روز اول سے حضرت انسان کی جبلت رہی ہے کہ وہ، کسی طور بھی تنہا نہیں رہ سکتا، اسے اپنے معاملات زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے ،اپنے معاشرے میں موجود دیگر لوگوں سے ربط قائم رکھنا ہی ہوتا ہے، لیکن ایک انسان کی زندگی میں اس کے خاندان کی مرکزی حیثیت ہوا کرتی ہے، والدین، بہن ،بھائی اولاد اور بیوی جیسے رشتے، خاندانی نظام میں اولین حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، زندگی میں ہر ایک رشتے کی اپنی جگہ اور اہمیت ہے، والدین ،بہن بھائی اور اولاد ایسے رشتے ہیں کہ، جن سے اختلاف ہو بھی جائے تو، رشتہ ٹوٹنے کا خدشہ اور احتمال نہیں ہوا کرتا، ان رشتوں میں اگر اونچ نیچ ہو بھی جائے تو، معاملات سلجھانا قدرے آسان ہوا کرتا ہے، لیکن خاوند اور بیوی کا رشتہ جس قدر اہم ہوتا ہے اتنا ہے حساس بھی ہوا کرتا ہے۔
جہاں یہ رشتہ نہایت خوبصورت اور خوش گوار ہوتا ہے، تو دوسری جانب اس رشتے میں علیحدگی بھی بہت برق رفتاری سے رونماء ہو سکتی ہے۔
آج کے اس پر فتن دور میں تو میاں بیوی کا رشتہ مزید مشکل ہوتا چلا جا ریا ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ پاکستان میں خاندانی نظام بہت تیزی سے زوال پزیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور موبائل فون کے بے تحاشا استعمال نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے، بڑے بزرگوں سے سنا ہے کہ، زمین میں دو جوڑوں کے درمیان ہونے والی علیحدگی یا طلاق عرش ہلا دینے کے مترادف ہوا کرتی تھی، ویسے بھی طلاق رب کائنات کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔
مگر آج تو طلاق جیسے ایک فیشن کی صورت اختیار کر گئی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے، پاکستان میں گزشتہ چند عشروں میں طلاقوں کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،
دو لوگوں کے مابین اختلاف ایک فطری عمل ہے، مگر اختلافات کو بنیاد بنا کر رشتے کو ختم کر دینا کسی طور بھی کو معقول حل نہیں ہے، ایک دور میں شادی کو ایک حسین اور محبت بھرا بندھن مانا جاتا تھا ،مگر بدقسمتی سے آج کل شادیاں ایک بزنس ڈیل کی صورت اختیار کر چکی ہیں، دولہا والے بے دھڑک جہیز کا تقاضا کرتے ہیں تو دوسری جانب دلہن والے نکاح نامے میں بھاری شرائط لکھوا کر، اس رشتے کے حسن کو گہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، پہلے اگر میاں بیوی میں اختلافات ہوا کرتے تھے تو ان کے عزیز و اقارب ان کے درمیان صلح کروا کر معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کیا کرتے تھے، مگر آج کل تو معاملات اس کے برعکس ہیں، اب اگر میاں کے مابین اختلاف ہو جائے تو اکثر نوبت عدالت یا طلاق تک آن پہنچتی ہے،
اور اگر یہ معاملہ ایک بار عدالت تک پہنچ جائے تو بس پھر اس کا سلجھنا ناممکن ہی ہو جاتا ہے، ہمیں اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارا معاشرے میں مرد، عورت کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہے ،اسی لیے تو مردوں کا معاشرہ کہلاتا ہے، لیکن یہ بات بھی قصہ پارینہ بن چکی ہے،
قانون کے حوالے سے سب بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ،
No one is above the law
مگر بات جب فیملی کیسز کے حوالے سے کی جائے تو، قانون کی نظر میں نکاح یا شادی کے ٹوٹنے کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف مرد پر ہی عائد ہوتی ہے،
