میانوالی کی سیاست

میانوالی اور سیاست

سید نصیر شاه

تحریک خلافت شروع ہوئی تو یہاں کے عوام نے اس تحریک کا بھر پور ساتھ دیا۔ بریلویوں نے جو یہاں اکثریت میں تھے بھی تحریک خلافت کا ساتھ دیا۔ یہاں کے بریلویوں کی طرف سے تحریک خلافت کی پذیرائی اور مکمل حمایت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی آبادی کی اکثریت بالواسطہ یا بلا واسطه سیال شریف کے سجادہ نشینوں کے حلقہ ارادت میں تھی ان دنوں سیال شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ ضیاء الدین مرحوم حق گوئی و بے باکی میں بے مثال تھے اور تحریک آزادی کے بہت بڑے مجاہد تھے۔ انہوں نے تحریک خلافت میں انتہائی جان دار کردار ادا کیا اور ان کے تمام مریدان باصفا انگریز استعمار کے خلاف سینہ سپر ہو گئے اس وقت واں بھچراں کے رئیس اعظم ملک مظفر خان کو انگریزوں کی طرف سے خان بہادر کا خطاب ملا تھا وہ بھی آستانہ سیال شریف سے وابستہ تھے اور خواجہ ضیاء الدین کے عقیدت مند تھے تحریک خلافت کے دوران وہ سیال شریف میں قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے اور ایک ہزار روپے کی تھیلی نذر کی اس وقت ایک ہزار روپے کی بڑی قدر و قیمت تھی خواجہ صاحب نے تھیلی کو لات ماری اور فرمایا ”مظفر جا میری نظروں سے دور ہو جا تو اس انگریز کا وفادار ہے جس کے ہاتھ ترک مسلمانوں کے لہو سے آلودہ ہیں تو خان بہادری کے خطاب کو چاہتا رہ آج سے ہمارا تمہارا تعلق ختم” عقیدت مند ملک مظفر کانپنے لگا اس نے اسی وقت لکھا میں خان بہادری کا خطاب واپس کرتا ہوں اور فوج کا جو اعزازی عہدہ مجھے دیا گیا ہے اس سے بھی استعفیٰ دیتا ہوں” اس طرح حضرت کی خفگی دور ہو گئی۔

بہر حال میانوالی کی گلیوں میں بولیں اماں محمد علی کی۔ جان بیٹا خلافت پر دے دو کا نغمہ کو بھتا رہا۔ کرنل الطاف الہی ملک کے بیان کے مطابق ایسی تحریک کے دوران مولانا محمد علی جوہر کی والدہ جو "اماں بی” کے نام سے مشہور تھیں میانوالی تشریف لائی تھیں اور ان کے والد ملک مولانا بخش ایڈووکیٹ – کے پرانے مکان واقع صدر بازار بالمقابل زنانہ ہپستال میں قیام کیا تھا۔

یہاں مولانا حسین احمد مدنی بھی مولانا شیر محمد زرگر کی دعوت پر متحدہ قومیت کا علم اٹھائے تشریف لائے تھے اور ہندوؤں کے دھرم شالہ (جہاں آج کل ایم سی ہائی سکول ہے) میں قیام کیا تھا۔ علامہ اقبال کے ۱۹۳۰ء کے الہ آباد والے خطبہ صدارت کی اور مسلم لیگ کی گونج یہاں تک پہنچ گئی تھی۔ یہاں کا دانا ہندو جان گیا تھا کہ ایک روز پاکستان بن ہی جائے گا اس لئے ہندو مسلم اتحاد میں سرگرم ہو گیا تھا۔ اس خیر سگالی کے طور پر لالہ ہیم راج نے وہ مسجد بنوائی تھی جسے آج کل موتی مسجد کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس طرح گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہاں کا ہندو بڑا وسیع الطرف ہے۔ قائد اعظم اپنی کوششوں کی عدم پذیرائی پر مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے۔ ان کا فیصلہ تھا کہ اب وہ کبھی ہندوستان نہیں آئیں گے پھر علامہ اقبال نے انہیں متواتر خطوط لکھے اور آخر اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ ہندوستان واپس آکر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لیں۔

