شیر خان بھروانہ اور صالت گلوتر :
1754ء میں نجابت ہرل جو کہ ڈاکہ کی نیت سے شیر خان ولد میر بھروانہ کے علاقہ میں گیا تو شیر خان نے اسے گرفتار کر لیا۔ جب اس کی گرفتاری کا علم ہرل اور گلوتر قبائل کو ہوا تو صالت ولد صاحب گلوتر نے پیغام بھیجا کہ نجابت کو آزاد کر دیا جائے ۔ مگر شیر خان بھروانہ نے صاف انکار کر دیا۔ جس پر صالت گلوتر بھڑک اٹھا اور ہرل و گلوتر قبائل کے بہادر جوانوں کو لے کر برچھیوں، نیزوں، ہمواروں، تیروں اور سانگوں سے مسلح گھوڑیوں پر سوار ہو کر شیر خان بھروانہ پر حملہ کیلئے نکل پڑے۔ ادھر شیر خان بھروانہ کو بھی علم ہو گیا کہ صالت گلوتر فوج لے کر آرہا ہے تو وہ بھی مقابلہ کیلئے تیار ہو گیا۔ دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہو گیا۔ بڑی زبر دست لڑائی ہوئی ۔ ہرل اور گلوتر قبائل کے بہادر جوانوں نے بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شیر خان بھروانہ کے سات آدمی قتل کر دیئے۔ جبکہ صالت گلوتر کے چار آدمی قتل ہوئے۔ آخر میں صالت گلوتر اور شیر خان بھروانہ کا جوڑ پڑ گیا۔ پہلا وار شیر خان بھروانہ نے صالت گلوتر پر کیا جو کہ اس نے تلوار کی ڈھال پر چکا دیا۔ دوسرا وار صالت گلوتر نے شیر خان بھروانہ پر کیا جس کے نتیجے میں اس کا سرتن سے جدا ہو گیا اور نجابت ہرل کو آزاد کروا کر واپس پہنچ گئے۔ شیر خان بھروانہ چونکہ اپنے علاقہ کا مانا ہوا بہادر انسان تھا۔ اس کا قتل علاقہ کیلئے بھاری نقصان تھا۔ شیر خان بھروانہ کے قتل سے دس دن بعد اس کا بھائی سارنگ خان بھروانہ اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے اٹھا۔ اس نے نور ولد قندر سپراء جو اس زمانہ کا بہادر جوان تھا اس سے امداد طلب کی ۔ نور سپراء نے اپنے بہادر جوانوں کے علاوہ اپنے آپ کو بھی پیش کیا۔ سارنگ خان بھروانہ اور نور پراہ کی زیر قیادت بہادر جوانوں کا مسلح لشکر روانہ ہوا۔ ادھر ہرل اور گلوتر قبائل کے بہادر جوان بھی مقابلہ کیلئے نکل کھڑے ہوئے ۔ کڑک محمدی کے قریب کھنڈھ کے مقام پر دونوں فریقین کا آمنا سامنا ہو گیا ۔ بڑی زبردست لڑائی ہوئی اس لڑائی میں دونوں فریقین کے کافی جوان قتل ہوئے ۔ نور سپراء (جو سب سے آگے لڑ رہا تھا) کی گھوڑی ایک طرف نکلی تو پختہ ولد ہماؤں ہرل نے للکارا اور سانگ نور سپراء کے سینہ میں پیوست کر دی۔ پیچھے سے کالے خان موہل نے تلوار کا وار کر کے نور سپراء کو قتل کر دیا۔ اس کا ساتھی منہ کو ڈھن بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کا بھاگنا ہی تھا کہ سارنگ خان بھروانہ کی ساری فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ نور سپراء پہلے میں لڑائیاں لڑ چکا تھا اور اس اکیسویں لڑائی میں قتل ہو گیا۔
جب مانی ولد امیر کا ٹھیہ ( جونور سپراء کا جگری دوست تھا ) کو علم ہوا کہ نور قتل ہو گیا ہے تو اس نے اس کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے چڑھائی کی ۔ ابھی راستہ میں ہی تھا کہ موضع جهانب شریف کے قریب دولت ہرل اور الیاس ہرل ایک درخت کے نیچے سوئے ہوئے تھے تو اپنی کا ٹھیہ نے وہیں ان دونوں کو قتل کر دیا اور واپس چلا گیا۔ جب ہرلوں اور گلوتروں کو علم ہوا تو انہوں نے نے بھی اپنی کا ٹھیہ سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ آٹھ دن کے بعدمل ولد مبارک گلوتر ، نورنگ ولد مصور گلوتر، با بلک ولد دینه گلوتر ، دلو ولد کمال گلوتر ، اور صالت ولد صاحب گلوتر ، ان پانچ بہادر جوانوں نے دولت ہرل اور الیاس ہرل کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے مانی کا ٹھیہ پر حملہ کر دیا ۔ پانی کا ٹھیہ اور ان پانچ بہادر جوانوں میں زبر دست لڑائی ہوئی ۔ با ہلک گلوتر نے پہنی پر وار کیا تو وہ گھوڑی سے گر پڑا اور اوپر سے نورنگ گلوتر نے تلوار سے وار کیا جس سے مانی کا ٹھیہ قتل ہو گیا۔ ان پانچ بہادر جوانوں نے پانی کا ٹھیہ کی مشہور کیئیر “ نامی گھوڑی جس پر وہ سوار تھا بمعہ مال مویشی لے کر واپس آگئے ۔ یوں انہوں نے دولت برل اور الیاس برل کے قتل کا بدلہ بھی لے لیا اور مال مویشی بھی لے آئے ۔
حضرت شاہ شہابل اور نورنگ ساہی :
حضرت شاہ شہابل رجوعہ کے حضرت شاہ دولت بخاری کی اولاد میں سے تھے اور عالی ہمت و بہادر تھے۔ ان کی بہادری و ہمت کا ہر جگہ چر چا تھا۔ حضرت شاہ شہاہل ایسے بہادر انسان تھے کہ کوئی ان کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہ ہوتا۔ ان ہی دنوں ساندل بار میں مراد ساہی کے بیٹے نور رنگ ساہی کی بہادری کی بھی داستانیں گونج رہی تھیں۔ کیونکہ نور جنگ ساہی نے کھیوہ میں صاحب خان سیال کو قتل کر کے پہلا کارنامہ کیا ہوا تھا۔ جب نورنگ ساہی کی بہادری کی خبریں رجوعہ میں حضرت شاہ شہابل تک پہنچیں تو حضرت شاہ شہابل کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا کہ میں ساندل بار جا کر نورنگ ساہی سے مقابلہ کروں ۔ لہذا انہوں نے نورنگ ساہی کو پیغام بھیجا کہ اپنی تیاری کر لو میں تمہارے مقابلہ کیلئے آرہا ہوں۔ حضرت شاہ شہابل نے ہرل ، گلوتر اور ولہ رائے قبائل کے بہادر جوانوں کو اکٹھا کیا۔ سانگوں، نیزوں، تلواروں اور برچھیوں سے مسلح گھوڑیوں پر سوار فوجی دستہ 1761ء کو حضرت شاہ شہابل کی زیر قیادت ساندل بار کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر نورنگ ساہی نے بھی مقابلہ کی تیاری شروع کر دی۔ فتح آباد کے قریب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہو گیا۔ زبردست لڑائی ہوئی دونوں اطراف سے کافی جوان مارے گئے۔ بالآخر حضرت شاہ شہابل نے اپنی فوج کو واپس ہونے کا حکم دیا ۔ جس پر حضرت شاہ شہابل کی فوج واپس آگئی ۔ چند ہی دن بعد نورنگ ساہی فوج لے کر رجوعہ پر حملہ کیلئے نکلا۔ ادھر شاہ شہابل کو بھی علم ہو گیا تو وہ بھی مقابلہ کیلئے تیار ہو گیا۔ نورنگ ساہی اور حضرت شاہ شہابل کی فوجوں کے درمیان موجودہ جھوک موڑ کے مقام پر زبردست مقابلہ ہوا۔ دونوں اطراف سے کافی جوان قتل ہوئے ۔ آخر نورنگ ساہی اپنی فوج لے کر واپس چلا گیا۔ چند سالوں تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ کبھی حضرت شاہ شہابل نورنگ سازی کے علاقہ پر حملہ کر دیتے اور کبھی نورنگ ساہی رجوعہ پر حملہ کر دیتا ۔ ابھی لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ نو رنگ ساہی کی بیٹی جوان ہو گئی ۔ نورنگ ساہی سوچنے لگا کہ اس بیٹی کا رشتہ میں کس آدمی کو دوں ۔ اگر کسی کا خیال آتا تو پھر سوچتا کہ وہ میرے برابر کانہ ہے۔ کچھ عرصہ تک سوچ و بچار کرنے کے بعد نوکر کو حکم دیا کہ میرے گھوڑے پر زین ، کاٹھی ڈالو، نوکر نے بمطابق حکم گھوڑے پر زین کاٹھی ڈال کر پیش کیا۔ دو تین آدمیوں کو ساتھ لے کر نورنگ ساہی نے رجوعہ کا رخ کیا۔ رجوعہ سے باہر حضرت شاہ شہابل نے ڈیرہ لگایا ہوا تھا۔ ہرل ، گھور اور ولہ رائے قبائل کے بہادر جوان اردگرد بیٹھے تھے۔ کہ ادھر نور تنگ ساہی بھی قریب آ گیا ۔ جو نہی سب کی نظریں نورنگ ساہی پر پڑیں تو اٹھنے لگے کہ حضرت شاہ شمایل” نے بڑی سختی سے منع فرمایا کہ کوئی شخص نور جنگ ساہی کی طرف بڑھنے کی کوشش نہ کرے۔ بلکہ آرام سے بیٹھے رہو مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ نورنگ ساہی آج لڑنے نہیں کسی کام سے آیا ہے۔ لہذا تمام کے تمام اسی جگہ بیٹھ گئے۔ نورنگ ساہی نے کچھ فاصلہ پر گھوڑا روک لیا اور حضرت شاہ شہاہل کو سلام پکارا۔ حضرت شاہ شمائل نے جواب دیا اور ساتھ ہی اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر پوچھا! نورنگ ساہی آج کیا معاملہ ہے؟ نورنگ ساہی نے جواب دیا کہ آج آپ سے ایک مشورہ لینے آیا ہوں۔ حضرت شاہ شہابل نے فرمایا کہ بتاؤ کیا مسئلہ
ہے۔ تو نو رنگ ساہی نے کہا کہ میرے گھر کے احاطہ میں بیری پک کر تیار ہو گئی ہے۔ آپ بتائیں محافظ کیسے بٹھاؤں؟۔ حضرت شاہ شہابل نے جواب دیا کہ جو تمہارا چھتر برداشت کرے اسے محافظ بٹھا دو۔ نورنگ ساہی وہیں سے واپس چلا گیا اور اپنے اکلوتے بھولے بھالے سے بھتیجے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا۔ شادی کے دن مقرر ہو گئے ۔ جب حضرت شاہ شہابل کو علم ہوا کہ فلاں تاریخ کو نور جگ ساہی کی بیٹی کی شادی ہے تو آپ نے بہت سارا چیز کا سامان اور گوشت کیلئے جانور اور نورنگ ساہی کی بیٹی کیلئے اچھی نسل کی بھینسیں بھیجیں۔ مگر حضرت شاہ شہابل اور نورنگ ساہی کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ بدستور رہا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد نو رنگ ساہی کو پاگل کتے نے کاٹ لیا۔ جس سے وہ پاگل ہو گیا۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر رسوں کے ذریعے درخت سے جکڑ دیا جب اسے قدرے ہوش آتا تو اس کے منہ سے شاہ شہابل کا نام نکلتا ۔ آخر اس کی بیٹی نے حضرت شاہ شہابل کی طرف پیغام بھیجا کہ نورنگ ساہی پاگل ہو گیا ہے فوراً پہنچیں ۔ پیغام ملتے ہی حضرت شاہ شہابل گھوڑے پر سوار ہو کر ساندل بار کی طرف روانہ ہو گئے ۔ نزدیک پہنچ کر دیکھا کہ نورنگ ساہی درخت سے جکڑا ہوا ہے۔ کوئی شخص نزدیک نہیں آرہا اور اس کا بھتیجا اس کا منہ صاف کر رہا ہے ۔ چند ہی لمحات نورنگ ساہی کی طرف دیکھنے کے بعد حضرت شاہ شہابل نے فرمایا کہ اس کے رے کھول دو ۔ جو نہی رسے کھولے تو وہ شاہ شہابل کی طرف لپکا تو انہوں نے اس کے منہ میں تھوک دیا اور بڑے جذبہ کے ساتھ کہا کہ رک جاؤ تو نورنگ ساہی وہیں رک گیا ۔ حضرت شاہ شہابل نے اسے بانہوں میں لے کر سینے سے لگا لیا۔ کچھ ہی دیر بعد نورنگ سیاری حوصلہ میں آگیا ۔ جونہی حوصلہ میں آیا تو حضرت شاہ شہابل گھوڑے پر سوار ہو گیا اور نورنگ ساہی سے کہنے لگا کہ میں اور تم جوں کے توں۔ جس پر نو رنگ ساہی نے عرض کیا کہ
آپ مجھے سے بہادر ہیں میں ساری زندگی آپ سے نہیں لڑوں گا۔ لہذا حضرت شاہ شہابل واپس رجوعہ پہنچ گئے ۔ ٹھیک ہو کر نو رنگ ساہی نے رجوعہ میں آکر حضرت شاہ شہابل. سے معافی چاہی اور ساتھ ہی کہا کہ ساندل بار کا تمام علاقہ تمہارا ہے۔ جب چاہو، جہاں چاہو پھرتے رہو۔ کوئی سر نہ اٹھائے گا۔ تم جیت گئے میں ہار گیا۔ یوں اس لڑائی کا انتقام ہوا۔
رائے احمد خان کھرل شہید :
رائے احمد خان کھرل دریائے راوی کے کنارے آباد ایک قدیم بستی ” جھامرہ” میں رائے نتھو خان کھرل کے ہاں تقریباً 1796ء میں پیدا ہوئے۔ جوانی کو پہنچے تو ان میں گھوڑ سواری کا شوق بھی جوان ہوا۔ انہوں نے مورنی نسل کی گھوڑی رکھ لی۔ جس پر سوار ہو کر آس پاس کے علاقوں میں نکلتے ۔ دبدبہ والے بارعب انسان تھے۔ حاکم وقت ہوتا یا کوئی سردار سب ان کے قدر دان تھے۔
1834ء میں انھی پنجاب پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی کہ رنجیت سنگھ نے پورے پنجاب میں گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ مگر باوجود اس کے موضع کانڈیوال (چنیوٹ) کے نسوآنہ خاندان نے شادی پر گائیں ذبح کیں۔ جب یہ خبر رنجیت سنگھ تک پہنچی تو اس نے کانڈیوال کے تمام نسو آنوں کو غیر معینہ مدت کیلئے جیل میں بند کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ جس کے تحت رنجیت سنگھ کی فوج نے نسوانہ خاندان کے تمام بالغ افراد کو گرفتار کر کے قید کر دیا۔ اس وجہ سے نسو آنہ خاندان کے عورتیں اور بچے از حد پریشان ہوئے ۔ انہوں نے سوچا کہ اس وقت ہمارے افراد کو اللہ تعالی اسکے فضل و کرم سے رائے احمد خان کھرل ہی آزاد کروا سکتا ہے نہ کہ کوئی اور ۔ وہ عورتیں اپنے بچوں کو ساتھ لئے جھامرہ کی طرف روانہ ہو گئیں۔ جھامرہ پہنچ کر انہوں نے رائے احمد خان کھرل کو بتایا کہ رنجیت سنگھ نے ہمارے افراد کو گائے ذبح کرنے کے جرم میں قید کر دیا ہے۔ انہیں آزاد کروادیں۔ لہذا رائے احمد خان کھرل نے رنجیت سنگھ کے نام خط لکھا کہ !
