کالم

تھل کا گیت نگار منشی منظور

خالد بلال میتلا

اپنی طرفوں لکھ اساں کوشش کرن دے باوجود 
دلربا  دی  یاد کوں  دل توں جدا نئیں کر سگے
وہ ہر دم چمکتا،ہنستا مسکراتا،قہقے لگاتا، باتوں سے پھول برساتا، اپنے پرائے کو سینے لگاتا۔بچے بوڑھوں کی محفلوں کو سجاتا۔ وہ روشن چہرہ  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے 25 جنوری 2015ء کو ابدی نیند سو گیا۔شاید ہی کوئی ایسا لمحہ ہو جس میں منشی منظورتیریا ں یادوں نے آ نکھوں کو نم نہ کیا ہو۔مگر مشیعت ایز دی اَٹل ہے۔ہر ایک ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے(القرآن)اسی نقطہ پہ آ کے انسان صبر کرتاہے۔کہ ہم بھی تو جانا ہے چلو روزِمحشر ان سے ملاقات ہی جائیگی۔
یا ر  دا  جو  ذکر تھئے  رونون لگے  ہیں  زاروزار
کیا  کروں  مجبور  ہیں  حوصلہ  نئیں  کر سکے
  منشی منظور کی شخصیت کے کئی پہلو بڑے طاقتور ستون کی طرح نظر آتے ہیں۔وہ بیک وقت شاعر،سیاسی و سماجی کارکن،یونین لیڈر کے طور پر ہر محفل کی شان تھے۔1979ء میں گھریلو حالا ت کی تنگدستی سے مجبور ہو کر میٹرک کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر سید موسٰی رضا شاہ ایڈوکیٹ کے پا س بطور منشی اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے ”منشی“کے تخلص کو نام کا حصہ بنایا۔1994ء محکمہ صحت میں بطور ویکسینیٹر ملازمت اختیار کی اور تادم مرگ  اپنی ویکسینیٹر یونین کے نہ صرف ضلعی صدر رہے بلکہ دبنگ ورکر کے طور پر ملازمین بھائیوں کا دفاع کرتے رہے اور ان کے احباب آج بھی انکے ذکرخیر کو پُرنم آنکھوں سے یاد کرتے ہیں۔محکمہ صحت میں اپنی یونین کے ضلعی صدر ہونے کے ناطے اپنی مختصر حیات میں نڈر رہنما کی طرح ویکسینیٹر کی فلاح و  بہبود میں پیش پیش رہے۔ہر ورکر یونین میں ایک کھرے کھرے لیڈر کی طرح ڈ ٹ جاتے اور افسران بالا سے ورکرز کے حقوق  و مطالبات و دلا ئل سے منوانے میں لاثا نی تھے۔میٹنگز میں افسران ان کی موجودگی سے خا ئف رہتے۔ گو ایک صاف، بے خوف، ایماندار ورکر کے طور پر سیاسی،سماجی،ادبی،دینی و دنیا وی تمام حلقوں میں ایک جاندار معتبر نام تھے۔
       1978ء میں میٹرک کے زمانہ طالبعلمی میں  ”دکاندار“ پر نظم لکھ کر اپنے اندر شاعری کو ادبی دھارے میں شامل کیا اور سب سے پہلا مشاعرہ  ”نادر سرائیکی سنگت لیہ“ کے پلیٹ فارم سے پڑھا۔1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے چہلم کے موقع پر ایک نظم  ”میرے وطن کا خیال رکھنا“ پڑھ کر مقامی و ملکی سطح پر بہت پذیرائی حاصل کی۔