یوں مسلم لیگ کے تن مردہ میں حیات تازہ کا لہو رواں ہو گیا۔ قاضی دین الحق کراچی کی روایت کے مطابق قائد اعظم، مولانا عبد الستار خان نیازی اور مرزا عبد الحمید کی کوششوں سے پہلی دفعہ لاہور آنے پر رضامند ہوئے تھے مرزا عبد الحمید ان دنوں آسٹریلیا مسجد نزد ریلوے سٹیشن میں خطیب تھے قائد اعظم نے ایک نماز ان کی امامت میں ادا کی تھی (بحوالہ طلوع اسلام دسمبر ۱۹۷۹ء) پنجاب کے زمینداروں میں پہلے شخص ملک امیر محمد خان آف کالا باغ تھے جنہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ خاکسار تحریک بڑی جان دار تحریک تھی میانوالی میں ڈاکٹر نور محمد خان ایم بی بی ایس (خنکی خیل اور حکیم عبد الرحمان خان (خنکی خیل) پہلے آدمی تھے جنہوں نے علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کی دعوت پر لبیک کہا اور خاکسار تحریک کے سرگرم قائد بن گئے وہ منظر بھی آنکھوں نے دیکھے ہیں کہ یہ پروقار اور عظمت باب لوگ بیچے کندھوں پر رکھے خلق خدا کی خدمت میں مصروف ہیں حکیم عبد الرحمان خان مرحوم خاکسار تحریک کے دہلی کے تاریخی اجتماع میں بھی شریک ہوئے اور اس شان سے کہ پہلے کندھے پر ہے اور سائیکل پر سوار ہو کر میانوالی سے دہلی پہنچے ہیں ۔ لاہور میں جب خاکساروں پر گولی چلائی گئی تو میانوالی کے یہ دونوں مایہ ناز فرزند بھی وہاں سینہ سپر کھڑے تھے۔ یہ مارچ ۱۹۴۰ء کی ابتداء تھی اس قتل عام کا میانوالی میں بھی شدید رد عمل ہوا اور ایک تاریخ ساز احتجاجی جلوس نکالا گیا۔

میانوالی میں احرار کا عمل دخل بھی رہا ہے یہ اس وقت شروع ہوا جب نواب آف کالا باغ نے پراچہ خاندان کے کچھ لوگوں کی جائیدادیں ضبط کیں اور انہیں شہر بدر کر دیا شہر بدر ہونے والے پراچوں نے جمعیت احرار کا سہارا لیا۔ جمعیت احرار نے نواب امیر محمد خان کے خلاف کالا باغ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ارد گرد سے احرار کے شعلہ بیان مقررین کا طائفہ مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی قیادت میں کالا باغ پہنچ گیا۔ بہت سے ۔ سامعین بھی وہ ساتھ لے کر گئے تھے اس وقت احرار کی مخصوص سرخ وردی ہوتی تھی وہ سرخ پوش شہر میں داخل ہوئے تو ان پر سنگ باری شروع ہو گئی جس گلی میں جاتے پتھروں کی بارش ہوتی یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر ماڑی پہنچے اور گاڑی پر سوار ہو کر واپس آ گئے اس وقت مولانا عبد الستار خان نیازی نواب ملک امیر محمد خان کے رفیق خاص تھے انہوں نے کالا باغ کے لوگوں کو مطمئن کرنے اور احرار کے خلاف بھڑکانے میں بڑی پر جوش تقریریں کی تھیں نواب کالا باغ اور مولانا نیازی کی رفاقت کا آغاز یوں ہوا تھا کہ مولانا نیازی ابتدا میں صاحبزادہ نصیر الدین بگومی کی محمدی جماعت میں شامل تھے اور اس کے تحت سلسلہ ہائے اجتماعات میں کالا باغ آئے تھے ان کی تقریر نواب کالا باغ کو پسند آگئی تھی اور پھر ان کی رفاقت کا آغاز ہو گیا تھا۔

یہ رفاقت دیر تک رہی حمید نظامی مولانا نیازی کے قریبی دوست اور ہم جماعت تھے انہوں نے روزنامہ نوائے وقت جاری کیا تو مولانا ہی کے ایما پر نواب امیر محمد خان نے بہت سی رقم دے کر نوائے وقت میں شراکت کی اور غالبا” آج تک یہ شراکت داری قائم ہے۔ علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ کی تحریک شروع کی تو میانوالی کے علماء نہ ان کا بھر پور ساتھ دیا مولانا حکیم محمد امیر علی شاہ نے سرائیکی نظموں کے ذریعے نظریہ کی وضاحت کی۔ مولانا غلام محمود صاحب پیلانوی نے مولانا حسین احمد مدنی کو ان کی غلطی پر مبینہ کرنے کے لئے انہیں بہت سے خطوط لکھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کو بھی خط لکھے جن میں ان کی صداقت پرستی پر انہیں ہدیہ تحسین و تحریک پیش کیا گیا انہوں نے اپنی تقاریر میں بھی دو قومی نظریہ کو ہی موضوع بنائے رکھا ان کے گرامی قدر فرزند مولانا محمد حسین شوق نے عملی طور پر تحریک پاکستان میں حصہ لیا مولانا احمد الدین گانگوی اور مولانا محمد اکبر علی نے قائد اعظم کی حمایت کو دینی فریضہ قرار دیتے ہوئے ایک فتویٰ تحریر کیا جس پر بریلوی مکتب فکر کے دیگر علماء کے بھی دستخط تھے۔ میانوالی میں جب مسلم لیگ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو جابجا مسلم لیگ کے جلسے ہونے لگے یہاں یہ تحریک مولانا عبد الستار خان نیازی کی مساعی جمیلہ کی مرہون احسان تھی۔ پیر شاہ عالم شاہ اور خان محمد اکبر خان خنکی خیل اس تحریک کے متحرک کارکن بن گئے محمد امیر خان سنبل ضلعی جنرل سیکرٹری اور مولانا حکیم محمد امیر علی شاہ سیکرٹری نشرو اشاعت مقرر ہوئے بعد میں حکیم محمد عظیم خان خنکی خیل بھی ان صفوں میں شامل ہو گئے جلسوں میں سردار خان یا رو خیل سرائیکی نظموں سے گرمی پیدا کرنے لگے۔ انہی جلسوں میں سٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے حبیب اللہ خان (مرحوم) آف دحله عظمت متعارف ہوئے اور مولانا نیازی کے بعد پرجوش اور شستہ تقریروں کے باعث معروف ہو گئے امان اللہ خان شیرمان خیل بھی سٹوڈنٹ لیڈر تھے اور مسلم لیگ کے جلسوں میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔

اب مسلم لیگ کی آواز ہر گھر میں پہنچ گئی اور گلی کوچوں میں بچے تک پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ میانوالی میں جامعہ اکبریہ میں بہت بڑا جلسہ ہوا۔ امیر عبداللہ خان روکھڑی اور محمد عظیم خان خنکی خیل نے سول نافرمانی کے آغاز کا علم بلند کیا اور ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ضلع کچہری پہنچے امیر عبداللہ خان روکھڑی نے ڈی سی آفس پر چڑھ کر برطانوی جھنڈا پھاڑ کر پھینک دیا اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا آخر عوامی احتجاج سے مجبور ہو کر خضر حیات ٹوانہ نے مارچ ۱۹۴۷ء میں است دے دیا۔ آخر بے دست و پا ہو کر انگریز نے ۱۳ اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی کا اعلان کر دیا اور پاکستان وجود میں آگیا۔ قائد اعظم کے بعد مسلم لیگ میں ممدوٹ دولتانہ جنگ چھڑ گئی۔ مسلم لیگ کے ارکان دھڑوں میں بٹ کر تتر بتر ہو گئے میانوالی کے سیاسی زعما ملک امیر محمد خان اور امیر عبداللہ خان روکھڑی تو مسلم لیگ سے وابستہ رہے
استعفیٰ لیکن مولانا نیازی اسے چھوڑ گئے۔

ملک امیر محمد خان اور امیر عبداللہ خان روکھڑی بھی ری پبلکن پارٹی میں پہنچ گئے یوں میانوالی کی صف اول کی قیادت مسلم لیگ سے الگ ہو گئی اس وقت سے لے کر آج تک نام ور آدمیوں میں صرف امان اللہ خان شیرمان خیل اور مقبول خان عیسی خیل مسلم لیگ سے وابستہ چلے آ رہے ہیں۔
۵۳ء میں تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی تو مولانا عبد الستار خان نیازی لاہور میں اس کی قیادت کر رہے تھے میانوالی میں مولانا محمد رمضان کی موتی مسجد اس تحریک کا مرکز خاص تھی بہت سے لوگ قید و بند کی صعوبات میں مبتلا ہوئے۔ مولانا میاں اصغر علی میانہ بھی یہاں اس کے سرگرم قائد تھے انہوں نے بڑی پرجوش تقریریں کیں اور انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا یہاں سے بیسیوں کارکنوں نے اس تحریک میں گرفتاری دی تھی۔ اس تحریک میں مارشل لاء کی عدالت نے مولانا مودودی، مولانا نیازی اور مولانا اختر علی خان کو سزائے موت سنائی جسے عمر قید میں بدلا گیا اور پھر اسے بھی ختم کر دیا گیا۔

ایوب خان کے محمد اقتدار میں مسلم لیگ میں پھر جان ڈالنے کی کوشش کی گئی مسلم لیگ تین دھڑوں میں بٹ گئی ممتاز دولتانہ نے کونسل مسلم لیگ بنا ڈالی ایوب خان کے حصہ میں مسلم لیگ کا جو ٹکڑا آیا اس کا نام کنونشن مسلم لیگ پڑ گیا قیوم خان اپنے چند ساتھیوں سے مل کر قائد اعظم مسلم لیگ کے کرتا دھرتا بن گئے۔ ملک امیر محمد خان اور امیر عبداللہ خان روکھڑی ، ایوب خان والی مقتدر کنونشن مسلم لیگ کے علم بردار ہو گئے اور مولانا نیازی جو اب عوامی لیگ سے بھی الگ ہو چکے تھے صوفی ابراہیم علی چشتی سے مل کر مسلم لیگ خلافت پاکستان گروپ کو منظم کرنے لگے۔ امان اللہ خان کو نسل مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے حبیب اللہ خان آف دھلہ عظمت پس منظر میں چلے گئے ۶۴ء میں ایوب خان نے بی ڈی سسٹم کے تحت صدارتی الیکشن کرایا۔ ان کے مقابلہ میں حزاب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ امیدوار نامزد کیا۔ مذہبی جماعتوں نے بھی ان کی حمایت کی۔ اس جہم میں مولانا نیازی اور امان اللہ خان مادر ملت کے ساتھ تھے امان اللہ خان کے بڑے بھائی ظفر اللہ خان شیرمان خیل ہمیشہ مسلم لیگ کے خاموش مگر مستعد کارکن رہے وہ ان کے ساتھ تھے۔ ادھر نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان اس وقت گورنر مغربی پاکستان تھے وہ اور امیر عبداللہ خان روکھڑی ایوب خان کے ساتھ
تھے۔