بغیر کسی اعتراض کے نسوآنہ خاندان کے افراد کو کا نڈیوال پہنچا دیا جائے“۔ جو نہی یہ خط رنجیت سنگھ کو موصول ہوا اس نے انہیں فورا آزاد کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ جس پر انہیں آزاد کر کے کانڈیوال پہنچا دیا گیا۔
1839ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریز مکمل طور پر پنجاب پر قابض ہو گئے ۔ انگریز کی فولادی گاڑیاں پنجاب میں گھومنے لگیں ۔ ادھر رائے احمد خان کھرل بھی دریائے راوی و چناب کے دوآبہ میں یوں دندناتا پھرتا جیسے جنگل میں شیر ۔ انگریز نے مختلف جگہوں پر فوجی چھاؤنیاں بنا کر مسلمان اور غیر مسلم سیاہی بھرتی کئے۔
10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی رجمنٹ کے 87 مسلمان سپاہیوں نے چربی والے کارتوس چلانے سے اس بنا پر انکار کر دیا کہ ! ان پر سور کی چربی جسے دانتوں سے اکھاڑ کر چلانے پڑتے ہیں۔ لہذا ہم یہ ہر گز نہیں چلائیں گے۔ جس پر انگریز نے ان سے ہتھیار واپس لے کر انہیں قید کر دیا ۔ جب ان قیدیوں کی خبریں دوسری چھاؤنیوں تک پہنچیں تو ہندوستان کی تمام چھاؤنیوں کے سپاہی انگریزوں کے خلاف بھڑک اٹھے ۔ اور بغاوت کا پرچم لہراتے ہوئے دہلی میں بہادر شاہ ظفر کے پاس پہنچ گئے۔ اس سے پہلے انگریزوں نے موضوع پہیلی لکھو کے سرداروں وزمینداروں کو لگان و مالیہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے گوگیرہ جیل میں قید کر رکھا تھا۔ انگریز ابھی دہلی پر حملے کی تیاریاں کر ہی رہے تھے کہ رائے احمد خان کھرل کے ایک وفادار ساتھی چاو اوٹو نے رات کی تاریکی میں جیل کو نقب لگانا شروع کر دی۔ گوگیرہ جیل کا سپرنٹنڈنٹ عنایت اللہ خان مسلمان تھا۔ اس واقعہ کا اسے بر وقت علم ہو گیا۔ مگر اس نے کوئی حرکت نہ کی۔ ابھی چند قیدی نکل چکے تھے کہ جیل کے ایک سپاہی کو علم ہو گیا۔ اس کے واویلا کرنے پر باقی دلاور خان فتیانہ اور اس کے کچھ ساتھی قید میں ہی رہے۔ جب اس واقعہ کی خبر ڈپٹی کمشنر جنگ ایچ ایس باز تک پہنچی تو اس نے جیل سپرنٹنڈنٹ عنایت اللہ خان کو فورا معطل کر کے امیر چند سکھ کو جیل سپرنٹنڈنٹ اور ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر گوگیرہ مسٹر بر کلے کو جیل انچارج متعین کر دیا۔ امیر چند سکھ نے قیدیوں پر سختی شروع کر دی۔ اس کی سختیوں کو دیکھ کر دوبارہ 26 جولائی 1857ء کو چاوا وٹو اور اس کے ساتھی رات کو جیل کے دروازوں تک پہنچ گئے ۔ تالے توڑ کر دلاور خان فتیانہ اور اس کے ساتھیوں کو نکال ہی رہے تھے کہ جیل کے پہر ودار جاگ اٹھے۔ انہوں نے مزاحمت کی ، دلاور خان فتیانہ، چاو اوٹو اور ان کے ساتھی پہلے ہی ایسی صورت حال سے مقابلہ کیلئے تیار تھے ۔ جس کے نتیجے میں کچھ سپاہی زخمی ہوئے اور کچھ مارے گئے ۔ اس وقوعہ میں انگریز بہت ہی پریشان ہو گئے۔ گوگیرہ کے کچھ لوگ رائے احمد خان کھرل کی بہادری و شہرت پر حسد کرتے ۔ وہ چاہتے کہ کسی نہ کسی طریقہ انہیں پھنسایا جائے۔ لہذا انہیں موقع مل گیا ۔ انہوں نے جیل کے انچارج مسٹر بر کلے کو بتایا کہ یہ سب کچھ رائے احمد خان کھرل کے ایماء پر ہورہا ہے اوروہ تمہارا کبھی بھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ ان کے رشتہ داروں کے پاس اچھی نسل کے گھوڑے ہیں اور ان کی ذاتی اعلیٰ نسل کی مورنی گھوڑی ہے۔ تم اس سے طلب کر واگر وہ دے دے تو ٹھیک ورنہ خود سمجھ لینا کہ وہ تمہارا وفادار نہیں ہے۔ انہیں یقین تھا کہ! وہ اپنی گھوڑی ہر گز نہیں دے گا۔ مسٹر بر کلے نے رائے احمد خان کھرل کو بنگلہ گوگیرہ بلا بھیجا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مسٹر بر کلے نے کہا کہ اپنی ذاتی گھوڑی و دیگر رشتہ داروں کے اعلیٰ نسل کے گھوڑے مجھے دیئے جائیں۔ جس پر انہوں نے تین یوم کا دعدولیا کہ میں دوبارہ آکر آپ کو بتاؤں گا۔ ٹھیک تین یوم بعد رائے احمد خان کھرل، رائے سارنگ ولدحماند بیگیر کا کھرل اور نادر شاہ قریشی آف پنڈی شیخ موسیٰ مینوں نے بنگلہ گوگیرہ پہنچ کر مسٹر بر کلے کو صاف انکار کر دیا کہ ہم کسی دوسری قوم کو اپنے ذاتی گھوڑے اور گھوڑیاں نہیں دے سکتے اور نہ ہی ہماری غیرت گوارہ کرتی ہے۔ رائے احمد خان کھرل کے انکار پر مسٹر بر کلے لال پیلا ہو گیا۔اس نے فوراً کہا ” مجھے بخوبی علم ہے کہ ہماری جیل پہ حملے کروانے والے بھی تم ہو، میں تمہیں قتل کردوں گا، تمہاری زمینیں ضبط کرلوں گا، مفرور ملزمان تمہی سے لوں گا اور تمہارا جھامرہ بھی جلا دوں گا“۔
رائے احمد خان کھرل ساتھیوں سمیت اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے مسٹر پر کلے سے کہا اگر میں زندہ رہا تو تجھے جھامرہ کی زمین پہ قدم بھی نہ رکھنے دوں گا۔ ان کی آواز میں شیر جیسی گرج تھی۔ رائے احمد خان کھرل نے جھامرہ پہنچ کر 16 ستمبر 1857ء کو راوی و چناب کے دو آبہ میں آباد وٹو ، کا ٹھیے، کھرل، ترہانے ، دنی وال، ہرل گلوتر بکھیلے لنگڑیال ، فتیانے ، جنجوعے، نول، لک اور جوئیہ قبائل کے سرداروں کو بلا بھیجا۔ ان سرداروں نے انگریزوں کے خلاف رائے احمد خان کھرل کا بھر پور ساتھ دینے کا حلف اٹھایا ۔ کچھ لوگوں نے حلف سے منحرف ہو کر انگریز سے مخبریاں شروع کر دیں۔ جن میں رائے سرفراز خان کھرل نواب آف کمالیہ، بہاول خان لنگڑیال اور جیوے خان ارا میں سرفہرست تھے۔ یہ تینوں مخبر انگریزوں کو رائے احمد خان کھرل کے ہر منصوبے سے آگاہ کرتے ۔ ادھر انگریزی فوج نے مسٹر بر کلے کی قیادت میں جھامرو پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جس کا رائے احمد خان کھرل کو بھی بروقت علم ہو گیا۔ انہوں نے متذکرہ بالا قوموں کے بہادر جوانوں کو بلا بھیجا۔ سوٹے ، برچھیوں، نیزوں اور تلواروں سے مصلح جوان اپنے محبوب لیڈر کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ 20 ستمبر 1857ء کی شام اس جہادی قافلہ نے رائے احمد خان کھرل کی زیر قیادت گوگیرہ سے 6 کلو میٹر دور جانب مشرق ” نورے کیا نوالی ڈل” کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔
چلا ہوں کفر سے لڑنے جلا کر کشتیاں ساری
پھر لوٹ کر میں نہ آؤں گا ان راہوں میں
رات گزرگئی ۔ 21 ستمبر 1857ء کی صبح تمام مجاہدین نے اپنے قائد کی امامت
میں نماز فجر ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد رائے احمد خان کھرل نے مجاہدین سے خطاب فرمایا۔
مانگنے سے نہیں ملتی آزادیاں
خوں سے لکھی تحریر د ہرایا کرو
”اے اس عظیم دھرتی کے غیور و بہادر جوانو ! اس پاک مٹی سے جنم لینے والے غیرت مند فرزندوں ، اخوت و بھائی چارے کے علمبردارو، اس دھرتی کی عظمت کی خاطر ڈٹ جانے والے مجاہدو، شہادت کے دیوانو! آج تم ایک نمک حرام قوت (انگریز) سے ٹکرانے والے ہو۔ شاید بر کلے کو معلوم نہیں اس نے کس دھرتی کے بیٹوں کو للکارا ہے۔ اے اس دھرتی کے جانباز فرند و اوشن کا یوں ڈٹ کر مقابلہ کرنا کہ وہ سرزمین گوگیرہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔ میرے وفادار ساتھیوا ابوالفتح ٹیپو سلطان کے معقولے (شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے ) کو دہراتے ہوئے برکلے کی سپاہ سے ٹکرا جانا۔ اس پاک سرزمین کو دشمن کے ناپاک قدموں سے بچالو ۔ اے جوانمردو! انگریز سرزمین گوگیرہ پر قبضہ جمانے اور اس دھرتی کے فرزندوں کو غلام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے بھورے، پہلے، کالے اور سرخ منافق سبھی مل کر اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ بر کلے کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ اس دھرتی کے سینے پر پلنے والے دلاور فرزندکٹ تو سکتے ہیں مگر جھک نہیں سکتے۔ اے اس دھرتی کے طالع آزما ہم جو فرزند ! آج اخوت و شجاعت کی مثال قائم کرتے ہوئے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ ۔ آج بر کلے کی اس بزدلانہ جسارت کا ایسا منہ توڑ جواب دو کہ آئندہ نسلوں تک یادر کھے۔ اللہ تمہارا نگہبان۔ اٹھائے۔
اس کے بعد رائے احمد خان کھرل نے رب کائنات ! سے دُعا کیلئے ہاتھ
”اے رب کائنات ! تجھے تیری اس رحمت کا واسطہ جو ہر چیز سے بڑھی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تو ہر چیز پہ غالب ہے، اور تیری اس عزت کا واسطہ جس کے سامنے کوئی چیز نہیں مظہر تی اور تیری اس عظمت کا واسطہ جس سے ہر چیز پر نظر آتی ہے، اور تیری اس سلطنت کا واسطہ جو ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور تیرے اس علم کا واسطہ جو ہر چیز کو احاطہ کئے ہوئے ہے، تیری ذات کے اس نور کا واسطہ جس سے ہر چیز میں چمک دمک ہے ، اور تیری اس ذات کا واسطہ، جو ہر شے کے فنا ہو جانے کے بعد باقی رہے گی ۔اے نور ، اے سب سے زیادہ پاک و پاکیزہ ! ہمارے گناہوں کی بخشش فرما، ان تمام گناہوں کی بخشش فرما جونزول بار کا باعث بنتے ہیں اور جو دعاؤں کو درجہ مقبولیت تک پہنچنے سے روکتے ہیں اور جو امید کو پورا نہیں ہونے دیتے۔ اے اللہ ! ہماری خطاؤں سے چشم پوشی فرما، ہمیں اپنے ان بندوں میں قرار دے جو تیرا قرب حاصل کرنے میں بڑی سے بڑی منزلت رکھتے ہوں ، اے ہمارے خالق و مالک ! آج تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں والے انگریز سے مقابلہ ہے ہمیں ثابت قدم رکھے۔ اے اللہ ! دشمن کے غلبہ اور اس کی قید سے ہماری حفاظت فرما۔ اے خالق کا ئنات ! جیسے تو نے جابر فرعون اور اس کے لشکر کو ہلاک کرنے کیلئے پانی سے کام لیتے ہوئے ظالموں کو غرق کیا ، تو نے نمرود کا غرور خال میں ملانے کیلئے کمر در مخلوق مچھروں سے کام لیا۔ تو نے ابو جہل کی اکڑی گردن تن سے جدا کرنے کیلئے دو ننھے ننھے بچوں کو توفیق عطا فرمائی، تو نے لشکر ابائیل سے ابرا کے ہاتھیوں کے لشکر گروا کر اپنے کعبہ کی حفاظت فرمائی۔ اسی طرح ہمیں بھی آج کے فرعون، ہامان ، شداد، نمرود اور ابو جہل جیسے لوگوں پر غالب فرما۔ اے اللہ ! ہم تیرے کمزور بندے ہیں تو طاقت والا ہے، ہمیں فتح نصیب فرما، اے اللہ ! اگر زندگی دے تو ذوالنورین کی طرح ، اگر موت دے تو حسین کی طرح ۔ اے ہمارے پروردگار ! تیری بارگاہ میں ہاتھ پھیلا دیئے پس اپنی عزت کے صدقہ ہماری یہ دُعا قبول فرما اور ہمیں اپنے منتہائے آرزو تک پہنچادے اور ہمیں اپنے فضل و کرم سے نا امید نہ کر ۔ آمین
