پی اے ایف ہیں اور تہذیب میانوالی
پروفیسر محمد فیروز شاه
تهذیب اطوار تمدن کی ترتیب کا نام ہے۔ معاشرتی اقدار کے ہمرنگ افعال تہذیب و تمدن کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک معاشرہ کے لوگ جب مل جل کر زیست کرتے ہیں۔ تو کچھ مخصوص معاشی، معاشرتی، لسانی، تعلیمی تمدنی اور ملبوساتی اظہارات سامنے آتے ہیں۔ تہذیب انسانی کے یہ مظاہر کائنات معدنیات میں منفرد مناظر اجاگر کرتے ہیں اور یہی انفرادیت کسی قوم، ملک یا علاقے کا تہذیبی تشخص قائم کرتی ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا کی تہذیب ہے۔
"جس کے مظاہر مختلف تہواروں، سماجی قوانین یعنی دین کے ضوابط گفتگو کا با محاورہ رنگ ڈھنگ ضرب الامثال، مہمان نوازی یا مهمان کشی، دوستی یا دشمنی کی شکل میں سامنے آتے ہیں”۔
میں سمجھتا ہوں کسی علاقے کی تہذیب دراصل وہاں کی زندگی کے تمام رازوں کی امین ہوتی ہے۔ امانت کو دیانت بھری استقامت کے ساتھ محفوظ رکھتی تهذیب دیانت دار لوگوں کے رویوں سے مرتب ہوتی اپنے عہد کی ایسی تابندہ تاریخ ہوتی ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ویسے بھی روشنی اور خوشبو کو کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ میانوالی، وطن عزیز کا ایک مردم خیز اور مناظر فطرت سے مالا مال خطہ حسین ہے۔ رب رحیم و کریم نے اس قریہ غیرت کو جمال کی ثروت عطا کر کے سرزمین حیرت بھی بنا دیا ہے۔ غیرت مند ارادوں کی جبروت اور قدرتی مناظر کی رعنائیوں کی کشش مل کر میانوالی کی تندہیں تصویر کو دھنگ رنگ بنا دیتی ہیں یہاں ایک ایک انگ کے آنگن میں کئی کئی رنگوں کے آنچل کراتے ہیں۔ خلیل جبران نے کہا تھا۔ ” کسی علاقے کی تہذیب پر جغرافیائی ماحول کے اثرات سے انکار اس طرح کاعمل ہے جیسے کوئی چکتے ، روشنیاں بکھیر تے سورج کے سامنے کھڑا ہو کر قیام شب کا اعلان کرے اور روشنی کے وجود تک سے منکر ہو جائے”۔
میانوالی کی علاقائی تہذیب بھی اپنے جغرافیائی ماحول کے زیر اثر رہی ہے اور یہ ہے بھی فطری سی بات کہ تہذیبی قدروں کی تشکیل و تخریب میں جغرافیائی عوامل بہر صورت اپنا کردار ادا کرتے ہیں شاید اس لئے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی تہذیب کی صورت ” تقلیدی” قرار دی ہے۔ یہ تقلیدی عمل اپنے ماحول اور اپنی فضا سے ہم آہنگی کے صلے میں رونما ہوتا ہے سو اس کی اہمیت تخلیقی عمل سے کسی صورت کم نہیں کہ کہیں جا کر تخلیق بھی تقلید کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ انسان کی ہر تخلیقی صلاحیت احسن الخالقین” کی عطا کردہ ہے اور اسی کی تعمیل میں ہی ارتقاء کے مراحل طے کرتی ہے۔ مٹی کا دیا اور برقی لقمہ ، سورج جیسی نہ سمی، روشنی تو پھیلاتا ہے۔ میانوالی کی تہذیب یہاں کے ماحول سے کمک لے کر نمو پاتی ہے اس سرزمین کا ایک جغرافیائی امتیاز یہ ہے کہ یہاں پہاڑ بھی ہیں۔ دریا اور صحرا بھی۔۔۔۔ سو تہذیب کی تقلیدی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں میں پہاڑوں جیسی استقامت اور ان کی گفتگو میں ٹھوس لب و لہجہ اور دبنگ آہنگ میں بات کرنے کا انداز اور لباس میں طرہ دار پگڑی کا اعزاز —– یہ سب ہمسائیگی کمار کے ملیے ہیں میں نے اکثر جب اپنے شمال یا مغرب یا مشرق کی طرف نظر ڈالی ہے تو سر بفلک پہاڑ مجھے یوں لگے ہیں جیسے میرا کوئی ہم شہر کڑیل جو ان طرہ دار کلاہ پنے میرے سامنے کھڑا ہو۔ میانوالی کے لوگ سخت کوش اور بات کے دھنی ہیں ۔۔۔۔۔