۶۷ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی تو حبیب الله خان آف د حلہ عظمت ایک دفعہ پھر میدان عمل میں آگئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن بن گئے وہ بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے ۶۸ء میں ہی ایوب خان کے حق میں روکھڑی والوں نے میانوالی میں بندوق بردار جلوس نکالا ایوب کے عہد اقتدار کے آخری ایام تھے اس نے آخری چارہ کار کے طور پر گول میز کانفرنس بلوائی۔ مگر بالاخر اس نے اقتدار یحیی خان کے حوالہ کر دیا اور خود پس منظر میں چلا گیا یکی خان نے انتخابات کرائے اس وقت امیر محمد خان قتل ہو چکے تھے مولانا نیازی ملک مظفر خان آف کالا باغ کے مقابلہ میں الیکشن ہار گئے امیر عبداللہ خان روکھڑی بھی ایم این اے کا الیکشن ہار گئے لیکن ایم پی اے منتخب ہو گئے۔ مولانا نورانی اور مولانا نیازی مل کر جمعیتہ العلمائے پاکستان قائم کر چکے تھے اور مولانا نورانی قومی اسمبلی میں بھی پہنچ گئے تھے ضیاء الحق نے ۷۷ء میں مارشل لاء لگا دیا۔

اب ضلع میانوالی میں ڈاکٹر شیر افگن خان کے نام سے ایک اور عوامی قوت میدان عمل میں آچکی تھی۔ ڈاکٹر ۸۵ء میں ایم این اے بن چکا تھا۔ ۸۸ء کے انتخابات میں مولانا نیازی نے جمعتہ العلمائے پاکستان کے ٹکٹ پر اور ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور دونوں الیکشن جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ڈاکٹر اس میں وزیر مملکت بن گئے۔ مولانا نیازی مولانا نورانی سے الگ ہو چکے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آٹھویں ترمیم کی نذر ہو گئی ۹۰ میں الیکشن ہوئے مولانا نیازی اسلامی جمہوری اتحاد کے نشان پر ایم این اے ہو گئے اور پھر نواز شریف حکومت میں وفاقی وزارت مذہبی امور حاصل کر لی۔ کویت کی جنگ میں صدام کے حق میں بیان دے کر وزارت چھوڑ دی مگر پھر قبول کر لی۔ ۹۳ء میں نواز شریف حکومت ختم  ہو گئی۔

نئے الیکشن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی۔ میانوالی سے ڈاکٹر شیر انگن خان اور عبید اللہ خان شادی خیل رکن منتخب ہوئے یہاں کی ایک اور قابل ذکر سیاسی شخصیت مولانا محمد رمضان تھے موتی مسجد (سابقہ ہیم راج) ان کی تحویل میں تھی پہلے احرار میں شامل رہے پھر جمعیتہ العلمائے اسلام وجود میں آئی تو اس میں شامل ہو گئے جمعیت ۶۹۔۶۸ء میں مفتی محمود گروپ اور ہزاروی گروپ میں تقسیم ہو گئی تو یہ مفتی محمود گروپ میں ہو گئے اور سردار رفیق خان کے والد خان زمان خان ہزاروی گروپ کے رہنما بن گئے مولانا غلام غوث ہزاروی کی وفات کے بعد ہزاروی گروپ ختم ہو گیا۔ مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام پھر دو دھڑوں درخواستی اور فضل الرحمن گروپ میں منقسم ہو گئی۔ مولانا رمضان صاحب درخواستی گروپ سے وابستہ ہوئے اور ادھر ضیاء الحق فاؤنڈیشن میں بھی شامل رہے جلوس کی قیادت کر کے ضیاء الحق کی برسیوں پر جاتے رہے اب مولانا اس دنیا میں نہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔ اب میانوالی میں فضل الرحمٰن گروپ سے وابستہ کوئی قابل ذکر آدمی نہیں خانقاہ سراجیہ والے مولانا خان محمد صاحب درخواستی گروپ سے منسلک ہیں۔

یہاں عرصہ دراز سے جماعت اسلامی بھی کام کر رہی ہے ابتدا میں میاں اصغر علی صاحب جماعت سے وابستہ تھے پھر وہ الگ ہو گئے جماعت کو میانوالی میں متحرک کرنے کے لئے فرید پراچہ کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری بھی کافی عرصہ تک بطور امیر کام کرتے رہے مگر ان کی سرگرمیوں کے باوجود یہاں جماعت کو عوامی پذیرائی نصیب نہ ہو نہ ہو سکی بعد میں مولانا علی محمد مظاہری، مولانا غلام محمد (مرحوم) ممتاز خان ایڈووکیٹ اور حاجی غلام محمد . پھر بھی اس کے امیر رہے آج کل پہلاں کے حکیم نعمان انصاری اس کے امیر ہیں۔

یہاں مختصر سے عرصہ کے لئے نواب زادہ نصراللہ خان والی پاکستان جمهوری پارٹی کی شاخ بھی قائم ہوئی تھی اور سردار خان وتہ خیل اس کے صدر تھے مگر وہ اسے چھوڑ گئے۔ پھر کچھ روز کاغذی طور پر ملک شیر محمد خان آف کالا باغ اس کے صدر رہے وہ مرحوم ہو گئے تو یہ پارٹی بھی یہاں بے نشان ہو گئی۔
جب مجیب الرحمن کو قومی اسمبلی میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی تو روکھڑی گروپ والوں نے یہاں عوامی لیگ کا دفتر بھی قائم کیا تھا۔ جو مجیب کی گرفتاری کے بعد ختم ہو گیا۔ یہاں تحریک استقلال بھی غیر محسوس انداز میں موجود ہے اور قاضی امیر عبد اللہ ایڈووکیٹ اس کے صدر ہیں۔

یہاں کمیونسٹ پارٹی تقسیم ہند سے قبل کام کرنے لگی تھی۔ امیر قلم خان اس کے سرگرم کارکن تھے کچھ عرصہ پروفیسر ایرک سپرین بھی میانوالی میں انڈر گراؤنڈ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں آزاد پاکستان پارٹی کا دفتر قائم ہوا۔ امیر قلم خان ، کامریڈ عبدالکریم قریشی، ملک دوست محمد بھچر اور جمعیت احرار سے آئے ہوئے پنجابی کے مشہور شاعر مولانا غلام محمد ہاشمی مرحوم اس کے رکن رکین تھے۔ غلام محمد ہاشمی نے تو نواب کالا باغ کے خلاف انتخاب بھی لڑا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کی ایک چیز قابل ذکر ہے کہ تھل پراجیکٹ جو میانوالی کی چھاتی چیر کر گزاری گئی ہے منصوبہ کے مطابق شمالی علاقہ کو اس سے ایک قطرہ آپ بھی فراہم نہیں ہونا تھا امیر قلم، دوست محمد بھچر ، عبد الکریم قریشی اور مولانا غلام محمد ہاشمی نے کسانوں میں تحریک چلائی پھر اس تحریک میں امیر عبداللہ خان روکھڑی بھی شامل ہو گئے انہوں نے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے نہر توڑ دی یوں سمندار یکیشن والا لفٹ اریکشن سیکیم ، ہوئی۔ آزاد پاکستان پارٹی کے بعد مولانا عبدالحمید بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی قائم ہوئی یہ ملٹی کلاس پارٹی تھی اور اس میں مختلف نقطہ ہائے نظر کے لوگ شامل تھے۔ میانوالی میں بھی اس کا قیام ہوا۔ مولانا غلام محمد ہاشمی لاہور چلے گئے اور امیر عالم خان و ته خیل اس میں شامل ہو گئے۔

پارٹی نے انہیں صدر بنا دیا پھر نیپ میں اختلاف ہوا اور الگ پارٹی کی حیثیت سے نیپ ولی خان گروپ وجود میں آیا امیر قلم خان اس میں چلے گئے۔ امیر عالم خان دوست محمد بھچر ، کامریڈ عبدالکریم قریشی بھاشانی گروپ میں ہی رہے۔ ۶۸ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد نیپ بھاشانی گروپ کے مزید ٹکڑے ہوئے مغربی پاکستان نیپ میں ی آر اسلم گروپ اور میجر اسحاق گروپ سامنے آئے۔ میانوالی سے ملک دوست بھچر اسحاق گروپ میں چلے گئے عبد الکریم قریشی اور امیر عالم خان وتہ خیل سی ہو گئی۔