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
صبح و بجے کے قریب برکلے کی زیر قیادت انگریزی فوج بھی پہنچ گئی۔ دونوں فوجوں میں آمنا سامنا ہو گیا۔ انگریز فوج کے پاس توڑے دار بندوقیں تھیں ۔ رائے احمد خان کھرل کی فوج کے پاس صرف تلواریں، سوٹے، برچھیاں و نیزے تھے۔ رائے احمد خان کھرل نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ ٹولیوں کی شکل میں انگریزی فوج کا مقابلہ
کریں۔
آؤ دوستو موت سے کریں آغا ز سفر
زندگی ہوگی تو مر جانے کا ڈر سا ہوگا
لہذا مجاہد جوان اپنے قائد کے حکم کے مطابق چار چار، پانچ پانچ اکٹھے مل کر ڈھول کی تھاپ پر انوکھے انداز میں برکلے کی فوج پر حملہ کرتے ۔ جو نہی ڈھول کی تھاپ شروع ہوتی انگریزی فوج چوکنا ہو جاتی کہ مجاہدین حملہ کیلئے آرہے ہیں۔ انگریزی فوج توڑے دار بندوقوں نے فائرنگ شروع کر دیتی جس سے کئی مجاہد شہید ہو جاتے۔ کچھ مجاہدین بچ نکلتے مگر وہ انگریزی فوج کے بھی کافی سپاہی جہنم رسید کر جاتے۔
سورج ڈھلنے لگا تو جنجوعہ قوم کا ایک فرد جس کے پانچ بیٹے (کلو ، کرملی، حسنا، دانا اور ایک نامعلوم ) تھے ۔ اس نے انہیں للکارا کہ آج اس دھرتی کی عظمت کی خاطر اپنی جائیں لوٹا دو۔ باپ کی للکار پر پانچوں بھائی میدان میں اتر آئے۔
نکلے میں گھر سے ارادہ ہے شہادت پانے کا
گھر کو نہ لوٹ کر آئیں گے نہ ارادہ ہے آنے کا
یہ پر جوش جو ان میدان میں اترتے ہی بر کلے کی فوج پہ جھپٹ پڑے۔
ر جھپٹ کر پلٹنا، پلٹ کا کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
انہوں نے انگریز کے فوجیوں کو یوں کا ٹا کہ خون کی ندیاں بہادیں۔ بر کلے کے کافی سپاہیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد پانچوں جوان شہید ہو گئے۔
گرا ہے جسن خاک پہ قیامتیں اٹھائے گا
یہ تازہ سرخ سرخ گرم نوجواں لہو
شام چار بجے تک جنگ جاری رہی ۔ گو انگریزی سپاہ بھی جدید ہتھیاروں سے لیس تھی مگر مجاہدین کے ساتھ بھی خدائی طاقت تھی۔ اس جنگ میں برکلے کی فوج کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ شام پانچ بجے رائے احمد خان کھرل نے ساتھیوں سے تھوڑا علیحدہ ہو کر نماز عصر پڑھنا شروع کر دی۔
جو راہ جہاد کا شوق رکھتے ہیں
وہ لوگ بھلا موت سے کب ڈرتے ہیں
درکار جنہیں مسجدۂ حق ہوتا ہے
اپنے خون سے خود وضو کرتے ہیں
رائے احمد خان کھرل کی دُعا رنگ لائی۔ ادھر بر کلے کے ایک سپاہی دھارے سنگھ کے بیٹے امرت سنگھ نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اس نے فورا بر کلے کو بتایا کہ وہ دیکھو رائے احمد خان کھرل نماز پڑھ رہا ہے۔ اگر مجھے حکم دیں تو میں اسے گولی مار دیتا ہوں۔ بر کلے نے اسے حکم دے دیا۔ برطابق محکم امرت سنگھ زمین پر رینگتا ہوا رائے احمد خان کھرل کے قریب پہنچ گیا۔ جونہی رائے احمد خان کھرل نے سرسجدہ میں رکھا ، اس نے بندوق سے گولی چلا دی۔ جو رائے احمد خان کھرل کے سر میں لگی جس سے وہ شہید ہو گیا۔ برکلے نے رائے احمد خان کھرل کا سرکاٹ کر گوگیرہ میں اپنے بنگلہ کی دیوار پر لٹکا دیا۔
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کئی ہے برسرمیدان مگر جھکی تو نہیں
رائے احمد خان کی نعش و دیگر شہید ان کی نعشیں ان کے ساتھی جھامرہ لے گئے ۔ تین چار روز بعد رائے احمد خان کے وفادار ساتھی مہر مراد فتیانہ اور میراگر و ترہانہ راتوں رات گوگیرہ پہنچے اور اپنے سر تھیلی پر رکھ کر بر کلے کے بنگلہ کی دیوار پر چڑھ کر رائے احمد خان کھرل کا سر جھامرہ لائے اور ان کے جسد خاکی کے ساتھ دفن کر دیا۔ جب صبح بر کلے نے دیکھا کہ رائے احمد خان کا سر غائب ہے تو اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ مجاہدین کے علاقوں پر چڑھائی کریں ۔ ان کے ٹھکانوں تک پہنچ کر ٹھکانے جلا کر انہیں قید کر لیا جائے۔ 12اکتوبر 1857ء کو برکلے نے پانچ صد سپاہیوں سمیت جھامرہ پر چڑھائی کر دی۔ لوگوں کی عدم موجودگی میں اس نے تھامرہ کے مکان جلا دیئے۔ وہاں سے تھانہ با بلک کے قریب کھوہ لکڑ والہ میں داخل ہوا اور نادر شاہ قریشی کے رشتہ داروں کے مکان جلا دیے ۔ پنڈی شیخ موسیٰ پہنچ کر اس نے بزرگوں کی قبروں کو مسمار کیا اور حضرت شیخ موسیٰ کے روز وہ مبارک کے روضہ مبارک کو بھی آگ لگا دی ۔ وہاں سے ہوتے ہوئے کھائی نادر شاہ پہنچے تو انہوں نے سفید جھنڈے لہرا کر اپنا بچاؤ کیا۔ یہاں سے گزرتے ہوئے موضع احمد شاہ کھگہ پہنچے جہاں انہوں نے میاں مستان علی کی جھونپڑی کو آگ لگا دی جس پر میاں مستان علی نے انہیں بہت بد دعا ئیں دیں۔ وہاں سے ہوتا ہوا انگریزی الشکر کوڑے شاہ زیریں پہنچ کر خیمہ زن ہوا اور جلی پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جلی کے ترہانے اور کتیا نے پہلے ہی چوکس ہو چکے تھے ۔ انہوں نے بھی اپنے بہادر ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور مکمل تیاری کے ساتھ میاں بڑھن شاہ کے دربار کے قریب ڈیرے ڈال لئے ۔ دریائی پانی مکمل اتر چکا تھا۔ دریاء کے کنارے دلدلی زمین تھی ۔ مجاہدین نے بہاول فتیانہ کی زیرنگرانی چند آدمیوں کی ٹیم بھیجی جنہوں نے دلدلی زمین پر خشک مٹی وریت بکھیر دی تا کہ جگہ خشک معلوم ہو ۔ ملک با ہلک وٹو ، ملک چاو وٹو ، ملک سردار خان وٹو ، موکھا ؤنی وال محمد ولد جلال کا ٹھیا، لال خان کا ٹھیا، ولی داد مردانه، مراد فتیانہ اور اس کا بھائی بہاول فتیانہ، دلیل فتیانہ، مہر جلال الدین ولد صلابت ترہانہ ، مہر سعی ولد محرم ترہانہ ، مہر اگرہ ولد چوغتہ ترہانہ اور اس کے چچا زاد مہر بلند ولد بیگ ترہانہ اور مہر سجاول ولد بیگ ترہانہ اپنے ساتھیوں سمیت دریا کی منڈ سے نیچے چھپ کر بیٹھ گئے۔ ادھر بر نکلے مع لشکر پہنچ گیا۔ جو نہی لشکر قریب آیا مجاہدین اللہ اکبر ! کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ان پر برس پڑے۔
ہم تخت یا تختہ میں سے ایک چنا کرتے ہیں
ہم عجب شان سے دنیا میں جیا کرتے ہیں
اس وقت سے ملتا ہے ہمیں شہادت کا سبق
جب ہم اپنی ماؤں کی گود میں دودھ پیا کرتے ہیں
تلواریں، نیزے و ہر چھیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ انگریزی سپاہ کی توڑے دار بندوقیں خالی ہوگئیں ۔ وہ بدحواسی کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے ۔انہوں نے سمجھا کہ جگہ خشک ہے۔ جو نہی وہاں پہنچے نیچے دلدل تھی ۔ تمام انگریزی فوج دلدل میں پھنس گئی ان کے گھوڑے نہ نکل سکے۔ مجاہدین نے وہیں ساری فوج کو کاٹ کر جہنم رسید کر دیا۔ ایک سکھ نے خدا کا واسطہ دیا جسے میراگر و ترہانہ نے بچا لیا۔ بر سکلے کے پاس اعلیٰ نسل کا غیر ملکی گھوڑا تھا۔ وہ گھوڑے کولکارتا رہا جس وجہ سے وہ پھنستا پھنسا تا ہوا دلدل سے نکل رہا تھا کہ مجاہدین نے مراد فتیانہ کوللکارا کہ ہر کلے نکل رہا ہے، فورا اس پہ پہنچو۔ مراد فتیانہ نے پہنچ کر بر کلے کو نیزه مارا جو اس کے جسم سے آر پار ہو گیا۔ برکلے زمین پر گر گیا۔ اس نے تلوار مار کر نیزے کا دستہ کاٹ دیا جو مراد فتیانہ کے ہاتھ میں رہ گیا۔ جیہی کوئی مجاہد آگے بڑھ کر اس پر سوٹے سے وار کرتا تو وہ بڑی تیزی سے تلوار مار کا اس کا سوٹا کاٹ دیتا۔ ایک بہادر جوان سوجا بھدھرو، جو کہ ایک چرواہا تھا اسے اپنی تیز رفتاری پہ بڑا مان تھا۔ اس نے اپنی تیز رفتاری سے برکلے کے سر میں سوئے مار مار کر کھوپڑی کا کچومر نکال دیا۔ مہر اگر ہ تر ہانہ نے تلوار مار کر اس کا سرتن سے جدا کر کے نیزے پہ لٹکا لیا۔ مجاہدین نے برکلے کی نعش سمیت تمام انگریزی فوج کی نعشیں دلدل میں دھنسا دیں۔ برکلے کا خون آلود گھوڑا دوڑتا ہوا بنگلہ گوگیرہ پہنچ گیا۔ گھوڑے کو دیکھ کر بر کلے کے اہل خانہ وانگریز سرکار نے سر پیٹ دیا۔ وہ جان گئے کہ بر کلے معہ فوج
منتقل ہو گیا ہے۔ مجاہدین نے بر کلے کا سر موضع جاتی میں اپنی رہائش گاہ پر انکا دیا۔ اس لڑائی میں مجاہدین کی طرف سے صرف تین افراد مہر جلال الدین ولد صلابت تربانہ (جن کی اولا د این محصہ ترہانہ موضع جلی تھانہ گڑھ تحصیل تاندلہ میں آباد ہے جن میں مہر مہمند خان ترہانہ، مہر ر جب خان ترہانہ اور ان کے صاحبزادے حاجی مہر غلام مرتضی ترہانہ اور ان کے صاحبزادے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مہر صلابت خان ترہانہ پیشل جج دہشت گردی بہاولنگر ، بہاولپور اور رحیم یار خان ہیں ، میر سعی ولد محرم ترہانہ اور ایک ان کا بھائی شہید ہوئے ۔
