ملک فیروز خان نون اور تحریک پاکستان
تعارف:
ملک فیروز خان نون 1875 ء کو پیدا ہوئے ۔ وہ ہمارے ضلع کی ایک ایسی ہستی تھے جن پر ہمارا ضلع ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔ انہوں نے ایسے عہدوں پر کام کیا جن پر کسی پاکستانی کیلئے کام کرنا مشکل ہی نہیں بالکل ناممکن ہے۔ جن جن بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ ہائی کمشنر برائے ہند : ۔ جون 1936 ء تا ستمبر 1941 ء اس عہدے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مسائل کے سلسلہ میں درج ذیل کمیٹیوں کے اجلاس میں بھی شرکت ضروری تھی۔
2 ۔ جہازران شاہی کمیٹی
3 ۔ بحری تارشاہی کمیٹی
4۔ ربڑ کی ضابطہ کمیٹی 5- گندم سپلائی کمیٹی
اس سلسلہ میں ملک صاحب کو دنیا کے مختلف ممالک میں جانے اور وہاں کے لوگوں سے ملنے کے بے شمار مواقع ملے اور ان کی زندگی انہی تجربات کا نچوڑ تھی جو انہوں نے مختلف ممالک کے لوگوں سے حاصل کئے ۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ چھڑ چکی تھی اور روزانہ جرمن بمبار طیارے لندن پر بمباری کر رہے تھے ۔ ملک صاحب نے مشاہدہ کیا کہ ایسے وقت میں ملحد بھی اللہ سے پناہ مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ رکن وائسرائے کا بینہ ستمبر 1914ء تا ستمبر 1945 ء ملک صاحب تمبر 1941ء میں وائسرائے ہند کی خواہش پر وزیر تعمیرات عامہ و محنت بنائے گئے۔ بعد میں وزیر دفاع بھی مقرر کر دئیے گئے ۔ یہ بہت وزیر اعظم کے ساتھ اجلاس میں شرکت کے مواقع بھی ملے۔ بڑی ذمہ داری کا عہدہ تھا کیونکہ یہ سارا وقت دوسری عالمی جنگ کا تھا جس کی وجہ سے چمچل جیسے ملک صاحب نے تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کیلئے وزارت دفاع سے استعفیٰ دیدیا۔ ملک صاحب نے اپنے صوبے میں آکر سب سے پہلے خضر حیات سے ملاقات کی اور اسے مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن اس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
گورنر مشرقی پاکستان :
1950ء میں جب ہندوستان کے ساتھ حالات کشیدہ ہو گئے تو لیاقت علی خان نے ملک صاحب کو گورنر بنانے کا مشورہ دیا جو انہوں نے قبول کر لیا جس پر وہ اپریل 1953 ء تک رہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب :
خواجہ ناظم الدین نے جب پنجاب کے حالات قادیانی تحریک کی بدولت سخت خراب ہوتے دیکھے تو ملک صاحب کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا اور اس عہدے پر وہ دو سال تک رہے۔
حزب اختلاف اور وزیر خارجہ :
ملک صاحب ون یونٹ کے تحت نئے انتخابات جیت گئے لیکن حزب اختلاف میں 18 ماہ تک رہے۔ چودھری محمد علی صاحب کی وزارت کے بعد جب محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنایا گیا تو انہوں نے ملک صاحب کو کابینہ میں بطور وزیر خارجہ کے لے لیا۔ بوگرہ صاحب کے بعد جناب چندریگر وزیراعظم بنے تو پھر بھی وزارت خارجہ ان کے پاس تھی لیکن وہ بھی دو ماہ کے قلیل عرصے میں چلتے کر دیئے گئے ۔
وزارت عظمی:
نومبر 1957 ء کے آخر میں ملک صاحب کو وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی گئی جو ایوب خان کے مارشل لاء کی وجہ سے 1958ء میں ختم ہوئی۔ ملک صاحب متحدہ پاکستان کے آخری وزیر اعظم تھے ۔ بیٹی خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک خضر حیات خان ٹوانہ کا تعلق بھی اسی ضلع سے تھا اور وہ متحدہ پنجاب کے آخری وزیر اعظم تھے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں حضرات آپس میں قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ ملک فیروز خان نون کی والدہ اور ان کی پہلی بیوی ٹوانہ خاندان سے تھیں اور یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ ایک پاکستان کا حامی اور دوسرا مخالف تھا۔ دونوں کے جد امجد مٹھہ ٹوانہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے برطانوی دور میں ترک سکونت کی ۔ دونوں کے والد کا نام حیات تھا۔
ملک فیروز خان نے اپنی سوانح حیات بھی لکھی جو ہماری تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ضلع سرگودھا کی حسین یادیں، تحریک پاکستان اور آزادی کے بعد کے حالات نمونے کے طور پر قارئین کے لئے درج کر دئیے گئے ہیں تا کہ اس ضلع اور ملک کے لئے ملک صاحب کی خدمات سامنے آسکیں ۔ خضر حیات نے بھی اپنی یادداشت قلمبند کرنے کی تیاری کی لیکن قدرت نے ایسا نہ کرنے دیا۔
پہلا مقدمہ:
میں نے سرگودھا میں پریکٹس اس وقت شروع کی جب کہ ابھی جنگ بند نہیں ہوئی تھی۔ پہلا مقدمہ جو مجھے ملا وہ یہ تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا میرے چھوٹے بھائی کو پکڑا گیا ہے اور صوبائی سروس کے شیخ شاہنواز کی عدالت میں مقدمہ ہے۔ شیخ صاحب اس وقت وہاں ریونیو اسٹنٹ تھے۔ اس شخص نے پوچھا کہ آپ ان کی عدالت میں پیش ہو کر میرے بھائی کو رہا کرا دیں گے؟ اس نے مجھے دس روپے بطور فیس پیش کئے لیکن میں نے وہ مقدمہ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ عدالتی نوعیت کا نہیں بلکہ انتظامی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن میرے چچازاد بھائی ملک محمد شیر خان جو اس وقت وہاں موجود تھے ، چھڑی اٹھا کر میرے ہاتھ میں دی اور مجھے برآمدے سے باہر دھکیلتے ہوئے بولے یہاں اس برآمدے میں بیٹھنے سے کیا فائدہ؟ جاؤ اور جو کچھ کر سکتے ہو، کرو۔ چنانچہ میں عدالت میں گیا اور نوجوان کو رہا کر لایا۔ معاملہ کی نوعیت یہ تھی کہ جنگ کیلئے رنگروٹوں کی مانگ تھی اور جب کوئی شخص کسی نوجوان کو بھرتی کراتا تو اسے ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا تھا۔ لوگ جنگ کا یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے اپنے بیٹوں کو بھرتی کے دفاتر میں کے جاتے تھے تا کہ جنگ کے خاتمہ پر سرٹیفکیٹ دکھا کر حکومت برطانیہ سے انعام کا مطالبہ کریں۔ بعض سرکاری ملازم سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لالچ میں قانون کا غلط استعمال بھی کرتے تھے مثلا گاؤں کے دو دھڑے اگر بلوہ پر آمادہ ہوں تو پولیس انہیں تعزیرات کی دفعہ 107 کے تحت گرفتاری کی دھمکی دیگر مجبور کرنے لگتی کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں اور ان کے لئے جنگی خدمات کا ریکارڈ قائم کریں۔ وہ شخص جسے میں نے رہا کرایا تھا انہی حالات میں غلط طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔۔
ہفت روزہ کا اجراء :
سرگودھا سے ایک ہفت روزہ حق شائع ہوتا تھا۔ یہ حکومت کا اخبار تھا جس میں ہندوستان کی جنگی کوششوں کی تفصیل درج ہوتی تھی ۔ اس کی تقسیم کیلئے ایک کمیٹی قائم تھی ۔ بعض دفعہ کمیٹی کے ارکان کو یہ سن کر سخت طیش آتا کہ عام لوگ یہ اخبار پڑھنے کی بجائے عطاروں کے ہاتھ ردی میں بیچ دیتے ہیں اور بعض دوسرے لوگ اس احساس کے تحت کہ یہ سرکاری پرو پیگنڈہ ہے، اخبار کا مطالعہ نہیں کرتے تھے۔ حکومت کی مخالفت عوام اور اخبارات کے مزاج میں اس طرح رچ گئی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی جو حکومتیں برسراقتدار آئیں ہمارے اخبارات اور عوام نے ان پر یورش جاری رکھی۔ مجھے روز نامہ زمیندار کے مالک مولانا ظفر علی خان یاد آتے ہیں جو اپنے خیالات کا اظہار اشعار میں کرتے تھے ۔ ایک بار انہوں نے لکھا تھا فتح برٹش کی ہوتی ہے، قدم ہٹلر کا بڑھتا ہے۔ موضع لک کے بلوے کا مشہور مقدمہ مجھے یاد ہے۔ میں ایک سینئر وکیل سر فضل حسین کے ساتھ ملزموں کی پیروی پر مقرر تھا۔ ان کے گاؤں نے بھرتی کے لئے اپنے جوانوں کو بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ سرکاری ملازم پولیس کی ایک جمعیت کے ساتھ عدم تعاون کرنے والے لوگوں کے سرغنوں کو گرفتار کرنے گئے ۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ پورا گاؤں ایک مذہبی جنونی کی قیادت میں ایک ٹیلے پر جمع ہو گیا ہے۔ پولیس نے خالی فائر کئے ۔ اس پاگل ملانے پگڑی سرے اتاری اور ٹیلے سے اتر کر بھا گا مگر جاتے جاتے لوگوں سے کہتا گیا کہ پولیس پرحملہ کر دیں کیونکہ اس کی دعا کی برکت سے پولیس کی رائفلیں بند ہو گئی ہیں اور اب ان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ لوگوں نے حملہ کیا اور بہت سے ہلاک ہوئے۔ پولیس کی ہدایت کا ضابطہ بہت غلط تھا کہ ہجوم پر شروع ہی میں سچ سچ کی گولیاں چلائی جائیں۔ اب اس ضابطہ میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ پولیس پہلے متنبہ کرتی ہے اور تب فائر کرتی ہے۔ اس طرح بہت سی جانیں محفوظ رہتی ہیں کیونکہ مجسٹریٹ جب مجمع کو منتشر ہونے کا حکم دیتا ہے تو لوگ یا تو اس کی تعمیل کرتے ہیں یا پھر ان کو اپنا انجام نظر آجاتا ہے۔ بیداری پیدا کی۔ لفظ پاکستان جس کے معنی فارسی میں پاک سرزمین کے ہیں، مسلمانوں کے تخیل میں یوں پھیل گیا جیسے جنگل میں آگ لگی ہو ۔ لوگ پاکستان کے حصول کے لئے سرسے کفن باندھ کر میدان عمل میں نکل آئے۔ پاکستان، پنجاب، افغان، کشمیر اور سندھ کے پہلے اور بلوچستان کے آخر جز استان سے مل کر بنا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ اقبال نے دیا تھا اور بعض دوسرے لوگوں کا دعوی ہے کہ چودھری رحمت علی نے وضع کیا تھا۔ بہر حال ہند تقسیم کے تصور سے ہی نفرت کرتے تھے اور میونسپل پارکوں میں علی اصبح ان کی فوجی قواعد اور اسلحہ اندوزی کی مہمیں تیز تر ہوتی جارہی تھیں۔ 1946ء میں لارڈ پیتھک لارنس کانگریس کے لیڈروں کے ساتھ اقتدار کی منتقلی کی بات چیت کرنے کیلئے ایک وفد لے کر آئے۔ منصوبہ یہ تھا کہ پانچ تا سات صوبے بنا کر انہیں وسیع تر داخلی خود مختاری دیدی جائے ۔ اس میں صوبوں کو یہ حق ہوگا کہ دس سال بعد وہ چاہیں تو وفاق سے الگ ہو سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ کیبنٹ پلان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس منصوبے کے تحت صوبوں کی مجوزہ گروپ بندی اس طرح کی گئی تھی پنجاب، شمالی صوبہ جات اور بنگال میں سے ہر ایک میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مدراس اور جنوبی ہند جن کی آبادی دور اور نسل کے لوگوں کی ہے، بیٹی اور اس سے متصل صوبہ جات یوپی اور وسطی صوبہ جات وفاقی حکومت کو صرف دفاع، مواصلات، کرنسی اور خارجہ تعلقات کے محکمے سپرد ہوتے تھے۔ ان منصوبہ میں در پردہ مقصد کارفرما تھا کہ ہندوستانی فوج حسب سابق متحد رہے۔ اس منصوبہ پر غور کرتے وقت مسٹر جناح کے ذہن میں بنگال اور پنجاب کی اس وقت کی جغرافیائی حدود تھیں۔ ان صوبوں کی تقسیم کا کسی کو خیال تک نہ تھا۔ پیتھک لارنس نے چند شرائط پیش کی تھیں اور اعلانیہ کہ دیا تھا کہ اگر ہندو اور سلمان شرائط کے تحت حکومت کی ذمہ داریاں قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو برطانیہ حکومت اس پارٹی کے حوالے کر دے گا جو ان شرائط کو منظور کرے گی ۔ مسٹر جناح نے وہ شرائط منظور کرلیں ، ہندوؤں نے مسترد کر دیں لیکن برطانیہ نے حکومت مسلمان اقلیت کے حوالے نہیں کی جو ملک کی مجموعی آبادکاری کا صرف 25 فیصد تھی چنانچہ بعض لوگوں نے کہا کہ برطانیہ کی مذکورہ بالا پیشکش کا مقصد کانگریس اور ہندوؤں کو دھمکی دیکر اس امر پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ کابینہ کا منصوبہ منظور کر لیں لیکن مسلمان سے زیادہ برطانوی حکومت کے مزاج دان ہندو تھے۔ انہوں نے دھمکی کی پروا نہیں کی ۔
قائد اعظم کی حکمت عملی:
برطانوی حکومت کی مخلصانہ کوشش یہ تھی کہ ہندوستان کسی طرح مطمئن ہو جائے اور وہ اپنی خوشگوار یادیں چھوڑ کر یہاں سے رخصت ہوں۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے ساتھ نفع بخش تجارت اور کاروباری تعلقات اس کے بعد بھی باقی رہیں۔ جب مسلم لیگ کی جانب سے منصوبہ کی منظوری کے باوجود برطانوی حکومت اپنے دعوے سے پھر گئی اور اس نے اقتدار مسلمانوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تو مسٹر جناح نے بمبئی میں ایک عام جلسہ منعقد کیا۔ وہ تمام مسلمان جنہوں نے برطانوی حکومت کی زبر دست خدمات انجام دی تھیں ڈائس پر فرد فردا آتے اور یہ اعلان کرتے کہ ہم برطانوی حکومت کے عطا کردہ اعزازات اور خطابات کو آئندہ استعمال نہیں کرینگے۔ آج کے بعد سے ہماری تمام کوششیں پاکستان کے مطالبہ کو تقویت پہنچانے کیلئے وقف ہوگی۔ اس واقعہ کو بہت دنوں بعد ایک دن بعض انگریز اپنے چند مسلمان دوستوں کے ساتھ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔ مسلمان دوستوں نے مسلمانوں کی اس شکایت کا ذکر کیا کہ انگریزوں نے ہندوؤں کی تو ہر طرح دل دہی کی لیکن مسلمان اقلیت کی دل شکنی کا بھی خیال نہیں کیا حالانکہ یہ اقلیت گزشتہ پچاس سال میں ہر مشکل وقت پر برطانیہ کے آڑے آئی ہے۔ ایک انگریز نے جب یہ نا تو پلٹ کر کہا۔ ادھر دیکھو میری بات سنو! بڑا ملک کون ہے. ہندوستان یا پاکستان؟ تجارت، لین دین ، سودے بازی اور دولت میں زیادہ مضبوط کون ہے؟ اخبارات کس لک میں زیادہ موثر ہیں۔ ہمیں تاجروں کی قوم کہا جاتا ہے، ٹھیک ہے ہم تاجر ہی ہیں، ہم نے ہندوستان اور پاکستان کوتر از دو میں تول کر دیکھ لیا ہے ۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہندوؤں کی خوشنودی ضرور حاصل کرنی ہے اور اگر اس کیلئے مسلمانوں کو نظر انداز بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔
انگریز اس وقت ہندوؤں کو خوش کرنے پر اس قدر بھند تھے کہ انہوں نے ایک مخلوط آئین ساز اسمبلی کیلئے نمائندوں کے انتخاب کا انتظام بھی کر لیا تھا اور ان میں میرا نام بھی شامل تھا لیکن مسلم لیگ نے اس سے عدم تعاون کا فیصلہ کیا اور اس کے پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
پٹیل کی حکمت عملی :
ولبھ بھائی پٹیل جو ہندوؤں میں ایک بہت بڑی طاقتور ہستی تھے ، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مرکزی وزیر تھے۔ اس کا بینہ میں کانگرس نور مسلم لیگ کی طرف سے نہرو اور نوابزادہ لیاقت علی خاں جیسے لیڈر شامل تھے۔ بہر حال پٹیل نے اصرار کیا کہ مسلمان اگر پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں تو کم سے کم دو صوبوں میں ہندوؤں کے اکثریتی علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنا پڑے گا۔ اگر مسلمانوں کو ہندوؤں کی حکومت میں رہنا منظور نہیں تو ہندوؤں کو مسلمانوں کے زیر اقتدار پاکستان میں رہنے پر کس طرح مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل قابل فہم تھی اور منصفانہ بھی۔ یہ سلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ پٹیل اس مطالبہ میں کامیاب ہو گئے اور بنگال اور پنجاب کو ہندو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ میں نے اسے مسلمانوں کی خوش قسمتی اس لئے کہا ہے کہ میرے خیال میں ہند و اگر مغربی پاکستان میں رہ جاتے تو وہ سکھوں کے ساتھ مل کر ایک نہایت مضبوط اقلیت بن جاتے اور اس صوبہ کی سیاسی اور اقتصادی زندگی کو اپنے مقصد کیلئے اس طرح استعمال کرتے جس طرح مشرقی بنگال کے ہندو کر رہے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بھی سکھوں کے ساتھ ہماری ہی ٹھنی رہتی۔ فروری 1947ء میں تقسیم پر اتفاق ہو گیا اور جون میں پنجاب، بنگال اور آسام کی قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان سے دریافت کیا گیا کہ آیا انہیں اپنے صوبوں کی تقسیم منظور ہے؟ ان ارکان نے پنجاب، آسام اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ بعض لوگ بڑے وثوق سے یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی فوج کو جو مکمل طور پر وفادار تھی اگر ہندوستان کے تصرف میں نہ دیا جاتا اور اس کی امداد کیلئے برطانوی فوجی دستے بھی متعین کر دئیے جاتے تو ملک میں امن قائم رہتا اور دس لاکھ مسلمان مردوں اور عورتوں کا قتل عام نہ ہوتا جس کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کا ترک وطن کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں نقل مکانی کی اتنی بڑی مثال نہیں ملتی۔ انہی نظریہ کو میں قبول نہیں کرتا۔ فوج اگر انگریزوں کے ہاتھ میں ہی رہتی تو انگریزوں کو اسے جلد ہی ہندوؤں کے حوالے کرنا پڑتا اور اس کے بعد پاکستان کبھی قائم نہ ہوتا۔
دوٹوک فیصلہ :
اس سوال پر اب بھی قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں کہ مسٹر جناح اگر کچھ وقت کیلئے مونٹ بیٹن کو مشتر کہ گورنر جنرل کے طور پر قبول کر لیتے تو یہ بات دانشمندانہ ہوتی ۔ مسٹر چرچل جنہوں نے لارڈ مونٹ بیٹن کا تقرر کیا تھا ، انتخابات میں ہار گئے تھے اور انہوں نے وزارت عظمی مسٹرائیلی کے حوالے کر دی تھی۔ اب جنگ کے بعد ہونے والے تمام مسائل کا مقابلہ اگر فیبر پارٹی” کو کرنا پڑا تھا تو کنزرویٹو لیڈر اس صورتحال پر دل میں خوش تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر لیبر پارٹی ناکام ہوگئی تو کنزرویٹو پارٹی کیلئے حکومت پر قبضہ کرنا اور اسے نسبتا طویل عرصہ کیلئے برقرار رکھنا کسی قدر آسان ہو جائے گا۔ اقتدار سے علیحدگی کا عرصہ بعض اوقات بہت مفید ہوتا ہے۔ کانگریسی لیڈروں نے اپنی سیاسی جدو جہد کا بیشتر حصہ جیل میں گزارا تھا۔ کنز ریٹو لیڈروں نے یہ بھی عرصہ کلبوں اور اپنے دیہی محلات میں بسر کیا تھا۔ خود مجھے پر یہ گزری کہ جیل میں میرا آٹھ پونڈ وزن صرف 34 دنوں کے اندر بڑھ گیا کیونکہ ایک تو میرے دوست باہر سے نہایت نفیس کھانے بھیجتے رہتے تھے ، دوسری طرف ورزش نداز تھی تاہم ذہنی بوجھ بڑا سخت تھا۔ بعض لوگ یہ استدلال پیش کرتے ہیں مکہ ہندوستان میں انتقال حکومت کے اس نازک دور میں اگر چرچل برسراقتدار ہوتے تو وہ ایک ڈویژن فوج امن قائم کرنے کیلئے بھیج دیتے۔ اس طرح پاکستان کو نامساعد حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن مسلم لیگی لیڈروں کو بالخصوص ان لیڈروں کو جو ماؤنٹ بیٹن کی عبوری حکومت کے رکن تھے، چرچل کا پہلے ہی خاصا تجربہ ہو چکا تھا اور وہ دیکھ رہے تھے کہ ماؤنٹ بیٹن ہندوؤں کی مدد کرتا ہے اور ان کے ساتھ جانب داری سے پیش آتا ہے لہذا مسٹر جناح نے پاکستان کے گورنر جنرل کا عہدہ قبول کر کے عین دانشمندی کا ثبوت دیا۔
آزادی کے بعد :
1946ء میں بہار، کلکتہ اور پنجاب میں جب خونمیں فسادات ہوئے تو ماؤنٹ بیٹن کے لئے گاندھی اور نہرو سے بات منوانی آسان ہو گئی کہ پاکستان کی مخالفت ترک کر دیں۔ میرا خیال ہے کہ کانگریسی لیڈروں نے بھی تصور بھینہ کا ہوگا کہ یہ کٹا کٹا پاکستان دونوں میں ٹا ہوا ہے اور جس کے دونوں حصوں کے درمیان ہندوستان کے ایک ہزار میل حائل ہیں ، زیادہ عرصہ تک قائم رہ سکے گا۔ لائل پور کے ایک سکھ ایڈووکیٹ سردار سمپورن سنگھ نے جو بعد میں ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر ہو کر لاہور آئے تھے، مجھے بتایا کہ ماسٹر تارا سنگھ نے لائل پور کے سکھوں کے پاس گیانی کر تار سنگھ کو یہ پیغام دے کر بھیجا تھا کہ نقل مکانی نہایت پر امن طور پر کریں کیونکہ انہیں اپنی کھڑی فصلوں کی کٹائی کیلئے چھ مہینہ بعد ہی واپس آنا ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب میں سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ایک منصوبہ کا حصہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس نو کا بندہ مملکت میں لٹے پٹے مسلمان مہاجرین کو دھکیل کر اور جو ہندو یہاں کے کاروبار اداروں اور پلکوں میں کام کر رہے ہیں، انہیں یہاں سے بلا کر اس ملک کی معیشت تباہ کر دی جائے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ دونوں مملکتوں کے درمیان انتقال آبادی ہجوم اور ہجوم تارکین وطن کی خانہ بربادی ، ان کا قتل عام اور بے اندازہ مصائب انگریزوں کی سازش کا نتیجہ تھے ان کی چشم پوشی کی بناء پر یہ تمام خرابیاں پیدا ہوئی تھیں تا ہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تعد انگریز افسروں کا رویہ بڑا عیارانہ اور تلخ تھا۔ بعض نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہمیں ملک سے نکالنے کا مزہ آخر تم نے چکھ لیا؟ لیکن مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ کی حکومت کویہ اندازہ نہ تھا کہ س قدر بڑے پیمانے پر کشت و خون کی نوبت آئے گی اور وہ فوج جو ابھی تک ان کے ماتحت تھی اس درجہ بے بس ثابت ہو گی ۔ انہیں اگر یہ اندازہ ہوتا تو اقتدار کی منتقلی میں کم سے کم ایک سال کی مہلت لیتے اور اس پر سختی سے اصرار کرتے ۔ اس عجلت کا الزام ماؤنٹ بیٹن کو دیا جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہندوؤں کو خوش کرنے اور آزاد ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بنے کا شرف حاصل کرنے کیلئے بے تاب تھے۔ تقسیم کے وقت ہندوستان کی مسلمان اقلیت نے خود کو نہایت کمزور محسوس کیا۔ فوج کے مسلمان دستوں کو ہندوستان کے طول و عرض میں دور افتادہ مقامات پر اور مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کے علاقوں سے دور متعین کر دیا گیا تھا تا کہ بالفرض آزادی کا اعلان نہ ہو اور حالات کا مقابلہ فوج کو کرنا پڑے تو وہ صورتحال سے نپٹ سکے۔ غیر ملکیوں کے نقطہ نظر سے فسادات کی روک تھام کیلئے مقامی آبادی میں غیر مذہب کے سپاہیوں کی موجودگی زیادہ سود مند تھی ۔ یہ مسلمان سپاہی جب پاکستان واپس ہوئے تو ان کے پاس را فلمیں نہیں تھیں اور بعض کے ساتھ تو یہ ہوا کہ جب وہ تو ٹرین میں سوار ہو کر ہندوؤں کے علاقہ سے گزرنے لگے تو راستے میں ان کا سامان بھی چھین لیا گیا۔ ان سپاہیوں کو بالعموم ریلوے جنکشن پر لوٹا جاتا تھا جہاں وہ پاکستان جانے والی گاڑیوں کا انتظار کرتے تھے ۔ بہر حال ان چھوٹے چھوٹے ہتھیاروں کا زیاں تو کچھ زیادہ اہم نہ تھا۔ اصل سفاکانہ کارروائی تو یہ ہوئی کہ بھارتی فوجی ساز وسامان میں پاکستان کا حصہ طیارے، گولہ بارود کے ذخائر، فوجی گاڑیاں اور اسلحہ ساز فیکٹریاں سب ہندوستان کے قبضہ میں چلی گئیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انگریزوں نے سبھی کچھ ہندوؤں کو سونپ دیا اور خود ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اب اس سے کوئی فائدہ نہیں کہ نامنصفانہ تقسیم کا الزام سپریم کمانڈر الیف ۔ ایم ۔ در کلاڈ آکنلک کو دیا جائے یا اصل ملزم ماؤنٹ بیٹن کو سمجھا جائے تا ہم ایک بات یقینی ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ہر انگریز فوجوں کی اس تقسیم کا مخالف تھا البتہ کلکتہ میں مشرقی کمان کے جنرل نگران انگریزوں میں شامل نہ تھے۔ ان کے منصفانہ سلوک کی ہر طرف تعریف سننے میں آئی۔ انتقال اقتدار کے طریق کار کی بابت میں نے جو کچھ کہا ہے اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ انگریزوں نے اس برصغیر کے چالیس کروڑ باشندوں کو آزادی دیتے وقت انسانوں کے بے پناہ جذبہ حریت کے احترام کی اور اپنی عاقبت اندیشی کی جو نظیر قائم کی اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملے گی ۔ اگر وہ طاقت کے بل پر یہاں ڈٹے رہنے پر اصرار کرتے تو ہم مدتوں انہیں بر صغیر سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوتے ۔ ان کا یہی وہ حسن سلوک تھا جس نے ایک طویل و عریض اور کٹر مخالف ملک کو دوستوں کی قوم میں بدل دیا حتی کہ انڈین نیشنل کانگریس نے بھی دولت مشترکہ سے نکل جانے کی دھمکی کبھی نہیں دی اور نہ میرا خیال ہے کہ اس طرح کی دھمکی پاکستان دے گا۔ آزاد ملکوں کے آزادانہ میل جول کے فائدے ہمیں خود نظر آرہے ہیں ۔ لیلی نے مجنوں کا گھر کیوں نہیں چھوڑا؟ کیونکہ مجنوں کے گھر میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ ویسٹ منسٹر کی کتاب آئین میں دولت مشترکہ کے ہر رکن ملک کو اس ادارہ سے الگ ہو جانے کی اجازت ہے لیکن وہی ہندوستانی جو رات دن انگریزوں کو برا بھلا کہتے رہتے تھے، اب دولت مشترکہ کی رکنیت کی بناء پر اپنے موجودہ منصب سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس سے مجھے ایک ایسے کسان کی ماں یاد آتی ہے جو خاردار جھاڑی میں گر گئی تھی ۔ جب کسی راہگیر نے یہ خبر کسان کو پہنچائی تو وہ بولا میں اپنی ماں کو خوب جانتا ہوں، اس نے جھاڑی میں ضرور شہد کا چھتہ دیکھ لیا ہوگا۔
جس طرح ہم آزاد ہوئے تھے اسی طرح ایک کے بعد دوسری نو آبادیات آزاد ہو رہی ہیں۔ انگریزوں نے نو آبادیات کی خود مختاری کے اس عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ اس عمل کو تیز تر کیا ہے کیونکہ وہ جس علاقہ کو بھی چھوڑ کر گئے وہاں ان کے تجارتی مفادات، ان کی تہذیب اور ان کی زبان بھی پھل پھول رہے ہیں۔
قائد اعظم اور فیروز خان کا تعلق :
14 اگست کی تاریخ تھی جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن بذریعہ طیارہ کراچی پہنچے تا کہ پاکستان کی نئی ریاست کے گورنر جنرل کا عہدہ سٹر محمد علی جناح کے سپرد کریں۔ وہی جناح جنہوں نے زندگی کا خاصا حصہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں گزارا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ابھی بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن بدقسمتی سے ان لوگوں نے جو ان کے بہت قریب تھے اور تقسیم کے راز ہائے در وا ہے پردہ تک رسائی رکھتے تھے ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ میں نے سردار نشتر پر زور دیا کہ کچھ لکھیں کیونکہ ان کی یادداشت بہت قوی تھی، ادبی ذوق بھی رکھتے تھے، قائد اعظم کے بارے میں اپنی یادوں کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا کر سکتے تھے ۔ وہ اس کام پر آمادہ بھی ہو گئے لیکن بدقسمتی سے اس واقعہ کے فوری بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ میں نے چودھری محمد علی سے بھی بات کی لیکن انہوں نے ابھی کچھ نہیں لکھا۔ مسٹر جناح سے میری پہلی ملاقات مسلم لیگ کے اس اجلاس میں ہوئی جو ان کی زیر صدارت دہلی میں ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر کل پندرہ یا میں ارکان حاضر تھے ۔ ہم نے اس سے پہلے سر فضل حسین کی رہنمائی اور آغا خان کی صدارت میں مسلم کانفرنس تشکیل کی تھی جس میں تمام قانون ساز اسمبلیوں کے منتخب مسلمان ارکان شامل تھے۔ انگریز فطری طور پر اس تنظیم کو بڑی اہمیت دینے لگے تھے لیکن تقسیم ملک کا مسئلہ جس زمانے میں سامنے آیا اس وقت تک سرفضل حسین کا انتقال ہو چکا تھا۔ مسٹر جناح اس زمانہ میں تمام مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے اور ان کی جماعت مسلم لیگ ہندوستان کے بعض اکثریت کے صوبوں میں برسراقتدارتھی ۔ قائد اعظم ایک نہایت بلند کردار اور دیانت وامانت کے بے بدل صفات کے مالک تھے ۔ اعلیٰ عہدوں کا لالچ دیگر انہیں خرید لینا ناممکنات میں سے تھا اور یہ بات ہندوؤں اور انگریزوں کو بھی معلوم تھی۔ قائد اعظم اپنی ذاتی حیثیت میں نہایت مہربان اور خلیق تھے۔ وہ اصول کے معاملہ میں سخت تھے۔ ان کے خیالات غیر معمولی حد تک واضح اور دوٹوک ہوتے تھے۔ لباس نہایت پاکیزہ اور بے داغ پہنتے تھے ۔ گفتگو میں سنجیدگی، استدلال اور رواداری ہوتی تھی ۔ جن دنوں آئینی بات چیت جاری تھی اور پانچ یا سات صوبوں کے وفاق کی تجویز پیش ہوئی تھی ، انہوں نے ایک بار مجھے سے کہا کہ میں نے غیر منقسم ہندوستان کا منصوبہ منظور کر لیا ہے جس میں مرکز کے پاس صرف چار امور کے محکمے ہونگے۔ میں نے برجستہ کہا آپ پاکستان ہار گئے ۔اس کے بعد میں نے اس بیان کی وضاحت کی کہ فوج جس فرقہ کے اختیار میں ہوگی وہ ملک پر حکومت کرے گا۔ چونکہ دفاع کا محکمہ مرکز کے پاس ہوگا اور مرکزی پارلیمنٹ میں لامحالہ ہندوؤں کی بالا دستی ہوگی لہذا یہ منصوبہ مسلمانوں کیلئے موت کا پروانہ ثابت ہوگا۔ قائد اعظم یہ سن کر گہری سوچ میں مبتلا ہو گئے ۔ چند دنوں بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہندو، اب مرکز کے لئے زائد امور کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں صنعت اور تجارت کے محکمے خاص طور پر شامل ہیں۔ میں نے ان سے کہا اب آپ کیلئے موقع ہے خدا کیلئے اس بکھیڑے سے باہر نکلیں اور تقسیم کے مطالبہ پر ڈٹ جائیں۔ بالآخر ہمیں آزادی حاصل ہوگئی کیونکہ انہوں نے ہندوؤں کے آگے پسپائی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مسٹر جناح نے ایک موقع پر مجھ سے پوچھا کہ دار الحکومت کہاں بنایا جائے؟ میں نے راولپنڈی کا نام لیا۔ ایک زمانہ میں وائسرائے کی کونسل کے وزیر خزانہ سر جارج شسٹر تھے۔ انہی دنوں شملہ میں یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ کونسل میں بجٹ کی پیشی سے پہلے کسی ہندوستانی تاجر نے ان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں وزیر خزانہ کی زبان سے نادانستہ طور پر چند ایسے الفاظ نکل گئے جن سے تاجر کو بجٹ کے مندرجات کے متعلق قیاس کرنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ اس تاجر نے بمبئی میں لاکھوں روپے کی چاندی خرید لی اور اس سے کئی لاکھ روپے کمائے ۔ وزیر خزانہ کیلئے لازم ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے کچھ عرصہ پہلے عملا خانه نشینی اختیار کر لے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک بار مجھے بتایا کہ جن دنوں وہ بمبئی کانگریسی پارٹی کے ممبر تھے، ان کے پاس چند ہندو اور مسلمان احباب آئے اور انہیں میٹی کا نگریس پارٹی کی صدارت کیلئے کھڑے ہونے کا مشورہ دیا۔ قائداعظم کو جب یہ معلوم ہوا کہ با قاعدہ انتخابات ہونگے تو انہوں نے کہا جب دوسرے امیدوار موجود ہیں تو انہیں منتخب ہونے دیجئے ۔ چند ہی دنوں بعد پارٹی کے تمام دھڑے قائد اعظم کے پاس پہنچے اور مکمل اتفاق رائے سے انہیں اپنا صدر منتخب کر لیا۔ ایسے مناصب لوگوں کو عوام کی خدمت گزاری کا موقع مہیا کرتے ہیں اور ان کی حیثیت ایک اعزاز کی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان عہدوں کے انتخابات کو غیر ضروری طور پر اہمیت دیتے ہیں۔ لائق اور اہل لوگ عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ ان کو عہدوں کی پیشکش کی جاتی ہے۔ ایک بار میں نے قائد اعظم سے کہا کہ مجھے کوئی عہدہ نہیں چاہئے ۔ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ عوام کی خدمت گزاری کیلئے عہدہ طلب کرنا ایک لائق احترام خواہش ہے اور اس میں کوئی عیب کی بات نہیں۔
1946 ء میں جن دنوں لیبر حکومت کا کیبنٹ مشن یہاں آیا ہوا تھا، مسٹر اے وی الیگزنڈر دہلی میں قیام پذیر تھے اور ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی کی بابت گفت و شنید کر رہے تھے، میں اور میری اہلیہ دہلی کے امپیریل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ایک دن شام کو لارڈ الیگزینڈر نے ہمارے یہاں کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد مجھے ایک اجلاس میں پہنچنا تھا جس کی صدارت مسٹر جناح کر رہے تھے۔ میرا ارادہ وہاں تقریر کرنے کا نہ تھا لیکن اجلاس کے آخر میں مسٹر جناح نے مجھے سے بھی تقریر کرنے کیلئے کہا۔ میں انکار نہ کر سکا۔ میں نے حاضرین سے دریافت کیا کہ آپ اردو میں تقریر سننا پسند کرینگے یا انگریزی میں؟ مجمع سے آواز آئی اردو لیکن قائد اعظم نے کہا نون ! بہتر ہوگا کہ آپ انگریزی میں تقریر کریں۔ ان کی نگاہ غیر ممالک میں ہمارے جماعتی مقاصد کی تشہیر پر تھی جہاں قائد اعظم کے بعد زیادہ معروف نام میرا ہی تھا۔ دوسرے لیڈرا گر چہ اپنے ملک میں ممتاز درجہ رکھتے تھے لیکن ملک سے باہر انہیں بمشکل کوئی جانتا ہوگا۔
میری تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر برطانیہ نے ہمیں آزادی دی تو وہ ہمارے بہترین دوستوں میں شمار ہو گا لیکن اگر اس نے ہمیں آزاد نہیں کیا اور یہ آزادی ہمیں ہندوؤں سے لی تو پھر ہمارے بہترین دوست ہندو ہونگے اور اگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی ہماری مدد نہ کی اور آزادی کے حصول میں روسیوں نے ہماری مدد کی تو فطری طور پر وہی ہمارے بہترین دوست ہونگے ۔ ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں ۔ ہم پاکستان چاہتے ہیں ۔ اس سے بحث نہیں کہ اس مطالبہ کے حصول میں نہیں کس طرف سے مدد ملتی ہے۔ جب میری زبان سے لفظ روسیوں ادا ہوا تو جوش کے مارے پورا مجمع اچھل پڑا۔ لوگوں نے مسرت سے اپنی ٹوپیاں اور پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیں اور نظم وضبط بحال ہونے میں کئی منٹ لگ گئے ۔ ظاہر بات ہے کہ میرے الفاظ نے عوام کے تاروں کو چھیڑ دیا تھا۔ میرے انگریز دوست اس تقریر سے بہت خفا ہوئے لیکن مجھے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا کہ یا تو اپنے دوستوں کی خفگی قبول کروں یا دینے والوں کو اپنے اس موقف کا قائل کروں کہ ہم آزاد ہونے یا دوسرے لفظوں میں پاکستان حاصل کرنے پر تل گئے ہیں۔ ہندو اکثریت کی حکمرانی کا اندیشہ ہمارے لئے اتنا بڑا خطرہ تھا کہ ہم ہندو فرقہ پرستی کی بجائے اشتراکیت کے تسلط کو ترجیح دیتے تھے۔ بعد میں میری ملاقات جب لارڈ الیگزینڈر سے ہوئی تو انہوں نے کہا سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے ایسی تقریر کیوں کی تھی؟ میں نے جواب دیاوہ تقریر ضرور وجدانی ہوگی کیونکہ میرا پہلے سے تقریر کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ میرے نزدیک اولیت ان فرائض کو حاصل ہے جو عوام کی طرف سے مجھ پر عائکہ ہوتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر برطانیہ کی کنزرویٹو حکومت برسراقتدار ہوتی تو وہ اپنی اس امید پر ہندوستان کو ہرگز تقسیم نہ کرتی کہ ہندوستانی فوج مشرق وسطی میں متحد اور معمول کی طرح مضبوط رہے گی۔ وہ یہ سوچنے سے معذور تھے کہ متحدہ ہندوستان میں کسی مسلمان کو فوج کا کمیشن نہیں ملے گا۔ جیسا کہ اب عملاً تقسیم کے بعد ہندوستان میں ہمیں نظر آ رہا ہے۔ مجھے بعض مسلمان وکلاء کے بارے میں معلوم ہے کہ تقسیم کے بعد انہوں نے ہندوستان میں قیام کو ترجیح دی لیکن انہیں ایک بھی مقدمہ نہیں ملا۔ مسلمان موکل بھی بعض دفعہ اس اندیشے کے تحت ہند و وکیل کے پاس جاتے تھے کہ انہوں نے اگر کسی مسلمان وکیل کی خدمات مول لیں تو ہند و مجسٹریت ان کے حق میں متعصبانہ فیصلہ کرینگے ۔ ہم سب جانتے تھے کہ اگر ہندوستان متحد رہا تو ہم مسلمانوں کے خلاف یہاں امتیازی سلوک کیا جائے گا اور ہمیں اچھوتوں کی طرح زندگی گزارنا پڑے گی ۔ ہم نے آزادی کی راہ میں مذہب کو اپنا معاون بنایا اور اس حقیقی خطرہ سے تقویت حاصل کی کہ متحدہ ہندوستان میں یہ مذہب ختم ہو جائے گا۔ آزادی کے بعد سے کاروبار، تجارت اور صنعت غرض سبھی شعبوں نے ہماری توقعات سے کہیں زیادہ کامیابی اور خوشحالی حاصل کی ہے۔ اقتصادی خوشحالی کا انحصار سیاسی اقتدار پر ہے۔ مطالبہ پاکستان کے حق میں ہمارے پاس یہ ایک مضبوط دلیل موجود تھی۔ فرقہ پرستی کے جنون کے باعث نہتے عوام کے وحشیانہ اور مجنونانہ قتل کے جو واقعات اس برصغیر میں رونما ہوئے ان کا بیان اب سے پہلے بارہا کیا جا چکا ہے اور اس کی مذمت بھی کی گئی ہے تاہم یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مہذب اقوام کے لعن طعن کے باوجود عملاً اس کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا کیونکہ تنگ نظری ، ہٹ دھرمی اور تعصب، کم یا زیادہ بہر حال انسان کے خمیر میں شامل ہے اور دنیا میں ہر جگہ ان شرپسند جذبات کو بہت جلد اشتعال میں لایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت ہر شخص اپنے کسی آشنا یا عزیز کے حوالے سے ان مجنونانہ فسادات سے متاثر ہوا تھا۔ میرے معاملہ میں یہ افتاد گزری کہ خود میری بیوٹی کی زندگی خطرہ میں تھی ۔ وہ 1947ء کے موسم گرما کا زمانہ کار کی وادی میں اپنے مکان میں گزار رہی تھی ۔
ریڈ کلف کی حد بندی :
لندن کے ایک سرکردہ وکیل سر سیرل ریڈ کلف کو حد بندی کمیشن کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔ کمیشن کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ان مقامات پر دونوں مملکتوں کی حدود متعین کرنی تھیں جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے اکثریتی علاقے ختم ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی مدد کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے دو مسلمان اور دو غیر مسلم جوں کا انتخاب کیا۔ اس طرح ہر دو فریق کے ووٹ کا توازن برقرار رکھنا ممکن تھا کیونکہ یہ بات گونیا طے شدہ تھی کہ مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دینگے اور دوسرے لوگ ہندوستان کی تائید میں ۔ اس طرح ریڈ کلف کو ہمارے مقدر کے فیصلہ کا مکمل اختیار دیدیا گیا تھا۔ جب میں نے قائد اعظم سے اس اندیشہ کا ذکر کیا کہ آپ نے اپنی تقدیر کو فرد واحد کے ہاتھ میں دیگر بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے، مناسب یہ تھا کہ آپ لندن ہائی کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیشن کے تقرر کا مطالبہ کرتے ۔ قائد اعظم نے میری اس بات سے اتفاق کیا تاہم انہوں نے کہا کہ میں نے جس معاملہ پر پہلے ہی اتفاق کر لیا ہے اب اس سے پھر جانا میرے لئے ممکن نہیں۔ ہم دونوں بڑے خلوص دل سے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ سر سیرل تین اس فیصلہ میں اپنے پیشہ کی اعلیٰ روایات کا احترام کرینگے۔ غیر رسمی تقسیم کی رو سے پٹھانکوٹ کا علاقہ پاکستان میں آتا تھا، اس طرح کشمیر میں ہندوستانی فوج کے داخلہ کا راستہ مسدود ہو جاتا تھا لیکن ان دنوں یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ حد بندی کا فیصلہ لاہور میں کیا جاپ کا ہے اور ابتدائی حد بندی کی توثیق بھی ہو چکی ہے۔ کمیشن کے ایک بیج نے مجھے بتایا کہ ان کے اجلاس میں اس فیصلہ کافی الواقع اعلان کر دیا گیا تھا لیکن سرسیرل جب دہلی پہنچ تو انہوں نے اس فیصلہ میں ترمیم کر دی اور پٹھان کوٹ ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ اس طرح انہوں نے ہندوستان کو وہ راستہ مہیا کر دیا جس سے ہو کر ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں اور مسلمانوں کے اس اکثریتی علاقہ پر قابض ہو گئیں۔ پاکستان کے لوگ ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن سے سخت برہم تھے ۔ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی نے ریڈ کلف کو اپنے ابتدائی فیصلہ میں ترمیم پر آمادہ کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ماؤنٹ بیٹن کی اس کارروائی کا ہمارے پاس کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں تاہم یہ بات ہمیشہ میرے دل میں چٹکیاں لیتی رہی کہ ریڈ کلف سے بھی اپنے فیصلہ میں مبینہ ترمیم کا سبب دریافت کروں گا۔ مجھے یہ موقع 1956ء کے موسم خزاں میں مل گیا۔ میں مسٹرلین ٹیس سیلیکمان نے مجھے دن کے کھانے پر مدعو کیا۔ لارڈ کلف بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ کھانا ختم ہونے کے بعد میں نے ان سے کہا میں ایک سوال دریافت کروں، آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں … اور خفیف سا مسکرائے۔ غالباً انہوں نے متوقع سوال کو بھانپ لیا تھا۔
انہوں نے جواب دیا کیونکہ مجھے یہ احساس ہوا کہ دریا بہتر حد بندی کا کام دے گا۔ ممکن ہے انہوں نے خلوص سے یہ محسوس کیا ہو کہ دریا ایک بہتر حد بندی کا کام دے گا کیونکہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں بھی کئی مقامات پر دریا کو بین الا قومی سرحد کا درجہ دیدیا تھا۔ ہمارے اخبارات نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور لارڈ ریڈ کلف دونوں کو مصنوعی اور غیر منصفانہ سرحدوں کے تعین کا ملزم گردانا اور ان پر کڑی نکتہ چینی کی کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق یہ حد بندی ہندوستان کی ضرورت کے مطابق کی گئی تھی۔ لارڈ ریڈ کلف کو حد بندی کے فیصلہ کا اعلان دہلی میں 15 اگست کو ہی کر دینا چاہئے تھا لیکن اس کا اعلان 16 کو ہوا جب لارڈ کلف کراچی سے جاچکے تھے ۔ ظاہر ہے کہ وہ کراچی میں اجتماعی مظاہروں سے ڈر گئے تھے۔ یہ احساس جرم نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ میری ملاقات لارڈ مونٹ بیٹن سے 1957ء میں ہوئی۔ وہ پہلے ہی لارڈ کی حیثی: سے ساؤتھ کوسٹ کی بندرگاہ میں بابر نامی جہاز میرے حوالے کرنے کیلئے لائے تھے اور میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کی طرف سے اسے وصول کرنے گیا تھا۔ کئی سال کے بعد ہم دونوں کے درمیان پہلی بار بات چیت ہوئی۔ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دہلی میں سپریم کمانڈر کی حیثیت سے جانتا تھا۔ اس وقت میں خود وائسرائے کی کونسل میں وزیر دفاع تھا۔ وائسرائے کی بدقسمتی سے گورنر سرایوان جنیکنز لاہور میں اپنی تجوری میں ایک نقشہ چھوڑ گئے تھے جو ماؤنٹ بیٹن کے سیکرٹری مسٹر جارج ایبل آئی سی ایس نے انہیں فراہم کیا تھا۔ یہ نقشہ ہمیں اپنے دوست سر فرانس موڈی کے توسط سے ہاتھ آگیا۔ سرفرانس ، آزاد پاکستان میں پنجاب کے پہلے گورنر تھے۔ انہوں نے نقشہ مسٹر جناح کو بھجوا دیا ۔ اس الزام کے خلاف لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس واقعی کوئی عذر نہیں تھا کہ مسلمانوں نے پاک و ہند کے مشترکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے جب ان کا نام مسترد کر دیا تو انہوں نے ایک مشتعل مزاج بندر کا سارو یہ اختیار کرلیا۔
سر فرانس موڈی تقسیم سے پہلے کئی برس تک سندھ کے گورنر رہ چکے تھے۔ مسٹر جناح نے ان کی انصاف پسندی اور لیاقت کا انعام یہ دیا کہ انہیں قیام پاکستان کے بعد پنجاب کا گورنر مقرر کر دیا۔ مسٹر جناح کی رحلت کے بعد ہمارے بعض نوجوان لیڈروں کے کہنے پر مسٹر لیاقت علی خاں نے موڈی کو سبکدوش کر دیا۔ یہ اقدام میرے خیال میں قبل از وقت تھا۔ موڈی کی یاد بہت سے لوگوں کو اور خاص طور پر مجھے بہت عزیز ہے۔ وہ جب وائسرائے کی کابینہ کے رکن تھے تو میں بھی ان کا رفیق کا رتھا۔ مئی 1947 ء میں میری اہلیہ لاہور سے ضلع کانگڑہ چلی گئیں جہاں ان کا مکان تھا۔ انہوں نے انتخابات اور سول نافرمانی کی تحریک میں بڑی جانفشانی سے کام کیا تھا اور اب آرام کرنا چاہتی تھیں ۔ کلو کی اس حسین و پر فضا وادی میں یہ مکان میں نے انہیں ایک سال قبل خرید کر دیا تھا کیونکہ انہیں پہاڑی علاقہ اور مچھلی کا شکار بہت پسند ہے۔ ضلع کانگڑہ ہندو اکثریت کا علاقہ تھا لہذا پاکستان میں اس کی شمولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن یہ بات تو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ آئی تھی کہ برصغیر کی تقسیم یہ صورت اختیار کرے گی جو اس نے بعد میں اختیار کی ۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ علیحدگی امریکہ اور کینیڈا کی طرح ہو گی۔ یہ کسی نے بھی نہ سوچا تھا کہ شہریوں کی وہ املاک جو دوسرے ملک میں ہونگی ، ضبط کر لی جائیں گی بلکہ تباہ کر دی جائیں گی اور ان کے مالکوں کوقتل کر دیا جائے گا۔
میری اہلیہ کا خوبصورت مکان اور تین ایکڑ کا شاداب باغ ایک سنسان اور پرسکون علاقہ میں واقع تھا۔ بدقسمتی سے اس کا بھی وہی حشر ہوا جو دوسرے مسلمانوں کی جائیدادوں کا ہوا
تھا۔ سارا مکان اور باغ نذرآتش کر دیا گیا اور میری اہلیہ کو جان بچا کر چند نوکروں کی معیت میں بھاگنا پڑا۔ پٹھان کوٹ کے راستے میں منڈی کے راجہ کی چھوٹی سی پہاڑی ریاست واقع ہے۔ راجہ صاحب میرے پرانے دوست ہیں، انہوں نے میری اہلیہ کو پناہ دی اور وہ وہاں تین ہفتے تک چھپی بیٹھی رہیں ۔ بالآخر تمبر 1947 ء کے وسط میں راجہ صاحب اور بعض دوسرے ہند و احباب نے انہیں بحفاظت امرتسر پہنچا دیا اور وہ پاکستان حکام کی پناہ میں آگئیں ۔ اس تجربہ نے میری بیوی کے کردار پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ستم رسیدہ، لاچار اور نادار لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتی ہیں ۔ جب ان کی واپسی کی اطلاع ملی تو اخباری نمائندوں کا ایک ہجوم ان کے گرد جمع ہو گیا لیکن انہوں نے یہ سوچ کر کچھ بتانے سے انکار کر دیا کہ کہیں ان کے کسی بیان سے مجنونانہ نفرت اور قتل و غارت گری کے جذبات کو شہ نہ ملے۔ 1947 ء کے سرما کا زمانہ یہ دیکھنے گزر گیا کہ پنجاب کی نئی نا تجربہ کار حکومت تقسیم ہند اور لاکھوں عوام کے تبادلہ آبادی کے عظیم اور بے پایاں مسائل سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔ میری اہلیہ دوسری لیگی کاکنوں کے ساتھ مہاجرین کی دل جوئی میں مصروف تھیں اور حتی المقدور میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ انہوں نے مہاجرین میں لاکھوں رضائیاں تقسیم کیں تا کہ سرما کی یخ بستہ راتوں میں ان کے ٹھٹھرے ہوئے جسموں کو راحت میسر آئے۔ یہ مہاجر ہندوؤں کے ویران مندروں، سکولوں یا پھر کھلے میدانوں میں پڑاؤ ڈالے پڑے تھے ۔ نومبر 1947ء میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد جس کا ایک رکن مجھے بھی منتخب کیا گیا، قائد اعظم نے مجھے مشرق وسطی کا دورہ کرنے کی ہدایت کی تاکہ مسلمان ممالک سے رابطہ پیدا کیا جائے۔ میں نے سعودی عرب کے شاہ ابن سعود اور اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں اور پھر لبنان گیا جہاں آئین کی رو سے وزیر اعظم اور صدر میں نے ایک عیسائی اور دوسرامسلمان ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں ترکی گیا اور وہاں سے بغداد جار ہا تھا کہ وہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی لہذا کراچی واپس آگیا۔ میں نے قائد اعظم کو اپنے دورے کی طویل اور مفصل روداد ارسال کی تھی جسے انہوں نے پسند کیا تھا۔ ایک دن خارجہ امور کے سیکرٹری مسٹر اکرام اللہ قائد اعظم کے پاس میری ان یادداشتوں کی نقول لے کر گئے ۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ آپ نے انہیں اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے ، یہ تو میرے لئے ہیں۔ افسوس کہ قائد اعظم اس کے بعد جلد ہی 11 ستمبر 1948ء کو ہم سے رخصت ہو گئے ۔
یہ مضمون شیخ محمد حیات کی کتاب "ضلع خوشاب تاریخ کے آئنے میں "سے لیا گیا ہے