قول مرداں جان دارد
کے عملی پیکر اس شہر خوبی میں جابجا گھومتے پھرتے ملیں گے۔ حرف کی حرمت پر جاں دار دینے کا سر فروش اور جاں سپار عمل اہل میانوالی کی زیست کا سرفراز شعار ہے۔ یہ سربلند رویہ بھی پہاڑ کے پڑوس بلکہ اس کے دامن میں آباد ہونے کا ثمر ہے۔ حکیم الامت نے کہا تھا۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بنده صحرائی یا مرد کہستانی
میانوالی کے لوگ صحرائی بھی ہیں کہ یہ تھل کا علاقہ ہے اور میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ ریت محبتوں کا کھیت ہوا کرتی ہے۔ ملائمت اور نرمی کی جو صفت شیریں ریگستانوں کو عطا کی گئی ہے اسی کا عکس یہاں کے باسی اپنے دلوں میں لئے پھرتے ہیں میانوالی والوں کے دل بھی صحرا ہی کی طرح وسیع ہیں۔ کشادہ منظر تھلوں کے رہنے والے ہمیشہ کشادہ ظرف ہوا کرتے ہیں۔ رشید قیصرانی کے لفظوں میں صحراؤں میں رہنے والے لوگ سمندر ہوتے ہیں.
ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ دور دور تک پھیلے ہوئے ریگزاروں میں بکھرے ہوئے ذرہ ہائے ریگ اپنا الگ وجود رکھنے کے باوجود ایک مکمل اکائی یعنی صحرا کا حصہ ہیں میانوالی والے لوگ اپنا تشخص قائم رکھتے ہوئے بھی اپنے قومی تشخص یعنی پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں علاقائیت کی کوئی ملک دشمن تحریک میانوالی سے کسی صورت کمک نہ تو کبھی حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی کر سکے گی۔۔۔۔ شیر دریا سندھ کے کنارے آباد یہ شہر اپنے مکینوں میں دریاؤں جیسی فیاضی شادابی اور زرخیزی کی خصوصیات اور دوستوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرنے اور دشمنوں کے لئے طوفانوں کی جولانگاہ بن جانے کی خصوصیات بدرجہ اتم ظہور پذیر ہوتی دیکھتا ہے۔
کھراپن اور یار باشی ان لوگوں کا شعار حیات ہے۔ منافقت پر موت کو ترجیح دینے والوں کی دوستیاں اور دشمنیاں کھلی اور واضح ہوتی ہیں وہ کسی پر پشت سے حملہ نہیں کرتے نہ ہی کبھی پشت پر زخم کھاتے ہیں۔ لڑتے ہیں تو سینے پر زخم تمنوں کی طرح سجا لیتے ہیں۔ پیٹھ پر کوئی الزام نہیں لیتے۔ شب خون نہیں مارتے۔ انجانے میں وار نہیں کرتے۔ للکار کر وار کرتے ہیں اور دوست کے لئے دوستی کا مان بن جاتے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ جو دشمن دار نہیں ہوتا وہ دوست دار بھی نہیں ہو سکتا۔ جو سب کا دوست بنتا ہے وہ کسی کا بھی دوست نہیں ہو تا ۔۔۔۔ یہ اصول اہل میانوالی کی زندگیوں میں غیرت، شجاعت اور صداقت کے عناصر کی شمولیت اور اہمیت کی گواہی بن کر زندہ رہتا ہے اور یہی میانوالی کی علاقائی تہذیب کے امتیازات ہیں۔ شاہد حسین رزاقی نے اپنی کتاب ” سرسید اور اصلاح معاشرہ میں سرسید احمد خان کا نقطہ نظر یوں بیان کیا ہے۔
"تہذیب کیا ہے؟
اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور طریق تمدن اور علوم و فنون کو بقدر امکان قدرتی خوبی اور فطرتی عمدگی پر پہنچانا اور ان سب کو خوش اسلوبی سے برتا“۔ اس جامع تعریف کی روشنی میں جب ہم میانوالی کے ماضی اور حال پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ احساس واضح تر ہو کر سامنے آتا ہے کہ میانوالی کی تہذیب، بقول کے ایک خوبصورت مجتمے کی صورت میں موجود تھی البتہ پی اے ایف بیس کی آمد نے فالتو پھر ہٹا دیا اور مجسمہ کے حسین خدو خال نکھر آئے اعلیٰ انسانی اوصاف والی تہذیب کے جملہ عناصر و عوامل یہاں کی مقامی تہذیب میں رچے بسے ہوئے تو تھے مگر انہیں کوئی چہرہ کوئی سلیقہ اظہار اس لئے نہ مل سکا تھا کہ زندگی کا قرینہ اور کامرانی کا شعور اور شادمانی کا دستور صرف اور صرف علم عطا کرتا ہے اور تعلیمی اداروں کی کمی کے علاوہ تعلیمی سہولیات اور اشاعت علم کے جدید ذرائع کی عدم موجودگی یہاں کے تہذیبی ماحول کی سچی رونمائی میں ایک بڑی رکاوٹ رہی تا آنکہ پاکستان ائیر فورس میں بن جانے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی نے منظر کو نکھارنا شروع کر دیا تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے۔
(الف) تعلیمی اثرات
پی اے ایف میں کے قیام سے نور علم کا سرور دلوں میں وفور کرنے کا عمل مزید نکھرا۔ اگر چہ یہاں اس سے قبل بھی تعلیمی ادارے یہ فریضہ بہ احسن ادا کر رہے تھے لیکن انگریزی تہذیب کی مخالفت کو بجا طور پر جائز سمجھنے کے باوجود اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ انگریزی زبان سے آشنائی دور جدید کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پی اے ایف کالونی میں پہلی بار انگلش میڈیم سکول کی بنیاد رکھی گئی۔ ۱۹۷۴ء میں اپنے قیام کے آغاز میں یہ پرائمری سکول تھا۔ ۱۹۷۸ء میں سیکنڈری سکول بنا اور ۱۹۸۶ء میں انٹر کالج کا مقام حاصل کر گیا۔ اس کے اثرات یہاں کی تعلیمی زندگی پر خاطر خواہ مرتب ہوئے۔ اب یہاں انگلش میڈیم ادارے جگہ جگہ کھل چکے ہیں اور کھل رہے ہیں۔ مخلوط تعلیم کا رواج عام ہوا۔ اب کئی پبلک سکوتر میں بچے بچیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے. ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ میں مخلوط تعلیم کی خوبیوں خامیوں پر اپنی ایک رائے رکھتا ہوں۔۔۔۔ بہر کیف اس رجحان ے تعلیمی میدان میں ایک تبدیلی تو آئی ہے جسے ہر کوئی اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے (اور اس کا اسے حق بھی ہے)
(ب) تمدن پر اثرات
یوم فضائیہ کے موقع پر اسلحہ کی معلوماتی نمائش کے ساتھ ساتھ مینا بازار اور جشن فضائیہ کی دیگر رنگا رنگ سرگرمیوں میں شرکت کے تسلسل نے ماحول پر خوشگوار اثرات ڈالے ہیں اور منظر کا افق وسیع تر ہونے لگا ہے مسرتوں مسکراہٹوں بھرے چہروں اور بے تکلف اپنائیتوں کے میلوں ٹھیلوں نے گھٹن دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔۔ ایک بات یہ بھی ہوئی ہے کہ خواتین جو عموما” ملازمت سے کتراتی تھیں اب باوقار انداز میں قائم اداروں میں ملازمت کرنے لگی ہیں۔ بازاروں میں شاپنگ کے نئے انداز متعارف ہوئے ہیں اور مشہور شہروں کی طرح یہاں بھی شاپنگ پلازے اور شاپنگ سنٹرز کی تعداد آئے روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب تو سید ضمیر جعفری کا یہ شعر میانوالی کے لئے بھی بر محل اور بر موقع محسوس
ہونے لگا ہے۔
اکبری زمانے میں ملا دو پیازه تھا
آپ اس زمانے کے ملا رو پلازے ہیں
(ج) تفریحات پر اثرات
