چینیوٹ کی ثقافت

چنیوٹ:معاشرتی و ثقافتی پہلو اور محکمے

سرکاری درجه

چنیوٹ کا سرکاری درجہ تحصیل“ ہے جو اسے 1856ء میں حاصل ہوا۔ اس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر جھنگ ہے۔ 1904 ء تک لاسکپور (فیصل آباد ) اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی ضلع جھنگ کی تحصیلیں تھیں ۔ 1856ء میں چنیوٹ ملتان ڈویژن میں شامل ہوا ۔ 9 دسمبر 1960ء کوسرگودہا کو ڈویژن کا درجہ مل گیا تو چنیوٹ کا الحاق اس سے کر دیا گیا۔ یکم جولائی 1982ء کوفیصل آباد ڈویژن بنا تو چنیوٹ کو اس میں شامل کر دیا گیا۔ سرگودہا 1914ء میں ضلع بنا جبکہ اس سے پہلے شاہ پور کو ضلعی حیثیت حاصل تھی۔

دوسرے شہروں سے فاصلہ:

چنیوٹ سے جھنگ 85 کلومیٹر ، سرگودہا 56 کلومیٹر، فیصل آباد 35 کلومیٹر ، چک جھمرہ 36 کلومیٹر ، پنڈی بھٹیاں 36 کلو میٹر ، حافظ آباد 85 کلومیٹر اور لاہور 135 کلومیٹر ، کھرڑیانوالہ 36 کلومیٹر ، شاہکوٹ 45 کلومیٹر ، بھوآنہ 34.5 کلومیٹر لالیاں سے کالو وال 22.5 کلومیٹر کا نڈ یوال 15 کلومیٹر کوہ کڑا نہ 12 کلومیٹر اور کڑا نہ سے بڑا نہ 24 کلومیٹر دور ہے۔

رقبہ:

کل رقبہ 2643 مربع کلومیٹر جو کہ 650891ایکڑ ہے ۔ 52-1851 کو چنیوٹ میں پہلی بار مواضعات اور چک بندیاں کی گئیں۔ چاہات کے نام مقر رکر کے ان کے نمایاں نام اور چکوک کے نمبر لکھے گئے۔ 82-1881 ء میں 2272 مربع میل 1453822 ایکڑ رقبہ تھا جس میں سے صرف 184664ایکڑ رقبہ زیر کاشت تھا۔ کل خسرہ نمبر ان 304,112 تھے۔ 265 دیہات ، 35 پٹواری ، 5 نائب پٹواری تھے ۔ جبکہ اس وقت کاشتہ رقبہ ( مزروعہ ( 501575ایکڑ ، غیر کاشت (غیر مزروعہ) رقبہ 149316ایکڑ ہے۔ 261 مواضعات ، 99 چکوک ، 6 بے چراغ ، 4 چک تشخیص (چناب نہری، چناب ، جہلم نہری ، نو آبادیات چناب نہری) 116 پٹوار سرکل ، 13 قانونگوئی حلقے ہیں۔

پھر (اللہ ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ” تم دونوں وجود میں آجاؤ ، خواہ خوشی سے یا نا خوشی سے دونوں نے کہا ” ہم خوشی سے آگئے فرمانبرداروں کی طرح ” (سورۃ تم
السجده ۴۱ ترجمه آیت ۱۱)

انتظامیہ:

تحصیل کی انتظامیہ کی سربراہی ایک اسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو ( اسٹنٹ کمشنر ) کے سپرد ہے۔ فوج داری و دیوانی مقدمات کے فیصلوں کیلئے 7 سول جج تعینات ہیں۔ حدود اور قتل کے مقدمات کی سماعت کیلئے 3 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات ہیں۔ ایک اے ایس پی پولیس سرکل چنیوٹ اور ایک ڈی ایس پی پولیس سرکل چناب نگر کا انچارج ہے۔ ایک مجسٹریٹ ہے جو بطور رجسٹرار کام کر رہا ہے۔

ایک تحصیلدار 10 نائب تحصیلدار ، چودہ گرداور / قانونگو، 2 نائب پٹواری اور
659 نمبر داران محکمہ مال کا کام سنبھالتے ہیں 513 چوکیداران ہیں ۔82-1881ء میں 449 د یہ ہیڈ مین اور 20 ذیلدار تھے۔

پولیس سرکل/ اتھانے:

1881-82 میں درجہ اول کے تین تھانے ، تھانہ صدر، تھانہ لالیاں ، اور تھانہ
بھوانہ تھے ۔ درجہ اول کی دو پولیس چوکیاں بڑا نہ اور بخاریاں تھیں ۔ درجہ دوم کی پولیس . چوکیاں شیخن اور کا نڈیوال تھیں۔

29 جولائی 2002ء کو چنیوٹ کو دو پولیس سرکل میں تقسیم کر دیا گیا ۔ 1۔ پولیس سرکل چنیوٹ ۔ 2 پولیس سرکل چناب نگر جس میں پہلے ڈی ایس پی ملک کریم نواز کی تعیناتی ہوئی ، جبکہ اس سے پہلے ایک ہی پولیس سرکل چنیوٹ ہوتا تھا جس کا انچارج اے ایس پی ہوتا اور اس کے زیر آٹھوں تھانے کام کرتے تھے ۔ پولیس سرکل چنیوٹ کا انچارج اے ایس پی ہے جس کے زیر تھانہ صدر، تھانہ سٹی تھانہ بھوانہ اور تھانہ لنگرانہ ہیں ۔ پولیس سرکل چناب نگر کا انچارج ڈی ایس پی ہے جس کے زیر تھانہ چناب نگر، تھانہ کا نڈ یوال ، تھانہ لالیاں اور تھانہ بڑا نہ کام کر رہے ہیں۔ ہر دوسرکل ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جھنگ کے ماتحت ہیں۔ ہر تھانہ کا انچارج پولیس انسپکٹر یا سب انسپکٹر ہوتا ہے۔ جسے ایس ایچ او (اسٹیشن ہاؤس آفیسر ) کہتے ہیں 20 مئی 2002ء کو گورنر پنجاب لیفٹینٹ جنرل (ر) جناب خالد مقبول صاحب نے ریسکیو 15 کا سنگ بنیا د رکھا۔

جس نے 13 دسمبر 2003ء کو با قاعدہ اپنے کام کا آغاز کیا۔ ایک پولیس رضا کاروں کا دفتر ہے جس کا انچارج کمپنی کمانڈر ہے۔

لوکل گورنمنٹ ادارے:

1870ء کو چنیوٹ میں درجہ سوئم میونسپلٹی ( مفاد عامہ) کمیٹی قائم ہوئی ۔ جس کی 2794 روپے سالانہ آمدنی تھی ۔ جو بڑھ کر 82-1881ء میں 6586 روپے ہو گئی 1887ء میں اسے درجہ اول کی میونسپل کمیٹی کا درجہ مل گیا ۔ 74-1973ء میں اس کی آمدنی -/1284000 روپے خرچ 1380000 روپے ، 76-1975ء میں آمدنی 2462000 روپے خرچ 2546000 روپے، 95-1994ء میں 25278000 روپے آمدنی اور 23570000 روپے خرچ 2000-1999ء میں آمدنی 33773000 روپے خرچ 31515000 روپے سالا نہ تھا ۔ -4-2003ء میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) کی آمدنی 127454000 اور خرچ 132725000 روپے ہے۔

ایک میونسپل کمیٹی اور تین ٹاؤن کمیٹیاں بھوانہ ، چناب نگر اور لالیاں ہیں۔ 1998 ء تک 37 یو نین کو نسلیں تھیں۔ ہر یونین کونسل کا انچارج چیر مین ہوتا جس کے زیر حلقہ جات کے وائس چیر مین بی ڈی ممبر اور کونسلر ہوتے۔ یہ سب چیر مین بلدیہ کے ماتحت ہوتے۔ 1998ء کے بعد تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن قائم ہوئی ۔ اور تحصیل چنیوٹ کو 32 دیہاتی اور 12 شہری کل 44 یو نین کو نسلوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان یونین کونسلوں میں مئی 2001ء میں پہلی مرتبہ ایکشن کروائے گئے ۔ یونین کونسل کا انچارج یو نین کونسل ناظم جس کے ماتحت ایک نائب ناظم اور 21 کو نسلرز ہیں اور یہ سب تحصیل ناظم اور تحصیل نائب ناظم” کے ماتحت ہیں۔ تحصیل ناظم ضلع ناظم کے ماتحت ہے تحصیل میں تمام ترقیاتی کام تحصیل ناظم کے ذمہ ہیں جو علیحدہ علیحد ہ یونین کونسلوں کے ناظموں کے سپرد کرتا ہے۔

محکمہ صحت:

1878ء کو چنیوٹ میں 24 بستروں پر مشتمل درجہ اول کی ڈسپنسری قائم ہوئی جس کا انچارج اسسٹنٹ سرجن تھا یہ ڈسپنسری سول ہسپتال جھنگ کے ماتحت تھی ۔ 1960ء میں اس ڈسپنسری کو سول ہسپتال کا درجہ مل گیا ۔سول ہسپتال کا انچارج سینئر میڈیکل آفیسر ہوتا تھا۔ سول ہسپتال کے لئے پرانی عمارت بہت چھوٹی تھی۔ 1978ء میں شيخ فضل الہی نے ہسپتال کیلئے بہترین اور کشادہ عمارت تعمیر کروائی ۔لہذا 19 جنوری 1979ء کو سول ہسپتال پرانی عمارت سے اس نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا ۔ 17 اکتوبر 1987ء کو اس ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ۔ ڈاکٹر محمد لطیف ملک پہلے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ اس وقت چنیوٹ میں 4 دیہی مرکز صحت جن کے انچارج سینئر میڈیکل آفیسرز ہیں ۔ 34 بنیادی مرکز صحت جن کے انچارج میڈیکل آفیسر ہیں ۔ ایک ٹی بی ہسپتال ، 3 زچہ بچہ سنٹر ، 9 ڈسٹرکٹ ڈسپنسریاں ہیں ۔ یہ تمام میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ اور ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر جھنگ کے ماتحت ہیں ان کی نگرانی ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چنیوٹ کرتا ہے۔

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن:

1948ء میں چنیوٹ میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا دفتر قائم ہوا۔ جس کا انچارج ڈپٹی ڈسٹرکٹ (اے ای ٹی او) ہے۔ موٹر گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس (انظر معلمیکس)، پراپرٹی ٹیکس کی وصولی اور منشیات کی روک تھام کا کام اس محکمہ کے سپرد ہے۔ 04-2003 ء میں سالانہ ٹیکس سے وصول ہونے والی رقم 2 کروڑ 96 لاکھ روپے ہے۔

انکم ٹیکس اینڈ ویلتھ ٹیکس:

1981ء میں چنیوٹ میں انکم ٹیکس اینڈ ویلتھ ٹیکس کا دفتر قائم ہوا۔ 2002 میں اس محکمہ کو دوسر کلر میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک سرکل نمبر 7 جس کے ذمہ شہری حلقہ اور دوسراسر کل نمبر 36 جس کے ذمہ دیہاتی حلقہ ہے ۔ ہر دو سرکل ایک ہی اسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے ماتحت ہیں ۔ سرکل نمبر 7 نے 03-2002ء میں 80,96,000 روپے سالانہ 2003-04 ء میں 88,75,000 روپے سالانہ، سرکل نمبر 36 نے 03-2002 ء میں 00,000, 1,70 روپے سالانہ فیس وصول کیا۔

محکمہ بجلی (واپڈا):

1952ء کو چنیوٹ میں پہلی مرتبہ Kv/66 بجلی کی لائن آئی اور لاہور روڈ پر نکلی گھر قائم ہوا۔ 1978ء میں چنیوٹ کو ڈویژن کا درجہ ملا اور واپڈا کا دفتر قائم ہوا۔ جب کہ اس سے پہلے بجلی کے بل جھنگ سے تیار ہو کر آتے تھے ۔ 5 مارچ 1978ء کوایکسین واپڈا کی تعیناتی ہوئی جناب غلام احمد گندی چنیوٹ ڈویژن کے پہلے ایکسین تھے۔ اس محکمہ کو چنیوٹ نمبر 1، چنیوٹ نمبر 2 ، لالیاں، چناب نگر اور بھوانہ پانچ سب ڈویژنز میں تقسیم کیا گیا۔ یکم جولائی 2002ء کو ایک چھٹی سب ڈویژن چنیوٹ نمبر 3 کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 2 مارچ 1986ء کو چنیوٹ میں 132/11K۷ لائن چالو ہوئی ۔ 2000ء میں پرانا نکلی گھر ختم کر کے جھنگ روڈ پر نیا گرڈ اسٹیشن قائم کیا گیا اس گرڈ اسٹیشن میں تین ٹرانسفارمر نصب ہیں۔ جن پر 17 مارچ 2004 ء تک درج ذیل لوڈ چل چکا ہے۔