انگریز سرکار نے پورے ہندوستان سے تجربہ کار جنگجو ہلا کر تو پوں اور جدید اسلحہ سے موضع جاتی یہ حملہ کر دیا۔ مجاہدین مختلف ٹھکانوں میں چھپ گئے ۔ لذار مسلمانوں نے مجاہدین کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرنا شروع کر دی ۔ نشاندہی کے مطابق انگریز سپاہ جدید اسلحہ سے حملہ آور ہوتے ۔ کچھ غذاروں نے مجاہدین کے خلاف بغاوت شروع کر دی جس سے تنگ آکر مجاہدین نے راہ فرار اختیار کرنے پہ مجبور ہو گئے اور اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر فرار ہو گئے۔ ان لوگوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ مہر بلند ولد بیگ ترہانہ (جن کی اولا داب موضع ہوئیاں والا داخلی گڑھ میں آباد ہے۔ جن میں مہر اللہ داد ترہانہ چیر مین انصاف کمیٹی راوی و پنچایتی ثالث جنہوں نے بارہ سال تک انگریز کے خلاف اپنا سکہ جاری رکھا۔ ان کے صاحبزادے میر احمد یار ترہانہ سابق میر ضلع کونسل فیصل آباد اور ان کے بیٹے میر فرید خان تربانہ ہیں ) گرفتار ہو گئے۔ جنہیں انگریز سرکار نے بر کلے کے قتل کا مجرم قرار دے کر بنگلہ گوگیرہ میں شارع عام درخت کے ساتھ پھانسی دے دی۔ جب باقی مجاہدین کے گرد قانون کا شکنجہ سخت ہوا تو انہوں نے بھی گرفتاریاں دینا شروع کر دیں۔ جن میں مہر مراد تیا نہ (جن کی اولا داب موضع گڑھ فتح شاہ میں آباد ہے جن میں حاجی مہر مقبول احمد فتیانہ سابق ایم پی اے، اور حاجی بشیر احمد فتیانہ ہیں ) اس کا بھائی مہر بہاول فتیانہ (جس کی اولا داب میر شنک تھانہ یوسف والا تحصیل و ضلع ساہیوال میں آباد ہے جن میں مہر مقصود احمد فتیانہ ناظم ہیں ) مہر دلیل فتیانہ ، موکھا ولد کوھڑی دینی وال ( جس کی اولا داب تھا نہ ماموں کانجن سے جنوب کی سمت بر لب نہر ” حاطہ موکھا پنی وال“ میں آباد ہے ) ، ولی داد مردانہ (جس کی اولا د اب محمد پور مردانہ ضلع ساہیوال میں آباد ہے ) ، لال خان کا ٹھیہ ، محمد ولد جلا کاٹھیا ، غلام فرید اور اس کا بھائی پٹھا نہ کاٹھیہ (جن کی اولا داب” بھنی کا شعیہ میں آباد ہے ) ، ماجھی بشیرا کھرل اور نادر شاہ قریشی ساکن پنڈی شیخ موسیٰ، نے دیگر کافی ساتھیوں کے ساتھ گرفتاری دے دی۔ انگریز سرکار نے ان قیدیوں کا چالان برائے جزیروانڈ یمان ( کالے پانی ) روانہ کر دیا۔ جب چالان ہوا تو لوگوں نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ آپ کو چھڑانے کا کوئی طریقہ یا اپیل ہو سکتی ہے۔ جس پر مہر مراد فتیانہ نے کہا! اگر پچاس روپیہ تربانوں کی مہر کا ہو تو ہم آزاد ہو سکتے ہیں۔ ان کا مقصد تھا اگر تربانوں کا پچاس آدمی ہو تو وہ ہمیں چھین سکتا ہے۔ چونکہ ترہانے اپنے شہید بھائی بلند ولد بیگ کی نعش لے کر دو روز قبل ہی جاچکے تھے وہاں ان کا کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ جس وجہ سے وہ ان کی مدد سے قاصر رہے۔ چند روز بعد بیڑیوں میں جکڑے ہوئے قیدی بھی پہنچ گئے وہاں سے انگریز سرکار نے ان قیدیوں کو کپتان مسٹر ڈیوڈ کی تحویل میں دے کر بحری جہاز میں سوار کر کے ” جزیرہ انٹر یمان ( کالے پانی کی طرف روانہ کر دیا۔ ابھی جہاز نے سمندر نے کچھ ہی سفر کیا تھا کہ تمام مجاہدین نے فرار ہونے کا ارادہ کر لیا ۔ جس پر ما تبھی بشیرا کھرل نے کہا کہ ! میں کپتان مسٹر ڈیوڈ سے شکایت کرتا ہوں کہ آپ پھر بغاوت کر رہے ہیں اور ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہو۔ مجاہدین نے اسے روکنا چاہا مگر وہ نہ رکا تو ولی داد مردانہ نے اس کا گلا دبا کر اسے بلاک کر دیا۔ تمام مجاہدین کپتان مسٹر ڈیوڈ کو قتل کرنے کیلئے اس کے کمرے کی طرف بڑھے۔ اسے اس حرکت کا پہلے علم ہو چکا تھا۔ اس نے فائرنگ شروع کر دی۔ مجاہدین اللہ اکبر ! کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بیٹریوں سمیت سمندر میں کود پڑے۔ ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے ساحل کی طرف بڑھتے رہے ۔ جب تھک گئے تو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے سہارا مل گیا۔ تازہ دم ہو کر پھر تیرنے لگے ۔ جب تھک گئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے سہارا سے مدد فرمادی۔ 48 گھنٹہ کی طویل تگ و دو کے بعد اور رب کائنات کے فضل و کرم سے ساحل پر نکل آئے۔ ان کے جسم سمندر کے کھاری پانی کی وجہ سے پھٹ چکے تھے۔ بھوک کی وجہ سے نڈھال تھے ۔ کچھ دیر ساحل پہ بیٹھنے کے بعد ایک طرف چل پڑے ۔ تھوڑا دور ہی انہیں ایک سفید داڑھی والا بوڑھا شخص ملا ۔ وہ ان کو دیکھ کر سہم گیا ۔ مجاہدین کے پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں۔ مجاہدین نے اسے اپنی مجبوری ظاہر کی اور ساتھ ہی کہا، اگر ہم یہ احسان کرنا چاہتے ہو تو ہمیں پناہ بھی دے اور کھانے کیلئے بھی کچھ دے۔ اگر ہمیں انگریز سے گرفتار کروا کر انعام و اکرام لینا چاہتے ہو تو گرفتار کروا دو ۔ اس بوڑھے شخص نے انہیں تسلی دی اور اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ انہیں اپنے پاس رکھا۔ ان کے جسم کا علاج معالجہ کیا اور کھانا وغیرہ بھی دیا۔ جب ٹھیک ہو گئے تو وہاں سے اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے۔ ادھر انگریز سرکار نے اعلان کر دیا کہ اگر کوئی شخص ان مغروروں کو پناہ دے گا تو اسے بھی عمرقید کر دیا جائے گا۔ اس لئے لوگ انہیں پناہ دینے کو تیار نہ ہوئے۔ انگریز سرکار نے مغروروں کے بیوی، بچے گرفتار کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ جس کا مغرور مجاہدین کو بھی علم ہو گیا۔ تو ان غیرت مند جوانوں نے دوبارہ گرفتاریاں دے دیں۔ جبکہ موکھا ونی وال پیش نہ ہوا اور روپوش ہو گیا۔ ان گرفتاریاں دینے والے جوانوں کو نہ جانے انگریز سرکار نے کہاں بھیج دیا جن کا آج تک کسی کو پتہ نہ چل سکا۔
نہ جانے وہ لوگ یہاں سے کدھر گئے
دیکھے ہوئے بھی جن کو زمانے گزر گئے
کچھ سالوں بعد موکھاؤنی وال ، وائسرائے ہند کے پیش ہوا اور اس سے معافی چاہی۔ اس نے معافی نامہ لکھ کر دے دیا۔ وہ معافی نامہ لیکر واپس آیا اور مسٹر جنگ کو دکھایا۔ مسٹر جنگ نے اس کے نام 35 مربع اراضی الاٹ کر دی۔ جب منگری (ساہیوال) ضلع بنا تو رائے احمد خان کھرل کا بیٹا رائے محمد خان کھرل جو پہلے والدہ کے ساتھ روپوش رہا، نے ڈپٹی کمشنر کمری (ساہیوال) سے صلح کر لی۔ انگریز نے اسے نواب کا خطاب دیا۔ جھامرہ میں کافی جائیداد اور درہٹہ کھر لاں (چنیوٹ) میں 120 مربع اراضی الاٹ کی۔ رائے احمد خان کھرل کی اولا د جھامرہ تھانہ با ہلک تحصیل تاندلیانوالہ میں آباد ہے ۔ جن میں رائے سخاوت علی خان کھرل سابق ایم پی اے ، رائے رب نواز خان کھرل موجودہ ایم پی اے ، رائے مقصود احمد خان کھرل ڈی ایس پی بھکر اور حاجی انور علی خان نواب آف جھامرہ ہیں ۔ درہٹہ کھر لان (چنیوٹ ) میں رائے غلام شبیر کھرل جنرل منیجر رائس کارپوریشن آف پاکستان ، رائے فضل عباس کھرل ، سابق چیئر مین یونین کونسل عدلانہ، اور رائے محمد خان کھرل ہیں۔ ایک مجاہد ملک با بلک وٹو ( جن کی اولا میں ملک نورمحمد وٹو (مرحوم) سابق ایم پی اے، ان کا بڑا بھائی ملک احمد یار وٹو سابق ایم پی اے اور ملک شمشیر حیدر ونو سابق تحصیلدار ہیں) نے اپنے نام پر تھا نہ ہا بلک اور بنگلہ با بلک رکھوا کر انگریزوں سے صلح کر لی۔ مہرا گرہ ترہانہ کی اولا د ڈھڈ بھو ہر داخلی موضع کھائی میں آباد ہیں ۔ جن میں مہر محمد اقبال ترہانہ چیر مین انصاف کمیٹی و پنچایتی ثالث ،مہر امیر حمزہ ترہانہ اور ان کے بھائی نیزہ بازی کے اسوار مہر واجد سجاد ترہانہ ، مہر دولت خان ترہانہ اور ان کے بیٹے مہر زمان خان ترہانہ قابل ذکر شخصیات ہیں۔
کھڑک سنگھ اور مہر جہان خان ہرل :
شروع سے ہی مسلمانوں کو سکھوں سے نفرت رہی اور ہر موقع پر سکھوں کی مخالفت کی۔ سکھوں کا دور حکومت شروع ہوا تو انہوں نے مالیہ مقرر کیا۔ کئی مسلمین غربت کے باعث مالیہ ادا نہ کر سکے تو رنجیت سنکھ کا بیٹا جرنیل کھڑک سنگھ 1846 ء میں مالیہ کی وصولی کیلئے نکلا۔ وہ چنیوٹ میں مالیہ کی رقم وصول کر رہا تھا کہ ادھر مہر جہان خان ولد عبدالستار کمال کے ہرل کو بھی علم ہو گیا ۔ کہ جرنیل کھڑک سنگھ مالیہ کی وصولی کیلئے دریائے چناب عبور کرنے والا ہے ۔ تو اس نے علاقہ کے بہادر جوانوں کو ساتھ لے کر دریائے چناب کے چنیوٹ والے پین پر ڈیرے ڈال دیئے ۔ جو نہی جرنیل کھڑک سنگھ دریا عبور کرنے کیلئے چین پر پہنچا تو مہر جہان خان ہرل نے اسے وہیں روک دیا۔ سات دن تک وہ دریا عبور نہ کر سکا۔ بالآخیر جہاں خان کے دوست چنیوٹ کے بہت بڑے سوداگر شیخ خیر دین نے دونوں میں صلح کروائی اور جہان خان سے مالیہ وصول کرنے کی اجازت لے کر دی۔ جس جگہ جہان خان اور کھڑک سنگھ میں صلح ہوئی وہاں جہان خان ہرل نے ایک گاؤں کی بنیاد رکھی اور اس جگہ کا نام ” کھڑ کن مشہور ہوا ۔ یادر ہے مہر جہان خان کی اولاد اب بستی کمال نگر داخلی موضع مضھٹی بالا راجہ میں آباد ہے
سید مرادشاہ اور نتھو سرگانہ :
