روشنی کے دائرے
سید نصیر شاہ
میانوالی سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارنامے سرانجام دینے والے سپوتوں کا یہاں تذکرہ کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر نور محمد خان
خان جی احمد خان خنکی خیل کے اس عظیم فرزند نے اس وقت ایم بی بی ایس کیا جب برصغیر میں بہت کم مسلمان پڑھے لکھے ہوتے تھے اور پھر میانوالی جیسے پسماندہ ضلع میں تو شرح خواندگی اعشاریہ زیرو ایک ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے پیشہ میں بڑے باکمال تھے۔ علاج میں انتہائی محتاط تھے ۔ رد عمل دیکھے بغیر انجکشن نہیں لگاتے تھے ان کے پاس جو لوگ کمپونڈر رہے ہیں ان میں فیض بخش خوشابی، غلام حسین جٹ، محمد شاہ محمد رفیق خاور اور دیگر سینکڑوں حضرات آج بھی اسی طرح محتاط ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی حذاقت کیا بیان کی جائے۔ وہ زمانہ تھا جب لوگ صحیح معنوں میں پڑھتے تھے پڑھا ہوا ہضم کرتے تھے اور پھر اسے بارہا تجربہ کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ اس وقت انگریز یا ہندو ڈاکٹر ہوتے تھے جن کی ذہانت آج بھی ضرب المثل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس زمانے میں پڑھا، آزمایا او رنام پیدا کیا۔ قابل ڈاکٹر تو بہت لوگ ہوئے ہیں اور اب بھی ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب بہت بڑے انسان بھی تھے۔ انہوں نے اپنے پیشہ کو فرض نہیں عبادت سمجھ کر سرانجام دیا۔ خطرناک مریض کے سرہانے راتیں جاگ کر گزار دیتے۔ غریبوں کا علاج نہ صرف مفت کرتے بلکہ انہیں اپنی طرف سے امداد بھی دیتے۔ فلاح و بہبود کی کوئی انجمن بنتی تو اس کے بانی سب سے پہلے چندہ وصول کرنے ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچ جاتے۔ انہوں نے اسلام کو علی وجہ البصیرت سمجھا تھا اور حق بات کہنے میں ہمیشہ بے باک رہے۔ علامہ عنایت اللہ المشرقی سے متاثر ہوئے تو بیلچہ اٹھا کر عوامی خدمت میں کوئی عار محسوس نہ کی۔ خاکساروں کے دہلی کے اجتماع میں بھی پہنچے اور سنگدل ڈائر کی برستی گولیوں کے سامنے بھی سینہ سپر کھڑے رہے۔ مریض سے فیس کے نام پر کبھی کچھ وصول نہ کیا منگائی کے دور میں بھی ڈاکٹر صاحب کے نسخہ کی قیمت ان کی اپنی ڈسپنسری میں
بارہ آنے اور ایک روپیہ سے زیادہ نہ ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب نے حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی میں کبھی کو تاہی نہیں کی۔ فوت ہوئے تو جنازہ دوبار پڑھا گیا بریلوی مکتب فکر اور دیو بندی مکتب فکر کے لوگوں نے اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے جنازہ میں شرکت کے لئے دور دور سے لوگ آئے۔ میرے ایک عزیز محمد امین ملک دوسرے شہر سے آ رہے تھے راستے میں ان کی جیب کٹ گئی اور ایک ہزار روپیہ نکل گیا۔ بس رکوائی سواریوں کی تلاشی لی گئی رقم نہ مل سکی بس لیٹ ہو گئی وہ میانوالی پہنچے تو جنازہ ہو چکا تھا وہ کہتے تھے مجھے پیسوں کا افسوس نہیں افسوس ہے تو صرف یہ کہ جنازہ میں شرکت کی سعادت سے محروم ہو گیا ایک ہزار روپے اس وقت بہت بڑی رقم تھے۔
حکیم عبد الرحمان خان
چوڑا چکلا جسم بلند و بالا قامت چہرے سے وجاہت عیاں، چال میں جلال قیل و قال میں جمال ، قریب سے گزرتے تو دیکھنے والا ایک لمحہ کے لئے احوال و ظروف سے بالا ہو کر قیود زمان و مکان سے نکل کر یہ سوچنے لگتا کہ محمد بن قاسم کی فوج کا کوئی مجاہد تو تاریخ کی حدود پھلانگ کر ماضی سے حال میں داخل نہیں ہو گیا اقبال کے بچے اور پکے مرد مومن تھے دل نوازی کا سلیقہ، مردت اور شفقت کا شیوہ لو میں شامل تھا تقریر میں وہ گھن گرج تھی کہ لفظ دیو قامت پیکروں میں ڈھل ڈھل کر زندگی پانے لگتے ۔ بزم کی گفتگو سے تو معلوم ہو گا فضا پر شفقتوں کی مٹھاس پھوار کی طرح برس رہی ہے۔ خاکسار تحریک میں شامل ہوئے تو سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ وہلی کے اجلاس میں اس شان سے شامل ہوئے کہ میانوالی سے سائیکل پر سوار ہوئے۔ بیلچہ کندھے سے ٹکایا اور جواں مردی سے طویل سفر طے کر لیا۔