1: 20/26MVA پاور ٹرانسفارمر نمبر 1 اس پر 1232 ایمپٹر ۔
2ؒ: 20/26MVA پاور ٹرانسفارمرنمبر 2 اس پر 1960ایمپٹر ۔
3:   10/13MVA پاورٹرانسفارمرنمبر 3 اس پر 600 ایمپئر ۔
لوڈ چل چکا ہے

2004ء تک چنیوٹ میں ہندوآنہ سٹی 1 ،سٹی 2 ، عاصیاں ، کالونی ، رجوعہ ، واسا ایکسپریس، بیرانوالہ، ٹیوب ویل واسما، جھنگ روڈ ، لاہور روڈ ،سرگودہا روڈ ، ٹی ٹی ایم ، اولڈ چناب نگر ، نیو چناب نگر ، ریل کنٹرول اور رضاء، کل 17 فیڈ ر کام کر رہے ہیں ۔ فروری 2004 ء میں پرائیویٹ اور گورنمنٹ اداروں سے 9 کروڑ 73 لاکھ روپے ماہانہ بلوں کی عد میں رقم وصول ہوئی۔

ناردرن سوئی گیس:

1968ء کو سب سے پہلے چناب نگر میں سوئی گیس کی پائپ لائن بچھائی گئی ۔ 31 دسمبر 1976ء کو چنیوٹ میں پہلی مرتبہ سوئی گیس لایا گیا ۔ 1977ء کو چنیوٹ میں سوئی گیس کمپلیٹ آفس قائم ہوا جس میں ہر وقت تین آدمیوں پر مشتمل ایمر جنسی عملہ موجود رہتا تھا ۔ جناب میاں شوکت علی تقسیم ایڈووکیٹ ناظم یونین کونسل نمبر 35 کی کوششوں سے 16 نومبر 2003ء کو چنیوٹ میں سوئی گیس سب آفس قائم ہوا۔ جس کے پہلے انچارج جناب محمد اعجاز ہیں۔ سوئی گیس کے بل امیر یا آفس فیصل آباد سے ہی تیار ہو کر آتے ہیں۔ 2004ء تک چنیوٹ میں 11 ہزار 500 کنکشن ہیں جن سے تقریبا 2 کروڑ روپے ماہانہ یلوں کی مد میں رقم وصول ہوتی ہے۔

محکمہ کان کنی و معدنیات:

کیم جولائی 1983ء کو چنیوٹ میں محکمہ کان کنی و معدنیات کا دفتر قائم ہوا۔ جس میں سب سے پہلے اسٹنٹ ڈائریکٹر جناب چوہدری محمد مشتاق علی تھے ۔ جب کہ اس سے پہلے چنیوٹ براور است ڈپٹی ڈائر یکٹر کان کنی و معدنیات سرگودہا کے ماتحت تھا۔ اس محکمہ کے انجینئروں نے کڑا نہ پہاڑیوں سے لیکر شاہ کوٹ تک لو ہے، تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت کئے ہیں ۔ جو کہ سطح زمین سے 4 سوفٹ گہرے ہیں ۔ ان ذخائر کی جب کان کنی شروع ہوگی تو ملکی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔

اس محکمہ کی 91-1990ء میں 13,14,111 روپے 03-2002ء میں 1,81,57,789 روپے سالانہ آمدنی ہے ” کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اونٹ کی تخلیق کیسے ہوئی ؟ آسمان کیونکر بلند کیئے گئے پہاڑ کیسے استوار ہوئے اور زمین کسی طرح بچھائی گئی؟” (سورۃ الغاشیہ آیت نمبر 17 تا 20 )

محکمہ ڈاک:

1878ء کو چنیوٹ اور لالیاں میں پوسٹ آفس اور منی آرڈر آفس قائم ہوئے۔ جو کہ سپر نٹنڈنٹ پوسٹ آفس ڈیرہ اسماعیل خان کے ماتحت تھے ۔ 1905ء کو رجوعہ انگر مخدوم، ہر سہ شیخ کوٹ خدایار ٹھٹھہ عمرا اور بڑا نہ میں سب پوسٹ آفس قائم ہوئے۔

محکمہ ٹیلی فون (پی ٹی سی ایل):

1880ء میں چنیوٹ اور امین پور بنگہ میں ٹیلی گراف آفس قائم ہوئے۔ 1955ء میں چنیوٹ میں سب سے پہلی 50 لائنوں کی ایکسچینج لگائی گئی ۔ 1990ء میں سی بی ایکسچینج قائم ہوئی اور چنیوٹ کو سب ڈویژن کا درجہ ملا ۔ 1995ء میں چنیوٹ کو ڈویژن کا درجہ حاصل ہو گیا اور پی ٹی سی ایل کا دفتر قائم ہوا۔ جس میں ڈویژنل انجینئر کی تعیناتی ہوئی ۔ 2003ء تک چنیوٹ میں 14 ہزار ٹیلی فون کنکشن تھے اور 80لاکھ روپے ماہانہ بلوں کی مد میں رقم وصول ہوتی ہے۔

محکمہ ریلوے:

1879ء کو چنیوٹ میں سب سے پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی ۔ جوسلا روالہ سے یک نمبر 11 ج-ب، چک نمبر 13 ج-ب، کوٹ حیدر شاہ ، پس لاوارث ، موجودہ شہر چنیوٹ سے جانب جنوب، ولہ رائے ، جانی شاہ، کوٹ وساوا، سے جانب شمال ، رستم والا اور عیدل والہ کے درمیان سے گزرتی ہوئی جھنگ جاتی تھی۔ 1932ء میں چناب نگر کے قریب دریائے چناب پر پل تعمیر کیا گیا تو چنیوٹ سے جھنگ ریلوے لائن ختم کر کے 1934ء میں نئی ریلوے لائن بچھا کر چنیوٹ کو سرگودہا سے ملا دیا گیا۔ اس سال چنیوٹ ، چناب نگر اور لالیاں میں ریلوے اسٹیشن قائم ہوئے۔ 2004ء میں چنیوٹ ریلوے اسٹیشن پر 35 ہزار روپے، چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر 10 ہزار روپے اور لالیاں ریلوے اسٹیشن پر 2 ہزار روپے کی مختلف شہروں کے لئے یو میہ ٹکٹیں فروخت ہوتی ہیں۔

مالیاتی ادارے

نیشنل بنک آف پاکستان لمیٹیڈ:

قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کے پاس کوئی سرکاری بنک نہ تھا۔ لہذا پاکستانی عوام کو ایک سرکاری بنک کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی بناء پر حکومت پاکستان نے اپنا ایک بنگ بنایا جس کا نام نیشنل بنک آف پاکستان ” رکھا گیا ۔ چنیوٹ میں اس بنک کی شاخ 1948ء میں قائم ہوئی۔ یہ بنک تمام سرکاری محکموں کے پرانے ملازمین کو ماہانہ تنخواہیں، ریٹائرڈ ملازمین کو پیٹیشنز اور سرکاری ملازمین کو ایڈوانس 10 تنخواہیں بھی دیتا ہے۔ تمام ٹیکسز، تمام ریونیو، مالیہ، محاصل وغیرہ کی وصولی و دیگر تمام سرکاری واجبات اسی بنک میں ہی ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ ڈیوٹی کوئی اور بنک سرانجام نہیں دیتا۔ یہ بنگ لوگوں کو آسان شرائط پر صنعتی وزرعی قرضے فراہم کرتا ہے۔ زیورات پر قرضے کی اجازت بھی صرف” نیشنل بنک آف پاکستان کو ہی ہے۔ تمام بنکوں کا آپس میں لین دین بھی اسی بنک میں ہوتا ہے۔ نیشنل بنک آف پاکستان واحد بنک ہے جس کے پاس اپنی عمارت ہے جو نقشہ کے لحاظ سے کشادہ اور منفرد ہے۔

حبیب بنک لمٹیڈ:

یکم اگست 1962ء کو چنیوٹ میں حبیب بنک لمٹیڈ کی مین برانچ قائم ہوئی۔ جبکہ اس وقت مراد والا ، رجوعه ، منگوآنه ، موضع شیخن ، لالیاں اور چناب نگر میں اس کی مزید چھ شائیں کام کر رہی ہیں۔

الائیڈ بینک لمٹیڈ:

1942ء میں یہ بنک ، آسٹریلیشیا بنک کے نام سے قائم ہوا ۔ 1972ء میں اس کا نام تبدیل کر کے الائیڈ بنک رکھ دیا گیا۔ میں برانچ کے علاوہ مزید چار شانیں چنیوٹ
سٹی لالیاں کا نڈیوال اور چناب نگر قائم ہیں۔

مسلم کمرشل بنک لمیٹیڈ:

29 اپریل 1959ء کو چنیوٹ میں مسلم کمرشل بنک قائم ہوا۔ مین برانچ کے علاوہ لالیاں، احمد نگر ، چناب نگر ، چنیوٹ فیصل آباد روڈ جامعہ آباد، بھوانہ اور واڑہ ٹھٹھہ میں سات شاخیں کام کر رہی ہیں۔

یونایٹڈ بنک لمٹیڈ:

1959ء کو چنیوٹ میں یونائیٹڈ بنک قائم ہوا ۔ جس کی پانچ شائعین لالیاں، چناب نگر، چنیوٹ سٹی، چک نمبر 125 ج – ب جیے اور بھوانہ میں قائم ہیں۔

زرعی ترقیاتی بنک لمٹیڈ:

15 دسمبر 1966 ء کو چنیوٹ میں زرعی ترقیاتی بنک قائم ہوا ۔ 1988ء میں اس کی دوسری شاخ بھوانہ میں قائم کی گئی۔ یہ بنک زمینداروں کو ٹریکٹر ٹرالیاں ، ٹیوب ویل، کھاد، بیج اور زرعی ادویات وغیرہ کیلئے آسان شرائط پر قرض فراہم کرتا ہے۔ اس بنک نے 04-2003 ء میں زمینداروں کو 27 کروڑ روپے کے قرضے فراہم کئے۔

دی بنک آف پنجاب لمٹیڈ:

یہ بنک چنیوٹ میں 25 ستمبر 1991ء کو قائم ہوا۔ ابھی تک اس کی مزید کوئی شاخ نہیں۔

دی پنجاب پراونشل کو آپریٹو بنک لمٹیڈ:

7 نومبر 1955ء کو چنیوٹ میں دی پنجاب پراونشل کو آپریٹو بنک قائم ہوا۔ یہ بنک زمینداروں کو ٹریکٹر ٹرالیاں، کھاد، بیج وزرعی ادویات کیلئے آسان شرائط پر قرض فراہم کرتا ہے۔ چھوٹے زمینداروں کی کو آپریٹو سوسائٹی بنا کر قرض فراہم کرتا ہے۔ چنیوٹ میں اس کی مزید کوئی شاخ نہیں ہے۔

آبادی:

شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد حکومت میں جب نواب سعد اللہ خان تصمیم برسراقتدار تھے تو. چنیوٹ شہر کی آبادی سات ہزار نفوس پر مشتمل تھی ۔ 1868ء میں شہری آبادی 11477 نفوس اور دیہاتی آبادی 7950 9 نفوس کل 109472 نفوس تھی ۔ 1875ء میں شہری آبادی 11999 نفوس،82-1881ء کی مردم شماری کے مطابق 10731 نفوس شہری اور 117510 نفوس دیہاتی کل آبادی 128241 نفوس تھی۔ جس میں 15369 ہندو، 693 سکھ ، 4 جینیس اور 112173 مسلمان تھے۔ شہری علاقے میں 60 افراد اور دیہاتی علاقے میں 55 افراد فی مربع میل آباد تھے ۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق 694080 نفوس اور 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پر مشتمل ہے۔ جس میں 503236 مرد اور 461888 عورتیں
965124 نفوس پر ہیں۔

آب پاشی:

سیالوں کے عہد حکومت میں آب پاشی کیلئے کوئی نہر نہ تھی ۔ کنوؤں ، بارشوں اور دریا کے سیلاب کے ذریعے کاشتکاری کی جاتی تھی۔ بلکہ قدرتی نہریں چلتی تھیں ایک بڑی قدرتی نہر جو پہاڑی کے دامن سے نکل کر ساندل بار (فیصل آباد ) کی طرف جاتی تھی اور دوسری ہلکی پھاٹ اور تیسری گوڈے بھن“ کے نام سے مشہور تھی۔ جو شخص حکومت سے کنواں لگوانے کی درخواست کرتا تو حکومت اسے کاشت کاری کرنے کی خود اجازت دیتی۔ اس طرح 1739ء میں نواب ولی داد خان سیال کے عہد حکومت تک 26 ہزار کنو میں آباد ہوئے۔