عائلی قانون، جسے کبھی کبھی قانونِ شادی بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا قانون ہے جو خاندانی معاملات اور گھریلو تعلقات سے جڑا ہوتا ہے طلاق کے معاملات اسی قانون کے تحت طے پائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس قسم کی جانبدارانہ فیملی قانون سازی کی گئی ہے کہ جس میں مرد کے حصے میں صرف ذلت اور نقصان ہی آتا ہے، میاں بیوی میں طلاق ہو جانے کی صورت میں مرد کو بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اور اگر وہ مالی طور پر غیر مستحکم ہے اور وہ سزاء کے طور پر عائد کردہ رقم کی ادائیگی نہ کر پائے تو اسے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہوتی ہیں، جن میاں بیوی میں طلاق ہو رہی ہو اور ان کے بچے موجود ہوں تو ،ان بچوں میں لڑکے کی کفالت بلوغت تک اور لڑکی کی کفالت اس وقت تک جب کہ اس شادی نہ ہو جائے وہ مرد یعنی باپ کی ذمہ داری ہے، اسے بے شک خود کو پیچ کر ہی کیوں نہ کرنا پڑے یہ فرائض ادا کرنا ہی ہوتے ہیں بصورت دیگر کم از کم جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے، اب سوال یہ بنتا ہے کہ قانون کی نظر میں تو سب برابر ہیں تو پھر، فیملی قوانین میں مرد کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا برتاؤ آخر کیوں ۔۔۔۔
آج بھی اس ملک کی لگ بھگ تمام جیلوں میں ہزاروں مرد، طلاق کے مقدمے میں جرمانے اور نکاح نامے میں عائد کردہ بھاری شرائط کی رقوم اداء نہ کر سکنے کی پاداش میں قید کاٹ رہے ہیں ،یہ کیسا انصاف ہے، میرے ایک وکیل دوست فہد احمد صدیقی جو کہ ملک کے مایہ ناز قانون دان ہیں اور بچے کی حوالگی کے قوانین میں اصلاحات کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہیں ،انہوں نے ایک شہرہ آفاق کتاب
Shared Parenting
لکھی ہے، جس نے بہت پزیرائی حاصل کی، ان کا کہنا ہے کہ، بچوں پر باپ کا بھی اتنا ہی حق ہے کہ جتنا ماں کا حق ہے تو پھر ، والد کو اپنی ہی اولاد سے ملنے کے لیے دنوں کا انتظار کروانا انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے۔
ایک ماہر قانون کے طور پر فہد احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ، ہمارے ہاں فیملی سے متعلقہ قوانین میں مرد کے ساتھ کیا جانے والا سلوک انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔فہد صدیقی مزید یہ کہتے ہیں کہ طلاق و علیحدگی مابین زوجین ہوا کرتی ہے ناکہ مابین والدین ، دونوں والدین تک مساوی رسائی نابالغ کا بنیادی حق ہے اس چیز سے ہٹ کر کہ اسکے والدین کے درمیان کیسا رشتہ ہے۔ اسلیئے ہمیں اپنے عائلی نظام انصاف کی اوورہالنگ کی اشد ضرورت ہے ، مستعمل نظام میں نان کسٹوڈیل پیرنٹ جو کہ اکثر باپ ہوتے ہیں کو عدالت فقط دو گھنٹے کی ماہانہ احاطہ عدالت کی ملاقات کا حق عطا کرتی جس کے سبب نابالغ کی آپنے نان کسٹوڈیل پیرنٹ سے قلبی تعلق استوار نہی ہو پاتا اور باپ کو تا عمر اپنے بچے کا ماہانہ خرچ ادا کرنے کے باوجود قلبی جدائی کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اس لیئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں شیرڈ پیرنٹگ کے اصول کو نافذ کرتے ہوئے نابالغان کی کسٹڈی وغیرہ کی مقدمہ بازی کا فیصلہ کرنا چاہیئے
طلاق اور علیحدگی ایک نہایت تکلیف دہ امر ہے، جس میں میاں اور بیوی دونوں ہی ذمہ دار ہوا کرتے ہیں،اس ایک سب سے بڑی وجہ معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت ہے، قانون اور قانون سازی کا مطمع نظر اصلاح احوال ہوا کرتا ہے، اگر ہم نے پاکستانی معاشرے کو بچانا ہے تو، ماہرین قانون اور قانون سازی کرنے والوں کو فیملی/عائلی قوانین کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا اور کوئی ایسا طریقہ وضع کرنا ہوگا کہ جس سے ہر دو مرد و خاتون کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ، وہ اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کے لیے، اپنے رشتے کو بچائیں،
اگر خدانخواستہ طلاق کے بغیر چارہ ہی نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں قانون مرد اور عورت دونوں کو برابری کی بنیاد پر سزا و جزا کا پابند ٹھہرائے تاکہ معاشرے میں توازن کی فضاء کو قائم رکھا جاسکے اور کسی ایک طبقے کا استحصال بھی نہ ہو