کبڈی، نیزہ بازی، والی بال، فٹ بال اور ہاکی یہاں کے مقبول عام کھیل گیں۔ کرکٹ کو تو خیر ٹی وی نے ملک بھر میں عام کیا مگر یہاں بہت سے دوسرے کھیل پی اے ایف کے اثرات میں شمار کئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے صحت مند سرگرمیوں کو فروغ ملا۔ نئے کھیلوں میں سنوکر کی مقبولیت بیڈمنٹن، وڈیو گیمز اور دیگر کئی تفریحات بھی لوگوں کی دلچسپیوں کا مرکز بنیں عروج پر رہی۔ پی اے ایف آڈیٹوریم میں دکھائی جانے والی فلموں نے بھی لوگوں کے ذوق تفریح کے تقاضے پورے کئے۔
(1) لسانی سطح پر اثرات
ائیر فورس بیس کے قیام سے میانوالی کی لسانی تہذیب پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوئے یہاں کی مقامی زبان سرائیکی، ہند کو اور پوٹھوہاری کے امتزاج سے وجود پاتی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے لوگوں کے آکر یہاں رہنے کے بعد اس لسانی امتزاج کا مزاج مزید سنور گیا۔ لہجے کی سختی ایک مٹھاس بھری ملائمت میں بدل گئی۔ اردو کو اور بھی زیادہ فروغ ملا۔ دیگر پاکستانی زبانوں سے آشنائی کے در کھلے اور اب ہر پاکستانی زبان کا کوئی نہ کوئی لفظ یہاں اپنا مسکن بنا چکا ہے۔ خود یہاں کی مقامی زبان پر پر بھی خوشگوار اور دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
(ر) ادبی شعبه
شعبہ ادب پر بھی پی اے ایف کے اثرات مرتسم ہوئے ہیں اگر چہ کوئی بہت اہم اور قابل ذکر ادیب یا شاعر تو یہاں ائر ہیں پر نہیں آیا جیسے سرگودھا میں روپ دھوپ اور صحرا کے مصنف نیاز احمد صوفی آئے تھے۔ تاہم پی اے ایف کے حوالے سے کوئی اہم ادبی شخصیت کبھی نہ کبھی میانوالی کو لحاتی رفاقت ضرور عطا کر دیتی ہے اور اس طرح یہاں کی ادبی فعالیتوں پر نکھار سا آجاتا ہے مثلا” ممتاز شاعر و ادیب پروفیسر عاصی کرنالی کے داماد ائیر فورس میں ہونے کی بنا پر شعراء و ادبائے میانوالی کو ملک کے اس نامور قلمکار کے حرف و خیال سے بالمشافہ ملاقات کا افتخار حاصل ہو تا رہا ہے۔
(س) معاشی اثرات
میانوالی میں فیکٹریز اور دیگر ذرائع روزگار کے وسیع پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے معاش کا مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ائیر فورس میں بن جانے کے بعد صورت حال میں مثبت تبدیلی یہ آئی ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ مزدور (لا سکر) مالی، چوکیدار ، کلرک ، ائیر مین اور اساتذہ کی صورت میں روزگار کے در اور دریچے کھل گئے ہیں۔ دوسری صورت یوں بنی ہے کہ اہل میانوالی کے کاروبار میں بہت اضافہ ہوا ہے کیونکہ پی اے ایف کالونی کی بیشتر ضروریات حیات میں سے پوری ہوتی ہیں اس لئے دکانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بالخصوص دودھ ، دہی، انڈے سبزیاں، پھل گوشت اور دیگر اشیاء کی فراہمی ، روزگار کی کامیابی کی علامت بن گئی ہے اور خوشحالی کی ضمانت بھی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں کرائے کے مکانات کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے اور کرائے بھی۔۔۔۔۔ یوں میانوالی کی تہذیب کے جملہ حوالوں یعنی تعلیم و تدریس، تمدن و معاشرت، تفریح لسانیات ادبیات اور معاشیات کے تمام پہلوؤں پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں جو دو رس بھی ہیں اور دیر پا بھی !!!