خوشاب کی سیاست

ضلع خوشاب: خضر حیات ٹوانہ اور تحریک پاکستان

شیخ محمدحیات

 

خضر حیات ٹوانہ اور تحریک پاکستان

ابتدائی زندگی :

ملک خضر حیات ٹوانہ 17 اگست 1900 ء میں پیدا ہوا۔ اس وقت تک ملک عمر حیات اس ضلع کا سب سے بڑا زمیندار بن چکا تھا۔ ابتدائی تعلیم چیف کالج لاہور سے حاصل کی اور اس کے بعد 1920 ء میں اپنی زمینوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ خضر حیات کی والدہ پیر سید مہر علی شاہ کی مرید تھی۔ خضر حیات بھی والدہ کے ساتھ گواڑہ شریف جاتا رہتا تھا اور اس کا یہ اثر تھا کہ خضر دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوتا، نماز پنجگانہ ضرور ادا کرتا اور نماز عصر کے بعد تلاوت قرآن پاک ذوق شوق سے کرتا۔ جاگیر کا اکثر سٹاف خزانچی وغیرہ ہندوؤں پر مشتمل تھا۔ صرف جنرل منیجر مسلمان ہوتا جو اس کو رپورٹیں دیتا۔ زمینوں کے کاردار عموماً سکھ ہوتے تھے۔
خضر اپنے علاقے کا آنریری مجسٹریٹ بھی تھا۔ یہ دن کا آغاز ایک گھنٹہ گھوڑ سواری سے کرتا۔ اس کے بعد 9 بجے اوقات کار کا آغاز ہوتا۔ اپنے مزارعوں، عزیز و اقارب اور مقامی افسروں سے ملاقات کرتا۔ دو پہر کے کھانے کے بعد یا تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر منیجر کے ساتھ زمینوں پر چکر لگانے نکل جاتا یا آرام کر لیتا۔

سیاست میں آمد :

خضر کی زندگی میں اچانک تبدیلی اس وقت آئی جب والد کے اصرار پر اسے 1937ء کا الیکشن لڑنا پڑا۔ یہ الیکشن گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کے تحت منعقد ہونے والے پہلے الیکشن تھے ۔ اس طرح خضر کالرا کی مقامی سیاست سے صوبائی اور کل ہند کی سیاست کا مہرہ بن گیا لیکن وہ جہاں بھی گیا وہاں کالرا کی حدود سیاست کا ہی متھی رہا اور انہی اقدار کو مرکز میں بھی متعارف کرانے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ ایچی سن کالج کے ماحول سے اس کے ذہن و نفسیات میں جاگزیں ہو گئے تھے۔ اس کے والد عمر حیات کے بھی ایسے ہی نظریات تھے۔ مقامی معیشت کی ترقی کے لئے اس طرح کی ہم آہنگی کو وہ بے حد ضروری سمجھتا تھا۔ اس پس منظر نے خضر کے اس خیال کو اور بھی پختہ کر دیا کہ پنجاب کی تقسیم معاشی طور پر انتہائی غیر دانش مندانہ ہے۔ اس کے مقابلے میں شہری سیاست دان جو اس طرح کے فرقہ وارانہ تعاون و ہم آہنگی سے نابلد تھے، وہ زراعت کی ترقی اور استحکام کیلئے خضر کے ان دلائل میں پنہاں حقیقت پسندی اور دانش کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ کالرا اسٹیٹ کے تجربات نے خضر کو دفتری امور سمجھنے کے لئے بھی بے حد مفید اثرات مرتب کئے۔ جب وہ پنجاب کا بنیہ کا وزیر اور بعد میں پنجاب کا وزیر اعظم بنا تو وہ ہر محلے کی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو باخبر رکھتا اور ہر سطح کے افسروں سے خود ملتا۔ اس نے صوبائی حکومت کے انتظامی امور کو بھی اس طرح چلایا جس طرح وہ کالرا کے امور کو چلایا کرتا تھا یعنی منشی مزار عہد اور کھیت کے مزدور تک سے بذات خود رابطہ رکھتا۔ اس نے حقیقت میں اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو تمال حکمت سے شاہپور کے زمیندار کی طرح چلایا اور اس سے پنجاب کی سیاسی فضا میں انفرادیت نمایاں ہوکر سامنے آئی۔

