گوئبلز کا پیروکار اور اے پی پی تنازعہ
جھوٹ کو سچ کرنا ایک مکمل آرٹ ہے اور آج کے دور میں وہی کامیاب ہے جسے یہ آرٹ آتا ہے۔ جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے پراپیگینڈے کے وزیر جوزف گوئبلز جھوٹ کو سچ کرنے کا گر جانتا تھا یہی وجہ ہے اس کا ایک مشہور قول تھا کہ ” جھوٹ کو اتنا بولا جائے کہ وہ سچ ہوجائے” مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ گوئبلز جو جھوٹ کو اس خوبصورتی سے لیپٹ کر عوام کے سامنے اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ عوام آنکھیں بند کرکے یقین لے آتے تھے۔
صحافتی تنظیموں کا بنیاد کوئی آج سے نہیں بلکہ متحدہ پاکستان سے اس کی بنیاد پڑی اور تب سے اب تک مختلف صحافتی تنظیمیں صحافیوں کے فلاح وبہبود کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں خوشی اس بات کی کہ اس پراسس میں کوئی تعطل نہیں آیا اور باقاعدہ ایک جمہوری پراسس سے اقتدار ایک فریق سے دوسرے فریق میں منتقل کیا جاتا رہا۔ اس پراسس میں بعض دفعہ مختلف گروپس ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ، گالم گلوچ کرتے یہاں تک کہ ہاتھا پائی بھی دیکھنے کو ملتی ہے مگر اسے بھی اسی جمہوری پراسس کا تسلسل سمجھاجاتا ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس پراسس میں کسی نے مداخلت کی ہو یا کسی کو مداخلت کی باقاعدہ دعوت دی گئی ہو۔
ایک آدھ دن سے سوشل میڈیا پر ایک ایف آئی آر گردش کررہی ہے اور جنہوں نے ایف آئی آر کرائی وہ کچوکے لگاتے پائے جارہے ہیں تو مجھے فراز کا وہ شعر یاد آیا کہ
میں آج اگر زدپہ ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
کیوں کہ جس ایف آئی آر کی ابتدا ہوئی ہے اب یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ کل کو کوئی بھی دوسرا اٹھے گا اور اٹھ کر مقدمہ درج کرادے گا۔ایف آئی آر پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں چند سوالات ابھرے میں ان سوالات کو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں
پہلا سوال کہ آپ کسی بھی صحافی کو ذاتی عناد کی خاطر”غنڈہ” کیسے لکھ سکتے ہیں؟
آپ کے پاس کون سا پیرامیٹر ہے جس میں آپ صحافی اور غیر صحافی کا فرق کریں؟
آپ ایک دن پہلے جس ایم ڈی کے” زندہ باد” کے نعرے لگا رہے تھے وہ اگلے ہی روز آپ کا دشمن کیسے ہوگیا ؟
آپ نے مقدمہ درج کرانے سے پہلے نیشنل پریس کلب (جس کے موصوف خود ممبر بھی ہیں ) میں کوئی درخواست گزاری کہ میرا معاملہ حل کیا جائے ؟
کیا جو اسی الیکشن کے نتیجے میں جیتنے والی یا سابقہ باڈی کے ہاں بھی کوئی درخواست گزاری؟
آپ کیسے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر صحافت کو بدنام کرنے پر لگ گئے۔ آپ نے مختلف یونینز کے عہدیداران کے پاس جا کر ہمدردی سمیٹی اور جھوٹ کو اتنا جھوٹ بولا اور تاثر دیا کہ یہ سب سچ ہے۔
حالانکہ جس ایم ڈی پر الزامات لگائے گئے ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اے پی پی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بعد 135 ملازمین کو نہ صرف کنفرم کر دیا بلکہ 40 فیصد اضافہ جو کئی سال سے زیر التوا دینے کا حکم جاری کیا۔
رہی بات رانا عمران لطیف کی تو ان سے اتنی تکلیف کہ انہوں نے نیشنل پریس کلب میں ان کا حمایت یافتہ گروپ کامیاب قرار پایا اور بالکل اسی طرح اے پی پی میں بھی ان کے گروپ نے اکثریت میں سیٹس جیتیں نواز دیوبندی نے کہا تھا
جو جھوٹ بول کے کرتا ہے مطمئن سب کو
وہ جھوٹ بول کے خود مطمئن نہیں ہوتا
گوئبلز نے ایک لمبا عرصہ جھوٹ کا سہارا تو لیا مگر وقت نے جھوٹ کو اس قدر بے نقاب کیا کہ گوئبلز کو اپنی اہلیہ اور چھ بچوں سمیت خودکشی کرنا پڑی۔
جھوٹ جتنا بھی پرکشش ہو مگر اس کا اختتام وہی ہوتا ہے جو گوئبلز کا ہوا کیوں کہ سچ جیت جاتا ہے۔
ایک وقت آئے گا کہ عوام دوست آفیسر کے طور پر محمد عاصم کھچی کا نام اور بطور شیر صحافت رانا عمران لطیف کا نام یاد رکھا جائے گا