1858ء میں ٹھٹھہ سرگانہ کے نتھو سرگانہ اور ڈھیر اں کے سید مراد شاہ ولد سید حسن شاہ کے درمیان بچوں کی لڑائی کی وجہ سے تلخ کلامی ہوئی تو سید مراد شاہ نے کسی کے پے در پے وار کر کے نتھو سرگانہ کوقتل کر دیا۔ سید مرادشاہ اور سید اکبر شاہ ساکن پیر کا ٹھٹھہ کے خلاف پولیس تھانہ لالیاں میں قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ لوگوں نے سید مراد شاہ سے کہا کہ تمہیں سزائے موت ہوگی ۔ تو اس نے جواب دیا ! آلہ قتل میز پر پڑا ہوگا اگر حج بہادر نے مجھے سزائے موت سنائی تو اس سے اسے قتل کر دوں گا ۔ جب حج نے دونوں کو چار ، چار سال سزائے قید سنائی تو جج کے ریڈر نے کہا کہ جج صاحب نے آپ کو بری کر دیا ہے۔ چار سال قتل کی کوئی سزا نہ ہے۔ جس پر مراد شاہ نے کہا کہ اگر بیج بہادر نے مجھے بری کر دیا ہے تو میں نے بیج بہادر کو بری کر دیا۔ جس پر ریڈر نے پو چھا کہ تم نے کیسے بری کر دیا تو اس نے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ آلہ قتل (کسی میز پر پڑا تھا اگر ج بہادر مجھے سزائے موت سناتے تو اسی سے اسے قتل کر دیتا۔ جب ریڈر نے حج سے یہ بات بیان کی تو اس نے فورا ہندوستان کی تما م عدالتوں کو تحریری طور پر لکھ بھیجا کہ آئندہ کوئی بھی بیج آلہ قتل میز پر نہ رکھے ۔ چار سال سزا بھگتنے کے بعد دونوں بری ہو گئے ۔ وقت گزرتا گیا آہستہ آہستہ سید اور سرگانے آپس میں بولنے لگے۔ مگر سر گانے تھو کے قتل کا بدلہ لینے کے ارادہ میں رہے۔ یادر ہے کہ جب مراد شاہ نے تقو سرگانہ کو قتل کیا تھا تو اس وقت سید مہر شاہ اور قلندر شاہ کی عمریں بالترتیب 4 سال اور 7 سال تھیں۔ پھر دونوں بھائی جوان ہوئے اور خاندان ہی میں شادیاں کیں ۔ مہر شاہ کے دو بیٹے راجے شاہ اور لال شاہ ہوئے اور قلندر شاہ کے تین بیٹے سید صالحوں شاہ ( والد سید ریاض شاہ اور ساجد شاہ ) سید فضل شاہ ( والد سید صفدر حسین شاہ ) اور سید محمد شاہ ( والد عابد شاہ وظفر شاہ) ہوئے ۔ مہر شاہ اور قلندرشاہ کی اولادیں جوان اور بہادر تھیں۔ سرگانوں پر چوریوں اور ڈاکوں کے مقدمات درج تھے ۔ جس وجہ سے چوکی کالو وال موجودہ کا نڈیوال پولیس نے ریڈ کر کے سر گانوں کو گرفتار کر لیا۔ تو باقی سرگانوں نے ارادہ کیا کہ پولیس سے آدمی چھین لئے جائیں۔ جس پر پولیس نے لال شاہ سے امداد طلب کی تولال شاہ نے راجے شاہ جعل ماچھی، اور بہادر گا جی کا ساکن گجیانہ بھٹیاں ضلع شیخوپورہ (جو ان کے پاس مہمان تھا) کو ساتھ لے کر پولیس کی مدد کی اور چوکی کا لو وال پہنچائے ۔ کالو واہل سے واپس آ رہے تھے کہ میانوال کے قریب سرگانوں کے تقریباً 100 کے لگ بھنگ آدمی راستہ روک کر بیٹھے تھے ۔ جب لال شاہ پارٹی قریب پہنچی تو انہوں نے للکار دیا۔ جو نہی انہوں نے للکارا تو لال شاہ نے پستول سے فائر نکال دیئے۔ جس کے نتیجے میں دو آدمی شدید زخمی ہو گئے اور شیر اسرگانہ موقع پر قتل ہو گیا۔ اس مقدمہ میں لال شاہ اشتہاری ہو گیا اور راجے شاہ کو حج نے سزائے موت سنائی۔ لال شاہ یہاں سے چھانگا مانگا کے جنگل میں رہائش پذیر 12 ڈا کو ؤں نظام لوہار ، جبرونائی اور منگلد حا کمہار وغیرہ کے پاس پہنچ گیا۔ جب وہاں علم ہوا کہ راجے شاہ سزائے موت ہوا ہے تو انہوں نے لال شاہ کو راجے شاہ کی اپیل کیلئے زرکشیر دے کر الوداع کیا اور ساتھ کہا کہ ! اگر راجے شاہ بری ہو جائے تو بہتر ورنہ ہم جیل توڑ کر بھی اسے نکال لیں گے ۔ ادھر راجے شاہ کے والد مہر شاہ ایک ولی اللہ کامل میاں جمعہ کے پاس پہنچے اور ان سے راجے شاہ کے بری ہونے کی دعا کروائی۔ میاں جمعہ نے کہا کہ ایک بھینس صدقہ میں دیں راجے شاہ بری ہو جائے گا۔ مہر شاہ نے گھر پہنچ کر بھینس بطور صدقہ دی مگر پھر بھی بری نہ ہوا۔ تو وہ دوبارہ میاں جمعہ کے پاس گیا اور کہا کہ راجے شاہ بری نہ ہوا ہے۔ تو میاں جمعہ نے فورا کہا کہ اسر دینے سے سر حاصل ہوتا ہے۔ کل میں نہ ہوں گا اور راجے شاہ بری ہو جائے گا۔ دوسرے روز علی اصبح میاں جمعہ کوٹالے کر باہر گیا اور واپس نہ آیا۔ ادھر راجے شاہ بری ہو گیا۔
معاملہ جوں کا توں رہا کئی سال گزر جانے کے بعد لال شاہ لنگر مخدوم کے ایک گاؤں علی پور ماڑھ میں بطور مہمان گیا ہوا تھا اور رات کو ایک کمرہ کی چھت پر سویا ہوا تھا جس کا سرگانہ پارٹی کو بخوبی علم تھا۔ انہوں نے بوڑسنگھ سنکھ کو ساتھ لے کر لال شاہ پر حملہ کر دیا بوڑسنگھ نے پستول کا فائر کر کے لال شاہ کو قتل کر دیا ( ایک اور روایت کے مطابق منجر سے قتل ہوا) اور فرار ہو گیا۔ مگر را جے شاہ سید شاہ اور خان وٹو نے بوڑسنگھ اور اس کے دو بھتیجوں کوقتل کر دیا۔ پھر لال شاہ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے سید فضل شاہ اور سید را جے شاہ نے رات کو سرگانوں پر حملہ کر دیا۔ جس کا سر گانوں کو پہلے ہی علم ہو گیا تو انہوں نے چارپائیوں پر لکڑیاں رکھ کر چادر میں ڈال دیں اور خود علیحدہ ہو گئے ۔سید راجے شاہ نے متعل جسپہ ساکن عدلانہ، جہانہ ولد مہمند ہرل ساکن مورانوالہ (جس کی اولاد اب موضع منفی بالا راجہ کی بستی کمال محمر میں رہائش پذیر ہے) اور سونی جپہ ساکن چک گھوڑیانوالہ، ہر سہ کو دوسری طرف سے حملہ کرنے کیلئے بھیجا اور خود ایک طرف سے آئے ۔ جب وہ تینوں حویلی میں داخل ہوئے تو سید را جے شاہ اور اس کے ساتھیوں نے انہیں سرگانے سمجھتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی۔ جس کے نتیجہ میں جہانہ ہرل اور متعل جپہ موقع پر قتل ہو گئے اور سونی جپہ شدید زخمی ہو گیا اور دوسرے روز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا اور دختر سید امیر شاہ ( جو اپنے مکان کی چھت پر سوئی ہوئی تھی) بھی سید راجے شاہ کی گولی کا نشانہ بن گئی ۔ اس لڑائی کا مقدمہ سرگانوں کے خلاف درج ہو گیا مگر وہ بری ہو گئے ۔ تھانہ لالیاں پولیس نے مہری سرگانہ کو گرفتار کرنے کیلئے ریڈ کیا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ پولیس نے تعاقب کیا۔ مہری نے دریا میں چھلانگ لگا دی اتنے میں سامنے سے سید راجے شاہ اور وریام گلوتر آگئے اور راجے شاہ اور نے مہری کو پکڑ لیا اور قتل کرنا چاہا تو میری نے کہا کہ راجے شاہ تم جس کی اولاد ہو اس کے نام پر چھوڑ دو تو سید را جے شاہ نے چھوڑ دیا۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا کچھ عرصہ کے بعد سید حیدر شاہ فوت ہو گیا اسے لائن والہ دربار میں دفن کرنے گئے ہوئے تھے محمد شاہ ولد سردار شاہ، مرزا گھاگھر ساکن مرزا بھٹیاں اور نا در پاؤلی نے موضع بہار والا (سرگودہا) کے قریب مہری سرگانہ کو پکڑ کر قتل کر دیا۔ اور تھانہ مڈھ رانجھہ میں مقدمہ درج ہو گیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد راجے شاہ سید شاہ، بہادر شاہ، نادر شاہ محمد شاہ ، سردار شاہ اور فضل شاہ و دیگر ساتھیوں نے شاہ محمد سرگانہ محمد ولد مہری سرگانہ، صلابت سرگانہ اور ایک عورت (ر) معہ دو بچے نذیر اور جگدے کو پکڑ لیا ۔ 4 سیر سونا ، اور تقریبا ایک سو میں بھینس قبضے میں لے لیں۔ سیدشاہ نے راجے شاہ سے کہا کہ عورت کو پہلے قل کیا جائے جس پر راجے شاہ نے کہا کہ عور تیں قتل کرنے پر بدلے نہیں سکتے ۔ تو پھر عورت نے کہا ! راجے شاہ یہ دو بچے نذیر اور جگدے تو راجے شاہ نے کہا کہ یہ لے جاؤ۔ تو پھر اس نے کہا کہ یہ چھینیں تو راجے شاہ نے کہا کہ یہ بھی لے جاؤ تو اس نے کہا کہ سونا تو راجے شاہ نے مرزا گھگھے سے کہا کہ اس کا سونا بھی واپس کر دو ۔ لہذا بچے بھینسیں اور سونا اس عورت کے سپرد کر دیا باقی تینوں کو قتل کر دیا۔ سید شاہ نے کہا کہ اس عورت کو تو چھوڑ رہے ہو یہ گواہ بنے گی جس پر راجے شاہ نے کہا کہ اللہ مالک ہے۔ سید پارٹی کے تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔ جب مقدمہ چالان ہو کر عدالت میں پہنچا تو عدالت نے اس عورت کو طلب کیا اور بیان قلمبند کرنے شروع کئے تو وہ تمام حققیت بیان کرتی اور راجے شاہ کا نام لئے بغیر بیان ختم کر دیتی ۔ جب وکیل سوال کرتا که با کیارا ہے شاہ اس وقوعہ میں شامل تھا؟ تو وہ کہتی کہ مجھے کوئی علم نہیں اگر تھا بھی تو میں نے نہیں دیکھا۔ مقدمہ سات سال سزا ہو گیا۔ مگر اپیل دائر کرنے پر تمام ملزمان بری ہو گئے۔ کئی سال تک سر گانے بدلہ لینے کی کوشش کرتے رہے ایک دفعہ گاہر اسرگانہ سید فضل شاہ کا راستہ روک کر بیٹھا تھا۔ جونہی فضل شاہ نزدیک آیا تو اس نے للکارا تو فضل شاہ نے پستول سے فائر کیا جس سے وہ زخمی ہو گیا اور چند دنوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو گیا۔ اس مقدمہ میں فضل شاہ 4 سال سزا ہو گیا۔ محمد شاہ،نورشاہ، اور منظور شاہ پسران سردار شاہ کے نہال موضع طالب والا ضلع سرگودہا کے ریحان تھے ۔ ان ریحانوں اور طالب والا کے پٹھانوں کی دشمنی تھی۔ اس وجہ سے سرگانے اور پٹھان ایک ہو گئے ۔ انہوں نے مل کر 1965ء میں ریحانوں پر حملہ کر دیا۔ جس پر ریحانوں کی جوابی کاروائی کے نتیجے میں محمد شاہ کے ہاتھوں خان بہادر پٹھان قتل ہو گیا۔ اس مقدمہ میں پانچ ریحان اور سید مرید حسین شاہ گرفتار ہو گئے ۔ مگر جلد ہی مقدمہ بری ہو گیا۔ 1967ء میں پٹھانوں اور سرگانوں نے مل کر پنڈی بھٹیاں والے رستہ پر سید محمد شاہ کو قتل کر دیا ۔ اس مقدمہ میں اکبر خان پٹھان اشتہاری ہو گیا۔ جس کی گرفتاری کیلئے موضع طالب والا کے وڈا کھوہ کا پولیس نے محاصرہ کر لیا اور فائرنگ شروع ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں اکبر خان پٹھان کی ہمشیرہ صغراں بیگم مقتل ہوگئی صغراں بیگم کے مقدمہ قتل کا ابھی فیصلہ بھی نہ ہوا تھا کہ پٹھانوں نے سیدوں سے صلح کر لی۔ تا ہم اس کے بعد کوئی لڑائی نہ ہوئی۔
کرم شاہ نیکوکارہ اور محمد یار بھٹی :
میاں کرم شاہ نیکوکارہ اپنے دور کے ایک بہت بہادر انسان تھے۔ علاقہ میں آپ کا بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ پنڈی بھٹیاں کے محمد یار بھٹی کے ساتھ آپ کے گہرے تعلقات تھے محمد یار بھٹی کا بیٹا شیر محمد بھٹی بڑا تیز طراز اور شرارتی قسم کا آدمی تھا۔ 1921ء میں محمد یار بھٹی سے کسی تعلق دار کی بھینسیں چوری ہو گئیں۔ چوروں نے چوری شدہ بھینسیں قلعہ عاصیاں میں کالے کے عاصیوں کو دے دیں۔ کالے کے عاصی میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے بھتیجے میاں سلطان محمود نیکوکارہ کے گہرے دوست تھے ۔ انہوں نے چوری شدہ بھینسیں میاں سلطان محمود نیکوکارہ کے پاس بھیج دیں۔ چند دنوں بعد بھٹی بھی بھینسیں تلاش کرتے ہوئے چونتر یا نوالہ آگئے۔ انہیں علم ہو گیا کہ پھٹنیس میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے مویشیوں میں ہیں۔ کیونکہ اس وقت میاں کرم شاہ نیکوکارہ اور میاں سلطان محمود نیکوکارہ کے مویشی اکٹھے ہوتے تھے۔ بھٹیوں نے بذریعہ پولیس اپنی بھینسیں پکڑ لیں ۔ تب میاں کرم شاہ نیکوکارہ کو اس بات کا علم ہوا۔ جبکہ وہ پہلے اس مسئلہ سے بالکل نا واقف تھے۔ جب بھٹی بھینیس لے کر واپس گئے تو انہوں نے محمد یار بھٹی کو تمام حالات واقعات سے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی کہا کہ اگر میاں. کرم شاہ نیکو کارہ کی بھینسیں چوری نہ کی جائیں تو بات نہیں بنتی۔ ابھی محمد یار بھٹی سوچ میں ہی تھا کہ ! اس کے بیٹے شیر محمد بھٹی نے اسے میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے خلاف اکسانا شروع کر دیا۔ بیٹے کے اکسانے پہ اس نے میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے مویشی چوری کرنے کا ارادہ باندھ لیا۔ ادھر میاں کرم شاہ نیکوکارہ کو بھی علم ہو گیا کہ محمد یار بھٹی میرے مویشی چوری کروانے کی تیاری کر رہا ہے تو میاں کرم شاہ نیکو کارہ نے اپنے مویشیوں پر مسلح افراد کا پہرہ لگوا دیا۔ محمد یار بھٹی کو کسی نے بتایا کہ میاں محمد شاہ نیکوکارہ کے مویشیوں پر تو مسلح افراد کا پہرہ ہوتا ہے لیکن ان کے بھائی میاں عبد القادر شاہ نیکوکارہ کے مویشی بغیر پہرہ کے ہیں ۔ لہذا محمد یار بھٹی نے چور بھیج دیئے ۔ انہوں نے میاں عبد القادر شاہ نیکوکارہ کی چار بھینسیں نکال لیں۔ انہوں نے بھینسوں کی حویلی کا دروازہ (پھہلا ) کھلا چھوڑ دیا ۔ تمام مویٹی نکل کر فصلوں میں چرنے لگے ۔ میاں عبد القادر شاہ نیکوکارہ کے آدمیوں نے مویشی گھیر کر حویلی میں داخل کر دیئے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ چار کھنیں کم ہیں تو ان کی تلاش شروع کر دی۔ صبح دس بجے تک نہ ملیں تب انہوں نے میاں کرم شاہ نیکوکارہ کو بتایا۔ جو نہی میاں کرم شاہ نیکوکارہ نے سنا تو فورا کہا کہ میرے بھائی کی بھینسیں بھٹی لے گئے ہیں ۔ لہذامیاں کرم شاہ نیکوکارہ نے اپنے نوکروں و کمتوں کو گھوڑیوں پر سوار کر کے نزدیکی دیہات میں بھیجا کہ بھائی کی بھینسیں چوری ہونے کی اطلاع دیں اور ساتھ کہیں کہ جس نے کھرا ( نقش پاو) کے ساتھ آنا ہو آ جائے ۔ جو نہی آس پاس کے دیہات کے لوگوں کو علم ہوا تو لوگ جوق در جوق میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے ڈیرہ پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ تقریباً 800 افراد کھرا ( نقش پار) دیکھتے ہوئے پنڈی بھٹیاں کی طرف چل پڑے۔ جب یہ دربار حضرت شاہ بہلول کے نزد یک چکی والا کھوہ کے پاس پہنچے تو سامنے سے تقریباً 300 افراد مہر محمد یار بھٹی کا بیٹا شیر محمد بھٹی بھی آگئے۔ ہر دو فریقین کا آمنا سامنا ہو گیا۔ میاں کرم شاہ نیکوکارہ نے اپنے دو بندوقچیوں سے کہا کہ بندوقوں سے فائر مت نکالنا۔ ابھی کھڑے ہی تھے کہ بھٹیوں کی طرف سے رحماں چوچک ہاتھ میں سوٹا لئے لکارتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے بندوقچی مالی ماچھی پر وار سونا کیا۔ سوٹا لگنے سے لی ماچھی تھجھکا۔ جو نہی ھجر کا ادھر سے میاں کرم شاہ نیکوکارہ نے للکار کر کہا کہ بندوق سے فائر کھول دو۔ لہذ ا مالی ماچھی نے بندوق سے فائر کھول دیا جو رحماں چوچک کو سینے پر لگا اور وہ موقع پر ہی قتل ہو گیا۔ رحماں چوک کا گرنا ہی تھا کہ حمد یار بھٹی کے بیٹے شیر محمد بھٹی نے گھوڑی دوڑا دی ۔ اس کے پیچھے اس کی واہر بھی دوڑ پڑی۔ میاں کرم شاہ نیکو کارو کی فوج ان کے پیچھے بھاگتی گئی اور مارتی گئی۔ وہ پنڈی بھٹیاں شہر میں داخل ہوئے اور چھپ گئے۔میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے آدمیوں نے بازار میں لوٹ مار شروع کر دی اور پنڈی بھٹیاں شہر لوٹ کر واپس آگئے۔ مالی ماچھی کے پاس میاں کرم شاہ نیکو کارہ کی بندوق تھی جس کا نمبر والا حصہ جائے وقوعہ پر ہی گر گیا۔ جب پولیس موقع پہ پہنچی تو میاں کرم شاہ نیکوکارہ کی بندوق کا نمبر ان کے ہاتھ لگ گیا۔ پولیس نے میاں کرم شاہ نیکوکارہ پر اس نمبر کی برآمدگی ڈال کر انہیں قتل کا نامزد مجرم ٹھہرا دیا۔ میاں کرم شاہ نیکو کارہ اور ان کے ساتھی چالان ہو کر ملتان جیل چلے گئے۔ میاں کرم شاہ نیکو کارہ کی طرف سے سرمحمد شفیع ( بارایٹ لاء ) اور مدعی فریق کی طرف سے ملک محمد فیروز خان نون (سابق وزیر اعظم پاکستان ) وکیل مقرر ہوئے۔ ایک سال تک سیشن کورٹ ملتان میں مقدمہ زیر سماعت رہا۔ بالآخر میاں کرم شاہ نیکو کارہ ساتھیوں سمیت چودہ چودہ سال سزا ہو گئے ۔ پہلی ہی رات آپ نے پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کو بہت یاد کیا۔ جب سو گئے تو حضرت پیر جیلائی خواب میں آئے اور کہنے لگے کہ مت گھبرائیں آپ کی سزا ختم ہو جائے گی ۔ اگلی رات آپ نے اپنے دادا جان حضرت میں سعد الدین نیکوکارہ المعروف سعدن جوان کو بہت یاد کیا۔ جب سو گئے تو حضرت میاں سعدن جوان خواب میں آئے جن کے ساتھ حضرت شاہ بہلول بھی تھے۔ حضرت میاں سعدن جوان نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے ساتھ کون ہے؟ جس پر آپ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت میاں سعدن جوان نے فرمایا کہ یہ حضرت شاہ بہلول ہیں۔ اور یہ آپ سے فلاں آدمی کی وجہ سے ناراض ہیں۔ اسے ساری زندگی نہ ملنا۔ تمہاری سزا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم ہو جائے گی ۔ گھبرانے کی ضرورت نہ ہے۔ میاں کرم شاہ نیکوکارہ کو یقین ہو گیا کہ میری سزا اللہ رب العزت نے ختم کر دی ہے۔ لہذا آپ نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کروا دی۔ جب اپیل سماعت ہوئی تو آپ صاف بری ہو گئے اور آپ کے ساتھیوں کی سزائیں چودہ چودہ سال سے کم ہو کر سات سات سال ہوگئیں اس وقت شیخ اصغر علی کمشنر ملتان تھے وہ میاں کرم شاہ نیکوکارہ کے گہرے دوست و عقیدت مند تھے ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میاں کرم شاہ نیکوکارہ بری ہو گئے ہیں تو وہ مٹھائی اور نئے کپڑے سلوا کر آپ کیلئے جیل میں لے گئے ۔ اور وہاں سے آپ کو اپنے ساتھ اپنی کوٹھی پر لائے ۔ میاں کرم شاہ نیکوکارہ نے بھی بھٹیوں کے خلاف تھانہ صدر چنیوٹ میں مقدمہ درج کروایا تھا۔ جس میں بھٹیوں کے آدمی بھی سات سات سال سزا ہو گئے۔
اس داستان کو شہاب علی ٹھر شاعر نے ڈھولوں کی شکل میں یوں بیان کیا جس کے چند مصرعے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔
محمد یار بھٹی چور کھل کے مجھیں کرم شاہ نیکو کارے دیاں کڑھا لئیاں و میں بھٹیاں کھر اچار و کیائے ، چکی آلے کول گلیاں ہوا کٹھیاں دوویں ہاتھیں اودوں پیر کرم شاہ نیکو کار سے لیکر چاماری، بندوق دی مٹھ جا کھٹی اے ماچھی بھٹیاں دا سر کردہ رحماں چوچک ڈھائے گیائے ، شیر محمد یار دے گھوڑی بھیجالی پی نہیں راہ دی گھوڑی جمعہ نوں پی اے یا موتر نہ جھلیائے کانٹی دادے اُتے دی وی آن و نجائی ہئی ، جیہڑا اکبر بادشاہ دے نکیاں توں رہیا ہائی یا کی توں پیتر مستی خان دہا ئیں جہنوں دتے ہان وال اچھا تیں شیر واہر لئے پنڈی نوں وڑیا گل ایہا جنگی پاس جاتی محمد یار آکھیا، شیر یا توں گتا ہوندوں لاہ چھڑ بندا لئے جند یا نہیں چھ ہزارے دے چھا چھی
سجاول ہرل اور احمد جوئیہ :
چار چنا نا نوالہ اعلی موضع گلوتر نوالہ کے احمد جوئیہ نے جہانہ ولد محمند برل کا بھینسا (سنڈھا) مورانوالہ سے چوری کر لیا۔ جہانہ ہرل اپنے بھینسے کی واپسی کا مطالبہ کرتارہا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد جہانہ ہرل سیدوں اور سر گانوں والی لڑائی میں قتل ہو گیا۔ احمد جوئیہ ہر آدمی کے پاس طنز یہ کہتا کہ جہانہ ہرل بھینسا لینے گیا ہوا تھا ابھی واپس نہیں آیا ؟