نئے الیکشن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی۔ میانوالی سے ڈاکٹر شیر انگن خان اور عبید اللہ خان شادی خیل رکن منتخب ہوئے یہاں کی ایک اور قابل ذکر سیاسی شخصیت مولانا محمد رمضان تھے موتی مسجد (سابقہ ہیم راج) ان کی تحویل میں تھی پہلے احرار میں شامل رہے پھر جمعیتہ العلمائے اسلام وجود میں آئی تو اس میں شامل ہو گئے جمعیت ۶۹۔۶۸ء میں مفتی محمود گروپ اور ہزاروی گروپ میں تقسیم ہو گئی تو یہ مفتی محمود گروپ میں ہو گئے اور سردار رفیق خان کے والد خان زمان خان ہزاروی گروپ کے رہنما بن گئے مولانا غلام غوث ہزاروی کی وفات کے بعد ہزاروی گروپ ختم ہو گیا۔ مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام پھر دو دھڑوں درخواستی اور فضل الرحمن گروپ میں منقسم ہو گئی۔ مولانا رمضان صاحب درخواستی گروپ سے وابستہ ہوئے اور ادھر ضیاء الحق فاؤنڈیشن میں بھی شامل رہے جلوس کی قیادت کر کے ضیاء الحق کی برسیوں پر جاتے رہے اب مولانا اس دنیا میں نہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔ اب میانوالی میں فضل الرحمن گروپ سے وابستہ کوئی قابل ذکر آدمی نہیں خانقاہ سراجیہ والے مولانا خان محمد صاحب درخواستی گروپ سے منسلک ہیں۔

یہاں عرصہ دراز سے جماعت اسلامی بھی کام کر رہی ہے ابتدا میں میاں اصغر علی صاحب جماعت سے وابستہ تھے پھر وہ الگ ہو گئے جماعت کو میانوالی میں متحرک کرنے کے لئے فرید پراچہ کے والد مولانا گلزار احمد مظاہری بھی کافی عرصہ تک بطور امیر کام کرتے رہے مگر ان کی سرگرمیوں کے باوجود یہاں جماعت کو عوامی پذیرائی نصیب نہ ہو سکی بعد میں مولانا علی محمد مظاہری، مولانا غلام محمد (مرحوم) ممتاز خان ایڈووکیٹ اور حاجی غلام محمد بپھر بھی اس کے امیر رہے آج کل پہلاں کے حکیم نعمان انصاری اس کے امیر ہیں۔ یہاں مختصر سے عرصہ کے لئے نواب زادہ نصر اللہ خان والی پاکستان جمهوری پارٹی کی شاخ بھی قائم ہوئی تھی اور سردار خان وتہ خیل اس کے صدر تھے مگر وہ اسے چھوڑ گئے۔ پھر کچھ روز کاغذی طور پر ملک شیر محمد خان آف کالا باغ اس کے صدر رہے وہ مرحوم ہو گئے تو یہ پارٹی بھی یہاں بے نشان ہو گئی۔
جب مجیب الرحمن کو قومی اسمبلی میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی تو روکھڑی گروپ والوں نے یہاں عوامی لیگ کا دفتر بھی قائم کیا تھا۔ جو مجیب کی گرفتاری کے بعد ختم ہو گیا۔ یہاں تحریک استقلال بھی غیر محسوس انداز میں موجود ہے اور قاضی امیر عبداللہ ایڈووکیٹ اس کے صدر ہیں۔

یہاں کمیونسٹ پارٹی تقسیم ہند سے قبل کام کرنے لگی تھی۔ امیر قلم خان اس کے سرگرم کارکن تھے کچھ عرصہ پروفیسر ابرک سپرین بھی میانوالی میں انڈر گراؤنڈ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں آزاد پاکستان پارٹی کا دفتر قائم ہوا۔ امیر قلم خان ، کامریڈ عبد الکریم قریشی، ملک دوست محمد بھچر اور جمعیت احرار سے آئے ہوئے پنجابی کے مشہور شاعر مولانا غلام محمد ہاشمی مرحوم اس کے رکن رکین تھے۔ غلام محمد ہاشمی نے تو نواب کالا باغ کے خلاف انتخاب بھی لڑا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کی ایک چیز قابل ذکر ہے کہ تھل پراجیکٹ جو میانوالی کی چھاتی چیر کر گزاری گئی ہے منصوبہ کے مطابق شمالی علاقہ کو اس سے ایک قطرہ آپ بھی فراہم نہیں ہونا تھا امیر قلم، دوست محمد بحجر عبد الکریم قریشی اور مولانا غلام محمد ہاشمی نے کسانوں میں تحریک چلائی پھر اس تحریک میں امیر عبداللہ خان روکھڑی بھی شامل ہو گئے انہوں نے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے نہر توڑ دی یوں سمندار یگیشن والا لفٹ ار یشن حکیم منظور ہوئی۔