یونینسٹ پارٹی :

یہ پارٹی سیاسی تنظیم کے طور پر 1923ء میں ابھر کر سامنے آئی۔ اس پارٹی کی اہم خصوصیت کسی مخصوص فرقہ یا مذہب کی وابستگی سے ماورا ہونا تھا چنانچہ پنجاب کے مسلم و غیر مسلم زمینداروں میں یکساں مقبول ہوئی۔ ہندو جانوں کے رہنما چھوٹو رام نے بھی اس پارٹی کو ترقی دینے میں اہم کردار انجام دیا۔ یہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں مقبول تھی حالانکہ شہری علاقوں میں اس کے برعکس فرقہ وارانہ سوچ پروان چڑھ رہی تھی۔ انگریز حکومت بھی اس طرح کی فرقہ واریت سے عوام کو پراگندہ ہونے سے بچانا چاہتی تھی تا کہ ملک میں انتشار نہ پھیلے۔ بقول عمران علی یہ انگریزوں کا تشکیل کردہ سیاسی و معاشی ڈھانچہ ہی تھا جس کے باعث پنجاب میں نہ تو قومی جدو جہد آزادی قدم جما سکی اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آسکا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں اسی جاگیردار طبقہ نے انگریز استعماریت کا بھر پور ساتھ دیا۔ بعد میں ان لوگوں کو انگریزوں نے دل کھول کر نوازا ۔ ان میں ٹوانے ، نون، بلوچ سرفہرست تھے ۔ لوئر جہلم کا لونی پنجاب کی نو کینال کالونیوں میں سے ایک کالونی تھی ۔ اسکا لونی میں پہلے کہیں کہیں خانہ بدوش گڈریے آباد تھے جنہیں جانگلی کہا جاتا تھا لیکن بعد میں تمام زمین پلاٹوں میں تقسیم کر دی گئی جسے مربع کہا جاتا ہے۔ سڑکوں اور ریلوے کے ذریعے نئے چکوک کو آپس میں ملا دیا گیا۔ پنجابی مارشل قوموں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانی فوج میں پنجابیوں کا غلبہ ہو گیا۔ جنگ کے دوران ساٹھ فیصد رنگروٹ صرف پنجاب سے بھرتی ہوئے ۔ جنگ عظیم کے خاتمہ پر 6000 کمشنڈ اور نان کمشنڈ افسروں کو 1420000ایکڑ زمین ان کینال کالونیوں میں دی گئی ۔ عمر حیات ٹوانہ کو 3 4 مربعے دی گئی اور اس کے لئے 90 مربعے خرید کر دیئے گئے ۔ عمر پور گاؤں اس کے نام پر آباد کیا۔

لینڈ ایلی نیشن ایکٹ :

1900 میں کاشتکاروں کو ہندو بنیوں کے چنگل سے بچانے کیلئے یہ قانون بنایا گیا کہ آئندہ کیلئے کوئی غیر کاشیکار زمین کا کسی طرح بھی مالک نہیں بن سکتا۔ ہر ضلع میں کا شہکار قبائل کی فہرستیں بنائی گئیں۔ بعد میں اس میں یہ ستم پیدا ہو گیا کہ بیٹے کا شتکار قوموں کے فرد کے نام زمین کروا کر خود قبضہ کر لیتے۔ ایسی زمینوں کو بے نامی زمینیں کہتے ہیں۔ اس سقم کو 1937ء میں سکندر حیات نے دور کیا اور ایسی زمینیں واپس ہو گئیں ۔ چھوٹو رام ان بنیوں کو کالے بنیئے اور خون چوسنے والے کہا کرتا تھا۔ اس کے جلسوں میں یہ گیت گایا جاتا تھا۔