سعد اللہ خان عیسی خیل
ماضی قریب میں سماجی خدمت کا بہت بڑا حوالہ تھے۔ مریضوں، اسیروں اور ایسی دیگر انجمنوں کی ہمیشہ سر پرستی کی۔ اگلی شرافتوں کے نمونے تھے۔ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے لئے کوئی سا کام ہو سعد اللہ خان موجود ہیں ہر ایک سے محبت کی ذہن میں تعصب نام کو نہ تھا۔ ہر سیاسی پارٹی ان کا احترام کرتی تھی اور وہ بھی ہر ایک کا احترام کرتے تھے۔ غریبوں کی مدد کے لے ہمیشہ کشادہ ظرفی کا ثبوت دیا۔
خان شاه ولی خان
میانوالی کے پٹھانوں میں بلوخیل قبیلہ سے تعلق رکھنے والے تعلیم کی طرف پہلے متوجہ ہوئے اور بہت آگے نکل گئے وتہ خیل کے لوگ بہت بعد میں اس طرف آئے اس قبیلہ میں خان شاہ ولی خان غالبا” پہلے وتہ خیل پٹھان تھے جو تحصیلدار منتخب ہوئے۔ بڑے نیک متواضع، مرنجان مریج اور سادہ طبیعت کے آدمی تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں مختلف اضلاع کی خاک چھانی۔ علم سمیٹا، معاشرت کا مطالعہ کیا اور پنجاب کی انسائیکلو پیڈیا بن گئے ہر ضلع کی معاشرت اور معاشرتی روایات پر سیر حاصل گفتگو کرتے تھے زندگی کی سب سے بڑی فیروز مندی اور کامرانی یہ ہے کہ انسان خالق اور مخلوق کی نگاہوں میں کامران ٹھہرے۔ خالق کے ہاں کامیابی تو ان کے اعمال حسنہ تھے مخلوق کے ہاں کامیابی یوں حاصل ہوئی کہ انہوں نے اس دور میں اپنی اولاد کو سنبھال لیا اور ایسا سنبھالا کہ ان کے بیٹے علم کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔ اخلاق کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ان کے بڑے بیٹے شیر علی خان ڈی ایس پی ریٹائرڈ ہیں اب ایل ایل بی کر کے پریکٹس کر رہے ہیں دوسرے بیٹے عبد الحمید خان ریٹائرڈ ایڈیشنل سیشن جج اور ایل ایل بی ہیں اب کامیاب اور معروف وکیل ہیں۔ تیرے بیٹے عبدالمجید خان نیازی ایم اے ایل ایل بی میانوالی کی مشہور علمی درس گاہ سنٹرل تاویل کالج کے بانی اور پرنسپل ہیں اب تک ہزاروں افراد اس سرچشمہ علم و دانش سے فیض یاب ہو کر ملک کے طول عرض میں مختلف خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ خان شاہ ولی خان کے چوتھے بیٹے اور نگ زیب خان یونائیٹڈ بینک میں اسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ ان کے پوتوں میں ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی ایم اے ایل ایل بی پی ایچ ڈی پاکستان سول سروس کے اعلیٰ افسر اور نامور ادیب، شاعر دینی سکالر اور انتہائی شریف آفیسر ہیں ، جہانزیب خان ایم اے ہیں۔ نواسوں میں نسرت اللہ خان اور عصمت اللہ خان سول جج ہیں ۔ یوں یہ خاندان مرکز علم و دانش بن گیا ہے۔
الحاج نان محمد امیر خان سنبل
سنبل پٹھانوں میں الحاج خان محمد امیر خان سنبل کا نام تاریخ کا انتہائی معتبر نام ہے۔ آپ ایک انتہائی باوقار کریم انفس کشادہ دست اور شب زندہ دار انسان تھے۔ خدمت خلق، مهمان نوازی خدا شناسی زہد و ورع کا پیکر تھے۔ اللہ نے جرات مند اور بے خوف طبیعت عطا کی تھی ۔ ماسیڈی سے مستغنی ہو کر صرف اللہ کے ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کے باوصف دنیاوی معاملات پر بھی پوری گرفت رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے پیچھے نہایت صالح اولاد مخلصین اور جاں نثاروں کی ایک یڑ کی جماعت چھوڑی ہے ۔ اپنے ابتدائی دور سیاست میں مولانا محمد عبد الستار خان نیازی بر سوں خان صاحب کی ٹھیک پر میم رہے۔ اور خان صاحب کی شفقت اور راہنمائی سے بہرہ مند ہوتے رہے۔
حکیم عبد الرحیم خان
حکیم عبد الرحیم خان مسیح دوراں تھے کابل اور قندھار سے لے کر بمبئی تک مریض آتے اور شفایاب ہو جاتے۔ ان کے بیٹے عبد الواحد خان بڑے حکیم ہیں۔ حکیم صاحب کے پوتے علیم طارق عبد اللہ خان آج کل مرحوم دادا کا ہسپتال بطریق احسن چلا رہے ہیں۔
ملک شیر محمد خالن اعوان
نواب زادگان کالا باغ ملک اسد خان ملک اللہ یار خان اور ملک اعظم خان کے نام در ماموں ملک شیر محمد خان ضلع میانوالی کی بلند پایہ شخصیت تھے ۔ ان کا اصل میدان علم و ادب تھا۔ سیاست کے خار زاروں میں تو انہیں ویسے ہی گھسیٹا گیا۔ ملک صاحب کی لائبریری ضلع میانوالی کی کافی بڑی لائبریری ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی تصانیف ان کے علم و فضل کی گواہ ہیں علامہ غلام احمد پرویز مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا احمد سعید کا می، مفتی مختار احمد مولانا محمد شریف نوری احسان دانش، حفیظ جالندھری، مولانا عبد الستار خان نیاز کی اور بہت سے علماء فضلنا سے ان کی محبتیں رہیں ان کے فرزندوں میں ملک انصار علی خان نے والد کی لائبریری محفوظ کر رکھی ہے۔
گل باشی
گل محمد ہاشمی موچھ کے رہنے والے ہیں۔ فارسی اور اردو کے فاضل ہیں۔ انجمن فاضلین ادب کے صدر ہیں۔ ابتدائے شباب میں خوبصورت شاعری کی اور دل نواز نثر لکھی۔ ایک اچھے استاد کی حیثیت سے پنجاب بھر میں معروف ہیں۔
جی ایم شاہ
شاہ صاحب ایک عظیم ماہر تعلیم کی حیثیت سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ ایم اے بی ایڈ کی حیثیت سے انہوں نے سروس کا آغاز کیا تھا۔ خود ساز شخصیت یا سیلف میڈ مین کی ترکیب کتابوں میں عام پڑھی جاتی ہے۔ اگر کسی کی خواہش ہو کہ اسے دیکھا جائے تو وہ جی ایم شاہ صاحب کو دیکھ لے۔ وہ سرکاری طور پر تعلیمی دوروں پر انڈونیشیا، بھارت، چین، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، فلپائن، ایران عراق، شام، سعودی عرب، اٹلی، فرانس برطانیہ، امریکہ غرضیکہ دنیا کے تمام قابل ذکر ممالک میں جا چکے ہیں۔ انہوں نے بیجنگ میں ا – میسی سکول کے پرنسپل کی حیثیت سے چار سال کام کیا۔ ایک وفد ان کی قیادت میں ۷۲ء میں ایران گیا۔ ۱۹۹۰ء میں ڈپٹی چیف کمشنر پاکستان بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۴ء میں نیپا ہیومن رائٹس کمشن کورس کے سلسلہ میں گئے۔ ڈائریکٹر تعلیمات رہے۔ فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیش اسلام آباد کے چیئرمین رہے۔ فی الواقع جی ایم شاہ ایک مہربان سمندر ہے جو اپنے جاں نواز ساحلوں پر رہنے والوں کو بیش بہا موتیوں سے نوازتا رہا اور دور رہنے والوں کو موتی برسانے والے بادل بھیجا رہا۔
سعید اختر خان
ڈاکٹر نور محمد خان کو اللہ تعالٰی نے بہت سے بیٹے بیٹیوں سے نوازا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے ان میں سے ان کے بڑے بیٹے سعید اختر خان اور ڈاکٹر افضل نیازی دو ایسے فرزند ہیں جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی روحانی میراث پائی اور صحیح معنوں میں ان کے جانشین قرار پائے ۔ سعید اختر خان نے ذاتی محنت اور بے پناہ مد سے بلند مناصب حاصل کئے آج وہ واپڈا کے بہت بڑے منصب پر فائز ہیں۔ لیکن منصب کی بلندی اور کرسی کے اقتدار نے کبھی ان میں فخر پیدا نہیں کیا۔
رفیع الله شهاب