1878ء کو چنیوٹ میں 173753 ایکڑ رقبہ زیر کاشت تھا ۔ جس میں سے 50 فیصد رقبہ نہروں کے ذریعے باقی نصف میں سے 68.5 فیصد کنوؤں اور 30 فیصد سیلاب کے ذریعے کاشت ہوتا تھا اور باقی 5 . 0 فیصد کا انحصار بارشوں پر تھا ۔ 1871-72ء میں چنیوٹ میں اکتوبر کے پہلے ہفتہ سے جنوری کے پہلے ہفتہ تک 8 مرتبہ، جنوری کے پہلے ہفتہ سے اپریل کے پہلے ہفتہ تک 24 مرتبہ، اپریل کے پہلے ہفتہ سے اکتوبر کے پہلے ہفتہ تک 121 مرتبہ یعنی پورے سال میں 153 مرتبہ بارش ہوئی ۔ 1866-67ء میں 27 مرتبہ سالانہ بارش ہوئی جو سب سے کم اور 74-1873ء میں 248 مرتبہ سالانہ بارش ہوئی جو سب سے زیادہ ریکارڈ تھا۔ 1878ء میں قابل آبیاری رقبہ 173753ایکڑ میں سے چاہی خالص 72543 ایکڑ ، چای سیلاب 1100 ایکڑ چاہی جھلاری 110 ایکٹر ، ناقابل آبیار کی رقبہ 25373 ایکڑ تھا جس میں 22367ایکڑ سیلابی اور 3006 بارانی (بارش کے ذریعے سیراب ہونے والا رقبہ)،120844ایکڑ رقبہ اپر تھا۔

1878ء کو چنیوٹ میں صرف 3220 کنویں آباد تھے۔ 1892ء میں انگریزوں نے ہیڈ خانکی سے جھنگ برانچ نہر کھدوائی اس مین برانچ لوئر چناب سے 1,61,153 فٹ لمبی پہلی چنیوٹ ڈسٹری بیوٹری (سنتو والی نہر ) 1908ء میں کھدوائی گئی۔ اس راجباہ میں 158.0 کیوسک پانی بہتا ہے۔ یہ چنیوٹ کا پہلا اور سب سے بڑا راجباہ ہے۔ اس راجباہ میں سے کوٹہ مغنی برانچ ، کوٹ والا مائنر ، کوٹ احمد یار برانچ ،کوٹ وساوا برانچ، رسالو مائنز ٹھٹھہ فتح علی مائنز ، جانب مائنز اور سرنگامائنر نکلتے ہیں۔ اس کے بعد 26,482 فٹ لمبی جنیا نوالہ ڈسٹری بیوٹی ، 40,255 فٹ لمبی ولا نیا نوالہ ڈسٹری بیوٹی، 23,808 فٹ لمبی جمال جتی ڈسٹری بیوٹری ، 960, 27 فٹ لمبی پیر والا ڈسٹری بیوٹری، 6,130 فٹ لمبی کانگڑہ ڈسٹری بیوٹری ، اور 46,134 فٹ لمبی واہگھ والا ڈسٹری بیوٹری کھدوائی گئی۔ یہ راجباہ دریائے چناب کے بائیں علاقے کو سیراب کرتے ہیں۔

1896ء میں ہیڈ فقیریاں سے انگریزوں نے کڑا نہ کینال (اپر چناب ) کھدوائی ۔ جس سے 273600 فٹ لمبی کھا در برانچ نکالی گئی۔ اس میں سے لالیاں ڈسٹری بیوٹری ، دودا ڈسٹری بیوٹری، نا جاڈسٹری بیوٹری بھبھڑ انہ ڈسٹری بیوٹری اور پہلو وال ڈسٹری بیوٹری نکالی گئی۔ جن کے ذریعے دریائے چناب کا دایاں علاقہ سیراب کیا جاتا ہے۔ 1928ء میں ان را جہاہوں پر محکمہ نہر کے افسران کے لئے بنگلے تعمیر کروائے گئے ۔ جن میں چپڑاسی سے لے کر ایس ڈی او تک ہر وقت عملہ موجود رہتا۔ وہ مقامات جہاں نہری پانی پہنچنا ممکن ہے۔ وہاں ٹیوب ویلوں، پیٹر انجنوں ، کالے تیل کے انجنوں اور ٹریکٹر کے ذریعے پانی نکال کر زمینوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔

” کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو نجر ( غیر آباد) زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے” (سورۃ السجدہ آیت نمبر ۲۷)

زراعت قدیم:

سیالوں کے دور حکومت میں اراضی کا بندو بست یا پیمائش نہ کروائی گئی تھی اور نہ ہی کسی کو حق ملکیت دیا گیا تھا۔ اس وقت چنیوٹ میں 1121849 ایکٹر رقبہ کاشت کیا جاتا تھا۔ 1845ء میں دیوان سادن مل اور دیوان مواراج نے یہ علاقہ پٹہ پر لیکر سالوں کی طرف سے لا گو ایک روپیہ سالانہ فی کنواں ٹیکس بڑھا کر تم دار فصل پر مالیہ عائد کر دیا۔ جس کی شرح یتھی گندم 2 روپے، جو 1 سے ڈیڑھ روپے، جوار 1 تا 2 روپے، سرشاف 2 سے 5 روپے نی بیگھ وصول کیا جانے لگا۔ اس مالیہ کے علاوہ ابواب کے نام پر اضافی ٹیکس لئے جانے لگے۔ ایک من غلہ پر ایک سیر وزن کاشتی ،نکھ مقدمی اور محصل وغیرہ کے نام الگ الگ وصول کئے جانے لگے۔ تاوان وجرمانہ اس کے علاوہ تھے۔ مسلمانوں سے زمینیں چھین کر ہندوؤں کو دی گئیں جب کہ پہلے ہندوؤں کے پاس اراضی نہ تھی۔ وہ تجارت وساہوکارہ کرتے تھے۔ جو زمینیں ان کے زیر قبضہ آگئیں ان پر ان کے مالکانہ حقوق تسلیم کر لئے گئے۔ اس طرح 10 فیصد زراعت پر ہند و قابض ہو گئے۔

اگر کوئی مالیہ وٹیکس نقدی کی صورت میں ادا نہ کر سکتا تو اس سے جنس یا مویشی کی صورت میں لیا جاتا۔ مسلمانوں کو ہندؤں سے ہر فضل پر رسول ارواحی ادا کرنے کا رواج تھا۔ اور اس کے ساتھ گنیش ٹیکس بھی لگا دیا گیا جو کہ ہندو و مسلم دونوں ہر فصل پر ادا کرتے تھے۔ جس سے مندر، گئو شالوں اور ٹھا کر دواروں کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ سرکاری اراضی سکھوں کو بلا شرط عطا کر دی گئیں۔ اس اراضی کے مسلمان مزارعین کو ” شاہی مزارع“ کہتے تھے۔ شراب کی بھٹیاں لگانے کی عام اجازت دے دی گئی ۔ ہر شخص پانچ روپے سالانہ فیس ادا کر کے بھٹی بنا سکتا تھا۔ شراب کی کھلے عام فروخت کی اجازت دے دی گئی ۔ پوست کی کاشت کی عام اجازت دے دی گئی اور اس پر دو روپے سالانہ مالیہ مقرر ہوا۔ جس قدر مسلمان زمین دار ہندو ساہوکاروں کے مقروض تھے ، قرضہ کے عوض ان کی اراضی کے مالکانہ حقوق ہندو ساہوکاروں کو دے دیئے گئے۔ اس طرح بہت سے زمیندار اراضی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ساڑھے گیارہ لاکھ روپے قرض کے عوض اراضی کے حقوق منسوخ کئے گئے۔ اور ڈیڑھ لاکھ روپے لیکھا مکھی دیکھا مکھی ، قرض کے عوض ضبط کی جانے والی جاگیر کے تصفیہ کا نام تھا) کی مد سے وصول کیا گیا۔ قرض کا سود 12 فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد کر دیا اور اراضی کا رہن 20 سال رکھنے کا قانون نافذ کیا۔ ہر سال سود دگنی کی جاتی ۔ ہندوؤں ، پٹھانوں اور خوجوں کو ساہوکارہ کرنے کیلئے باقاعدہ لائسنس جاری کئے ۔ درجہ دوئم کی بنجر اراضی نقد نذرانے وصول کر کے دیوان ساون مل خود کاشت کاروں میں تقسیم کرتا ۔ زمین کاشت کرنے کی چار اقسام تھیں ۔

خود کاشت۔
2 – موروثی مزارعین
3- غیر موروثی مزارعین
تردد کاری

موروثی مزارعین کے ذریعے کاشت ہونے والی اراضی کی پیداوار سے 114 حصہ مالک اور باقی 3 حصہ مزار عین کا ہوتا تھا۔ غیر موروثی مزارعین کے لئے پیداوار اور بانٹ کی شرح 6/10 تھی۔ اور تردد کاری کی شرح نصف تھی۔ اس بائٹ کی شرح پر زراعت کی بنیادی چیزیں، سامان و پیج بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ 81-1880ء کو چنیوٹ میں 142560 ایکڑ رقبہ 6056افراد خود کاشت کرتے ، 12341 ایکٹر رقبہ 483 موروٹیمزارئین ، 151669 ایکٹر رقبہ 7182 غیر موروثی مزارعین اور 12556 ایکٹر رقبہ تردد کار کے ذریعے کاشت ہوتا۔

لوگ زراعت میں دلچسپی نہ رکھتے تھے بلکہ مویشی پالنے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔ کیونکہ اس وقت زراعت کو اتنا نفع بخش پیشہ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ ہندو زراعت میں پہلے نمبر پہ تھے جو بہت محنتی و محتاط تھے۔ البتہ وہ تھوڑے رقبہ پر کاشت کرتے تھے ۔ دوسرے نمبر پر سیال اور بلوچ کاشت کاری میں مہارت رکھتے تھے ۔ جبکہ چدھڑ ، ہرل اور بھٹی بھی اچھے کاشت کار تھے ۔ تینوں قو میں منتظم ومحتاط تھیں ۔ دوسرے قبیلے بھی زیادہ تر زراعت سے وابستہ تھے ۔ خوبے زیادہ تر کاشت کاری نہیں کرتے تھے مگر اپنی جائیداد کی حفاظت کے معاملے میں بڑے ہوشیار تھے۔ البتہ سیّد خود ہاتھ سے کاشت کاری کو ہتک سمجھتے اور کمیں ان کے کام کرتے تھے۔ 1880-81ء میں کنگنی 148 ایکٹر ، چینا 1926 ایکڑ ،مٹر 2579 ایکڑ ، ماش 12427 ایکڑ ، مونگ 1737 یکٹر، مسور 1796 ایکڑ ، مرچیں 11 یکٹر ، اُصو 1106ایکڑ ہتل 1022 ایکڑ ، تارا میرا 103 ایکٹر میتھرے 130 ایکڑ ، خربوزہ 1362 ایکڑ ، روانہ 1212 ایکڑ اور سواک 1170 ایکڑ رقبہ پر مشتمل تھا۔

1881-82ء میں 184664ایکڑ رقبہ زیر کاشت تھا جس میں مونجی (چاول) 141ایکڑ گندم 148717ایکڑ ، جوار 16823 ایکڑ ، باجرہ 11426 ایکٹر کئی 2276 ایکٹر، جو 12432ایکڑ ، چنے 12348 ایکٹر ، موٹھ 1288ایکڑ ، تمباکو 1314 ایکڑ ، کپاس 17315ایکڑ ،کماد156ایکٹر ہبریاں 19280 ایکڑ اور پوست 17 ایکڑ رقبہ پر کاشت تھی۔ لوگ بہت محنتی و جفاکش تھے ۔ بیل ہل ، کستیوں وکندالوں کے ذریعے زمین کاسینہ چیر کر کاشت کاری کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ جدید مشینری و آلات کی آمد سے زراعت آسان ہوگئی۔ چنیوٹ میں سب سے پہلی ” رجر بل مستری حاجی عبدالحمید نے تیار کی۔ معروف زمیندار خواجہ حسن رضا نے سب سے پہلے رجر بل“ کے استعمال سے متعارف کرایا۔ ہارویسٹر مشین کے استعمال کا سہرا بخشی خاندان کے سر ہے۔

زراعت جدید:

قیام پاکستان کے وقت مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں چنیوٹ پہنچے۔ چند دن کیمپ میں گزارنے کے بعد ان لوگوں نے ذریعہ معاش کی تلاش شروع کی ۔ کیونکہ یہ لوگ مفتی، جفاکش و خود دار تھے ۔ اس لئے انہوں نے محنت کو کمپ میں وقت گزارنے پر ترجیح دی۔ روزگار کی تلاش میں چند کنال رقبہ جس کو جہاں سے ملا، جن شرائط پر ملا کاشت کیلئے حاصل کیا اور دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر لیا ۔ یہاں پر کچھ وقت ایک کارپوریٹ فارمنگ کی طرز کی ایک فارمنگ کا آغاز ہوا۔ جس میں چند لوگوں نے مل کر ایک کمپنی بنائی جس کا نام "حاجی کالے خان کمپنی ” رکھا گیا۔ اس کمپنی کے دل و دماغ حاجی کالے خان، حاجی حاکم علی ، حاجی محمد علی ، حاجی محمد نتھو اور حاجی قاسم علی تھے۔ ان لوگوں نے اپنی افرادی قوت کو جوڑ کر کام کا آغاز کیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے چند کنالوں کی کاشت کرنے والے۔ مربعوں کی کاشت تک پہنچ گئے۔ اس کمپنی نے دن رات ایک کر کے بنجر زمینیوں کو زرخیز کرنے کیلئے اپنی پوری مہارت اور اپنے پورے وسائل اس میں جھونک دیئے ۔ جب آہستہ آہستہ بنجر علاقے آباد ہونے لگے تو آبا در قبے کے ساتھ جو بنجر علاقہ ہوتا ، اس رقبے کے مالک اس کمپنی کو خود آکر رقبہ کاشت کرنے کی پیش کش کرتے۔ اس طرح ان لوگوں کی محنت سے ایک وقت ایسا آیا ، جب چنیوٹ کے مضافات کے تمام بنجر رقبے سرسبز ہو گئے ۔ نہ صرف زمین آباد ہوئی بلکہ شہر میں زراعت کے متعلق مختلف کاروبار مثلا ٹریکٹرز ورکشاپ، سپیئر پارٹس ، ٹیوب ویل بورنگ اور خراد وغیرہ ان تمام کاروباروں کو دوام ملا ۔ شہر اور دیہات کی اس ترقی میں ان مہاجرین کا عموما اور خصوصاً، حاجی کالے خان کمپنی کا بالخصوص حصہ تھا۔ اس کمپنی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ چنیوٹ کے تمام رقبے آباد کرنے کے بعد اور مقامی لوگوں کی زراعت میں دلچسپی پیدا کرنے کے بعد اب سی اس قابل ہو چکے تھے کہ اپنی افرادی قوت و وسائل کو ملک کے دوسرے حصوں میں پھیلائیں۔ اس لئے انہوں نے صوبہ سندھ کا ایک علاقہ بدین کی تحصیل گلارچی‘ کا انتخاب کیا۔

وہاں پر انہوں نے ایک بہت بڑے علاقے کو آباد کرنے کے لئے انتخاب کیا۔ وہاں پر انہوں نے 100 مربع رقبہ کو حکومت سے لیز پر لیا۔ اس کی پلاٹنگ کی سڑکیں بنا ئیں ، نہری پانی کو اس رقبہ تک لے آئے۔ جب بنجر رقبہ کو قابل کاشت بنایا تو اس کی زرخیزی اور محنت نے مل کر اس علاقے کو چار چاند لگا دیئے۔ اللہ تعالیٰ ! نے ان کی محنت کو رنگ دیتے ہوئے اس رقبہ سے کماد کی بہترین پیداوار دی ۔ جس کا اعتراف حکومت پاکستان نے ” حاجی کالے خان کمپنی کو تمغہ امتیاز و گولڈ میڈل سے نواز کر کیا۔

حاجی کالے خان کمپنی نے زراعت کو جدیدیت کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات و نظریات سے بھی روشناس کروایا۔ 1950ء کے عشرہ میں گندم کا بج 30 سے 35 سیرنی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی تھی ۔ جبکہ اس کمیٹی نے ثابت کیا کہ بیج کی یہ مقدار اوسط پیداوار بڑھانے کیلئے نا کافی ہے۔ انہوں نے زمین کی زرخیزی کی مناسبت سے بیج کی شرح مقدار کا نظریہ پیش کیا۔ اس طرح باغبانی کے وقت پودوں کی تعداد دگنی کر کے باغ لگایا گیا۔ اس دور کے اکثر زرعی شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات نے اسے غیر دانشمندانہ قرار دیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ان کا یہ نظریہ درست تھا۔ وقت کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ حاجی کالے خان کمپنی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور اس کمپنی سے ایک علیحدہ خاندان حاجی حاکم علی کے فرزندان نے زراعت میں نئے رجحانات کو متعارف کرانے کا سہرا اپنے سر لیا۔ حاجی حاکم علی خاندان نے اپنے جدید دور کا آغاز ان کے بڑے صاحبزادے اور علاقہ کے مایہ ناز زرعی گریجوایٹ اور زرعی ماہر حافظ محمد نسیم (مرحوم) نے ” حاجی سنز کے نام سے کیا۔ جنہوں نے اپنے علاقہ میں ایک سال میں ایک رقبہ سے تین فصلیں لینے کا کامیاب تجربہ کیا اور لوگوں کو اپنے اس نظریہ کا پریکٹیکل اپنے فارم پر لوگوں کو اکٹھا کر کے دکھایا۔ جس کو اس وقت کے زرعی ماہرین نے بہت سراہا۔

اس کے ساتھ ساتھ حافظ محمد نسیم اور ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد سلیم نے مل کر زراعت میں جدیدیت کے رجحان کو پروان چڑھانے کیلئے دن رات کوشش جاری رکھی ۔ انہوں نے مکئی کی کاشت میں ایک انقلابی قدم متعارف کرایا ۔ وہ مکئی کی کھیلیوں پر کاشت ۔ اس کاشت میں مکئی کی پیدوار 50 منفی ایکڑ سے 100 منفی ایکٹر تک پہنچ گئی۔ ان کا یہ کام اس علاقے میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مکئی کی کاشت میں جو جذت آئی ہے اس کا
سہرا بھی حافظ محمد نسیم حاجی سنز کے سر ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آلو کی مختلف اقسام کے تجربات شروع کئے ۔ ان کی ٹیکنیکل فارمنگ کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی ماہرین نے بھی چنیوٹ کا رخ کیا۔ انہوں نے ایک وقت میں این اے آرسی ( نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کونسل ) ، پی اے آری (پاکستان ایگریکلچول ریسرچ کونسل). ایوب ریسرچ انسٹیٹیوٹ و دیگر تمام زرعی اداروں کا زخ ” حاجی سنز فارم کی طرف موڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زراعت سے متعلقہ ضروریات و مشاورت اور لوگوں کی رہنمائی کیلئے ایک ادارے کی ضرورت محسوس کی۔ جسے انہوں نے 1983 ء میں تحصیل چوک لاہور روڈ ” حاجی سنز“ کے نام سے ایک شوروم بنا کر پورا کیا۔

جہاں پر ایک چھت کے نیچے تمام زرعی لوازمات، ہر قسم کی رہنمائی اور مشاورت کاشت کاروں کو مبیا کی ” حاجی سنز نے نہ صرف مقامی لوگوں کی رہنمائی کی بلکہ تمام مقامی و غیر مقامی کمپنیوں کو چنیوٹ میں آکر فیلڈ میں لوگوں کونئی ریسرچ کے متعلق معلومات مہیا کرنے پر مجبور کیا۔ حافظ مند نسیم کے بعد 1987ء میں ”حاجی سنز کی ذمہ داری حافظ محمد سلیم پر پڑی تو انہوں نے اپنی بھر پور صلاحیت کے ساتھ نہ صرف پھیلی تحقیق کو قائم رکھا بلکہ نئے رجحانات میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے 1992ء کو چنیوٹ میں ٹشو کلچر (یعنی وائرس پاک آلو کے خلیوں سے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے آلو کا بیج پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کی اور لوگوں کو معیاری بیج کم قیمت پر مہیا کیا ) کا کام شروع کیا ۔ جو کہ اس سے پہلے پورے ملک میں نہیں ماتا تھا۔ یہ سرکاری سیکٹر کا کام ، پرائیویٹ سیکٹر پر کرنے کا اعزاز” حاجی سنز کو حاصل ہوا۔

اس سے زمینداروں کو اپنے پیج میں خود کفیل ہونے کا ایک راستہ ملا۔ حاجی سنز نے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا۔ ایک اور ہونہار محنتی اور جدت پسند فرزند طاہر سلیمی ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1994ء میں ”حاجی سنز کے زرعی کاروبار کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ زرعی کاروبار سے وابستہ ہوتے ہی انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ انہوں نے 1995ء کے دورہ جنوبی کوریا کے دوران دیکھا کہ سخت سردی میں دوہری ٹنل میں سبزیاں کاشت ہیں۔

لہذ ا سبزیوں کی اس بے موسمی کاشت نے انہیں بہت متاثر کیا۔ انہوں نے سوچا کہ اگر جنوبی کوریا میں c 10 _ سردی میں سبزیاں پیدا ہو سکتی ہیں تو پاکستان میں 40+ میں کیوں نہیں ہو سکتیں ؟ انہوں نے پاکستان پہنچ کر حاجی سنتز فارم پر بانسوں کی ایک جھو میری نمائنل پر پلاسٹک ڈال کر سردی برداشت کرنے والے بیجوں کی کاشت کر کے اپنے اس خیال کو پورا کیا۔ جب پہلی ہی مرتبہ ان کی سوچ سے بڑھ کر انہیں کم رقبہ سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی تو ان کے حو صلے مزید بلند ہو گئے ۔ انہوں نے مختلف چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے اس نظام کو اور فروغ دیا۔ پورے ملک سے مختلف زمینداروں کو اپنے فارم پر اکٹھا کر کے اس طریقہ سے متعارف کر لیا جبکہ اس سے پہلے یہ طریقہ پورے ملک میں نہیں تھا۔ گرین ہاؤس میں ٹماٹر کھیرا، مرچ اور شملہ مرچ کی کاشت کی جاتی ہے۔ محمد طاہر سلیمی کی اس تحقیق سے مزید چند سالوں میں نہ صرف آمدنی میں اضافہ ہو گا بلکہ ملک کو بھی سبزیوں میں خود کفیل ہونے میں مدد ملے گی ۔ ” حاجی سنز نے دنیا کے جدید ترین سسٹم ” ڈرپ اریگیشن سسٹم سے پہلی مرتبہ متعارف کروا کر پانی کی کمی کے مسئلہ کوحل کا اور اس سسٹم کا اپنے فارم پر تجربہ کر کے لوگوں کو دکھایا ۔

اس سسٹم کو لگانے کے لئے قطاروں میں فصل لگائی جاتی ہے اور اس میں پانی کے پائپ بچھائے جاتے ہیں جن کے ذریعے پودوں کو قطروں کی صورت میں پانی ملتا ہے۔ یہ طریقہ اپنانے سے تقریباً 70 سے 80 فیصد پانی کی بچت ہوئی ۔ بلکہ 20 سے 30 فیصد پیداوار میں بھی اضافہ ہوا اور بجلی کے استعمال میں بھی 25 فیصد بچت ہوئی ۔ ” حاجی سنز ” نے ان تحقیقات و تجربات کی وجہ سے پانی کی کمی نسل درنسل تقسیم کے بعد زمین کی کمی اور فی ایکٹر پیداوار میں کمی کے مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر کے ثابت کیا کہ چنیوٹ واقعی زرعی اعتبار سے پورے ملک میں زرخیز خطہ ہے۔

زرعی مددگار:

زمینداروں کو کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانے والوں اور دوسری اشیائے ضروریات تیار کر کے دینے والوں کو ” میں ” کہا جاتا تھا۔ ان میں کمہار جو کنوؤں اور ڈیروں کیلئے مٹی کے لوٹے اور مٹی کے برتن ، چائیاں ، گھڑے، ہانڈیاں ، ساہنگیں ( آٹا گوندھنے کا برتن ایرات) مٹی کے پیالے اور چلیں تیار کر دیتے تھے ۔ قبریں کھودنے کا کام بھی انہیں کے سپر د تھا۔ لوہار لوہے کا سامان درانتی، گھر یہ کسی اور بل کے بھالے وغیرہ تیار کر دیتے تھے۔ ترکھان لکڑی کا سامان ہل ، پنجابی ، کھر لیں ، چار پائیاں وغیرہ تیار کر دیتے تھے ۔ ٹوبہ (ملاح) کنوئیں کو صاف کرتا تھا۔ ماہلی کنوئیں کی ماہل تیار کرتے اور مرمت کرتے تھے۔ موچی چھڑے کا سامان، چھاٹ، ناہن (جس سے بل اور پنجابی کو جوڑا جاتا تھا ) لکڑی کی مدھانیوں کے نیترے اور جوتے تیار کر کے دیتا تھا۔ تجام (نائی) خوشی اور غمی کے موقع پر ہانڈی پکاتا اور حجامت کرتا تھا۔ چھا جی جو کانے کی تیلیوں سے بھیج تیار کر کے غلہ صاف کرتا تھا اور مصلی زمینداروں کا کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹاتا۔

ان کو تین پائی فی کھر دار (9 سیر نی آٹھ من) غلہ دیا جاتا۔ اگر فصل کاٹتے صاف کرتے ، کہاتے تو علیحدہ مزدوری دی جاتی۔ میراثی، پیرا ئیں اور چرواہے کوٹو پر فی کھر وار خلہ دیا جاتا۔ اگر کچھ عرصہ کے معاہدہ کے تحت شیری (کھیت مزدور ) رکھا جاتا تو اسے شادی شدہ ہونے پر ایک علیحدہ کمرہ ، ایک آن روزانہ نقد ، ایک جوڑا کپڑے موسم کے مطابق، ایک جوڑا جوتے ، 36 سیر گندم اور پانچ پائی دوسرا غلہ دیا جاتا۔ جبکہ موجودہ دور میں کاشتکاری جدید مشینوں کے ذریعے کی جانے لگی۔ مگر اب بھی کہیں کہیں وہی پرانا رواج موجود ہے اور اجرت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی ہے۔

آبیانہ اور محاصل:

نواب ولی داد خان سیال کی زرعی اراضی پر مقرر کردہ مالیہ کی شرح سیالوں کے
پورے عہد حکومت میں بدستور رہی جو کہ درج ذیل تھی۔

ایک روپیہ سالانہ فی کنواں ، ایک موٹی چادر (کمیل) سرکاری خزانے میں جمع کروائے جاتے تھے ۔ اگر چند کا شتکارل کر کوئی چھوٹی سی نہر کھود کر اپنی اراضی سیراب کرنا چاہتے تو حکومت ان کو مفت لیبر مہیا کرتی ۔ ایک سے زیادہ کنوئیں لگانے والوں کو حکومت 12 روپے فی کنواں کے حساب سے قرض فراہم کرتی ۔ اگر کوئی شخص آٹھ کنوئیں جاری کر کے زمین آباد کر لیتا تو حکومت اسے ایک کنوئیں کا مالیہ مستقل معاف کردیتی اور تمام کنوؤں پر لی گئی قرض کی رقم بھی آدھی معاف کر دی جاتی۔ کسی کنوئیں پر پیداوار کم یا زیادہ ہونے سے کنواں اجڑ جانے یا بند ہونے سے مالک مالیہ ادا کرنے کا اس وقت تک پابند ہوتا جب تک وہ کنوئیں سے دست بردار نہ ہو جاتا پیداوار پر بعض محصول عائد تھے جو حکومت وصول نہیں کرتی تھی۔ مگر ان کی ادائیگی لازمی کرنا پڑتی تھی یہ محصول دیہی معاشرہ کی ہمہ جہتی اور ترقی کیلئے ضروری سمجھتے جاتے تھے اور زیادہ تر فصل ربیع پر ادا کئے جاتے ۔

مثلاً دیہہ کی مسجد کی مرمت ، روشنی، دیکھ بھال ، تعمیر، امام مسجد کی تنخواہ اور دیہات کے مختلف مزارات پر روشنی و حفاظت کے تمام اخراجات کیلئے ہر کا شکار ایک کھروار پر دو مسیر (ایک ٹو پہ ) اور اسی شرح سے دیگر غلہ رسول ارواحی ادا کرنے کا پابند ہوتا تھا۔ اگر دیہی مسجد میں مکتب بھی ہو اور اس میں بیرونی طلباء زیر تعلیم ہوں تو مکتب کا تمام خرچہ دیہات کے کاشتکار برداشت کرتے تھے۔ اسی طرح غیر مسلم کاشتکار بھی رسول ارواحی دینے کے پابند تھے اور اپنے مندروں کی دیکھ بھال کا خرچہ بھی وہ ہر فصل پر اپنی گرہ سے ادا کرنے یا مخصوص کرنے کے پابند تھے ۔ 1881-82ء میں چنیوٹ کی مختلف ذیلوں سے جتنار یو نیو حکومت وصول کرتی تھی اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔ کوٹ سلطان کے بھٹی 2178 روپے۔ نور پور پیپل کے نگرا، چدھڑ ، سید ، بھٹی اور کھوکھر 30 3 8 روپے ۔ بڑانہ کے ساہل اور بھٹی 735 3 روپے کمی بالا راجہ کے سید ، کھتری ،ساہل اور کھرل 4 7 7 3 روپے لالیاں کے سید ،لالی، کھتری ، خوجے اور کھوکھر 3352+2876 روپے۔ کھڑکن کے ہرل، سید اور کھتری 5658 روپے ۔کوٹ امیر شاہ کے سید ، نیکو کارے نسوانے ، سپرا اور لولے 4723 روپے کا نڈیوال کے نسو آنے کھتری اور مارتھ 4348 روپے لینگر، روم کے گلوتر ، گوندل کھتری ، ریحان خوبے، نسو آنے اور بھٹی 7086 روپے ۔

گڑھنا نوالی کے گلوتر سرگانے ،سید ، ہرل اور نیکوکارے 236 6روپے ۔ ٹاہلی منگینی کے چدھڑ ، سید ، سپرا اور کھتری 7010 روپے۔ بھوانہ کے بچے، چدھڑ ، رجو کے اور سپرا 14572 روپے ۔ کڑک محمدی کے کھرل کھتری، ساہل یجن کے ہنگر، کھوکھر اور ٹھر کے 5460 روپے۔ رجوعہ کے سید، ہرل، کھو کھر کھتری اور سلارے 7308 روپے۔ چنیوٹ کے خوبے، کھتری، بر امن برہمن قاضی تھہیم ، نیکوکارے اور سید 5327 روپے ۔ مراد والہ کے ہرل ، ہیرا اور کھتری 4476 روپے ۔کوٹ خدا یار کے کھوکھر ، اروڑہ ، ہرل اور سید 3708 روپے ۔ ہرسہ شیخ کے گجر، ہرل، سید، عاصی اور نیکو کارے 3087 روپے حکومت کو ریع نیو ادا کرتے تھے۔ 2002-03 ء میں فصل خریف پر 85 روپے اور فصل ریچ پر 50 روپے فلیٹ ریٹ کی شرح آیا نہ فی ایکڑ تھی ۔ 04-2003 ء میں فلیٹ ریٹ کی شرح آبیانہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے 50 فیصد کمی کر کے فصل خریف پر 42.50 روپے اور فصل ربیع پر 25 روپے فی ایکڑ آبیانہ عائد کیا۔

چنیوٹ میں فصل زیادہ تر گندم، کما اور مونچھی کاشت ہوتی ہے۔ تاہم جزوی طور پر دوسری اجناس بھی کاشت ہوتی ہیں فصلات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فصل رہیہ، فصل خریف ، دونوں فصلات سے حکومت پنجاب کو اڑھائی کروڑ روپے آبیانہ کی مد میں محاصل وصول ہوتا ہے۔ جب کہ زرعی انکم ٹیکس کی مد میں تین کروڑ تین لاکھ روپے آمدنی موصول ہوتی ہے۔ جو کہ پنجاب میں کسی دوسری تحصیل سے اتنی آمدنی سرکار کو نہ جاتی ہے۔

ذرائع آمدروفت وگزرگاہیں:

آمد و رفت کی گزر گا ہیں گھنے جنگلات پر مشتمل تھیں۔ جس وجہ سے اکیلا آدمی سفر نہیں کر سکتا تھا۔ سوداگر اونٹوں اور چھکڑوں پر سامان لا دکر قافلوں کی شکل میں سفر کرتے تھے ۔ دریائے چناب پر ہر دس میل کے فاصلے پر دریا عبور کرنے کے تین قائم تھے۔ جہاں کشتیاں موجود ہوتی تھیں۔ جن میں چھکڑے اور اونٹوں کے قافلے لاد کر دریا عبور کیا جاتا تھا لوگ پیدل ، اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے اور سفر کرنا کافی مشکل تھا ۔ جبکہ موجودہ دور میں موٹر گاڑیوں کے ذریعے سفر کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ گھنے جنگلات ختم ہو چکے ہیں۔ دریائے چناب پر سب سے پہلا دو منزلہ پل یکم مئی 1932ء کو انگریزوں نے تعمیر کروایا تھا۔ جس کی اوپر والی منزل سے ٹریک اور نیچے والی منزل سے ریل گاڑی گزرتی تھی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پل خراب ہو گیا تو اس کے ساتھ نیا دورستہ پل 29 جون 2000 ، کو حکومت نے تعمیر کروایا۔ اور اسی سال اس نے پل پر ٹول پلازہ بنا کر ٹیکس لگایا گیا۔ جبکہ پہلے پل پر کوئی ٹیکس وغیرہ نہ لیا جاتا تھا۔ چنیوٹ سے جھنگ جانے والی سڑک کچی ہوتی تھی جس پر سفر کرنا کافی مشکل تھا۔ لوگ جھنگ جانے کیلئے پہلے لائل پور (فیصل آباد ) جاتے پھر وہاں سے جھنگ جاتے ۔ 1960ء میں چنیوٹ تا جھنگ پختہ سڑک تعمیر ہوئی ۔ جو آہستہ آہستہ خراب ہوگئی تو دوبارہ 1998ء میں حکومت نے ڈبل سڑک تعمیر کروائی۔

جس پر 2000ء میں کا نجو موڑ کے قریب ٹول پلازہ بنا کر ٹیکس لاگو کیا گیا ۔ اب ہر طرف پختہ سڑکیں تعمیر ہیں ۔ بہیں ، کاریں ار کئے اور موٹر سائیکل عام ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چنیوٹ میں گھوڑا تانگے موجود تھے مگر موٹر سائیکل رکشہ آنے کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چنیوٹ میں سب سے پہلا موٹر سائیکل رکشہ 1991ء میں ملک محمد امین کھوکھر لالکوٹیئے نے خرید کر چلانا شروع کیا تھا۔

چراگاہیں و جنگلات

چنیوٹ میں بعض مقامات یہ وسیع چرا گا ہیں تھیں جن کی نگرانی حکومت خود کرتی تھی۔ 78-1877ء میں چنیوٹ کے 187450 ایکٹر رقبہ پر گھنے جنگلات پھیلے ہوئے تھے۔ جن میں ملبے (جنگلی بیری) میکر شیشم، جنڈ ، ونٹر وغیرہ کے درخت اور گھنا سر کنڈہ ہوتا تھا ۔ جن میں وحشی شیر ، تیز چیتے ،خونخوار بھیڑیے ،سور ، چالاک لومڑیاں ، بزدل گیدڑ ، زہریلے سانپ اور شریف خرگوش رہتے تھے۔

ان میں سے اکیلے آدمی کا گزرنا ناممکن تھا ۔ دور حاضرہ میں آبادی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ چراگا میں ختم ہو گئیں اور جنگلات بھی محدودرہ گئے۔ اب دریائے چناب کے ارد گرد جھنگز گلوتراں ، برج چانگو اور برج الحمل کے مقامات پر جنگل بیلا موجود ہے جس میں مہلے (جنگلی بیری) کیکر اور شیشم کے درخت کھٹی لئی گھنا سر کنڈہ اور آک موجود ہیں ۔ رات تو رات رہی اس بیلے میں سے دن کو بھی نہیں گزرا جاتا ۔ اس پیلا کی لٹی جلانے ٹوکریاں اور ٹوکرے بنانے کے کام آتی ہے۔ سرکنڈہ سے مونج حاصل کر کے چار پائیوں کیلئے بان تیار کیا جاتا ہے۔ کانے چھپر اور چھتیں تیار کرنے کے کام آتے ہیں۔

صنعت و تجارت:

چنیوٹ نے زرعی ترقی کے ساتھ صنعت و تجارت میں بھی نام پیدا کیا۔ فنی اعتبار سے بعض مصنوعات سارے ہندوستان میں پسند کی جاتی تھیں۔ صنعت و تجارت کے شعبہ میں اس شہر کی شیخ برادری نے نام پیدا کیا اور اس شعبہ کو فروغ دینے میں جو کر دار ادا کیا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی ۔ ہندو گائے کو گنو ماتا کہتے تھے اور اس کے چمڑے کا کاروبار نہ کرتے تھے سب سے پہلے چنیوٹ کی شیخ برادری نے چڑے کی تجارت میں ہاتھ ڈالا اور پورے ہندوستان میں خصوصاً کلکتہ، مدراس، بمبئی، امرتسر ، شولہ پور اور ڈھاکہ کے مقام پر بڑی بڑی آڑھتیں اور ٹینڈریاں بنائیں۔ دوسرے بڑے شعبے کاٹن جینگ میں بھی چنیوٹی شیخ برادری نے بڑی ترقی کی ۔ میاں چنوں ، شام کوٹ ، خانیوال ، چنیوٹ ، ملتان اور امرتسر میں مولا بخش اور محمد اسماعیل نے فیکٹریاں قائم کیں۔ اس گروپ نے 1946ء تک 14 روئی کی فیکڑیاں 14 آٹے کی فیکٹریاں اور متعدد تیل کے کو ہلو قائم کئے ۔ یہ سب سے پہلی کمپنی ہے۔

میاں مولا بخش کی اولاد آج بھی شیخ آفتاب گروپ کے نام پر سرگرم ہے ۔ کالونی گروپ نے کالونی ٹیکسٹائل کا کام 1945 ء میں ملتان سے شروع کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلی مل تھی۔ انہوں نے دہلی میں سری رام کی کپڑے کی ملوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے بعد یہ فیصل آباد منتقل ہو گئے اور سب سے پہلے دو میں لگائیں پھر بہت سی میں لگ گئیں ۔ جس وجہ سے فیصل آباد کو آج بھی پاکستان کا مانچسٹ کہا جاتا ہے۔ ایک قیصر منوں گروپ ہے۔ جس کی ملکیت میں اسوقت کئی ملیں ہیں ۔ اس گروپ کے ایک دوسرے گروپ جس کے سر براہ میاں منیر منوں میں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں اولیا نیکٹائل قائم کی لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ سب کچھ وہیں چھوڑ آئے ۔ شیخ محمد سلیم اور شیخ محمد مختار نے چٹا گانگ میں عثمانیہ گلاس فیکٹری قائم کی۔ چنیوٹ میں ٹمس ٹیکسٹائل ملز حاجی محمد شفیع نے قائم کی۔

1978ء میں اقبال رائس ملز کی بنیاد رکھی گئی۔ اس مل نے چاول چھٹر نے والے ایک پلانٹ سے کام کا آغاز کیا۔ آہستہ آہستہ اس بل نے وسیع پیمانے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ چوہدری مسعود اقبال نے اپنی مدد آپ کے تحت جاپان، تھائی لینڈ ، چاہتا ، چین اور سویڈن سے جدید مشینری منگوا کر نصب کی ۔ بیل 142 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہے۔ اب اس مل میں بین الاقوامی معیار کا باسمتی چاول تیار ہوتا ہے۔ 10 میٹرک ٹن چاول کی فی گھنٹہ میں چھڑائی ہوتی ہے اور 10 میٹرک ٹن چاول فی گھنٹہ میں پالش ہوتا ہے ۔ 1999ء میں پہلی مرتبہ اس مل نے ایکسپورٹ کا کام شروع کیا اور تین سال میں ایکسپورٹ میں قومی ایوارڈ حاصل کیا ۔ ایوارڈ حاصل کرنے والی کمپنیوں میں یہ پچیسویں نمبر پر ہے۔ بہترین چاول فراہم کرنے پر اس مل کو صدر پاکستان جناب پرویز مشرف نے ٹرافی اور وزیر اعظم پاکستان جناب میر ظفر اللہ خان جمالی نے گولڈ میڈل دیا۔

عمدہ چاول فراہم کرنے والی کمپنیوں میں یہ چھبیسویں نمبر پر ہے۔ اس مل نے 1999 ء میں 132 ملین روپے ، 2000ء میں 289 ملین روپے ، 2001ء میں 696 ملین روپے ، 2002 ء میں 1072 ملین روپے اور 2003ء میں 1070 ملین روپے کا چاول عمان اور عرب امارات کو ایکسپورٹ کیا۔ اب امریکہ، جرمنی ، سویڈن، اٹلی، ہالینڈ، کینیڈا، ایران اور قطر کے ساتھ انہمی ایکسپورٹنگ کر رہے ہیں۔ لکڑی کی سادہ اور رنگدار مصنوعات کے علاوہ لکڑی پر ہاتھی دانت اور سونا چاندی تانبہ اور پیتل کی مینا کاری نے چنیوٹ کو پوری دنیا میں متعارف کروایا۔ بر صغیر اور دنیا کے دوسرے ممالک میں آرائش وزیبائش کا سامان چنیوٹ ہی سے جاتا تھا۔سعودی عرب کے سابق ولی عہد شاہ فیصل نے بھی اپنے ڈرائینگ روم کیلئے لکڑی کا سامان چنیوٹ سے ہی منگوایا تھا۔

لکڑی کی مصنوعات کے سلسلہ میں آج بھی چنیوٹ مشہور ہے۔ سکھوں کے عہد حکومت سے قبل چنیوٹ اور بھوانہ میں تجارتی منڈیاں بھی قائم تھیں۔ تجارتی مال زیادہ تر کشتیوں کے ذریعے منزل تک پہنچایا جاتا تھا، کشتیوں کا بڑا قافلہ جو جموں و کشمیر کی بندرگاہ اکھنور سے چل کر دریائے چناب کے راستے سندھ کی بندرگاہ سکھر جاتا تھا وہ بھی معیار کا باسمتی چاول تیار ہوتا ہے۔ 10 میٹرک ٹن چاول کی فی گھنٹہ میں چھڑائی ہوتی ہے اور 10 میٹرک ٹن چاول فی گھنٹہ میں پالش ہوتا ہے ۔ 1999ء میں پہلی مرتبہ اس مل نے ایکسپورٹ کا کام شروع کیا اور تین سال میں ایکسپورٹ میں قومی ایوارڈ حاصل کیا ۔ ایوارڈ حاصل کرنے والی کمپنیوں میں یہ پچیسویں نمبر پر ہے۔ بہترین چاول فراہم کرنے پر اس مل کو صدر پاکستان جناب پرویز مشرف نے ٹرافی اور وزیر اعظم پاکستان جناب میر ظفر اللہ خان جمالی نے گولڈ میڈل دیا۔

عمدہ چاول فراہم کرنے والی کمپنیوں میں یہ چھبیسویں نمبر پر ہے۔ اس مل نے 1999 ء میں 132 ملین روپے ، 2000ء میں 289 ملین روپے ، 2001ء میں 696 ملین روپے ، 2002 ء میں 1072 ملین روپے اور 2003ء میں 1070 ملین روپے کا چاول عمان اور عرب امارات کو ایکسپورٹ کیا۔ اب امریکہ، جرمنی ، سویڈن، اٹلی، ہالینڈ، کینیڈا، ایران اور قطر کے ساتھ انہمی ایکسپورٹنگ کر رہے ہیں۔

لکڑی کی سادہ اور رنگدار مصنوعات کے علاوہ لکڑی پر ہاتھی دانت اور سونا چاندی تانبہ اور پیتل کی مینا کاری نے چنیوٹ کو پوری دنیا میں متعارف کروایا۔ بر صغیر اور دنیا کے دوسرے ممالک میں آرائش وزیبائش کا سامان چنیوٹ ہی سے جاتا تھا۔سعودی عرب کے سابق ولی عہد شاہ فیصل نے بھی اپنے ڈرائینگ روم کیلئے لکڑی کا سامان چنیوٹ سے ہی منگوایا تھا۔ لکڑی کی مصنوعات کے سلسلہ میں آج بھی چنیوٹ مشہور ہے۔

سکھوں کے عہد حکومت سے قبل چنیوٹ اور بھوانہ میں تجارتی منڈیاں بھی قائم تھیں۔ تجارتی مال زیادہ تر کشتیوں کے ذریعے منزل تک پہنچایا جاتا تھا، کشتیوں کا بڑا قافلہ جو جموں و کشمیر کی بندرگاہ اکھنور سے چل کر دریائے چناب کے راستے سندھ کی بندرگاہ سکھر جاتا تھا وہ بھی چنیوٹ اور بھوانہ کے پاس سے گزر کر جاتا تھا۔ چنیوٹ میں درج ذیل اشیاء کی تجارت ہوتی تھی۔

لکڑی ولکڑی کا سامان، مٹی، کانسی و ایلومینیم کے برتن ، صندوق ، کپاس ، ریشمی نگیاں، کھدر، چڑا، سوتی کھیں، جوتے، بنے ، کالھیاں، لگا میں، کھار، غلہ اور جڑی جوٹیاں وغیرہ۔

درآمد ہونے والا سامان درج ذیل ہے۔

فروٹ ، نمک ، ادویات، دھاگہ، مالی و غیره، افغانستان کو اون، چپڑا، کپاس، تیل اور کھنڈ روغیرہ فروخت کیا جاتا تھا۔ اراضی کی خرید و فروخت میں رائج الوقت کرنسی لی جاتی تھی اور باقی مال کے بدلے مال کی تجارت ہوتی تھی۔

اس شہر کی صنعتی ترقی میں دریائی قربت ہمیشہ آڑے رہی مگر باوجود اس کے بھی یہ شہر کافی آگے بڑھا۔

2004 تک اس تحصیل میں 13 رائس فیکٹریاں، 3 کاٹن فیکٹریاں ، 22 آئس فیکٹریاں ، 2 سوپ فیکٹریاں، 4 گتہ فیکٹریاں ، ایک دال فیکٹری، 4 آئس کریم فیکٹریاں، 9 آئرن فونڈریز امل سٹور ، 32 پاور لومز ، 22 آرامشین، 5 آئل ملز ، ایک سپننگ ملز ، 3 ٹیکسٹائل ملز ، 2 فلور اور 2 شوگر ملز کام کر رہی ہیں۔ جبکہ رمضان شوگر ملز ایشیاء کی سب سے بڑی مل ہے اور تیسری مدینہ شوگر ملز بھی زیر تعمیر ہے۔

معدنیات:

چنیوٹ اور چناب نگر کے درمیان دریائے چناب کے دونوں اطراف پہاڑیاں واقع ہیں جو کہ زیادہ بلند نہیں ۔ ان پہاڑیوں کو توڑ کر سڑکوں و تعمیرات کیلئے پتھر اور بجری حاصل کی جاتی ہے۔ مغلیہ دور کی عمارات میں استعمال ہونے والا پھر بھی انہی پہاڑیوں سے حاصل کیا گیا۔ کیونکہ ان پہاڑیوں کے پتھر کی کانٹ چھانٹ اور اس پر نقش و نگاری آسانی سے ہو جاتی تھی۔ یہاں کی ریت بہت اعلیٰ قسم کی ہے اور تعمیرات میں کام آتی ہے۔ چنیوٹ سے تقریباً تین صد ترک ریت روزآنہ ملک کے مختلف شہروں کو سپلائی ہوتی ہے۔ حال ہی میں چنیوٹ میں لوہے، تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ جو سطح زمین سے 400 فٹ گہرے ہیں اور کڑا نہ پہاڑیوں سے لیکر شاہ کوٹ تک ہیں ۔

گھریلو دستکاری:

جس طرح زمانہ قدیم کی عورت اپنے آپ کو مشقت میں مصروف رکھتی تھی آج کی عورت سوچ بھی نہیں سکتی۔ عورتیں کھجور کے اچھے اچھے پتے توڑ کر لاتیں اور ان کو خشک کر کے پھر انہیں بھگو کر مختلف رنگ دیتیں اور پھر سرکنڈہ اور پتوں سے خوبصورت اور دلکش پیگیریں، چھبیاں، ٹوکریاں ، تھالیاں اور دستی پنکھے تیار کرتیں۔ اس صنعت سے مالی حالت کو تقویت ملتی ۔ ہر گھر میں موجود دستی چکیوں پر عورتیں غلہ پیتی تھیں ۔ سادہ کپڑوں پر کڑھائی کر کے خوبصورت بیل بوٹے بنائے جاتے ، عورتیں کپاس کو بلینے سے بیل کر صاف کرتیں پھر خود دھنکتیں۔ گاؤں کی چند عورتیں اکھٹی بیٹھ کر چاندنی رات میں ساری ساری رات چونے کا تیں اور خوش کہاں لگاتیں ۔ جولا ہوں کے گھروں میں کپڑا بنے کیلئے دستی کھنڈیاں موجود تھیں۔ جن پر ڈیزائن دار اور سادہ کپڑے بنے جاتے تھے ۔ کمہاروں کے گھروں میں چک ہوتے ۔ جن پر چکنی مٹی کے برتن تیار کئے جاتے اور آدی میں رکھ کر نیچے اوپر خشک سرکنڈہ اور خشک گھاس رکھ کر آگ لگادی جاتی ۔ جس سے برتن پک کر تیار ہو جاتے۔ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے میں برابر کی شریک ہوئیں، مویشیوں کے لئے چارہ کائتیں، جانوروں کا دودھ دوہتیں۔

اس زمانہ میں عورتیں اور مرد ہر وقت اپنے آپ کو مصروف رکھتے ۔ جس وجہ سے جرائم بھی کم جنم لیتے ۔ وہ عورتیں بہادر، جفاکش، قد کاٹھ اور شکل و شباہت والی ہوتی تھیں۔ جبکہ آج کی عورت اور مرد کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہونے کی وجہ سے جرائم بھی بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ فارغ ذہن شیطان کا گھر ہے”

لباس اور گھر یلو سامان:

علاقہ میں ہر طرف تقریباً ایک ہی جیسا لباس ہوتا تھا۔ مردسفید مجھلی ،سفید کھلی آستیوں والا کر تہ ، پگڑی اور چمڑے کی کنے دار جوتی پہنتے تھے ۔ اور شادی کے موقع پر لنگی ہوسکی کا تمیض اور کھسہ پہنتے تھے ۔ بوڑھے اشخاص سفید مجھلی ، سفید قمیض اور سفید پگ اور ایک چادر جوشانوں پر رکھتے تھے۔ جب کبھی پنچایت میں بیٹھتے تو اس چادر کو گھٹنوں اور کمر سے لپیٹ لیتے جسے گوٹھ کہتے ۔ شادی کے بعد عورتیں ریشمی لنگی ریشمی قمیض، منڈا جوتی جس پر ریشم کا بڑا سا پھول لگا ہوتا اور لمل کا دوپٹہ جس کی کناری اطلس اور دریائی سے بنی ہوتی پہنتی تھیں ۔ امیر لوگ، دریائی ، اطلس اور کم خواب قسم کے ۔ غریب لوگ کھڈ ر اور سلک قسم کے کپڑے استعمال کرتے تھے ۔ بوڑھی عورتیں نیلے رنگ کی چادر اور دوپٹہ استعمال کرتی تھیں۔ نیلا کپڑا ٹھنڈا تصور کیا جاتا تھا۔ سادہ کپڑوں پر خوبصورت بیل بوٹے بنائے جاتے تھے۔ سلائی مشین کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا ۔

عورتیں خود ہاتھ والی سوئی سے کپڑوں کی لائی کرتی تھیں۔ گھر یلو سامان میں مٹی کی ساہنگ، (پرات) ، لوٹے، ڈولے، چٹورے، چوریاں ، گلاس ، گنی ( ہانڈی)، گھڑے مٹی کے پیالے، گھوگھے جن میں پیسے اکٹھے کئے جاتے تھے لکڑی کے بنے ہوئے ڈبے جن میں زیور رکھا جاتا۔ لکڑی کی ڈوئی شیشم کی بنی ہوئی چار پائیاں ، پیڑھیاں اور پیڑ ھے جو زیادہ کھجور کی چوڑی پٹی سے نئے ہوتے تھے۔ لڑکیوں کو جہیز میں رنگین پنگ دیئے جاتے تھے جن کے پائے کافی مضبوط اور موٹے ہوتے تھے ۔ جن پر خوبصورت بیل بوٹے کندہ کئے جاتے ۔ غلہ صاف کرنے کیلئے لکڑی کا چٹو، موبلا، کانے کی تیلیوں سے بنے ہوئے بھیج بھیجنی ہو ہے یا پیتل کے پرون، لکڑی یا لوہے لو کے ٹوپے، پڑو پیاں ، دستی چکیاں، کپاس صاف کرنے کیلئے بیلنے ، روٹی کاتنے کے چرانے، لکڑی کی مدھانی ، مدھنا نہیں (جس پر چاٹی رکھ کر دودھ بلوایا جاتا ہے ) ہتکھل اور نیتراء یہ اور میہ سامان گھر یلو پونچھی ہوتا اور ہر گھر میں موجود ہوتا تھا۔

زیورات:

قدیم زمانہ میں کنواری لڑکیاں خواہ امیر ہوتیں یا غریب چاندی کے بندے پہنتی تھیں۔ ایک دو سال کی عمر کی بچیوں کے کانوں میں پانچ سے آٹھ سوراخ کروائے جاتے اور ان میں نیلے رنگ کا دھاگہ ڈال دیا جاتا۔ جب زخم ٹھیک ہو جاتے تو دھاگے نکال لئے جاتے اور چاندی کے بندے ڈال کر ان کے وزن کو تھامنے کیلئے ریشمی دھاگہ یا طلا سے بگھ بنا کر ڈالے جاتے ۔ ماتھے کی جھومر، ماتھے کا ٹلہ ، بالوں کو سمیٹنے کیلئے چاندی یا سونے کی گھنگھری دار سوئیاں، گلے میں چاندی یا سونے کا تین سے سات لڑیوں والا ہار جسے کشمالہ کہتے تھے۔ انعام رجھی پڑیاں جو سر کے اگلے حصے میں دونوں طرف باندھی جاتیں۔ تاک کے دونوں طرف ایک ایک کو کہ اور چھوٹی بچیوں کے ناک میں کوکے کی جگہ چاندی یا سونے کے لونگ ڈال دیئے جاتے۔ ہاتھ کی انگلیوں کی سونے یا چاندی کی انگوٹھیاں، انگوٹھے میں چاندی کی آرسی پاؤں میں تین قسم کی پازیب، خالی چکر دار زنجیر، گھنگری دار اور گنبد کی طرح ابھری ہوئی ہوتی تھیں۔ گلے کیلئے گلوبند ، بچوں کیلئے چاندی کی ڈھولنی اور پاؤں میں چاندی کا کڑا ہوتا تھا۔ 1752 ء میں سونے چاندی کا بھاؤ درج ذیل تھا۔

سونا۔ 10 روپے فی تولہ                   چاندی 3 آنہ فی تولہ

خوراک:

دور حاضرہ میں باشندگان چنیوٹ کو جتنی خوراک کی آسانی و فراوانی میسر ہے 1816ء سے قبل بڑے بڑے رئیس و امیر زادوں میں بھی نہ ملی تھی ۔ لوگ بالکل عام اور سادہ خوراک کے عادی تھے۔ ہر غریب اور امیر کے گھر رات کو چائیوں میں دورہ جما کر دہی ہائی جاتی ۔ عورتیں صبح منہ اندھیرے اٹھتیں منہ ہاتھ دھو کر اللہ تعالی کا پاک نام لے کر چائیوں میں مدھانیاں ڈالتیں اور دہی کو بلوتیں۔ ہر گھر میں مدھانیاں چلنے کی بہت پیاری آواز میں آتیں ۔ تمام امیر وغریب دودھ بیچنا بالکل پسند نہ کرتے ۔

مرد صبح اٹھتے نور کے تڑکے بیل جوتے اور کھیتوں میں چلے جاتے ۔ ہر طرف بیلوں کی گھنٹیاں گونجتیں اور ساتھ ہاہ ،ہاد کی پیاری آواز میں آتیں۔ گرمیوں کے موسم میں دن چڑھے عورتیں کھیتوں میں ہی صبح کا ناشتہ لے کر جائیں۔ جس میں باسی روٹی مکھن اور کسی شامل ہوتی تھی۔ عورتیں گھروں میں کچے آم کیکر کی پھلیوں ، کری کے ڈبلے، ہری مرچ لہوڑے، لیموں، گاجر اور سوہانجناں کے پھل و پھول کا بڑے شوق سے اچار ڈالا کرتیں ۔ دوپہر کی روٹی چٹنی ، اچار اور کسی سے یا پیاز کاٹ کر نمک ڈال کر ، ان پر لیموں نچوڑ کر اس سے کھائی جاتی ۔ رات کو کچے دودھ کیسا تھ کھاتے ۔ سردیوں میں رات کو دیسی پالک سرسوں کی گندلیں اور ہاتھو کا ساگ پکا کر اس میں مکھن ملا کر بڑے شوق سے کھایا جا تا یکئی کی روٹی ساگ اور لسی صبح کا پسندیدہ ناشتہ ہوتا۔ لوگ اکر وڑی اور اس کا ساگ بھی بڑے شوق سے کھا تے ۔ گوشت بہت کم کھایا جاتا۔ گندم کی نسبت مکئی ، جوار اور باجرہ کی روٹیاں زیادہ کھائی جاتیں۔ سردیوں کے موسم میں عصر کے وقت لوگ اپنے کئی اور جوار بھون کر گڑ کے ساتھ کھاتے جو بہت مزیدار ہوتے تھے ۔ سبزیوں میں زیادہ بینگن ، ٹینڈے، کدو، پالک،کریلے اور آلو کھائے جاتے۔ غریب لوگ پیلوں، جوار اور بھکھہ ابھی ابال کر کھاتے ۔ اہلی ہوئی گندم میں شکر مل کر کھائی جاتی جسے گھگھنیاں کہتے ہیں۔

شادی بیاہ کے موقع پر آٹا یا سوجی تھی میں بھون کر اس میں شکر اور دوسرے خشک میوہ جات ملائے جاتے جسے پنجیری کہتے تھے ۔ جو بڑے شوق سے دی جاتی اور آئے ، سوجی اور گڑ کا حلوہ بھی دیا جاتا۔ برسات کے موسم میں آٹے کے پیڑے کے درمیان گڑیا شکر اور گھی ملا کر رکھا جاتا اور روٹی پکائی جاتی جسے بھری کہتے ۔ یہ لذیز وقوت بخش ہوتی اور سردی سے محفوظ رکھتی۔ گندم کے آٹے میں پیاز اور نمک ملا کر روٹی پکائی جاتی جسے مسی روٹی کہتے تھے ۔ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس میں شکر اور گھی ملایا جاتا جسے چوری کہتے جو لوگ بڑے شوق سے کھاتے ۔ چنیوٹ کے مشہور کھانوں میں سے ایک مشہور سالن کہ ہے۔ جو کہ اپنی لذت اور ذائقہ کے اعتبار سے منفرد ہے۔ یہ زمین میں گڑھا کھود کر اس میں آگ جلائی جاتی ہے اور اوپر مٹی کا پختہ منکہ رکھ کر اس میں پکایا جاتا ہے یہ قورمے کی ایک قسم ہے۔

ناپ تول و پیمائش:

شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے عہد حکومت میں ہر چیز کی پیمائش کا درج ذیل طریقہ رائج تھا۔ ایک ایسا گول برتن جس میں تقریباً 112 سیر غلہ آجاتا اسے پڑوپی کہتے تھے ۔ جو کہ لوہے یا لکڑی کی بنی ہوتی تھی۔ ٹو پہ یہ بھی لو ہے یا لکڑی کا بنا ہوتا۔ جس میں دوسیر للہ آ جاتا۔ چار ٹوپے کی ایک پائی پانچ پائی کا ایک من نلہ ہوتا ۔ آٹھ من کا ایک گھر دار تصور ہوتا۔زمین کی پیمائش کا درج ذیل طریقہ تھا۔

ایک آنہ کی چوتھائی برابر ایک انچ ، ایک ہاتھ برابر دوفٹ ، ساڑھے تین ہاتھ بر ابر ایک کرم ایک مربع کرم برابر ایک سرسائی ، 9 سرسائی برابر ایک مرلہ، 20 مرلہ برابر ایک کنال 4 کنال برابر ایک دیکھہ ، 2 بیگھہ برابر ایک کیلہ (ایکڑ) شمار ہوتے اور دیہی علاقوں میں اب بھی یہی طریقہ رائج ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں من، سیر اور چھٹانک کے باٹ تیار ہوئے اور ناپ تول کے طریقے رائج ہوئے 78-1977 میں صدر پاکستان جناب محمد ضیاء الحق نے سیروں کے باٹ ختم کر کے کیلو اور گرام جاری کئے ۔ ایک ہزار گرام کا ایک کلو اور چالیس کلو کا ایک من ہوتا۔

نرخنامه اجناس:

1816ء سے قبل اشیائے خوردونوش کی قیمتیں درج ذیل تھیں ۔ ایک روپے میں
چنے 2 من ، جو 2 من، باجر 20 من 5 سیر ، جوار 1 من 26 سیر، منڈ وا2 من 20 سیر، چینا ا من 20 سیر ، گھی پونے تین سیر ، گندم 24 سیر اور شہد 4 سیر ملتے تھے ۔ مزدور کو 20 چیسہ، کاریگر کو 50 پیسہ مزدوری ملتی تھی۔ بار برداری کے لئے ریڑھا ایک روپیہ 25 پیسہ، اونٹ چھ 112-3 پھر آنہ، 20 گدھوں کا گروپ 1/2 – 3 روپے اور کشتی 2 روپے 50 پیسہ یو سی ملتی تھی۔ 1809ء میں رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں گندم 14 آنے فی من تھی ۔ 1844ء سے 1853 تک گندم کی قیمتیں مختلف تھیں جو درج ذیل ہیں۔

1844ء میں ایک روپے کی 29 سیر ، 1845ء میں ایک روپے کی 30 سیر ،1846ء میں ایک روپے کی 33 سیر ، 1847ء میں ایک روپے کی 37 سیر ، 1848ء میں ایک روپے کی 37 سیر ، 1849ء میں ایک روپے کی 25 سیر، 1850ء میں ایک روپے کی 38 سیر، 1862ء میں ایک روپے کی 63 سیر ، 1853ء میں ایک روپے کی 62 سیر، 1872-73ء میں ایک روپے کے جو 25 سیر گیارہ چھٹانک، چنے 23 سیر، گندم 23 سیر ، جوار 31 سیر، باجرہ 25 سیر، چاول عمدہ 5 سیر ، دال اڑو 26 سیر، تمہا کو 4 سیر، دیسی گھی 1 سیر 9 چھٹانک ، صاف کپاس 2 سیر 6 چھٹانک، چینی 2 سیر 6 چھٹانک، اور جلانے کی لکڑی 5 من 13 سیر فروخت ہونے لگی ۔ 82-1881 ء میں مزدور 6 سے 8 آنہ، کاریگر 12 آنہ سے ایک روپیہ، اونٹ 6 آنہ سے 8 آنہ، میں گدھوں کا گروپ 3 روپے 2 آنہ سے 3 روپے 12 آنہ اور کشتی 2 روپے سے 2 روپے 8 آنہ یومیہ ملتے تھے۔