احمد جوئیہ کی ان طنزیہ باتوں کا سجاول ہرل کو بہت دکھ ہوا۔ تو اس نے 1928ء میں مراد ہرل، محمد اکبر ہرل، مانک ہرل نورا ہرل ، اور موضع چھنی چوہڑ سے مراد ولد راجہ گلوتر در جاده ولد چا د الوتر ،محمد ولد ر جب گلوتر، محمد ولد یک من گلوتر بمبر بیج ولد سجاول گلوتر، صاحبه ولد کرم گلوتر ، احمد ولد و ساد انگلوتر اور علی ولد تو گلوتر کو ساتھ لے کر احمد جوئیہ کی پہلے میں چھتی ہوئی بھینسیں پکڑ لیں۔ جب یہ بھینسیں لے کر چھنی چوہڑ کے قریب ” منڈی ٹاہلی ” والے تین پر پہنچے تو جوئے بھی تعاقب کرتے ہوئے پہنچ گئے ۔ جن کے ساتھ ملک ولی محمد عرف دلیا ولد مغلا گلوتر ساکن گلوتر انوالہ بھی تھا۔ سجاول ہرل وغیرہ نے دریا عبور کر کے بھینسوں کو چھوڑ دیا ۔ جنہیں پہلے سے وہاں موجود بھینسیں چرانے والے ممورا ولد وساوا گلوتر اور مولا بخش عرف مولد ولد عمر گلور نے گھر پہنچا دیا۔ باقی تمام وہیں کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر احمد جوئیہ کے کسی آدمی نے دریا عبور کرنے کی کوشش کی تو وہ بیچ کر نہ جائے گا۔ اتنے میں ملک ولیا ولد مغلا گلوتر (جو اس گاؤں چھنی چوہڑ کے گلوتروں کا داماد بھی تھا) نے کہا کہ ہمیں دریا عبور کر کے اپنے پاس آنے دیں ۔ معاملہ با آسانی طے ہو جائے گا ۔ سجاول ہرل و دیگر ساتھیوں نے دریا عبور کرنے کی اجازت دے دی۔ دو دریا عبور کر کے ان کے پاس پہنچ گئے ۔ مال مویشیوں کے لین دین کی باتیں شروع ہوئیں ۔ ملک ولیا گلوتر نے کہا جو یے ہرلوں کا بھینسا دے دیں پھر ہرل جوئیوں کی بھینسیں واپس کر دیں۔ جس پر رحمت جوئیہ نے کہا کہ یہ گلوتر تمہارے سسرال میں اس لئے ان کی طرف داری کر رہے ہو ۔ جس پر تلخ کلامی ہو گئی۔ احمد جوئیہ نے سوٹے کا وار کیا جومحمد ولد ر جب گلوتر کونگا اورلڑائی شروع ہوگئی۔ ادھر محمد ولد مکھن گلوتر ابھی کھڑا تھا کہ محمد پاؤلی نے للکارا کہ تمہارے بھتیجے کو جوئے مار رہے ہیں اور تم کھڑے منہ دیکھ رہے ہو۔ جس پر وہ احمد جوئیہ کے سینے میں لگا اور اور اس سے سوٹا کھینچ لیا جو دوران لڑائی آدھا ٹوٹ چکا تھا۔ اسی ٹوٹے ہوئے سوٹے کا احمد جوئیہ پر وار کیا جو اس کے سر میں لگا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ زخمی حالت میں اس کے ساتھی اسے لے کر گڑھنا نوالی میں امیر گئے کے پاس پہنچے تو امیر کہتے نے اسے کچی لسی پلائی ۔ جس وجہ سے اس کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو گیا۔ جس میں صاحبه ولد کرم گلوتر اور مبریج ولد سجاول گلوتر کے علاوہ باقی تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ، جس میں تمام بری ہو گئے ۔ محمد ولد لکھن گلوتر دوسال کیلئے سزا ہو گیا۔ جس کے خلاف محمد اکبر ہرل اور سجاول ہرل نے اس بناء پر اپیل دائر کروائی کہ ہم بری ہو گئے اور ہمارا مہمان بڑا ہو گیا ۔ اس میں ہماری بے عزتی ہے۔ جب انہوں نے اپیل دائر کروائی تو جوئیہ پارٹی نے نگرانی شروع کر والی۔ جس میں رجا دہ ولد چا دا گلوتر محمد ولد یکین گلوتر اور احمد ولد وساوا گلوتر کوسات سات سال قید کی سزا ہوئی ۔ محمد اکبر ہرل اور سجاول ہرل اشتہاری ہو گئے ۔ باقی بھی سزائیں بھگتنے کے بعد گھر آگئے۔
جگدے اور گاماں جیہ ۵۳ :
مہر مستہ جپہ کے دو بیٹے شادا اور راجہ تھے۔ وہ دونوں شادی شدہ تھے۔ مگر ابھی ان کے پاس اولاد نہ تھی۔ ان کی ملکیت میں شادے کی جھلار ( دریائے چنا بہکے کنارے) ٹھٹھہ فتح علی ، خان دا کوٹ اور عاصی والا میں چاروں جگہ کافی زمین تھی ۔ صلابت ولد بہاول جیہ نے سوچا کہ اگر ان دونوں بھائیوں کو قتل کر دیا جائے تو رقبہ ہمارے کام آجائے گا۔ جس پر صلابت ولد بہاول جید نے راجہ ولد مستہ جبر کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کے بھائی شادا کو قتل کرنے کیلئے اس کا پیچھا شروع کر دیا۔شادا ان کے خوف سے جھلا روالا رقبہ مزارعین کو دے کر خان دا کوٹ آ گیا۔ مگر یہاں بھی انہوں نے پیچھانہ چھوڑا۔ بالآخر اس نے یہ رقبہ بھی کمیر، جعل اور ولی محمد چھو کو بانٹ پر دے دیا اور خود عاصی والا چلا گیا۔ اس طرح وقت گزرتا گیا شادے کا بیٹا جگدے بھی جوان ہو گیا ۔ گاماں ولد شہادت جپہ ان کے مزارعین کو ڈرا دھمکا کر زبردستی ہر فصل خود بانٹ لیتا۔ جس وجہ سے شادا اور جگدے کو کوئی حصہ نہ ملتا۔ اس دوران ہی جگدے کی شادی ما جبھی خان ملکے کے کی دختر سے ہو گئی ۔ جس وجہ سے ملکے کے اور جگدے ایک ہو گئے ۔ گاماں ولد شہادت نے سوچا کہ اگر شیر ولد راجہ (جو ملکے کا تھا) کوقتل کر دیا جائے تو جگدے اور ملکے کی پارٹی کمزور ہو جائے گی۔ پھر یہ میرے سامنے سرنہ اٹھا سکیں گے۔ لہذا انہوں نے چک گھوڑیانوالہ میں سوئے ہوئے شیر ولد راجہ پر فائرنگ کر دی۔ جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گیا مگر جان سے بچ گیا۔ اس کے بعد شیر والد راجہ کا چچازاد بھائی نجابت عرف جکا (جو کہ اشتہاری تھا) دریائے راوی کے علاقہ میں چک بوجیاں کے انور چدھڑ کے پاس بطور مہمان تھا تو اس نے انور چدھڑ سے کہا کہ میرے پاس اسلحہ کم ہے مجھے اور اسلحہ لا کر دو ۔ انور چونکہ گاماں ولد شہادت کا دوست تھا۔ جس وجہ سے اس نے اسلحہ لانے کی بجائے تھانہ میں اطلاع کر دی۔ جس پر سکندر شاہ تھانیدار کی زیر قیادت پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی ۔ نجابت عرف جکا اور پولیس کے درمیان زبر دست فائرنگ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں تھانیدار زخمی اور نجابت عرف کا قتل ہو گیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جگدے نے گاماں ولد شہادت سے اپنا رقبہ واپس طلب کیا تو گامے نے جگدے کو صاف جواب دے دیا کہ نہ فصل باٹنے دوں گا اور نہ ہی رقبہ واپس کروں گا۔ جس کا جگدے کو از حد دکھ ہوا۔ اس نے شیر ولد راجہ کے پاس فریاد کی تو شیر نے گامے کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ لہذ ا شیر ولد راجہ ، جگدے ولد شادا، صادن ولد جلا، سلا جلو کا ، دو اور آدمیوں سمیت ان چھ مسلح افراد نے گھوڑیوں پر سوار ہو کر ٹھٹھہ فتحعلی کا رخ کیا۔ ٹھٹھہ فتح علی کے نائیاں والا قبرستان میں باقی آدمی گھوڑیاں پکڑ کر کھڑے ہو گئے ۔ جگدے اور شیر ولد راجہ گئے تو گاماں مکان کی چھت پر سویا ہوا تھا۔ جس کے پاس سئلا ، چیچو اور عبداللہ دیندار پہرہ دے رہے تھے ۔ شیر ولد راجہ مکان کی چھت پر چڑھ گیا اور جگدے نے اسے بندوق پکڑائی۔ شیر کو دیکھتے ہی دونوں پہرہ دار چار پائیوں کے نیچے چھپ گئے ۔ شیر نے فائر کر کے گامے کوقتل کر دیا اور چلے گئے۔ یہ تقریبا 1958 کا واقعہ ہے۔ اس رات گامے کے دوست عبداللہ دیندار، تھراج چھیجو اور ایک کھوکھر تینوں اکٹھے خمان دے کوٹ گئے اور جگدے کے بھانجے ملک والد محمد جبہ کوقتل کر دیا۔ جسے اس لڑائی کی خبر تک نہ تھی ۔ تھانہ بھوانہ میں ہر دو فریقین کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہو گئے ۔ جن میں دونوں فریقین بری ہو گئے ۔ 22 پھاگن کو بھوانہ میں سنگ میلہ تھا۔ شیر ولد راجہ بھی میلہ میں موجود تھا۔ پہلی والا کے میر والد بہادر جہ نے محضر پر نا یا کو ساتھ لے کر شیر ولد راجہ کا پیچھا شروع کر دیا ۔ 2 بجے دن نیزہ بازی کے میدان میں شیر نے دوڑانے کیلئے جونہی گھوڑا پڑی پر چڑھایا تو میر نے پیچھے سے فائر کھول دیا۔ جس کے نتیجے میں شیر موقع پر ہی دم تو ڑ گیا۔ تھانہ بھوآنہ میں قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ کچھ عرصہ تک مقدمہ زیر سماعت رہا۔ میر کا بھائی امیر و دیگر بری ہو گئے اور میر ولد بہادر کو سزائے موت ہوگئی۔ دشمنی بدستور رہی۔ قمرے کے کھوہ پر جگدے اور قمرے کے درمیان لڑائی ہوئی۔ جس میں جگدے کا بیٹا انور قتل ہو گیا۔ تو جگدے نے الزام عائد کر کے کہ میرا بیٹا بہاؤلے کی پارٹی نے قتل کروایا ہے مقدمہ ان کے خلاف درج کروا دیا۔بہاؤلے کی پارٹی انکاری ہو گئی کہ ہم نے قتل نہیں کروایا۔ لہذا برادری کی مداخلت سے جلدے نے کہا کہ اگر یہ میاں محمدی شریف میں اپنی بے گناہی کا حلف دے دیں تو میں انہیں چھوڑ دوں گا ۔ میر ولد مہابت جپہ اور ماہنا ولد قادر جپہ ساکنان کیسے کا چک ہر دو کو قتم کیلئے مقرر کیا گیا کہ یہ اس بات کی قسم دیں کہ انور کا قتل بہاؤلے کی پارٹی نے نہیں کروایا۔ مگر وہ کسی وجہ سے قسم نہ دے سکے۔ جگدے کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ میرا بیٹا انہوں نے ہی قتل کروایا ہے۔ اڈا در ہٹہ کھر لاں پہ جگدے، مماں مصلی اور نور اکبر ولد جگدے نے گاماں ولد شہادت کے بھائی شیر اور ملک ولد محمد علی جبہ کو بس سے اتار کر خان دے کوٹ لائے اور پھر وہاں سے بانٹھ چک تحصیل فیصل آباد پہنچے تو سامنے سے پولیس آگئی اور پیچھے سے واہر آگئی ۔ تو جگدے نے اس جگہ فائر کر کے دونوں کو قتل کر دیا۔ واپس مڑ کر پولیس اور واہر کے بمقابلہ فائرنگ کرتا ہوا گئی کموکا میں یعقوب ولد جہانہ کموکہ کی ڈھاری پہ پہنچ گیا۔ جہاں ان سے اسلحہ ختم ہو گیا ۔ واہر اور پولیس نے ڈھاری کا گھیراؤ کر لیا۔ ڈی ایس پی صاحب نے واہر سے کہا کہ تم غلام محمد کمو کہ کے ڈیرے پر بیٹھو میں ملزمان کو گرفتار کر کے وہیں لاتا ہوں ۔ واہر غلام محمد کمو کہ کے ڈیرہ پر چلی گئی تو ڈی ایس پی انہیں گرفتار کر کے تھانہ صدر چنیوٹ پہنچ گیا۔ چودہ آدمیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ ملک گلباز خان اعوان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جھنگ کی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت رہا۔ بالآخر فاضل جج نے درجہ بہ درجہ کئی کو چودہ سال کئی کو سات سال سزا۔ جگدے، نورا کبر اور مماں مصلی کو سزائے موت سنائی۔ انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کروائی۔ مگر وہاں سے خارج ہوگئی۔ پھر پریم کورٹ میں اپیل دائر کروائی مگر وہاں سے بھی خارج ہو گئی۔ جب 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان کے عہدہ پر فائز ہوا تو اس نے سزائے موت کے تمام ملزمان کو بری کر دیا جس میں یہ بھی بری ہو گئے۔ اس کے بعد اس وقت کے ایس ایچ او تھانہ بھوانہ شوکت علی، برادری اور اہلیان علاقہ نے ہر دو فریقین کے درمیان صلح کروادی۔ تب یہ لڑائی اختتام پذیر ہوئی۔
مہر محمد اکبر ہرل اور بخت جمال ڈاہر ۔ ۵۴ :
مہر محمد اکبر ہرل آف موضع ولہ رائے ( محمد اکبر ہرل کی اولا داب موضع ھوٹی بالا راجہ کی بستی کمال نگر میں رہائش پذیر ہے ) اور محمد غوث خان بلوچ آف جھوک چوغتہ آپس میں بڑے گہرے دوست تھے۔ پرانے وقتوں میں یہ دستور تھا کہ جو گہرے دوست آپس میں رشتے نہ کر سکتے تھے وہ گھوڑیاں ساجھی کر لیتے تھے۔
جن دو شخصیات کا ذکر ہورہا ہے انہوں نے آپس میں گہری دوستی کی بنا پر گھوڑیاں ساجھی کر لیں ۔ کافی عرصہ گھوڑیاں ساجھی رہیں ۔ مگر محمد غوث خان بلوچ بقضائے الہی وفات پا گیا۔ محمد غوث خان بلوچ اولاد سے محروم تھا۔ اس کا ایک ہی بھائی اللہ یار خان تھا جو پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔ صرف بہنیں تھیں۔ اس کی وفات سے کچھ عرصہ بعد میر محمد اکبر ہرل نے ان سے کہا کہ میرا دوست اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو گیا ہے لہذا آپ میرے حصے کی گھوڑیاں . مجھے دے دیں۔ جس پر وہ چپ ہو گئیں تو میر محمد اکبر واپس آگئے۔ برادری کے افراد و دیگر لوگوں نے محمد غوث خان کی ہمشیرگان سے کہا کہ گھوڑیوں میں محمد اکبر ہرل کا بالکل حصہ نہ ہے۔ آپ اسے صاف انکار کر دیں۔ جب چند دن کے بعد محمد اکبر ہرل دوبارہ ان کے پاس گیا اور اپنا حصہ طلب کیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ان گھوڑیوں میں تمہارا کوئی حصہ نہ ہے۔ جس پر محمد اکبر نے کہا کہ مجھے کوئی ضامن دے دیں اور کسی ڈیرہ پر بات کر لیتے ہیں۔ اگر میرا حصہ ہوا تو میں لوں گا اور نہ نہیں لوں گا۔ تو انہوں نے بخت جمال ڈاہر کو ضامن دے دیا۔ اور مہر نجابت خان جپہ آف تاجہ بیروالہ کو بطور ثالث مقرر کیا۔ کچھ عرصہ تک یہ جھگڑا مبر نجابت خان جپہ کے ڈیرہ پر سماعت ہوتا رہا۔ بالآخر عمل ثبوت و شہادت ملنے کی بنیاد پر انہوں نے تحریری فیصلہ کیا کہ ! گھوڑیوں اور گھوڑوں میں محمد اکبر کا حصہ ہے اسے دیا جائے۔ جب یہ تحریری فیصلہ محمد اکبر اپنے ضامن بخت جمال ڈاہر کے پاس لے گیا کہ یہ فیصلہ ہے اور میرا حصہ مجھے دے دیں۔ بخت جمال ڈاہر نے جواب دیا کہ تمہارے گھوڑے بلوچوں کے پاس ہیں جاؤ ان سے لے لو۔ جس کے بعد محمد اکبر نے واپس آکر معززین علاقہ کو (جن میں میاں غلام حسین شاہ ولد سید امیر حسین شاہ بھی شامل تھے ) لے کر بخت جمال ڈاہر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ ! آپ ضامن ہیں ہمارے گھوڑے اور گھوڑیاں دے دیں۔ جس پر اس نے میاں غلام حسین شاہ سے کہا کہ اپنے پاس سے دے دیں میں ہرگز نہیں دوں گا۔ جب اس نے میاں غلام حسین شاہ کو انکار کیا تو یہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور محمد اکبر نے بخت جمال ڈاہر سے کہا کہ! محمد غوث خان بلوچ کی ہمشیرگان تو عورتیں ہیں جن سے میں نہیں لڑ سکتا۔ آپ ہمارے ضامن ہیں میں تم سے گھوڑے لے کر دکھاؤں گا ۔ جس پر بخت جمال ڈاہر نے کہا کہ جاؤ جو ہوتا ہے کر لو ۔ مہر محمد اکبر ہرل نے بخت جمال ڈاہر کے خلاف تھانہ صدر چنیوٹ میں مقدمہ درج کروا دیا۔ مگر کوئی سنوائی نہ ہوئی۔ بالآخرمحمد اکبر نے ولی محمد ولد سمند ہرل، لال خان ولد محمد اکبر ہرل ، رحمت علی ولد مراد ہرل، سردار عاشق حسین ولد جیون شاہ آف کوٹ احمد یار، کمیر ولد حسن ساجمل، نور ا ولد احمد ہرل، ذوالفقار ولد مریدر جو کہ، ہاشم ولد صاحب خان بودھر، اسماعیل ولد شاہ محمد بو دھر اور لال ولد شاہ محمد ہرل سمیت کل 32 مسلح جوانوں کو ساتھ لے کر بخت جمال ڈاہر کے مال مویشی والی حویلی کو نقب لگا کر بھینسیں اور تین بیل نکال لئے ۔ جب صبح ڈاہر کھرا ( نقش پاء) لے کر رجوعہ کی حدود تک پہنچے تو سردار عاشق حسین اور محمد اکبر ہرل و دیگر سامنے آگئے اور ڈاہروں کے مویشیوں کا کھراروک دیا ۔ سردار عاشق حسین سید نے بڑے جذبہ سے کہا کہ جس نے رجوعہ کی حدود میں قدم رکھنے کی کوشش کی وہ زندہ بچ کر نہیں جائے گا۔ ہر لوں کا مال لے آؤ گے تو تمہارا مال ملے گا ور نہ وہی بات ! جو ہوتا ہے کر لو ۔ ڈاہر واپس مڑ گئے اور تھانہ صدر چنیوٹ میں ہرلوں کے خلاف ایس ایچ او سلطان محمود چھمبو آنہ سے ڈاکہ کا مقدمہ درج کروا دیا۔ یہ 1967ء کا واقعہ ہے۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد محمد اکبر ، ولی محمد ، لال خان ولد محمد اکبر، شیر محمد ولد جہانہ ہرل ، رحمت علی ولد مراد، ذوالفقار ر جو کہ اور گلزار ر جو کہ گرفتار ہوئے ۔ 6/7 دن تک گرفتار رہے۔ مگر ایس ایچ او نے تعلق کی بناء پر انہیں کچھ نہ کہا۔ بالآخر بخت جمال ڈاہر نے ایس ایچ او کا ہرل پارٹی کے ساتھ بہتر تعاون دیکھ کر وفاقی وزیر ملک محمد حیات اعوان آف ٹمو آنہ سے ملاقات کی۔ اس نے ایس ایس پی جھنگ سے ٹیلی فون پر بات کی کہ جلد از جلد ہرلوں سے مال بر آمد کریں ورنہ تمہیں معطل کر دیا جائے گا۔ جس پر ایس ایس پی جھنگ نے ڈی ایس پی چنیوٹ اور ایس ایچ او تھانہ صدر سے کہا کہ ہرلوں سے جلدی مال برآمد کیا جائے ۔ اس وقت ایس ایچ او سلطان محمود معموآنہ نے محمد اکبر سے کہا کہ ڈاہروں کے مال مویشی واپس کرو۔ جس پر محمد اکبر نے کہا کہ میں حوالات میں بند ہوں اگر باہر نکلوں تو مال لا کر دوں ۔ تو ایس ایچ او نے محمد اکبر کو باہر نکال دیا اور پوچھا کہ کب اور کہاں مال لاؤ گے۔ اس نے جواب دیا کہ کل شام کو مہر اسماعیل لالی کے ڈیرے پر لاؤں گا۔ جب محمد اکبر آزاد ہو گیا تو اس نے سب سے پہلے گھر کے مال مویشی و دیگر گھر یلو سامان کسی نامعلوم جگہ پر پہنچا دیا۔ خود کنگ آف دی بار چوہدری مانک خان بوسال کے پاس ٹبہ مانک بوسال پہنچ گیا ۔ انہیں تمام حالات و واقعات سے آگاہ کیا تو چوہدری مانک خان بوسال نے امیر عبداللہ روکھڑی سے رابطہ کیا اور انہیں بھی ساتھ لے کر نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان گورنر سے گورنر ہاؤس لاہور ملاقات کی۔ ادھر محمد اکبر کے وعدہ کے مطابق پولیس عبر اسماعیل لالی کے پاس پہنچی تو وہاں علم ہوا کہ محمد اکبر کا تو ان سے کوئی تعلق ہی نہ ہے ۔ اگر اس نے آنا ہوتا تو مہر دوست محمد ولد مہر اللہ یار لالی کے ڈیرہ پر آنا تھا۔ لہذا پولیس واپس آئی اور اگلی صبح موضع ولہ رائے میں محمد اکبر کی رہائش پر ریڈ کیا۔ مگر وہاں ایک مویشی بھی نہ پایا گیا سب غائب۔ جب گھر کی طرف بڑھے تو وہ با قفل تھا ۔ ڈی ایس پی صاحب کے حکم پر قفل توڑے گئے تو اندر کوئی چیز موجود نہ تھی ماسوائے ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتنوں کے۔ پولیس ناکام لوٹ آئی۔ ای دوران وفاقی وزیرا کبر علی چیمہ نے ایس ایس پی جھنگ کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ یہ لین دین کا معاملہ ہے اگر آپ نے ہرلوں کے ساتھ زیادتی کی تو وردی اتار لی جائے گی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وفاقی وزیر غلام یاسین وٹو نے بھی ٹیلی فون کیا۔ ادھر کنگ آف دی بار چوہدری مانک خان بوسال اور امیر عبداللہ روکھڑی نے نواب آف کالا باغ سے تمام حال حقیقت بیان کی تو انہوں نے تینوں وفاقی وزراء کولاہور بلا بھیجا۔ گورنر ہاؤس میں اکٹھ ہوا۔ باتیں ہونا شروع ہو گئیں۔ بالآخر غلام یاسین وٹو نے کہا کہ دونوں فریقین کا ہونا بھی ضروری ہے تب یہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ محمد اکبر پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔ تو نواب آف کالا باغ نے ملک محمد حیات اعوان سے کہہ کر دوسرے فریق کو بھی بلا بھیجا۔ جب دوسرا فریق بھی پہنچ گیا تو دوبارہ گورنر ہاؤس میں اکٹھے ہوا۔ جس میں تینوں وزراء امیر عبد اللہ روکھڑی ، چوہدری مانک خان بوسال، مہر محمد اکبر ہرل اور بخت جمال ڈاہر شامل ہوئے اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیل درج ذیل ہے۔
نواب آف کالا باغ:
وفاقی وزیر ملک محمد حیات اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے ملک صاحب ! ہر دو فریقین کا معاملہ حل ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر ملک محمد حیات اعوان :
جناب نواب صاحب ! محمد اکبر ہرل نے بخت جمال ڈاہر سے سخت زیادتی کی ہے۔ اس نے بھینسیں اور بیل چوری کر کے صبح کھر ابھی روکا ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ کی بات نہیں ہے۔ بخت جمال ڈاہر کا مال ہر صورت میں واپس ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر غلام یاسین وٹو :
جناب نواب صاحب ! بخت جمال ڈاہر نے دس سال قبل سے محمد اکبر کے گھوڑے اور گھوڑیاں دینی ہیں جن کا یہ ضامن تھا۔ محمد اکبر کے متعدد بار مال واپس طلب کرنے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے باوجود بھی بخت جمال ڈاہر نے مال واپس نہ کیا ہے۔ لہذا محمد اکبر کے ساتھ سخت زیادتی ہوئی ہے۔
وفاقی وزیرا کبر علی چیمہ :
جناب نواب صاحب ! محمد اکبر ہرل معززین علاقہ کو بھی ساتھ لے کر بخت جمال ڈاہر سے مال طلب کرتا رہا۔ مگر یہ انکاری رہا اور بعد میں تھانہ صدر چنیوٹ میں مقدمہ بھی درج کروایا۔ مگر پولیس نے بھی کوئی دادرسی نہ فرمائی۔ جس کی وجہ سے تنگ آکر محمد اکبر نے بخت جمال کا مال چوری کیا
یہ مضمون داکٹر ارشاداحمد تھیم کی کتاب ” تاریخ چینیوٹ "سے لیا گیا ہے