رفیع اللہ شہاب میانوالی کی علمی و تحقیقی خدمات کی پہچان ہیں۔ وہ ۱۹۳۰ء میں پیدا ہوئے میٹرک کرنے کے بعد کلرک ہو گئے۔ مگر آگے بڑھنے کا جذبہ برقرار رکھا فاضل عربی کیا پھر اسلامیات اور عربی میں ایم اے کیا ایم او ایل ہوئے کچھ عرصہ ایم بی ہائی سکول میانوالی میں ٹیچر رہے۔ پھر لیکچرار ہوئے اور گوجر خان چلے گئے کافی عرصہ وہیں ملازمت کی پھر گورنمنٹ کالج لاہور آگئے رفیع اللہ شہاب ایک بلند پایہ دینی سکالر ہیں۔ انہیں انگریزی میں بھی اظہار و بیان کی پوری قدرت حاصل ہے اردو اور انگریزی میں ان کی بے شمار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
کرنل الطاف الهی ملک
ملک مولا بخش مرحوم بڑی صفات کے مالک تھے ان کے عظیم فرزند ریٹائرڈ کرتل الطاف الہی ملک نے اپنے والد کی یاد میں ٹرسٹ قائم کر رکھا ہے۔ کرنل صاحب خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ انہوں نے تعلیم نسواں کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ اس سلسلہ میں تھانہ چکڑالہ میں بہت سے سکول قائم کئے ہیں۔
سید نذر حسین شاہ
سید نذر حسین شاہ ضلع میانوالی کے ایک مشہور ماہر تعلیم تھے۔ شاہ صاحب کے والد سید حسین علی شاہ پھر سید مرحسین شاہ کے بیٹے سید نذر حسین شاہ سید دوست محمد شاہ سید فیاض حسین شاہ اور سید عاشق حسین شاہ نے ضلع کی تعلیمی سرگرمیوں میں خوب لگن سے کام کیا اور عزت حاصل کی۔ صحافت میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ضلع میانوالی جیسے پسماندہ علاقہ سے صحافت کا ایک بے باک علمبردار اخبار ہفت روزہ "شعاع مر” شائع کرتے رہے۔
ڈاکٹر سید رسول ملک
ڈاکٹر سید رسول ملک تمبر ۱۹۳۱ء کو تحصیل عیسی خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم عیسی خیل گورنمنٹ ہائی سکول، میٹرک پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا انٹر اور بی اے گورنمنٹ کالج میانوالی سے پاس کیا، بی ایڈ گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے کیا۔ ایم اے اکنامکس ، ایم ایڈ اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بطور معلم سرحد کے ہائی سکول چارسدہ سے کیا۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد پنجاب آ گئے۔ آپ نے دوران ملازمت بہت سے بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ جن میں تھائی لینڈ ، انڈیا، ملائیشیا، سنگا پور ہالینڈ فرانس اور سری لنکا قابل ذکر ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کی قدر کرتے ہوئے عالمی بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک یو۔ این۔ ڈی پی نے ایجوکیشن کنسلٹنٹ کے مختلف منصوبوں میں ان کی خدمات حاصل کیں۔
صالح محمد نیازی
داؤد خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والا حریت پسند مزدور لیڈر صالح محمد نیازی معاشی مجبوریوں کی بناء پر انگریز کی ملازمت میں ہونے کے باوجود انگریزوں سے نفرت کرتا رہا۔ ۱۹۳۶ء میں ایم ٹی میں ملازم ہوا اور کوارٹر ماسٹر حوالدار کے عہدے تک پہنچا۔ دوسری جنگ عظیم میں گوریلا کمانڈر کی حیثیت میں اس نے اپنی بہادری کا سکہ منوایا ۔ ۱۹۴۶ء میں اس نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنے ساتھیوں سمیت الہ آباد کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر پیغام عمل ” کے زیر عنوان پمفلٹ شائع کرایا۔ مسلم لیگ کا پیغام گلی گلی کوچے کوچے پھیلانے کے لئے خود کو وقف کر دیا۔ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد صالح محمد نیازی نے مزدور تنظیموں سے وابستہ ہو کر مزدور لیڈر کے طور پرخود کو منوایا۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