زمیندار زیاده جان دے اک بات مان لے
اک بولنا لے سکھ اک دشمن پہچان لے

میاں فضل حسین :

یہ لاہور کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اپنی وکالت سیالکوٹ سے شروع کی۔ پھر سیاست میں قدم رکھا۔ وہ ذاتی طور پر فرقہ وارانہ تعصب سے دور تھے ۔ ان کو یہ بھی احساس تھا کہ مسلمانوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے اس لئے انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور لاہور میڈیکل کالج میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کوٹہ سسٹم متعارف کروایا۔ (40 مسلمان 40 ہند و 20 سکھ ) اسی بناء پر مہاسبھائی لیڈر نریندرونا تھ نے اسے پنجاب کا اور نگزیب کہا تھا۔ فضل حسین کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ بین القو میتی تعاون حاصل کئے بغیر کوئی بھی قوم الگ اکثریت حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ 1919ء کی اصلاحات کے بعد پنجاب لیجسلیٹو کونسل 23 سرکاری اور نامزد 71 منتخب ہوئے جن میں سے مسلمان 35 ، ہندو 21 اور 15 سکھ تھے، پر مشتمل تھی۔ 1930ء میں وہ پانچ سال کیلئے وائسرائے کی انتظامی کونسل کے رکن کی حیثیت سے پنجاب کی سیاست چھوڑ کر دہلی چلے گئے ۔ واپس آکر انہوں نے یونینسٹ پارٹی کی تنظیم نو کی۔ 1937ء میں اس جماعت کو صوبائی اسمبلی میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ۔ قائد اعظم نے پنجاب میں مسلم لیگ کا اثر پھیلانے کیلئے لاہور میں فضل حسین سے اپریل میں ملاقات کی تاکہ آئندہ تمام امیدواروں کو یونینسٹ کی بجائے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے انتخاب لڑنے کی ترغیب دیں۔ ابھی کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے فضل حسین وفات پاگئے اور سکندر حیات اس کے جانشین بنے۔یوئینسٹ پارٹی کے منشور میں یہ بات درج تھی کہ برطانوی راج کے تحت پہلی مرتبہ پنجاب کی حکومت پنجابیوں کے ہاتھ آئی۔ اس کامیابی اور نا کامی کی ذمہ داری ہمیں پر ہوگئی۔ عمر حیات ٹوانہ کو احساس تھا کہ اس کے خاندان کے سرکار اور کسانوں کے درمیان واسطے کا کردار ادا کرنا چاہئے اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو اسمبلی کا انتخاب لڑنے کیلئے تیار کر ہی لیا۔ اس وقت کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ فیصلے آگے چل کر ٹوانہ خاندان اور پنجاب پر کس قدر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔

خضر حیات بطور وزیر :

