ چینی ترکستان کا امیر ایلک خان لے پیکا تھا۔ اس قبضے سے وہ بہت طاقتور ہو گیا تھا۔ اس کا دارالحکومت کا شغر تھا۔ محمود نے اس کی بیٹی سے 999ء میں شادی کر لی جس سے اس کی طاقت میں اضافہ ہو گیا۔ محمود نے آہستہ آہستہ ہرات، بلخ اور خراساں پر قبضہ کر لیا۔ عباسی خلیفہ نے محمود کو امین الملک اور یمین الدولہ کا خطاب دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اس علاقے پر سامانیوں کی بجائے محمود خلیفہ کا نمائندہ ہے۔ اس کے فورا بعد محمود نے اپنے لئے سلطان کا لقب اختیار کیا جو اسلامی تاریخ میں پہلی بار کسی حکمران کا لقب بنا تھا۔ ایلک خان اور محمود کے سیاسی اور خاندانی اتحاد کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ وسط ایشیا کے لاکھوں افراد نے اسلام قبول کر لیا۔
جے پال سے جنگ
ستمبر 1004 میں محمود نے پشاور پر حملہ کیا یہ جنگ اس جگہ ہوئی جہاں اب پرل کانٹی مغل ہوٹل ہے جے پال کو شکست ہوئی اور گرفتار ہو گیا اور بھاری تاوان دے کر جان چھڑائی۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق جو ہندو راجہ دو مرتبہ مسلمانوں سے شکست کھا جائے وہ حکومت کے قابل نہیں رہتا۔ اس گناہ کو آگ ہی پاک کر سکتی ہے۔ چنانچہ وہ چتا جلا کر مرا۔ اس کے بعد آئند پال راجہ بنا۔ اس نے اوبھنڈر پور کی بجائے نندنہ کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ اسے بھی محمود نے شکست دی اور یہ 1012ء میں مر گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا تر لوچن پال راجہ بنا۔ محمود نے نندنہ میں جنگ کر کے اس پر کار ضرب لگائی اور اس خاندان کی حکومت ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی۔ سوات میں راجہ گیرا کی حکومت تھی۔ وہ اسی خاندان سے تھا۔ ان کا مرکز اڈیگرام کا قلعہ تھا جہاں محمود کے جرنیل پیر خوشاب نے فتح حاصل کی۔ اس کی قبرو ہیں پر ہیں اور آج بھی پیر خوشاب کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ہے کہ محمود کے زمانے میں خوشاب مشہور جگہ تھی اور یہاں مسلمان بھی موجود تھے۔ راقم نے دو دفعہ وہاں حاضری دی ہے اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کی وجہ سے ہمارے ضلع کا نام لوگوں کی زبان پر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے اکثر خوشاب کے محل وقوع سے بھی واقف نہ ہوں۔
محمود نے بر صغیر پر سترہ حملے کئے اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بدولت ہر بار کا کامیاب رہا۔ وہ ایک بے مثال فاتح تھا۔ اس نے اپنے لشکر کے ساتھ پہاڑوں، دریاؤں، جنگلوں اور صحراؤں کو بڑی حکمت عملی سے عبور کیا۔ وہ عظیم جرنیلوں کی طرح اپنی اولوالعزمی ، جرات، بے مثال قوت ایمانی ، حیران کن جنگی چالوں اور نا قابل یقین برق رفتاری سے دشمن پر قابو پا تا تھا۔ ان سب کے باوجود اس کا سب سے بڑا ہتھیار اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور دعا تھی۔ آخر 30 اپریل 1030 ء ساٹھ سال کی عمر میں جان جان آفرین کے سپرد کی۔ آخری آرامگاه گلستان فیروزی غزنی
میں ہے۔ لوح مزار پر یہ الفاظ کندہ ہیں:
در ہند عبادت غیر الله را پخ کن
سلطان محمود غزنوی بت شکن
محمود کے عہد کی سیاست
علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر حبیب نے اسلام کے عروج سے لے کر چنگیز خان کے
ہاتھوں مسلم ایشیا کی فتح تک کا زمانہ چار حصوں میں تقسیم کیا ہے جس سے اس عہد کی تاریخ واضع صورت میں سامنے آجاتی ہے
۔
(1) پہلا عرصہ 622ء تا 748 ء اسلامی اقتدار کے پھیلاؤ کا زمانہ جس میں خلافت راشدہ اور بنوامیہ کا زمانہ شامل ہے۔ اس دور کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مسلمانوں نے عرب، عراق، شام، وسط ایشیاء ایران ، شمالی افریقہ اور سندھ میں فتوحات حاصل کیں۔
دوسرا عرصہ 748 ء تا 900 ء عباسیوں کا زمانہ ہے۔ اس دور میں کوئی مزید فتوحات نہیں ہوئیں۔ یہ عالمی تہذیب کا زمانہ جس میں عربی زبان تمام دنیائے اسلام کے تعلیم یافتہ طبقہ کی
زبان بن گئی۔
(3) تیسرا حصہ 900 ء تا 1000 ء چھوٹے حکمرانوں کا زمانہ ہے جس میں خلیفہ کا مرکزی انتظام ختم ہو گیا اور اکثر امراء خود مختار ہو گئے ۔ اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ فارسی نے تمام علمی ادبی طبقات کی زبان کی حیثیت اختیار کر لی اور اس دور میں خلافت کی بجائے شہنشاہیت کا تصویر سامنے آیا۔
(4) چوتھا دور 1000 ء تا 1220 ء ترک ایرانی سلطنتوں کا زمانہ ہے۔ اس میں ایرانی تصورات کا سیاسی اظہار ہوا۔ اس میں غزنوی سلجوق اور خوارزمی خاندان کی حکومت شامل ہیں۔ محمود چھوٹے بادشاہوں میں سب سے آخری اور ترک ایرانی شہنشاہوں میں سب سے پہلا تھا۔ وہ تیسرے اور چوتھے دور کے سنگم پر تھا۔ عالم اسلام فرقہ وارانہ لڑائیوں میں گھر چکا تھا۔ محمود نے ان سے بیچ کر ایرانی ثقافت کی بحالی کی سر پرستی کی ۔ ایرانی زبان جو تعلیم یافتہ طبقات
سے خارج ہو چکی تھی۔ اسے دوبارہ سرکاری سرپرستی سے نواز ا گیا اور قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ سلطان اپنی حکومت کو خلافت کی بجائے سلطنت کہتا تھا۔ اس وقت مندر بنک بنے ہوئے تھے ۔ زرمبادلہ ، سونے چاندی اور ہیرے جواہرت کی شکل میں تھا۔ اس لئے محمود نے انہیں لوٹا اور بت توڑے جن میں ہیرے اور سونا چاندی استعمال ہوتا تھا۔ تجارتی شاہراہیں کھلی تھیں۔ ادب او پر آ گیا اور سائنس پستی میں چلی گئی۔ غزنوی افسروں نے لاہور کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے ۔ یہاں انہوں نے شاندار محل تعمیر کئے ۔ یوں لاہور شہر جو ایک چھوٹا سا پسماندہ قصبہ تھا، اب شاندار بین الاقوامی شہر بن گیا۔ لاہور کی عظمت کا آغاز غزنویوں سے ہوتا ہے۔ اس کی شان کو دو بالا کرنے والے یہی لوگ تھے۔ محمود کے منظور نظر غلام ایاز کی قبر بھی لا ہورشاہ عالمی میں ہے۔
ترک فوج
غزنوی فوج کے تمام جرنیل اور بڑے افسر ترک غلام تھے ۔ خود غزنوی خاندان بھی ترک تھا اور غلاموں کی اولاد سے تھا۔ تمام جرنیلوں کو بڑی بڑی جاگیریں دیں۔ ان جرنیلوں اور فوجوں کو غزنوی خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ چونکہ یہ سب حکومت کے ماتحت تھے اس لئے یہ ہندوشاہی جاگیرداروں کی طرح آپس میں لڑ نہ سکتے تھے۔
عورتوں کا پردہ
سلطان محمود ہی کے زمانے میں ترک افسروں کی بیگمات کے لئے پر دہ اور برقع لازمی قرار دیا گیا۔ غالباً برقع اسی زمانے کی ایجاد ہے اور اس سے پہلے پوری دنیا میں برقع کہیں نہیں تھا۔ قبل ازیں پردہ کے لئے فقط چادر استعمال ہوتی تھی ۔
تجارت
غزنوی دور میں تجارت کافی پھیل گئی اس زمانے میں تجارت کا اتناز دور تھا کہ براہمن بھی تجارت کرنے لگے مگر خود سامنے آنے کے بجائے کسی تجارت پیشہ آدمی سے کام لیتے تھے۔ وادی سندھ میں بے تحاشہ درآمدات کا زمانہ ہے۔ ان ایرانی اشیا کے ساتھ ایرانی کلچر بھی قدرتی طور پر آتارہا
اسلامی تصوف
پہلی بار غزنوی دور میں اسلامی تصوف وادی سندھ میں آیا ۔ اسی دور میں نقشبندیہ سلسلہ سب سے زیادہ مقبول ہوا ۔ اس سلسلہ کے اور اس عہد کے عظیم ترین صوفی حضرت شیخ علی ہجویری العروف داتا گنج بخش ہیں جن کی کتاب کشف المحجوب تصوف کے تعارف کے سلسلہ میں آج بھی دنیا کی بہترین کتاب ہے۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے