میں 90 کی دھائی میں پنو عاقل میں بطور کرنل تعینات تھا۔ کچے کے علاقوں کے ساتھ ساتھ پکے کے علاقوں پر بھی ڈاکوؤں کا راج تھا۔ قومی شاہراہ بھی محفوظ نہ تھی۔ میری یونٹ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی۔ بسیں، کاریں، گاڑیاں غرض پوری ٹریفک دونوں اطراف میں صادق آباد اور خیر پور کے قریب روک لی جاتی تھی اور پھر فوج اور رینجرز کی نگرانی میں قافلے کی صورت میں انہیں ایک طرف سے دوسری طرف پہنچایا جاتا تھا۔
آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی قابل ذکر تعداد کو جہنم واصل کیا گیا اور یوں ان کا قلع قمع کر دیا گیا۔
سیاسی دوست برا نہ منائیں تو اس وقت کی تلخ اور دردناک حقیقت کا ذکر کرتا چلوں۔
وہ سندھ کے امن پسند اور نہتے عوام کے لئے برا وقت تھا۔ کراچی شہر ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے نرغے میں تھا تو اندرون سندھ کے جنوبی اضلاع کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر تھے۔
پیپلز پارٹی نے جہاں ایم کیو ایم کی دہشت گردی ختم کرنے میں ایک قابل تحسین کردار ادا کیا۔ وہاں حیران کن حد تک اندرون سندھ ڈاکوؤں کی سرپرستی بھی کی۔
جب بھی تحقیق کی جاتی تھی تو زیادہ تر ڈاکووں کے پتھاریدار پیپلز پارٹی کے وڈیرے، وزیر، راہنما اور ممبران اسمبلی نکلتے تھے۔
یہاں تک کہ بعض معاملات میں پولیس کے افسران ملوث نکلے۔ چنانچہ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے وقت نہائیت رازداری کی ضرورت پڑتی تھی۔ بعض اوقات پولیس میں موجود ان کے بھائی بند ان کو پہلے سے ہی خبردار کر دیتے تھے اور ہمارا آپریشن ناکام ہو جاتا تھا۔ اس طرح کا ایک قابل ذکر واقعہ کندھ کوٹ اور غوث پور کے علاقے میں پیش آیا تھا۔ جہاں (پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکار) مخبر کی نشاندہی ہماری فارمیشن کی انٹیلیجنس کے ایک ذہین صوبیدار نے کرکے اس کو قرار واقعی سزا دلوائی تھی۔ لیکن اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔
چوتھائی صدی گزر گئی۔ بدقسمتی سے پرنالہ آج بھی وہیں کا وہیں ہے۔
9 سے زیادہ پولیس اہلکار شہید کردئیے گئے ہیں۔ اور مزید کئی زخمی ہیں۔ ان کے گھروں میں قیامت برپا ہو چکی ہے۔ ان کے خاندان اجڑ گئے ہیں اور درجنوں بچے یتیم ہو گئے ہیں۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتیں ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ دراصل وہ اس کام میں کبھی بھی سنجیدہ نہی رہیں۔
اب پھر پنجاب اور سندھ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ سیاسی وابستگی رکھنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے محبوب راہنماؤں سے التجا کریں کہ وہ کچے کے ڈاکوؤں کے سر سے اپنا دست شفقت اٹھا لیں تاکہ مزید قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں اور مزید بچے یتیمی کے رنج و غم اور اندھیروں میں گم نہ ہوں۔