کالم

پاکستان کی ساکھ کا بڑا مسئلہ

رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس

پاکستان اپنے ابتدائی دنوں میں پرکشش ملک تھا، جہاں ایک اچھا معاشرہ اور معیشت ترقی پزیر تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کی فضائی کمپنی کا شمار دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ لیکن اب یہی فضائی کمپنی دہائیوں میں تقریباً ایک ہزار ارب روپے کے نقصان کی وجہ سے اگلے ماہ نیلام کیے جانے کی توقع ہے۔
قومی ایئرلائن کے اس زوال کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کا سبب وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ مسئلہ حل کرنا تھا۔
اپنے قیام کی دوسری دہائی کے آخر تک پاکستان کی اقتصادی ترقی ہمسایہ ملکوں سے زیادہ تھی اور اس کی صنعتی ترقی کی رفتار نوآبادیاتی دور کے بعد معرض وجود میں آنے والے کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔
پاکستان پرامن ملک تھا جس کی آبادی آج کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ زراعت اور صنعتی ترقی کے لیے کافی آبی وسائل موجود تھے۔
70 کی دہائی کے آخر تک دنیا بھر کے ہزاروں سیاح، خاص طور پر یورپی ممالک سے بازاروں، ثقافتی مقامات پر اور پہاڑی ٹریلز پر نظر آتے تھے۔ لیکن اب یہ صورت حال نہیں۔
روزمرہ کے واقعات اور کہانیاں جو قومی میڈیا پر پیش کی جاتی اور دنیا بھر میں پھیلائی جاتی ہیں وہ ایک ایسی ریاست اور معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں جو مشکل میں ہے۔ اگر مکمل انتشار، بدنظمی اور لاقانونیت کا شکار نہیں بھی تو۔
ان مسائل کی جڑیں ملک کی متنازع سیاسی تاریخ میں ہیں، جہاں جھگڑے، اشرافیہ کی بدعنوانی اور تشدد پسند انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر موجود ہے۔
ملک نے پچھلی نصف صدی میں شورشیں، سیاسی تشدد اور داخلی انتشار کا سامنا کیا ہے۔ اگر آپ 1974-77 کی شورش کے سالوں کو بھی شامل کریں تو۔
اس دہائی کے آخر تک جان بوجھ کر سرد جنگ کی دوسری لہر (1980-88) میں شامل ہونے سے امن، روح، اقدار اور ہم آہنگی و رواداری کی ثقافت ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
جب بڑی طاقتیں افغان منظر نامے سے دور گئیں تو افغانستان اور پاکستان کو ایک ایسی بے رحم جنگ کے انسانی، سماجی، اور سکیورٹی اثرات کا سامنا کرنا پڑا جو کبھی تیسری دنیا کے ملک میں لڑی گئی۔
تبدیلی اور تعمیر نو ممکن تھی، لیکن جن لوگوں نے تیسرے مارشل لا کے خاتمے (1977-88) کے بعد قیادت سنبھالی وہ بے کار، بدعنوان، عوامی جذبات سے کھیلنے والے اور سیاسی حریفوں کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے خفیہ طاقتوں کی مدد سے گندے تنازعے میں مصروف رہے۔
ایک دہائی سیاسی جھگڑوں میں گزر گئی جس سے ریاست کی حکمرانی کی صلاحیت میں کمی آئی۔ پھر ایک اور جنرل، پرویز مشرف نے ’نئے پاکستان‘ کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا جو سماجی طور پر لبرل، اعتدال پسند، مستحکم، اور خوشحال ہونے کا دعویٰ کرتا تھا لیکن دراصل اس کا مقصد چوتھی بار طاقت کو فوج کے حوالے کرنا تھا۔
اور پھر امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے ایک ایسے ردعمل کو جنم دیا، جس کا سامنا ہر آنے والی حکومت کو کرنا پڑا۔
یہ صورت حال حکومتوں کے لیے مشکل، مہنگی اور ایسا مسئلہ بن گئی جس کا حل ممکن نہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے تانے بانے مذہبی، سماجی بحث، نسلی شکوے اور اشرافیہ کے درمیان بے انتہا سیاسی تنازعات میں جا ملتے ہیں۔ یہ صورت حال عدم برداشت، انتہا پسندی اور تشدد کو ہوا دیتی ہے۔
ماضی قریب میں ہم نے بڑے شہروں کی سڑکوں پر مبینہ ڈاکوؤں کی بے رحمی سے اموات ہوتی دیکھیں اور ایسی کامیابیوں کا جشن مناتے ہوئے لوگوں کو دیکھا۔
پولیس نے اپنی تحویل میں توہین رسالت کے ملزموں کی جان لی اور مشتعل لوگوں نے تھانوں پر حملے کرکے ان ملزموں کو باہر نکالنے کے بعد جانوروں کی طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔
جب مجرموں کے لیے قوانین موجود ہیں تو پھر معاشرے کے لوگ خود کیوں الزامات عائد کرتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں اور سزائیں دیتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پولیس، عدلیہ اور سب سے بڑھ کر آپس میں لڑتی ہوئی سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد ہے۔ خواتین اور اقلیتوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔
اقلیتیں اور خواتین کسی بھی معاشرے میں سب سے کمزور طبقات ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آج کے دور میں آزادی، انصاف اور برابری کے سوالات کے ماحول میں عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ سے کبھی دور نہیں رہتے۔
کسی زمانے میں پاکستان کی ساکھ ایک متحرک معاشرے کی تھی۔ معاشرہ رنگا رنگ تنوع، فنون لطیفہ، مثال کے طور پر شاعری، لوگ اور صوفی موسیقی میں تخلیق کے عمل مصروف تھا۔
گلوکار نصرت فتح علی نے، وادی سندھ اور گندھارا تہذیب کے وارثوں نے ملک کو عالمی سطح پر مثبت انداز میں پیش کیا۔
لیکن پھر اشرافیہ کی بدعنوانی، لڑائیوں، اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی جوڑتوڑ، ریاست کی حکمرانی اور انتہا پسند گروپوں کو لگام دینے کی کمزور پڑتی صلاحیت نے اس ساکھ کو گہنا دیا۔
ناکامیاں مزید ناکامیوں کا سبب بن رہی ہیں۔
رسول بخش رئیس لمز لاہور کے شعبہ ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’اسلام، قومیت اور طاقت کی سیاست: پاکستان کی قومی شناخت کی تعمیر‘ (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2017) ہے۔
نوٹ: یہ کالم اردو انڈیپنڈنٹ سے لیا گیا جس پر ادارہ انڈیپنڈنٹ اردو کا شکر گزار ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com