آزاد پاکستان پارٹی کے بعد مولانا عبد الحمید بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی قائم ہوئی یہ ملٹی کلاس پارٹی تھی اور اس میں مختلف نقطہ ہائے نظر کے لوگ شامل تھے۔ میانوالی میں بھی اس کا قیام ہوا۔ مولانا غلام محمد ہاشمی لاہور چلے گئے اور امیر عالم خان وتہ خیل اس میں شامل ہو گئے ۔ پارٹی نے انہیں صدر بنا دیا پھر نیپ میں اختلاف ہوا اور الگ پارٹی کی حیثیت سے نیپ ولی خان گروپ وجود میں آیا امیر قلم خان اس میں چلے گئے۔ امیر عالم خان دوست محمد بھچر ، کامریڈ عبد الکریم قریشی بھاشانی گروپ میں ہی رہے ۔ ۶۸ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد نیپ بھاشانی گروپ کے مزید ٹکڑے ہوئے مغربی پاکستان نیپ میں کی آر اسلم گروپ اور میجر اسحاق گروپ سامنے آئے۔ میانوالی سے ملک دوست محمد بھچر اسحاق گروپ میں چلے گئے عبد الکریم قریشی اور امیر عالم خان وتہ خیل سی آر اسلم گروپ میں رہ گئے بعد میں میجر اسحاق نے نیپ سے تعلق توڑ لیا اور مزدور کسان پارٹی کے نام سے الگ سیاسی تنظیم قائم کی ملک دوست محمد بھچر آج تک اسی سے وابستہ چلے آ رہے ہیں۔ سی آر اسلم نے پاکستان سوشلسٹ پارٹی قائم کر لی امیر عالم خان وتہ خیل کچھ روز اس میں رہے نیپ ولی خان گروپ میں چھا گئے اسی دوران امیر عبداللہ خان روکھڑی کے بھانجے اصغر عزیز خان بھی نیپ میں آگئے اور بڑے عرصہ تک اس کی صدارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے امیر عالم خان وتہ خیل نے پاکستان پروگریسو پارٹی میں شرکت کی۔ ضیاء دور میں ڈاکٹر اعزاز نذیر اور چودھری اصغر خادم کی معیت میں جیل بھی گئے پھر اے این پی میں چلے گئے اور آج تک وہیں ہیں۔

19ء کی ابتدا میں ہی یہاں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہو گئی تھی پہلے اس کے ضلعی صدر عبدالستار خان ایڈووکیٹ تھے پھر نوابزادگان کالا باغ کی حمایت سے خضر حیات خان ایڈووکیٹ صدر ہوئے ابتلا آیا تو پھر عبدالستار خان ایڈووکیٹ صدر ہوئے اور قید بھی ہوئے۔ بے نظیر کے دور حکومت میں وہ پیپلز در کس پروگرام کے انچارج ہو گئے اور صدارت صداقت اللہ خان ایڈووکیٹ کے حصہ میں آئی۔ اب ڈاکٹر شیر افگن خان صدر ہیں۔ ضیاء دور میں ہی ڈاکٹر شیر افگن خان موکثر سیاسی قوت کی حیثیت سے ابھرے وہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے ہیں عوام میں ان کی مقبولیت کے اسباب یہ تھے کہ انہوں نے سال ہا سال تک غریب عوام کی بے لوث خدمت کی تھی۔ ڈسٹرکٹ کونسل کے الیکشن میں ان کو خوب پذیرائی ملی۔

کالا باغ اور روکھڑی گروپ نواب امیر محمد خان کے قتل کے بعد باہم متحارب چلے آتے تھے انہوں نے وقتی طور پر صلح کرلی اور ڈسٹرکٹ کونسل کی چیئرمین شپ انہیں مل گئی ڈاکٹر شیر افگن کے ساتھ صرف مقبول احمد خان عیسی خیل رہ گئے۔ یہاں حساس ، باشعور اور ترقی پسند حلقوں نے ضروری سمجھا کہ ڈاکٹر شیر احمن کی حوصلہ افزائی کی جائے چنانچہ عوامی محاز کا پلیٹ فارم انہیں مہیا کر دیا۔ مولانا نیازی نے بھی اس محاذ کی حمایت کی ۸۵ء کے غیر جماعتی الیکشن میں عوام کی بھرپور تائید سے ڈاکٹر صاحب ایک قومی اور ایک صوبائی سیٹ جیت گئے مقبول خان نے دوسری قومی سیٹ جیت لی۔ مقبول خان نے ضیاء الحق دور میں وزارت مذہبی امور قبول کرلی ڈاکٹر صاحب نے مارشل لاء اور جنرل ضیاء الحق کی کھل کر مخالفت کی ان کے مخالف امیدوار عامر حیات خان روکھڑی کی طرف سے پٹیشن چل رہی تھی۔
تقریباً دو سال بعد اس کا فیصلہ ہوا اور ان کے حریف عامر حیات خان کو کامیاب قرار دیا گیا۔ ۸۸ ء کے الیکشن میں انہوں نے مولانا نیازی سے الحاق کیا اور ایم این اے ہو گئے وہاں بے نظیر حکومت میں وزارت قبول کر لی پھر وزارت سے استعفیٰ دے دیا تاہم پارٹی سے ہمدردانہ وابستگی قائم رکھی صدر نے اسمبلیاں توڑیں تو ڈاکٹر صاحب نے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ 90ء کا الیکشن پارٹی ٹکٹ پر لڑا اور ناکام ہو گئے۔ مگر ۹۳ء کے الیکشن میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے مگر ۹۷ ء کے الیکشن میں پھر بری طرح ناکام ہوئے ۔ امیر عبداللہ خان روکھڑی کا گروپ کسی زمانہ میں خاص مضبوط تھا پھر اس کی ساکھ گرتی گئی گل حمید خان روکھڑی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین ہوئے تو انہوں نے عوامی کام کئے موچھ ، سوانس، غنڈی وغیرہ شہروں میں لوگوں کو بہت سی سہولیات بہم پہنچائیں۔