1937ء کے صوبائی انتخابات میں خضر حیات نے خوشاب سے حصہ لیا۔ اس کی انتخابی مہم کا سارا کام اس کے والد عمر حیات نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ خوشاب میں ٹوانوں اور نونوں کی 185000 یکٹر زمین تھی ، ان کا مقابلہ صرف اعوان قبیلہ کر سکتا تھا لیکن اسے انتخاب سے دستبردار کرا دیا۔ چنانچہ جب کاغذات داخل کرنے کی تاریخ 23 نومبر گزر چکی تو اعوان نمائندے کو 10000 روپیہ نقد دے کر بٹھا دیا گیا اور کوئی دوسرا کا غذات جمع نہ کرا سکا۔ اس طرح خضر حیات بلا مقابلہ کامیاب ہو گیا۔ شاہپور کی نشست پر نواب اللہ بخش ٹوانہ نے 408 دوٹوں کے معمولی فرق سے نواب محمد حیات قریشی کو شکست دی۔ اس طرح اسمبلی میں کل 175 ارکان میں سے 99 یونینسٹ پارٹی کے تھے اور دیہی 75 مسلم نشستوں میں سے 73 پر یونینسٹ کامیاب ہوئے لیکن 9 شہری حلقوں میں سے صرف ایک نشست حاصل ہوئی لیکن پھر بھی 175 ارکان میں سے 120 ارکان یونینسٹ تھے اور یہ تمام پنجاب کے علاقوں کی نمائندگی کرتے تھے۔
سکندر نے بڑے محتاط انداز سے کابینہ میں قومیتی توازن برقرار رکھا۔ خضر کو اپنے والد کے اثر و رسوخ کی وجہ سے لوکل سیلف گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی وزارت ملی۔ خضر نے اپنے کام میں بہت دلچسپی لی ۔ چنانچہ سکندر نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے محکمہ داخلہ کا چارج بھی اسے دیدیا۔ اس کے بعد جنگ کے زمانے میں پنجاب اور بورڈ کی مین پاور کمیٹی اور سول ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ بھی خضر کی نگرانی میں دے دیئے گئے۔ ان تمام ذمہ داریوں کو خضر نے بڑی خوبی سے سنبھالا۔ سر برٹرینڈ عینی نے خضر کی وزیر کی حیثیت سے کارکردگی کو سراہتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ خضر حیات خان ٹوانہ میں قوت ارادی، اہمیت اور جرات کا وافر ذخیرہ پنہاں ہے۔ جو محکمے اس کی نگرانی میں دیئے جاتے ہیں، دلچسپی لیتا ہے۔ اسے کا بینہ کے باقی ارکان میں امتیاز حاصل ہے اور جب عمر اور تجر بہ بڑھتا جائے گا اس کی قدرو قیمت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔

تھل پراجیکٹ :

خضر نے نتھل کے علاقے کو آباد کرنے کیلئے مئی 1939ء میں تھل پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت 10 لاکھ ایکڑ اراضی کے لئے آبپاشی کا بندو بست کیا جانا تھا۔ جنگ چھڑ جانے کے باوجود کام جاری رہا اور آخر کار اس منصوبے کے تحت میانوالی ، مظفر گڑھ اور شاہپوں کے اضلاع کو فائدہ ہوا۔ وہ نہر جو خوشاب کے علاقے کو سیراب کرتی ہے خضر برانچ کا نام دیا گیا لیکن پاکستان بننے کے بعد اس کا نام مہاجر برانچ رکھ دیا گیا۔
اس کے علاوہ بھی خضر کی وزارت کے زمانے میں ضلع سرگودھا میں کافی کام ہوئے۔ سرگودھا سے کٹھہ تک پکی سڑک بنائی گئی۔ اس طرح خضر حیات نے 1946ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ وہ شاہپور سے بھیرہ تک پکی سڑک بنوا دے گا۔ نیز جھاوریاں مڈل سکول کو ہائی کا درجہ دلوائے گا۔ ایک تیسرا وعدہ شاید بجلی کا تھا۔ سڑک کا ٹھیکہ شاہپور سے جھاوریاں تک ہوگیا اور یہ بن گئی لیکن جھاوریاں سے بھیرہ تک کوئی 30 سال بعد بیٹی۔ اسے بنے نہ دیا گیا۔ جھاوریاں کے ہائی سکول کا جہاں تک تعلق ہے وہ منظور ہو گیا۔ ایک سال نویں جماعت نے پڑھا بھی لیکن پاکستان بنتے ہی خضر دشمنی کی وجہ سے ختم کر دیا گیا جسے عوام نے بہت برا منایا اور اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ اس میں عوام کے بچوں نے پڑھنا تھا خضر کے بچے تو یہاں نہیں پڑھتے تھے یا اس نے اپنے بچوں کیلئے نہیں بنایا تھا۔ یہ سکول بھی کوئی تمیں سال بعد منظور ہوا۔ یہ ہماری سیاست کی بدقسمتی رہی ہے کہ اگر سابقہ حکومت نے کوئی اچھا پرا جیکٹ شروع کیا ہے تو اسے کوشش کر کے ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نام کھرچ دیا جاتا ہے اور یہ قصب ابھی تک کسی نہ کسی رنگ میں کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے حالانکہ چاہے تو یہ کہ آنے والے ان سے بڑھ کر کام کریں تا کہ لوگ انہیں پسند کریں نہ کہ آتے ہی عوام کے بہبود کے لئے چالو کام بند کر دیئے جائیں۔ خضر حیات میں اپنی ذات کے لئے کوئی مالی فائدہ حاصل کرنے کی عادت بالکل نہ تھی۔ اپنے ملنے والوں پر سرکاری تنخواہ سے زیادہ خرچ کر دیتا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے یکم مارچ کو عام تعطیل کا اعلان کیا۔ جب خضر سے صرف مسلمانوں کے لئے کام کرنے کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا ایسے ہندو اور سکھ ٹوانے میں بھی ہیں جو میرے رشتہ دار ہیں۔ ان کی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں شرکت کرتا ہوں۔ میں یہ کیسے تصور کر لوں کہ وہ کسی دوسری قوم ہے ہیں۔

