لیہ کے چند ریٹائر ڈاکٹرز صاحبان
گورنمنٹ جاب اختیار کرنے والے خواتین و حضرات ریاست کی اولین کوشش ریاستی اکائیوں کی بلا امتیاز رنگ و نسل مذہب ملت علاقہ قصبہ خدمت انسانیت و پاکستان ہوتی ہے اس سفر کے دوران وہ خود اور ان کی فیملیز بھی ترقی کے منازل طے کرتے ہیں جبکہ ثانی الذکر میں اس سوچ و فکر کے حامل افسران اور ماتحت اہلکاران بھی ہوتے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کے لیے گورنمنٹ جاب کے علاوہ کوئی راستہ یا ذریعہ موجود نہ ہوتا ہے یوں وہ میرٹ پر پورا اترنے کی صورت میں یا پھر پرچی لے کر گورنمنٹ مشینری کا حصہ بن جاتے ہیں کسی بھی سوچ کے ساتھ افراد سرکاری ملازمت کا حصہ بنیں مگر ایک بات طے ہے کہ عمر عزیز کے 60 برس پورے ہونے پر ریٹائر ہونا پڑتا ہے ریٹائر کر دیا جاتا ہے چاہتے نہ چاہتے ہوئے سرکاری مشینری کا حصہ ہوتے ہوئے جو کروفر حصہ میں آتی ہے اخر کو ایک دن اس سے محروم ہونا پڑتا ہے سرکار نے کام کی نوعیت اور اہلیت و قابلیت کے حساب سے سرکاری ملازمین کی درجہ بندی کے لیے گریڈ ایک سے 22 تک مقرر کر رکھے ہیں سرکاری ملازمت کے دوران ایک افسر یا ماتحت کو کم و بیش 30 برس تک مختلف واقعات کا مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوتا ہے یا پھر اس کے ساتھ بیتتی ہے جسے کئی افسران نے اپ بیتی یا مشاہداتی سفر کے طور پر مختلف ناموں کے ساتھ کتابی شکلوں میں اپنی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے جن میں کئی کتابیں دوران ٹریننگ سرکاری افسران کو مطالعہ کے لیے فراہم بھی کی جاتی ہیں اور کئی کتابوں کی سٹڈی کا مشورہ دیا جاتا ہے ایسی بے شمار کتابوں میں قدرت اللہ شہاب صاحب کی شہاب نامہ سر فہرست ہے۔
چونکہ سرکاری ملازمین کی صف میں شامل ہونے والے ہر کسی کو ایک دن ملازمت سے ریٹائر ہونا ہوتا ہے صحافت کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے بارہا مرتبہ یہ بات دیکھی کہ ساتھی افسران ماتحت اہلکاران نے ریٹائر ہونے والے کے اعزاز میں شاندار تقاریب منعقد کیں مقررین نے گزرے لمحات کو خوبصورت الفاظ میں شیئر کیا ساتھیوں نے تحائف سے نوازا اور بہترین یادوں گڈ ورک کے احساس کے ساتھ ریٹائر پرسن کو گھر روانہ کیا جاتا ہے کئی ایک افسران اور ماتحت اہلکار ایسے بھی ریٹائر ہوئے جن کی ریٹائرمنٹ کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی الوداعی موقع پر یادگار تقریب کی روایت حاضر سروس ملازمین افسران کی زندہ دلی کا ثبوت ہوتا ہے اگر کسی وجہ سے یہ جذبہ کم ہوتا جائے تو آخر کار ریٹائرمنٹ کا دن حاضر سروس کے لیے بھی آن پہنچتا ہے۔ یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے کی ضرورت اس لیے بھی پیش ائی کہ ضلعی مشینری کی صف میں شامل سب سے مضبوط توانا اور معاشی اعتبار سے خود کفیل شعبہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنے ساتھی ڈاکٹرز اور ماتحت اہلکاروں کو ان خوبصورت یادوں کے سرمایہ جو محکمہ اور عوام کی خدمت کرنے کے سلسلہ میں یادگاری گفٹ کی شکل میں دیا جانا چاہیے تھا اس سے محروم رہ کر روانہ ہو گئے۔
ڈیئر فیس بک فرینڈز اور اہالیان لیہ اپ مندرجہ ذیل سے 100 فیصد اختلاف کر سکتے ہیں اپ کی رائے کا پیشگی احترام ،
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ سے بطور میڈیکل افسر پیشہ وارانہ زندگی کا اغاز کرنے والے ڈاکٹر سید مختار حسین شاہ اپنی بھرپور محنت کی بدولت ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب کے عہدے تک پہنچے اس دوران ای ڈی او ہیلتھ ملتان ایم ایس کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ ملتان ایم ایس ای ڈی او ہیلتھ لیہ سمیت کئی قابل ذکر ذمہ داریوں پر فائض رہے ڈاکٹر مظفر حسین اعوان ڈاکٹر سید غلام مصطفی گیلانی ڈاکٹر غلام مصطفی شیخ ڈاکٹر غلام سرور خان ڈاکٹر اقبال احمد خان ڈاکٹر ظفر اقبال ملغانی ڈاکٹر محمد یحیی ڈاکٹر ذیشان الحق مرزا ڈاکٹر لیاقت چودھری ڈاکٹر محمد ہاشم خان ڈاکٹر محمد انور چوہدری ڈاکٹر شاہین علی خان ڈاکٹر خالد نعیم ڈاکٹر محمد رمضان واندر ڈاکٹر محمد اقبال بھٹی اور حال ہی میں ای ڈی او سی او ہیلتھ لیہ ڈاکٹر ملک امیر عبداللہ سامٹیہ سمیت کئی ڈاکٹرز صاحبان ریٹائر ہو چکے ہیں متذکرہ بالا اپنوں کی بے اعتنائی کی نذر ہوے یہ ڈاکٹر صاحبان جن خدمات کے اعتراف میں سراہے جانے تھے اس کا حق ادا ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ محکمہ کی مثبت روایات کے عنقا ہونے کی پرچھاؤں نے ڈاکٹرز صاحبان کے ساتھ ساتھ پیرا میڈکس اور کلیریکل سٹاف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے سپرنٹینڈنٹ قیصر خان چانڈیہ قاضی محمد رفیق محمد حسین جہانگیر خان کھتران احسان اللہ سیال ملک محمد اکرم اور دیگر خاموشی کے ساتھ ریٹائر ہو گئے۔ البتہ کچھ عرصہ سے ایک نئی روایت نے جنم لیا ہے مثلا عہدے پر فائز ہونے والے افسران کو شاندار انداز میں ویلکم کرنا جن میں سی ای او ہیلتھ لیہ ایم ایس لیہ ڈاکٹر صائمہ بتول سمرا سی ای او ہیلتھ لیہ ڈاکٹر شاہد ریاض کو ماتحت ساتھیوں کی جانب سے بھرپور انداز میں خوش امدید کہا گیا ۔
وطن عزیز میں جس طرح ہر شعبہ ہائے زندگی کی مختلف مثبت تاریخی روایات اور قابل ذکر سلسلہ جات کے دم توڑنے کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح محکمہ صحت اس طرز عمل سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اگر ساتھ ہی ایک دوسرے کا خیال و احترام نہیں کریں گے تو کون کرے گا