اس طرح صوبائی الیکٹورل یونٹ کے لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے ۸۸ء میں وہ اس سیٹ پر نمایاں کامیابی سے بہرہ مند ہوئے۔ 90ء میں اس سیٹ پر عامر حیات خان روکھڑی کامیاب ہوئے اور گل حمید خان ایم این اے ہو گئے ضلع کے بلدیاتی انتخابات کے سلسلہ میں مولانا نیازی اور روکھڑی گروپ کا وہ کا وہ اتحاد ٹوٹ گیا جو اسلامی جمہوری اتحاد میں دونوں کی شمولیت کے باعث قائم ہوا تھا۔ مولانا نے میانوالی میں حق پرست گروپ کی امداد کی خوب مقابلہ ہوا مگر ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹی میانوالی میں روکھڑی گروپ کامیاب رہا گل حمید خان کے فرزند حمیر حیات خان ضلع کونسل کے چیئرمین ہو گئے۔ میانوالی کے سید میانہ خاندان میں بڑے عرصہ کے بعد بیداری آئی ہے۔ 1ء کے الیکشن میں میاں ریاض احمد آف چاہ میانہ ایم پی اے ہوئے انہوں نے یہ الیکشن اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور یہ سیٹ گل حمید خان نے چھوڑیتھی۔
منظور وٹو وزیر اعلی ہوئے تو وہ چند روز مشیر بھی رہے۔ خوانین پیلاں کسی زمانہ میں سیاست میں خاصے سرگرم تھے امیر عبداللہ خان آف پہلاں نے تحریک پاکستان میں نمایاں حصہ لیا تھا پھر یہ لوگ روکھڑی گروپ میں گم ہو کر اپنا تشخص کھو بیٹھے ماضی قریب میں وہ بھی بیدار ہوئے حسنین خان کے بھائی محمد سبطین خان ایم اے نے 90ء کے الیکشن میں آزاد صوبائی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا انہیں پیپلز پارٹی کا بھر پور تعاون حاصل تھا پیپلز پارٹی کے تحصیل صدر عبد الغنی منظر فیروز پوری اور پہلاں شہر کے صدر محمد حنیف آسی نے بڑی جانفشانی سے کام کیا انہیں یقین تھا کہ کامیابی کے بعد سبطین خان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں گے وہ کامیاب ہو گئے تو نواز شریف کے ساتھ شامل ہو گئے۔

وٹو وزیر اعلیٰ بنے تو سبطین خان نے اس کا ساتھ دیا اور چند روزہ صوبائی وزیر بن گئے پھر استقامت کا ثبوت دیتے ہوئے وٹو ہی کے ساتھ رہے۔ ۹۳ء کے الیکشن میں انہیں جونیجو گروپ کا ٹکٹ مل گیا مگر اندرونی معاہدہ کے تحت فقیر عبد الحمید کے لئے ٹکٹ چھوڑ دیا۔ خوانین عیسی خیل میں سے کرنل اسلم خان ۷۰ء کے الیکشن میں ایم بی اے ہوئے مقبول احمد خان ۸۵ء میں ایم این اے اور وفاقی وزیر مملکت بنے یہاں خوانین حافظ والا کو بھی اہم مقام حاصل رہا ہے فقیر شیر عباس خان تحریک پاکستان میں شامل تھے فقیر عبدالمجید خان ضلع میں نام ور آدمی تھے اپنے علاقہ کی یونین کونسل کے چیئرمین رہے پھر ڈسٹرکٹ کونسل میانوالی کے چیئرمین نے ہے۔ جوئیہ ایک بڑا خاندان ہے غلام شبیر جوئیہ ۸۸ء کے الیکشن میں صوبائی ممبر بنے نواز شریف سے ذاتی تعلقات کی بناء پر صوبائی مشیر بھی ہو گئے۔ 90ء میں سبطین خان کے مقابلہ میں ہار گئے۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com