عدنان کی بیٹیوں کو ان کی استانیوں نے ہمارا انٹرویو کرنے کیلئے تیار کیا تھا۔ بچوں کا ہر چند لکھا ہوا پڑھنا تھا۔ مگر ان کے استادوں اور بچوں کے لیے تحسین نکلی کہ جس زمانے میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے اداکاروں کو سلیبرٹیز کا درجہ حاصل ہے، وہاں ابھی چند تعلیمی ادارے، ادب اور ادیبوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ شام کو 5بجے ہمارا قافلہ چنیوٹ کی جانب روانہ ہوا کہ بتایا گیا تھا کہ بس 25کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ آدھ گھنٹے میں طے ہو جائے گا۔ اب سڑک پر ہم تھے، ایک طرف گنوں سے بھرے ٹرک اور دھکے ایسے کہ ہم سب بری طرح اچھل رہے تھے۔کھسیانی ہنسی کے ساتھ گاڑی چلانے والے شکیل جاذب اپنے گھر اور راستے کی اس بدحالی سے کیوں ناواقف ہیں؟ پتہ چلا کہ ان کے علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے دونوں ن لیگ سے ہیں، ان کو کوئی فنڈ، مانگنے کے باوجود نہیں دیئے گئے، اس لیے جب سے بزدار صاحب حاکم اعلیٰ ہیں اور جہاں جہاں تحریک انصاف کے ممبران ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے ان کے علاقوں کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ شاید اس لیے عمران خان نے ان کو کارکردگی میں نمبرون قرار دیا تھا۔ مختصر یہ کہ جو فاصلہ آدھ گھنٹے کا تھا وہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا۔ محسن اور کاشف نے ہمارے بولے بغیر ہمارے ہونق چہروں کو دیکھ کر معذرت کی کہ سڑک بہت ٹوٹی ہوئی ہے۔ سڑکوں کے درمیان کوئی گاڑی خیریت سے نکل جائے تو معجزہ ہی ہوتا ہے۔
اب مشاعرہ گاہ میں آئے۔ ہمارا استقبال بینڈ باجوں سے ہوا۔ پھر ایک دفعہ حیران ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ یہاں دو ہال ہیں۔ ایک میں شادی اور دوسرے میں مشاعرہ ہے۔ اب بھوک تو لگ رہی تھی۔ مگر سارا ہال دیکھ رہا تھا۔ زبردست تالیوں کی گونج میں افتخار عارف اور میں، اسٹیج پر پہنچے۔ ہال میں نظر دوڑائی تو خواتین بھی بیٹھی ہوئی نظر آئیں کہ میں نے شکیل کو تاکید کی تھی، پتہ چلا خواتین مجھ سے ملنے کیلئے آئیں۔بہت بے چین تھیں اور بار بار مجھے بلا کر باتیں کرتیں اور تقاضا کرتیں کہ میں جلدپڑھوں کہ وہ گھر جا سکیں۔ ان میں سے زیادہ تر یونیورسٹی کی پروفیسرز تھیں۔ مشاعرہ میں دادو تحسین میں باقاعدہ شریک تھیں۔
یہ مشاعرہ مقامی نہیں تھا، ملتان سے لیکر شور کوٹ، خانیوال، میانوالی، فیصل آباد اور خود چنیوٹ کے شعرا تھے۔سب ایک بلاوے پہ بلا معاوضہ، محبت کے ساتھ شکیل کی کتاب پہ بولنے اور شہر بسانے آئے تھے۔ گاہے گاہے گرم چائے آ رہی تھی۔ عباس تابش زندگی میں شایدپہلی دفعہ ہاتھ میں پانی کی خالی بوتل لیے بیٹھا تھا اور شعرا کو داد دے رہا تھا۔ میں اور افتخار بھی بہت سے شاعروں کو پہلی مرتبہ سن رہے تھے۔ مگر ان کے شعروں کی پختگی بہت لطف دے رہی تھی۔ کل 29شاعرتھے۔ پھر ایک غزل سنانے کا تو کہیں بھی رواج نہیں ہے۔ اور پھر جو دور دراز کے شہروں سے آئے تھے ہم لوگ بھی ان کو سننا چاہتے ہیں ، واقعی ناصر علی اور انجم سلیمی کے علاوہ عدنان بیگ اور شوکت فہمی تو پرانے شناسا تھے۔ مگر فیصل ہاشمی، راجہ امیر اور خالد ندیم کے عمدہ شعروں نے ہمیں اور سامعین کو بور نہ ہونے دیا۔ ایک اور اہم بات کہ نوجوانوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ چونکہ کوئی مزاحیہ شاعر شامل نہیں تھا اس لیے مشاعرے نے وہ رنگ دکھائے کہ رات2بجے تک ایک شخص بھی اٹھ کر نہیں گیا۔ اس کا بدلہ بھی ہم دونوں سے یوں لیا گیا کہ اسٹیج کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا گیا۔ کیمرے چلتے رہے اور تین بجے، منتظم مبارکباد سمیٹ رہے تھےکہ چنیوٹ کی تاریخ میں اتنا شاندار مشاعرہ کبھی نہیں ہوا تھا،باہر آئے۔
صبح ہوئی تو محسن اور کاشف کے گھر میں ہمارے جاگنے سے پہلے بہت سے دوست ملاقات کیلئے آئے ہوئے تھے۔ وہ سب لوگ ناشتے میں بھی اس وسیع دستر خوان پر موجود تھے یہاں بھی ناشتے میں پنجاب کی ساری سوغاتیں گرم گرم موجود تھیں۔ ناشتہ ختم ہوتے ہی میرے چہرے پر تحفے لیتے ہوئے ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں کہ پھر ان کھڈوں پر سے گزرنا ہے۔ میزبانوں نے ایک اور راستہ بذریعہ تاندلیانوالہ بتایا وہ ذرا کم دھچکوں کے ساتھ تھا۔ جس علاقے سے ہم گزرے، وہاں تقریباً ساری زمین تھور زدہ تھی اور پورے علاقے میں بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ پورے راستے میں صرف ایک پرائمری اسکول کا بورڈ نظر آیا، ایک خستہ حال میڈیکل شاپ، چنگ چی رکشے جس میں آٹھ دس لوگ بیٹھے تھے۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے دھول میں اٹے آتے دکھائی دیئے۔ میں سوچ رہی تھی وزیر اعظم ان تھور زدہ زمینوں پر فیکٹری بنانے کا کہہ دیں تو زمین ضائع نہیں ہو گی مگر کیسے وہ تو بزدار صاحب کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے ہیں، لاکھ کچرے زدہ علاقے، میڈیا دکھاتا ہے، مگر سربراہ تو آسمانی راستے سے آتے جاتے ہیں،اور مدینے کی ریاست میں دوسری پارٹیوں کو نظر انداز تو نہیں کیا جاتا تھا، جواب کس سے مانگوں !
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)