خضر بحیثیت وزیر اعظم پنجاب :

خضر نے کبھی وزیر اعظم بنے کی خواہش نہ کی۔ یہ تو 26 دسمبر 1942 ءکو اچانک سکندر حیات کی وفات پر جنگ عظیم کے کڑے امتحان میں سے پنجاب کو گزارنے کی ذمہ داری کا بار خضر کے کاندھوں پر آن پڑا۔ یہ سراسر حالت کا نتیجہ تھا۔ خضر نے بحیثیت وزیر اعظم دوران جنگ ہر چیلنج کا مقابلہ پامردی سے کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق حالات تیزی سے خضر کے خلاف ہوتے گئے۔ سب سے پہلے اس کے والد عمر حیات جو کہ خود بڑے اثر و رسوخ کے مالک تھے، فوت ہو گئے۔ اس کے بعد چھوٹو رام جو کہ مشرقی پنجاب کا اور خصوصاً تمام ہندو قوم کا لیڈر مانا جاتا تھا، فوت ہو گیا۔ اس کے بعد کہ رام کو لایا گیا لیکن وہ بری طرح ناکام رہا۔ قائد اعظم سے خضر نے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے بعد اس کا وجود مسلم لیگ کیلئے ناقابل برداشت ہو گیا۔ اسے مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ اس ڈر سے کہ وہ بھی نکال دیے جائیں، باقی تمام ممبران اسمبلی نے یونینسٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ اس طرح محضر اسمبلی میں ایک ایسا جرنیل رہ گیا جس کے پاس فوج ہی نہ ہو۔

مسلم لیگ کی کامیابی :

مسلم لیگ نے مسلسل مذہبی اپیلیں اور ایسے نعرے بلند کئے جس کی وجہ سے رائے عامہ جلد ہموار ہوگئی۔ سرگودھا میں سرکاری دباؤ کے باوجود عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان ان کی تمام مشکلات کا حل ہے اور یونینسٹ کی وجہ سے تمام مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔ پیر سیال شریف کی شرکت سے عوام میں مسلم لیگ اور زیادہ مقبول ہوگئی اور خضر حیات کے خلاف جلسے ہوتے اور جلوس نکلنے لگے اور اسمبلی میں حزب اختلاف کی تعداد بڑھنے لگی ۔ اس کے پارلیمانی سیکرٹری سید امجد علی نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ڈان نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ خضر کوتو اس کے رشتہ داروں نے بھی چھوڑ دیا ہے جن میں ممتاز ٹوانہ اور فیروز خان نون کے نام سرفہرست تھے۔