20۔ 1816 سے آج 2004 ء تک 188 سال بیت جانے کے بعد اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں۔ 1961ء میں گندم 18 سے 20 روپے فی من تھی۔ 2000 ء میں گندم 280 سے 300 روپے فی من ، چنے سفید 38 سے 44 روپے فی کلو ، چنے سیاہ 24 سے 26 روپے فی کلو، چاول باسمتی 22 سے 28 روپے فی کلو، دال ماش 44 روپے فی کلو، دال مونگ 32 روپے کلو، گڑ 18 سے 20 روپے فی کلور 2002ء میں گندم 330 روپے فی من ، دهان باسمتی چاول ( مونجی 500 روپے فی من ، اپنے 30 روپے کلو، دھان ( مونجی قسم نمبر (850) 490 روپے فی من ۔ 2003ء میں گندم 300 سے 320 روپے فی من ، چنے سفید 26 سے 32 روپے فی کلو، دال ماش 26 سے 28 روپے فی کلو، دال مونگ 24 روپے فی کلو، چینی 19 سے 20 روپے فی کلو فروخت ہوتی ۔

جانوروں کی قیمتیں:

1816ء سے قبل گائے 5 سے 8 روپے،اونٹ 25 روپے،گدھا 5 روپے، بیل اور بھینسا، 20 روپے، بھینس 15 روپے، بھیڑ ایک سے 2 روپے، بھیٹر کا کم عمر بچہ تین سے چار روپے فی فروخت ہوتا رہا۔ بھیڑ کے کم عمر بچے کی قیمت اس لئے زیادہ تھی کیونکہ اس کی کھال ایران اور افغانستان کے تاجر خریدتے تھے ۔ آج 187 سال گزرنے کے بعد 2003ء میں جانوروں کی قیمتیں درج ذیل ہیں۔

بھینس 20 سے 30 ہزار روپے ، گائے 15 سے 20 ہزار روپے، بیل 16 سے 22 ہزار روپے، بھینسا 14 سے 18 ہزار روپے، بھیڑ 16 سے 22 صد روپے، بکری 2 ہزار سے اڑھائی ہزار روپے، اور گدھا 5 سے 8 ہزار روپے فروخت ہوتا ہے۔

"ان جانوروں میں تمہارے لئے عبرت ہے۔ ان کے شکم میں جو گو بر اور خون ہے اس کے درمیان میں سے  خالص اور پینے والوں کیلئے خوشگوار دود ھے ہم تم کو پلاتے ہیں” (سورہ نحل آیت نمبر 66)

مقامی زبان:؛

چنیوٹ کے علاقہ میں دراوڑوں سے لے کر انگریزوں تک مختلف قبائل نے حکومت کی جس وجہ سے اس علاقہ کو مختلف الفاظ و لہجے حاصل ہوئے۔ چنیوٹ کی مقامی زبان پنجابی ہے۔ جس میں اتنی لچکداری ہے کہ یہ باقی زبانوں کے الفاظ اپنے اندر آسانی سے جذب کر لیتی ہے۔ مگر اپنی اصل شکل کو نہیں بگڑنے دیتی۔ 1816ء سے قبل چنیوٹ میں ہندوستانی اُردو، پنجابی، کشمیری ، جنگی اور فارسی بولی جاتی تھی۔

موجودہ دور میں چنیوٹ کی مختلف علاقہ جات میں تھوڑا بہت لب ولہجے میں فرق ضرور ہے مگر چنیوٹ میں پنجابی غالب زبان ہے ۔ 1881ء میں شہر چنیوٹ میں ہندوستانی 34، باگڑی 2 ، پنجابی 128187 ، پشتو 7 ، کشمیری ایک انگریزی 1 اور سندھی 9 افراد بولتے تھے ۔ 1998ء میں 95.9 فیصد آبادی پنجابی بولتی ہے، اُردو 3.3 فیصد، پشتو 0.4 فیصد، سرائیکی 0.1 فیصد ، جبکہ دوسرے افراد بلوچی ، سندھی ، براہوی اور ڈاری وغیرہ بولتے ہیں ۔ اردو، پشتو اور سرائیکی بولنے والوں کا تناسب شہر میں دیہاتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ چنیوٹ کی پنجابی زبان کے عابد حسین تمیمی محمد یوسف نیر اور طاہر عباس خضر کبھی بہت اچھے شاعر ہیں۔

کھوج / گویڑ:

جب کسی دیہہ میں چور، ڈاکو گھس جاتے اور مال مویشی یا دیگر قیمتی سامان چوری کر کے لے جاتے تو مالک کو خبر ہونے پر وہ اہل دیہ کو مطلع کرنے کیلئے اپنے منہ سے ایک خاص قسم کی آواز نکالتا جسے مقامی زبان میں "بو ، یو” کہتے تھے ۔ دوسری ، تیسری اور چوتھی” پور بو کو خطرناک سمجھ کر اہل دیہہ و دوسرے نزدیکی دیہات کے لوگ لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر اکٹھے ہو جاتے اور مجرمان کا پیچھا کرتے۔ کبھی مجرمان پکڑے جاتے اور بعض اوقات فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ۔ فرار ہو جانے والوں کا صبح روشنی کے وقت گھرا نقش پاء) پہچان کر ان کا پیچھا کیا جاتا۔ کھر اشناس ( کھوجی ) جو اس کام میں مہارت رکھتا تھا کھرا کی شناخت کرتے کرتے مجرم کے ٹھکانہ تک پہنچ جاتا ۔ چست و چالاک چور اپنی چالیں بدلتے ، کھر امار لیتے مگر تجربہ کار کھر اشناس ( کھوجی ) ان کی چالیں سمجھ جاتے ۔ چنیوٹ میں حاجی مشتعل مہلو کا ساکن کوٹ خدایار ، سید یار محمد شاہ ساکن ڈیرہ شاہانہ ، فلک شیر گڈ گور ساکن احمد آباد اور محمد یونس بنج عقلمند اور تجربہ کار کھوتی ہیں۔

اگر کسی مجرم کا گھر اوغیرہ سے بھی علم نہ ہوتا تو گاؤں کے چند قلمند آدمی مل بیٹھ کر گویه ( قیافہ ) لگاتے ۔ ان کے لگائے ہوئے گویڑ 98 فیصد نشانہ پر ٹھیک بیٹھتے اور باقی چھوٹے مسائل کا حل بھی پنجایت کے ذریعے کر لیا جاتا۔ پنچائیت کے تھی (ج) خاص خاص عقلمند آدمی ہوتے۔ ہر دو فریقین متفقہ طور پر اپنے مسائل علاقہ کے تھی کے پاس لے جاتے اور تھی انہیں پابند کرتا اور ان کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کرتا کہ کون گنہگار ہے اور کون بے گناہ ہے۔ جسے پنجائیت گنہ گار قرار دیتی اسے سرکاری عدالت بھی معاف نہ کرتی۔ یہ نظام پنچائیت آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ چنیوٹ میں مہر نواب مران آف چک نمبر 14 ج ۔ ب ساڑ والہ ، مہر محمد علی ہرل آف کوٹ سرور ، مہر تند ولد مراد جپہ آف چک نمبر 125 ج-ب، مہر احمد سعید جپہ ، مہر احمد یار رمانه ساکن چک رمانه، مہر نور محمد سپراء آف چک ڈھول، محمد صادق کلیار چک نمبر 200 نصرانہ، رائے عالم شیر آف بوسال والی، مہر بہاول جه آف تاجه بیروالا، مہر شہامند سپراء آف تتر انوالی، مہر نجابت جپہ ، خان محمد رجو کہ ان مہر محمد یار ولد سنتہ ہرل آف موضع سلو لکے بڑے عقل مند تھی ہیں۔

جبکہ چوہدری خضر حیات ولد ولی محمد چدھڑ (مرحوم) آف سانگرے، مہر حسن لالی (مرحوم) خوشی محمد ( مرحوم ) آف سانگرے بل خان ولد صالحوں گلوتر ( مرحوم) ، ملک حاجی احمد یار ولد جانگلوتر ( مرحوم ) آف گلوتر انوالہ، میاں محمد یار ولد میاں مولا بخش تصمیم (مرحوم ) آف کوٹ عد ثمان (چادر تھا نوالہ ) اور راقم الحروف کے دادا جان میاں محمد ولد میاں غلام مہیم ( مرحوم )آف چاہ جھلانوالہ تھہیماں، ذہانت کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ مہر نورا کبر جپہ (مرحوم) بھی انصاف پرست تھی تھے۔

ذرائع اطلاعات:

ذرائع اطلاعات میں اخبار، ریڈیو اور ٹی وی شامل ہیں۔ چنیوٹ میں پہلاغت روزہ المنیر ” 1898ء میں مولانا غلام حسین جوئیہ نے جاری کیا جو کہ 1956ء میں مختلف ہاتھوں سے گزرتا ہوا بند ہو گیا۔ 1961ء میں ”ماہنامہ دیہاتی “ جاری ہوا۔ 1936ء میں خضر تمیمی نے ماہنامہ ” چناب“ جاری کیا جو کہ 1941ء میں بند ہو گیا ۔ 1938ء میں ڈاکٹر عزیز علی نے ماہنامہ ” یاد خدا“ جاری کیا جو کہ 1939 ء میں ہفت روزہ ہو گیا اور 1954ء میں بند کر دیا گیا۔ چناب نگر سے 1949ء کے شروع میں مسعود احمد خان قادیانی نے ” روز نامہ الفضل” جاری کیا اور پھر نیم سیلفی نے ماہنامہ ” تحریک جدید ” ابو العطاء جالندھری نے ماہنامہ ” الفرقان نسیم مہدی نے ماہنامہ ” خالد العیق احمد طاہر نے "تحمید الا زبان جاری کئے ۔ مرزا غلام احمد نے انگریزی ماہنامہ ریویو آف ایلیجنز ” جاری کروایا۔

اس کے علاوہ، آرگن المنار اور البشری وغیرہ بھی اس قصبہ چناب نگر سے چھپتے رہے۔ مختار احمد ایم اے ، محمد بوٹا گلزار ، عبدالرحمن طارق ، اور بشیر حسین چمن نے 1970ء میں ایک ہفت روزہ ” بے لاگ” جاری کیا جو ایک سال بعد 1971ء میں بند ہو گیا۔ اب چنیوٹ سے ڈاکٹر مزمل عباس روز نامہ گراؤنڈ محبوب عالم ہفت روزہ ہدف ٹائمنز ” جاری کر رہے ہیں اور احمد فاروق نے 1989ء میں ”ڈیلی ایونگ“ جاری کیا۔چنیوٹ میں تقریباً 32 فیصد گھر ہونے ٹی وی، ریڈیو اور اخبار تک رسائی رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر 68.6 فیصد ٹی وی رکھتے ہیں ۔ 49.2 فیصد ریڈیو رکھتے ہیں اور 45 فیصد اخبار پڑھتے ہیں۔

مذہب:

چنیوٹ کی غالب آبادی مسلمان ہے۔ 82-1881ء میں چنیوٹ کی کل آبادی 128241 نفوس میں سے 112173 مسلمان جن میں 110761 اہلسنت ، 1410 شیعہ اور 2 افراد اہلحدیث تھے ۔ باقی 15369 ہندو ، 693 سکھ ، 2 عیسائی ، 2 یورپین عیسائی اور 4 جین تھے۔ 1998 ء میں مسلمان 98 فیصد، قادیانی 1.5 فیصد اور اور عیسائی 0.5 فیصد ہیں۔ جبکہ دوسری اقلیتیں ہندو ، اور شیلڈ ولڈ کاسٹ تعداد میں بہت کم ہیں ۔ دیہاتی علاقوں میں 99.5 فیصد مسلمان ہیں اور شہری علاقہ میں اس کا تناسب 93.9 فیصد ہے ۔ قادیانی اور عیسائی زیادہ تر شہری علاقہ میں رہتے ہیں ۔ جو کہ 5.3ار 0.8 فیصد ہیں ۔ جبکہ یہ مجموعی طور پر 0.7 فیصد دیہات میں رہتے ہیں ۔ یہ وہ واحد شہر ہے جس میں مذہبی فسادات نہ ہونے کے برابر میں اہل سنت اور اہل تشیع مل کر محرم الحرام مناتے ہیں۔ کل و تعزیے ہیں جن میں سے 3 اہل تشیع اور 6 اہل سنت کے ہیں۔

نوٹ:یہ مضمون ڈاکٹر ارشاد احمد تھیم کی کتاب (تاریخ چنیوٹ) سے لیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com