تھلوچی ثقافت کا مجسم روپ
لیہ دھرتی کا ایک روشن ستارہ جسے زمانہ خضر کلاسرا کے نام سے جانتا ہے وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور پاکستان کے دارالخلافہ (اسلام آباد)میں ایک عرصہ سے مقیم ہیں.
یقیناً پاکستان کا دارالخلافہ سر سبز و شاداب ہونے کے ساتھ ساتھ شاہی عادات و اطوار کا مرکز ہے. یہاں کا ماحول اپنے اندر لیے مخصوص بلندی اور عظمت کو یہاں بسنے والے ہر باسی پر اپنا اثر مرتب کرتا ہے. یہاں تک کہ رویوں سے لے کر لہجہ تک اور لباس سے لے کر انداز تک میں ایک خاص بے نیازی اور بدلاؤ پیدا کر دیتا ہے. فضائے بسیط میں ایک خاص ٹھہراؤ اور موسمِ قلوب پر گلوں کی تازگی اور خوشبو سے بہار ایسی کیفیت طاری کر دیتا ہے.
ایسے سر سبز و شاداب شہر میں جہاں پہاڑوں کی بلندیاں بھی حسن و ترتیب کے رنگین پیراہن میں ملبوس سلیقہ مندی اور پرندے اپنے مدھر گیتوں میں ایسا توازن پیدا کیے رہتے ہیں کہ کسی بھی خوش سماعت شخص کے کانوں پر ان کا گایا ہوا گیت گراں نہ گزرے. جہاں صرف جہازوں کی پروازیں اوقاتِ کار، رستوں اور بلندی کی پابند نہیں بلکہ طائرانِ خوش گلو و آذاد بھی اپنی فطری اڑان میں ایک اندازِ سلیقہ اور طریقہ اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں.
ایسے شہرِ اختیار و اقتدار میں ایک انوکھا اور دل نواز شخص (زمانہ جسے خضر کلاسرا کے نام سے جانتا ہے)اپنے فطری حسن، رنگِ ثقافت، وسعتِ قلبی، نگاہِ چشم بھاری پلکوں تلے تیز اور دور تک دیکھتی ہوئیں، میزبانی میں کھلے در اور کھلتی جبیں کے ساتھ مہکتی ڈالیوں کی طرح پھیلتی بانہوں اور سورج کی زمیں پر بپا ہونے والی سنہری اور روشن دھوپ ایسی مسکراہٹ لبوں پر سجائے، چال میں ایک مخصوص دریائی بہاؤ لیے، جسم، زبان اور لبوں پر صحرائے تھل کی وسعت اور خامشی کی چادر اوڑھے، اپنے ہر انگ سے صحرائے،تھل کے بسنے والوں کی محرومیوں کو زبان دیتا ہوا
ہزارہا سالوں سے معلوم تاریخی اور تہذیبی ورثہ جو سادگی، امن، محبت، وسائل، زمینی و آسمانی صحائف اور پیمبروں، سورماؤں، سادھوؤں، ولیوں، سنتوں، فقیروں کی کشادہ نظری اور اعلیٰ ظرفی لیے مسجدوں کے قدس کو طہارتا اور مندروں کی گھنٹیوں پر پوترتا کے ساز من اور میت سے آراستہ کرتے ہوئے، اپنے بنا صفیل اور قدرتی ذخائر سے مالا مال شہرِ دل میں خوش آمدید کہتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں نشیب کی نمی میں موجود مٹھاس اور تھل کے دامن میں موجود سمندروں سی گہرائی رکھنے والے ریت اور راز سنبھالے ذرات اپنی روح کی دھرتی پر ہمیں پورے اخلاص کے ساتھ اتار لیتے ہیں..
خضر کلاسرہ ایک شخص نہیں بلکہ اپنے اندر ایک پوری شخصیت بلکہ یوں کہا جائے کہ ایک مکمل دنیا ۔ایک ایسی دنیا جس کا دین محبت ہے، جس کی زمین سونا اگلتی ہے، ایک ایسی دھرتی جس کی دھوپ مفید اور سایہ سکوں آور ہے.
دنیا بھر کے مختلف ممالک کی یاترا کرنے اور صحافتی دنیا کے اعلیٰ عہدے اور اعزازات سے لطف اندوز ہونے کے باوجود خضر کلاسرا صحرائے تھل کا تھلوچی ہی رہا. ایک پکا تھلوچی جو کہ ہمیشہ تھل کی تہذیب و ثقافت لیے پھرتا ہے اور ہر نئے آنے والے تھلوچی کو شہر اقتدار میں خوش آمدید کہتا اور نئی راہیں دکھاتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ واحد صحافی ہے جس نے تھل کا مقدمہ بڑی شدومد سے لڑا اور سماج نے خصوصا تھل نے بھی خضر کلاسرا کو اتنا ہی مان اور عزت بخشی ۔
دیارِ حُسن میں تجدیدِ عاشقی کے لیے
ہم ایسے لوگ ضروری ہیں ہر صدی کے لیے
خضر کلاسرا ایسے لوگ واقعی صدی کے لیے ضروری ہیں۔ خدا تعالی ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین