میانوالی کی ثقافت

میانوالی: ثقافت

پروفیسر سرور نیازی

 

میانوالی کی ثقافت

پروفیسر سرور نیازی

عموما” ثقافت سے مراد آداب، اخلاق، اطوار، زبان، معاشرت، رسوم و رواج، فنون، تفریح، کھیل ، طرز تمدن وغیرہ لیا جاتا ہے۔
میانوالی کے لوگ کوئی کاروباری لوگ نہیں ہیں۔ نہ ہی یہاں کوئی خاندان کاروبار پر چھایا ہوا ہے۔ لہذا ذہنیت بھی خالصتا” کارباری نہیں۔ لیکن صنعتی سرمایہ کاری کی طرف رجحان صفر ہے۔ وہ غالبا” کوئی ایسا کاروبار نہیں کرنا چاہتے جس میں لمبے چوڑے دھندے کرنا پڑتے ہوں۔ پلازہ بنا لیا، مارکیٹ تعمیر کرلی، ٹھیکیداری کر لی یا سٹور بنا لیا۔ مہمان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں۔ مہمان کو ”چاہ پانی کی دعوت ہر کوئی دیتا ہے۔ بغیر کھلائے پلائے جانے دینا شاذ ہے۔ ہے۔ گھیو شکر ” اور ” لکڑی حلوہ ” سب سے بڑی مہمانی” سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح خلوص و دیانت بھی تسلیم شدہ ہیں۔ یہاں صرف "شنا” کہتے نہیں ، دل و جان سے آشنائی کرتے ہیں۔ ” شنا سنگی، بیلی” کے الفاظ ہماری روح کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں۔
علاوہ بریں میانوالی پورے پاکستان میں واحد علاقہ ہے جہاں اجنبیوں کو بھی رشتے سے پکارتے ہیں۔ کوئی صاحب اے مائی، ارے میاں، جیسے خطابات یہاں نہیں ہیں۔ چھوٹا بچہ بھی کسی بھی اجنبی کو یہاں تک کہ بھکاری کو بھی چاچا، ماماں، دادا نانا کہہ کر پکارے گا۔ "خروندوں کو خالی ہاتھ کبھی نہیں لوٹاتے، کچھ نہ کچھ آنا دانا ضرور دیتے ہیں۔ کٹائی (نئی فصل) اور ڈھیری” کے موقع پر کسان بڑا ہی فیاض ہوتا ہے اور مانگنے والوں کو لاد دیتا ہے۔
ہماری کھانے پینے کی عادات سادگی سے چاشنی کی طرف کم خوری سے بسیار خوری زمینی اجناس سے مصنوعی مصالحہ جات وغیرہ کی طرف روبہ ترقی ہیں۔ کہاں گئے ڈھوڈے (جوار کی روٹی) پیاچے (باجرہ کی روٹی) سے (چنوں کی روٹی) لسی لسن پلا (ایک قسم کی کڑھی نما چٹنی) تراڑے، بچھایاں (چنوں کے بھنے دانے اور گجر)   مرونڈے ، کڑاھیاں، میرے ، مٹھیاں، پھلے، مائیاں، تڑکے، آزادی کے بعد سے ایک انقلاب رونما ہو چکا ہے۔ صبح شام ترکاریوں نے رواج پا لیا ہے۔ پرانے کھانے پینے اور پکانے کے طریقے بدل گئے ہیں۔ اب تو حالات نے ایسی ڈکٹیٹر شپ قائم کی ہے کہ کسی کو سکون سے بیٹھ کر کھانا نصیب نہیں۔
مزاج سماج کی مشین میں تیل کا کام کرتا ہے۔ ہمارے یہاں ٹھٹھے ” ” مخول” "ہا سے ” ” بکاڑ” کے کئی آہنگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن سب سے مقبول ” ٹوک” اور ” چہر ہیں۔ چیڑ کی دو اقسام ہیں۔ اول، نقلیں اتارنا دوم، مختلف علاقوں یا ذاتوں سے وابستہ مزاحیہ خصوصیات ہر علاقے میں کچھ لوگ نقلیں اتارنے میں ماہر ہوتے ہیں اور خاص خاص مواقع پر مثلا” شادی بیاہ پر لوگوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ طلاق کی شرح کم ہے۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کا رواج بھی بہت ہی کم ہے۔ لیکن اس کی وجہ بھی اقتصادی اور سماجی ہے۔
گھر میں کھیل کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی بھی دیہات میں کھیل کا نہ تو کوئی باقاعدہ میدان نہ ہی پارک ہے۔                                                                                                                             بے کاشت کھیتوں اور کھلی جگہوں سے یہ کمی کسی حد تک پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن آج کل بچوں کو (کم از شہروں ، قصبوں میں کھلا گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ گھر پر آپس میں پیڈ گرے ” "لڈو ” ” چھپ چھڑ کی ” یا ” پنجمی سائی” کھیل لیتے ہیں۔ ماضی کے بچوں کے کھیل مثلا” "باڈی باڈی مون مناری“ ”اٹی ڈنا” میلوں دور تک ”چھپ چھڑ کی ” "چور بویا ” ” پیتے لائو” وغیرہ قریب قریب بالکل ناپید ہیں۔    بزرگوں کی جانب رویہ میں ایک خاموش تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کے احترام میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شاید یہ تاثر کسی حد تک درست ہو مگر میں اس کی تعبیریوں کروں گا کہ بزرگوں کے احترام میں نہیں، بلکہ ان کی گرفت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لوگ ابھی تک مشترکہ خاندانی نظام کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں اگرچہ اس کی فرسودگی عیاں ہے۔ اس کی کچھ نہ کچھ افادیت سے انکار ممکن نہیں مگر اس میں ایسی لچک پیدا نہیں کر سکے کہ جب بھائی الگ ہونا چاہیں تو ہنسی خوشی ایسا کر
سکیں۔

والدین کو اماں ابا یا بابا کہہ کر پکارتے ہیں۔ امی اور ابو درآمد شدہ کلچر ہے۔ جو کافی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اب چاچا آہستہ آہستہ انکل بنتا جا رہا ہے اور پھوپھی ، پھپھو اور عمار ممی کی نوبت نہیں آئی۔ بہوؤں کی جانب سے ساس سر کو امی را با کتنے کا رواج ابھی ابھی شروع ہوا ہے۔ زیادہ صورتوں میں بہو انہیں چاچار ماما یا پھپھی مای ہی کہتی ہے۔ تعلیم میں جدیدیت کی زد پر ہین لیکن تعلیم کے پھیلاؤ کے باوجود ساس ، بو جھگڑوں کی وسعت یا شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ایسی عورت جس کے سرے سے بچے نہ ہوں، یا ہو کر مر جاتے ہوں یا یہ صرف بیٹیوں کو جنم دے سکی ہو، اپنے آپ کو ہلکا غیر محفوظ اور ہوا میں معلق تصور کرتی ہے۔
میانوالی ایک مربوط اور بے سردار سماج ہے۔ یہاں کسی وڈیرہ شاہی یا سخت ذات پات کے نظام کی عدم موجودگی کی بنا پر کوئی مکمل عمودی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ تاہم امتیازات ہیں ضرور اگرچہ وہ متوازی ہیں۔ آپ سہولت کی خاطر ذاتوں کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ غیر پیشہ (پرب) اور پیشہ ور (کمی) کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ لفظ ” کی ” کمین کمی سے مشتق ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ یہ لفظ "کام” سے مشتق ہے اور اس کا مطلب ہے کارکن، پیشہ ور ہاتھ سے کام کرنے والا نہ کہ ذلیل، گھٹیا چھوٹا وغیرہ جو کچھ لوگ رعونت اور نفرت کے اظہار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لفظ کو کہیں کہیں "کامی” بھی کہا جاتا ہے جو زیادہ مناسب ہے۔ صنعت و حرفت اور خصوصی مہارت کے اس دور میں جہاں کچھ شعبوں پر زد پڑی ہے وہاں کچھ دوسرے پیشوں کو بڑا فروغ ملا ہے۔ مثلا” سنار کا کام بے حد ترقی کر گیا ہے اور یہ پیشہ زور دار کاروبار کر رہا ہے اور کرتا رہے گا جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کر لیتے کہ شادی زیورات کے بغیر بھی ممکن ہے۔ واٹر کولروں، فریجوں، اور ڈیپ فریزروں کی آمد کے پیش نظر کمہاروں کا کام کافی سکڑ گیا ہے۔ مشینی چکی کی آمد نے ان سے پکیاں، پیارے، ترنجن اور چندر پہلے ہی چھین لئے تھے۔ ادھر جدید تہذیب نے دورہ دوری سگلی تاز ، پھیلی، بادیہ، بٹھلی، سانک، و دھڑیں ڈیوے، شرپوش، مائی، مانا کٹ، مٹکے، کٹوی کٹوے کوزہ صراحی وغیرہ کو فرسودہ قرار دے دیا ہے یا پھر ان میں سے کچھ چیزیں یا ان کے متبادل بھی کارخانوں میں تیار ہونے لگے ہیں۔                                                                                                                                            اب لے دے کے تمہار کے پاس گھڑے بنانے کا کام رہ گیا ہے۔ دیکھئے اس کا کب انتقام ہوتا ہے۔ ٹریکٹروں، سرکاری ہوں، بار بیڑیوں کی آمد کے ساتھ مل (ترکھان کا کام) پھالہ (لوہار کا کام) کا خاتمہ ہو چلا ہے۔ کلی، پنجابی جانگی، نالی وغیرہ جیسی چیزیں بھی نی بند ہو گئی ہیں۔ سیخاں (گوشت بھوننے کے لئے) ترینگل کراہیاں البتہ ابھی تک بن رہی ہیں کیونکہ ہارویسٹروں نے ابھی تک (۱۹۹۳ء) پوری طرح رواج نہیں پایا اور تھریشر اتنے اچھے نہیں ہیں اور وہ ابھی تک ترینگل اور کراہی کے محتاج ہیں۔ لونٹر کیاں ڈولیاں، ہوا دیناں، پاوے ، پلنگ، منجے، کرسیاں اور اب صوفے بھی زور شور سے بن رہے ہیں۔ لیکن لکڑی کی ناڑے پاہنٹریاں اور پیڑے بنے بند ہو گئے ہیں۔ پیڑھیاں البتہ بن رہی ہیں۔
موچی کا کاروبار، باوجود مشینوں پر بڑی تعداد میں بنائے گئے پاؤں کے ہر قسم کے پہناووں کے پورے زوروں پر ہے۔ کنے والی کھیڑی نہ سہی، ہر قسم کی جوتیاں اور جوتے بنائے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر کو ہائی چپل اور تلے والی یا بغیر تلے کے جوتی یا کھیڑی کھے بھی بن رہے ہیں۔
شادی بیاہ کے موقع پر کمیوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ شہروں میں تو اب شادی بیاہ بھی ان کی مہارت کا محتاج نہیں رہا۔ دیہاتوں میں شادی ابھی تک کمی ہی سماتے ہیں۔ دعوت (کنڈ کا نڈھ ” کا کام زبانی ہوتا ہے۔ کام نائی یا مراثی سرانجام دیتا ہے۔ کوے لوہار اور ترکھان مل کر پکاتے ہیں۔ آٹا کمہار گوندھتے ہیں جب کہ روٹی لوہاریاں اور ترکھانیاں پکاتی ہیں۔ گھبرو کو کپڑے ترکھان پہناتا ہے ڈھول مرائی بجاتے ہیں۔ ہم گائے بھینس بڑے پیار سے پالتے ہیں اور اسے خوشحالی کی علامت (ددھ ہر آلا) سمجھتے ہیں۔ ہم دودھ اور اولاد کو خوشحالی کے ضمن میں ایک ہی ذیل میں شمار کرتے ہیں۔ سینکڑوں برس تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کے باوجود گائے کا تقد س ہمارے دل میں پیدا نہیں ہوا اور ہم جس شوق اور محبت سے گائے کو پالتے ہیں اتنی ی رغبت سے اس کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔                                                                                                 گھوڑے پالنے کا رواج قریب قریب ختم ہے۔ ماضی میں بھی صرف بڑے زمیندار ہی اس کی سکت رکھتے تھے۔ کچھ چھوٹے زمیندار بھی سواری کی خاطر گھوڑے ، گھوڑیاں پال لیتے تھے اور ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ اس طرح لوگ خچر اور اونٹ بھی سواری کے لئے بڑی محبت سے رکھتے تھے۔ لیکن اب ان کا وجود (یعنی صرف سواری کے لئے) اور عدم وجود قریب قریب برابر ہو گیا ہے۔ ایک بڑا عوامی اور انتہائی مقبول کھیل، جو جانوروں سے محبت کا بھی مظہر تھا، بیلوں کی دوڑ تھا۔ یہ غالباً ” وادی سندھ کا قدیم ترین اور مقبول ترین کھیل تھا۔ یہ کھیل اشخاص سے زیادہ قبیلوں اور گاؤں کے درمیان ہو تا تھا۔ ایک ایک بیل کی بجائے جو ڑیاں دوڑائی جاتی تھیں۔ جوڑی کے پیچھے "انجھا ” بھی ہو تا تھا۔ ریفری کے فرائض ایک ایسا شخص ادا کرتا تھا جس کی دیانت داری اور غیر جانبداری مسلمہ ہوتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں "چھمک” ہوتی تھی اور اسے "خدائی چھمک والا ” کہا جاتا تھا۔
بیلوں پر ” تھڑے ڈال کر انہیں بار برداری اور سواری کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ انہیں ”لاڈی” نکالا جاتا تھا اور ”ساہ” بٹھایا جاتا تھا۔ دوڑھوں (چھڑوں) کو نتھ ڈالنا خصی کرنا واگیں (دو (و) ڈالنا بیلوں کو خاص مواقع پر سجانا اور ان کی نسلوں کا مطالعہ کرنا بڑے مزے کی باتیں تھیں۔ زرعی مشینری اور فنی ترقی نے بل اور کنوئیں جو تنے سے لے کر بار برداری گاہ، یہاں تک کہ نسل کشی سے بھی بیل کو فارغ کر دیا ہے۔ یہاں کتے رکھنے کا رواج بھی قدیم ہے مگر مغرب جیسی محبت کبھی نہیں رہی۔ کتے کو پلید (ناپاک) سمجھا جاتا ہے اور اسے ہاتھ لگانے کے بعد ہاتھ دھونا لازم خیال کیا جاتا ہے۔ خوشاب، تلہ گنگ چکوال، اٹک وغیرہ کی طرح یہاں کتوں (عام طور پر بو بلیوں کی لڑائی کا کوئی رواج نہیں۔ تازی کتوں سے لومڑ خرگوش یہ (خارپشت) اور سٹور (باہر والا) کا شکار بڑے شوق سے کیا جاتا تھا۔ ایسے شکاری بڑے گھوڑی ہوتے ہیں۔ مرغیاں کثرت سے پالی جاتی ہیں اور دیسی کہلاتی ہیں۔ یہ اپنے انڈوں اور گوشت کے لئے بریڈر کلیئر، برائٹر سے بہتر سمجھی جاتی ہیں۔ مرغی فانوں والے صرف لیئر اور برائلر (Layers Broilers) پالتے ہیں اور کئی لوگوں کے روزگار کے ضامن ہیں۔
اصیل گڑ بڑی محبت سے پالے جاتے ہیں اور بڑے جوش و خروش سے لڑائے جاتے ہیں۔

تقریباً سارا موسم بہار اور موسم سرما کا شاید ہی کوئی ایسا جمعہ ہو جب کہیں نہ کہیں پڑی نہ جمتی ہو۔ اب مرغوں کی لڑائی نے باقائدہ جوے کی شکل اختیار کرلی ہے اور "بازی” بعض اوقات لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔ جنگلی پرندوں میں بٹیرے اور تیتر بڑے شوق سے پالے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں کونک (چکور ) طوطے اور رنگین چڑیاں بھی پالی جا رہی ہیں۔ آج کل اپنی بے انتہا قیمتوں کے لئے مختلف قسم کا باز مثلا” چرخ اور باہری وغیرہ کپڑے جاتے ہیں مگر فورا ہی عرب شیوخ کے ایجنٹوں کے ہاں بیچ دیئے جاتے ہیں۔ کالا اور بگا تیتر دونوں پالے جاتے ہیں۔ کالے کچے کے کاہنہ ، کوندر) جنگل میں اور سفید کو ہستان نمک میں پایا جاتا ہے۔

زیادہ شوق کالے تیتر کا ہے جس کے چھوٹے بچے جھیل میں سے پکڑ لئے جاتے ہیں اور پھر انہیں بولنا سکھایا جاتا ہے۔ کونجوں کا شکاری کبھی ہمارے کلچر کا دلفریب مظہر تھا۔ کونجوں کو بڑے جوش و خروش سے شکار کیا جاتا تھا۔ ہر گاؤں کے بیسیوں شکار دریائے سندھ کے طاس میں دور دور تک پھیل جاتے تھے۔ یہ شکار سے زیادہ پنک اور بائیکنگ قسم کی چیز ہوا کرتی تھی۔ کوکلے (بانس کی کھوکھلی کڑی) بجا کر (بالکل کونجوں کی طرح) کونجوں کو متوجہ کیا جاتا تھا اور جب کو نھیں آسمان سے زمین پر اترتی تھیں تو ان پر سا ہے گول چکر جس کے ساتھ صبح کی بیٹی پہلی کہ بندھی ہوتی تھی) پھینک کر انہیں ” را” (اٹس) لیا جاتا تھا۔ کچھ کو نہیں ہا ہے سے الجھا کر زندہ سلامت پکڑ لی جاتی تھیں اور کچھ فائر کر کے گرا لی جاتی تھیں۔
عمومی طور پر پرندوں کی طرف ہمارا رویہ حسد کا ہے۔ ہمارا بس چلے تو ہم ان سب کو قید کر کے پنجروں میں بند کر لیں۔ شاید آزاد اڑتے گاتے پنچھی ہمیںاچھے نہیں لگتے۔ چھوٹے بچے بلبلوں کو پکڑ کر سکھاتے ہیں۔ تلیروں (کالا بھورا) فاختاؤں (گیلڑا سرخچی) اور مرغابیوں (نیلی سری، کانوڑیں کو بندوق سے، پرو کو چھڑک سے اور تمام چھوٹے پرندوں کو غلیل سے شکار کیا جاتا ہے۔ اب ان میں سے اکثر نا پید ہو گئے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ جو پرندے بالکل غائب ہو گئے ہیں ان میں یگ، ڈوڈر’ ریڑھے، بھیٹر ، چچاں، دھوبی ، مختلف قسم کے چھوٹے بڑے رینگنے اور پرو فڑے اور شیخلو وغیرہ شامل ہیں۔

جو کم ہو گئے ہیں ان میں چنڈور، پیچی بیت مسی، سویڈ’ سفید تیتر، گھی ، چڑی در کھانڈ لاٹا بولو، مگمور اور مختلف قسم کے باز شامل ہیں۔ رنگ دار لاٹا بڑا فنکار پرندہ تھا وہ سب پرندوں کی بولی بول لیتا تھا۔ اب بھی کہیں کہیں نظر آجاتا ہے اس کے تحفظ کا اہتمام ہونا چاہئے۔ جس پرندے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہ ہے کوا اسے اب بھی مہمانوں کی آمد کا شگون سمجھا جاتا ہے۔ ”کاں وے کال تینڈے کتنے گراں” ان کی سیلانی طبیعت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مذہب بے شک سماج کی غالب طاقت ہے۔ مگر آج کل لپیٹ پوٹ کر باتیں کرنے اور خوبصورت اصطلاحات میں ملفوف کرنے کا دور دورہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں زیادہ غریب نہیں ہیں۔ مٹھا، چن ، جیسے الفاظ سن کر عجب طرح کا سرور محسوس ہوتا ہے۔ ہاتھ اٹھا کر یا زبانی السلام علیکم کہنا جیویں، وڈا تھیویں، حیاتی ہووی کہنا جوانیاں مانٹریں ابھا سون تھیوی ، پک اے تے لکھ ہو ر ہنڈا ویں ڈر حدیں پتریں وادھا ہو دیں ، ان ڈوھیاں چھڑ نہیں ، جیسی بے شمار دعائیں بے ساختہ منہ سے نکل جاتی ہیں۔ آپ کسی کے گھر جائیں وہ آپ کو خیر بال آیا ایس کے گا۔ آپ کو چائے پانی کو پوچھے گا۔

اہل محلہ ، دیہہ آپ کی خوشی، غمی میں بھرپور شرکت کریں گے۔ یہاں مبارک اور عیادت کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ تحائف کے تبادلہ کا بھی وسیع سلسلہ ہے۔ عید بکر عید کے موقع پر نہ صرف بیٹیوں اور بہنوں کا بلکہ پورے اہل محلہ کا حصہ کیا جاتا ہے۔ محرم پر نیاز بٹتی ہے۔ بکر عید پر گوشت صدقہ کے طور پر ختم قرآن دلوایا جاتا ہے۔ یا جانور ذبح کر کے رنز پورے محلہ گاؤں میں بانٹا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ باقاعدہ دعوتیں بھی کسی نہ کسی بہانے ہوتی رہتی ہیں۔ شادی سے پہلے (جس میں مہمانوں کی تعداد سینکڑوں ہو سکتی ہے) اور بعد میں ٹکر پکتے ہیں۔ شادی کے بعد دولہا دلہن اور گھر والوں کی دعوت کی جاتی ہے اور سبھی خواتین کو کپڑے” روپئے ، کبھی کبھی مکمل سوٹ دیے جاتے ہیں۔ شادی کے موقع پر پگ اور سرفا دیئے جاتے ہیں۔ کسی بھی خاتون کو گھر میں آمد (پہلی مرتبہ) پر اسے کپڑا دوپٹہ دیا جاتا ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ خاتون خاندان کے لئے بیٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ گندم کی کٹائی (ونگار) پرونگاروؤں کے لئے گھی شکر اور دودھی والے حلوے کی دعوت کی جاتی ہے۔ عرس کے موقع پر لنگر بانٹا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہروں میں الوداعی دعوتیں (دفاتر کلبوں یا ہوٹلوں میں بڑے اہتمام سے کی جاتی ہیں۔ بچوں کے قرآن ختم کرنے پر مولوی صاحب کو نقدی کے علاوہ سرفا ( خلعت) دیا جاتا ہے۔ مجلسی زندگی کا ایک اور مظہر معرکہ ” ہے جو کہیں بھی برپا ہو سکتا ہے۔ شاہ کسی زمیندار کے ڈیرے چوک یا بیٹھک پر یا کسی پیشہ ور کی دکان پر یا پھر چوراہے پر ہی، یہاں مقامی سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر بڑے کھلے ڈلے انداز میں بحث ہوتی ہے اور ہر آدمی بلا تکلف اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ مذہب، معیشت، معاشرت اور سیاست کوئی بھی موضوع ایسا نہیں جس پر بات نہ ہو سکتی ہو۔ شادی بیاہ کی تقریبات لمبائی میں سکڑ گئی ہیں جب کہ چوڑائی میں وسعت پذیر ہیں۔

ہفتوں پہلے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بالکل موقوف ہو گیا ہے۔ قریبی رشتہ دار زیادہ سے زیادہ ایک دن قبل آجاتے ہیں۔ جب کہ دیگر مہمان صرف ” فکر” پر آتے ہیں اور وہیں ”بھاجی” بھی لکھا دیتے ہیں۔ ” فکر ” جو کٹووں میں ” پکے ” "لون” پر مشتمل ہو تا تھا اور پیڈ بنا کر زمین پر بیٹھ کر کٹ” کے کھایا جاتا تھا اب دیگوں کی کوکھ میں ”تری” میں ڈوبا سالن بن گیا ہے۔ اب پلیٹوں میں کھایا جاتا ہے بلکہ کھایا کم اور ضائع زیادہ کیا جاتا ہے۔ روسٹ چکن کڑاہی، اور پلاؤ وغیرہ کا رواج پڑ رہا ہے۔ ” ٹکر نے کہیں کہیں ولیمہ کی شکل اختیار کرلی ہے لیکن زیادہ تر ” ٹکر” ہی ہے کسی بڑی شادی پر روٹی کھانا کے۔ ٹو سر کرنے سے کم نہیں۔ جونہی پلاؤ آتا ہے لوگ ( بھی، چھوٹے بڑےخواص و عام کھانے کے پنڈال کی طرف یوں بڑھتے ہیں جیسے گھنگھنیاں بٹ رہی ہوں یا ” چونے پٹ” کا کوئی میچ ہو۔ فوتگی کا اعلان لاؤڈ سپیکر پر یا آدمی بھیج کر کیا جاتا ہے۔ بیوہ پر چادریں ڈالی جاتی ہیں۔ عزیز رشتہ دار "کتر چھکے” ہیں اور پھر "روٹی” (بصورت نقدی) دے کر چلے جاتے ہیں۔ قل نمیاں اور چالیسواں ایسے کئے جاتے ہیں کہ موت اور شادی میں فرق مٹ جاتا ہے۔ موت کے فورا بعد والی عید پر بھی لوگ فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com