انتخابات 1946ء :

خضر نے اپنی نشست جیتنے کے لئے 8لاکھ روپے خرچ کئے جو کہ اس زمانے کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی۔ یہی حال اللہ بخش کا تھا اور اس قدر روپیہ خرچ ہونا بہت تکلیف دہ امر تھا۔ اس انتخاب میں 175 ارکان اسمبلی میں محض 18 نشستیں یونینسٹ کو ملیں۔ انبالہ ڈویژن میں چھوٹو رام کے بعد کانگرس کا غلبہ ہو گیا۔ اسمبلی میں مسلم لیگ 75 سیٹیں لے کر سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری لیکن اکثریت پھر بھی حاصل نہ کر سکی۔ نواب ممدوٹ نے اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں اکالیوں سے بات چیت ہوئی لیکن ناکامی ہوئی۔ ادھر مالی سال ختم ہونے سے پہلے بیٹ کا اجلاس ہونا لازمی تھا جس کے لئے وزارت کی تشکیل از حد ضروری تھی۔ 7 مارچ کو خضر کو وزارت بنانے کی دعوت دی گئی اور اس نے 11 مارچ کو یونینسٹوں ، اکالیوں اور کانگرس کے اتحاد کے نتیجے میں کولیشن گورنمنٹ تشکیل دی لیکن اسمبلی میں اور باہر مسلم لیگ نے خضر کو غدار اور اس حکومت کو فراڈ کے نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔ اس سلسلہ میں ہڑتالیں اور جلوس نکلنے لگے۔ آخر خضر نے حالات سے خاندانی روایات کے مطابق سمجھوتہ کر لینے میں عافیت سمجھی۔ اٹیلی کے اعلان 20 فروری 1947 ء کے چھ دن بعد خضر نے لیگ سے سمجھوتہ کر لیا اور اپنے مستعفی ہونے کا ارادہ کر لیا۔ آخر دو مارچ 1947 ء کو اس نے سوا دو بجے اپنے فیصلے سے گورنر جدیکنز کو آگاہ کر دیا۔ اس سے مسلم لیگ کی ہر طریقے سے مدد کرنے کے ارادے کا اظہار کیا اور اس نکتے پر اس کا بیان اختتام پذیر ہوا کہ اگر پنجاب تقسیم ہو گیا تو پنجابیوں کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس کی شدید
خواہش ہے کہ پنجاب کی سالمیت برقرار ر ہے۔

خضر کے استعفیٰ کے بعد :

خضر کے مستعفی ہونے کے بعد نواب ممدوٹ کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی لیکن وہ نا کام رہے۔ اس کے چند دن بعد فرقہ وارانہ تشدد انتہا کو پہنچ گیا اور کانگرس نے تقسیم پنجاب کا مطالبہ کر دیا۔ آخر کار مشرقی اور مغربی پنجاب کے اراکین اسمبلی نے علیحدہ علیحدہ با ہمی اجلاس منعقد کر کے تقسیم پنجاب کے حق میں ووٹ دیئے۔

آزادی کے بعد سیاست سے کنارہ کشی :

1947ء کے بعد خضر کی زندگی میں کئی ایسے مواقع آئے جب وہ سیاسی میدان میں داخل ہوسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ اگر وہ چاہتا تو کانگرسی ڈاکٹر خان کی طرح محمد علی بوگرہ کی وزارت میں شامل ہو سکتا تھا۔ میاں ممتاز دولتانہ اسے اپنا ممکنہ حریف سمجھتا تھا اس لئے اسے سیاست سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اس کی پرائیویٹ نہروں کو بغیر معاوضہ دیئے قومی ملکیت میں لے لیا۔ تمام ملازمین کے لائسنس ضبط کر لئے اور زمیندارہ لیگ کے فنڈ ز خورد برد کرنے کی تلوار لٹکا دی۔ خضر کے بعد کالرا کی خوشحالی کو گہن لگ گیا۔ نذر حیات نے امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ خضر بھی اپنے آخری ایام میں اس کے پاس تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اپنی سوانح مرتب کرے اس خیال سے اس نے وفات سے تین روز قبل ٹیپ ریکارڈ بھی خریدا لیکن اسی دن 19 جنوری 1975 ء کو دل کا شدید دورہ پڑنے پر اللہ کو پیارے ہو گئے اور وصیت کے مطابق کالرا کے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔ خضر حیات کو دفن کرتے وقت تابوت کو کالرہ اسٹیٹ کے تین رنگوں والے جھنڈے میں لپیٹا گیا جس کا ڈیزائن اس کے والد نے خود تیار کیا تھا۔ یہ جھنڈا سرخ ، سبز اور زعفرانی رنگوں پر مشتمل تھا اور اس پر چاندستارہ بھی بنا ہوا تھا۔

خضر کی غلط فہمی :

خضر حیات کی سیاست کا سب سے نمایاں پہلو اس کی انگریزوں سے وفاداری تھی۔ اے قوم پرست سیاستدانوں سے چڑ تھی۔ یہ سب اس کے نزدیک محض فتنہ انگیز خطیبوں سے زیادہ کچھ نہ تھے کہ جنہیں ہندوستان سے متعلق اصل حقائق کا بالکل شعور نہ تھا۔ بعینہ یہی سوچ انگریز افسروں کی بھی تھی جس کا وہ اس صدی کی ابتداء سے بر ملا اظہار کرتے چلے آئے تھے۔ خضر حیات کے اس قسم کے تمام نظریات کی بنیادیں اس کے خاندان کی تاریخ میں پیوست تھیں گو کہ اس کی سیاسی کیریئر کے اختتام پر اس کی وفاداری کا اسے کوئی صلہ نہ مل سکا۔ خضر 1945 ء اور 1946 ء ۔ کے دوران پنجاب کے انگریز گورنر برٹرینڈ گلینسی کی نصیحتوں پر آنکھ بند کر کے عمل کرتا رہا۔ چونکہ وہ خود بہت ایماندار اور با اصول شخص تھا اس لئے اسے انگریزوں سے بھی یہی توقع تھی۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتا تھاکہ انگر یز یونٹوں کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ چنانچہ 1945ء میں شملہ کانفرنس کے دوران جب لارڈ ویول نے جناح کے مطالبات پر آمادگی کا اظہار کیا تو خضر کو بہت حیرانی ہوئی۔ اسے اس پر یقین ہی نہ آرہا تھا۔ اسے اس بات پر پختہ یقین تھا کہ اس کی اس پیشرفت کے پیچھے ضرور کوئی چال ہو گی ۔ وہ یہ بات سوچنے پر قطعاً تیار نہ تھا کہ انگر یز اس طرح برصغیر کو چھوڑ کر بھی جاسکتے ہیں حالانکہ یہ خضر کی تمنائے محض سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ دراصل اسے امید تھی کہ انگریز برصغیر پر اپنی حکومتی گرفت کو ڈھیلا کر دینگے لیکن ان کا اس خطے کو بالکل چھوڑ کر چلے جانے کا کوئی امکان خضر و نظر نہ آتا تھا خاص کر انگریزوں کی یہاں سے پسپائی کے بعد وقوع پذیر ہونے والی علاقائی تقسیم کا تو اسے خواب و خیال تک نہ تھا۔ بہر حال یہ خضر حیات کا اعلیٰ ظرف ہی تھا کہ یہ سب کچھ ہو جانے کے باوجود اس نے سابقہ انگریز افسروں کے ساتھ اپنی دوستی برقرار رکھی ۔

 

یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com