1990ء میں اُن کا پہلا شہرۂ آفاق گیت ”ڈکھی کرکے ٹر گیا ہے“عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں منظر عام پر آیا۔اُ س وقت منشی منظور کی عمر محض 26 سال تھی۔کلام میں حد درجہ پختگی کہ جس نے بھی سنا عش عش کر اُٹھا اور اس کے بعد  23  کے قریب عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے گیت گا کر منشی منظور کے کلام کی پختگی و اپنائیت پر مہر ثبت کی۔ایک محتاط انداز کے مطابق تقریباً اُنھوں نے 450 کے قریب سرائیکی، پنجابی اوراُردو گیت لکھے۔اُن کے کلام کو انڈین گلوکار ہ ”ہیم لتا“نے بھی گایا۔تقریباً35 ملکی و غیر ملکی گلوکاروں اِن کے کلام کو عزت بخشی علی یونس، بشریٰ صادق،اعجاز راہی،احمد نواز چھینہ، اکرم راہی، اجمل ساجد، فرح خانم، عبدالستار زخمی، اختر چشتی، راجہ ریاض، افتخار عطاء اللہ، راول بلوچ، سوہنا خان بلوچ، ذکا اللہ گرمانی،ڈاکٹر ممتاز محمود، نذیر احمد سندھڑ، گل بازار ایاز، عاشق دیوانہ، ارشاد گڈی، قادر عباس، سجاد بزدار، فرقت سوکڑی،سلینہ خان، نذر عباس،آصف لاہوری اور بہت سارے فنکا ر شامل ہیں۔ ان کی شاعری اور گیت و نگار ی زیادہ تر سرائیکی زبان میں ہے لیکن اس کے علاوہ پنجابی، اُردو بھی کمال مہارت رکھتے تھے۔شاعری میں جدّت پسندی کے قائل تھے اور بار ھا اُن کے کلام میں ایسے عنصر بڑی تقویت کے ساتھ اُجاگر دکھائی دیتے ہیں۔
ہجر دا پیش میکوں اے سفر پہلے دی ہئی
پہلی واری نئیں میڈا گھر ویران پہلے وی ہئی
ادبی، سیاسی اور سماجی خدمات کے سلسلہ میں 25 کے قریب مختلف ایوارڈ سے نوزا گیا۔جس میں اُن کی زندگی کا آخری ایوارڈ 2014ء بابت جنگی نغمہ ”میرے وطن یہ عقیدتیں“آپریشن عضب ISPR کی جانب سے ہے۔ایک سرائیکی شاعری تصنیف ”اکھیں بھالی رکھو“ اپنی وفات سے چند روز قبل شائع کروا کے اپنے دوست و احباب میں تقسیم کرتے رہے اور باقاعدہ تقریب رونمائی انکی رحلت کے بعد کی گئی۔خدمات کے ان اعتراف میں گورنمنٹ کالج لیہ میں منشی منظور کے نام کے اوپر ”خیابان منشی منظور“تعمیر کیا گیا اور حال میں ضلعی انتظامیہ لیہ نے کالج لنک روڈ کو منشی منظور روڈ کو ” منشی منظور روڈ “ کے نام سے موسوم کیا ہے جوکہ منشی منظور اور لیہ کے شعراء اور لیہ کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
کیا کریسن رئیس میڈ تے شہر د ے اے معتبر
میں تاں سولی تے وی چڑھ کے مسکراؤن جانڑ داں
اتنی کم عمری میں جس قدر عزت و شہرت ان کے نام ہوئی اسکی مثال بہت کم لوگوں حصّہ میں آتی ہے۔نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر گیت نگاری کے حوالہ سے ایک معتبر نام کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور یہ لیّہ تھل وسیب کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے کہ اس مٹی نے ہمیشہ اپنی کوکھ سے لازوال ان جیسے ہیروں کو جنا ہے۔28 جنوری 2015 ء کو ڈیوٹی پر جاتے ہوئے راستے میں حرکت قلب بند ہونے سے 53 سال کی عمر میں جان آفریں خالق حقیقی کے سپرد کری۔ہر ایک نے آخر اس دنیا کو چھوڑ کے لافانی عازمہ سفر ہونا ہے۔انسان مرتاہے مگر کردار اُسے لافانی بناتاہے ایسا ہی ایک کردار منشی منظور ہے جوہمیشہ ہمارے دلوں میں جان بن کر دھڑکتارہے گا۔
اَ ج وی اوندی راہ تے ایں آس تے بیٹھے ہسے
اومتا ں بھُل کے کڈاہیں مکھڑا ڈکھاون آونجے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com