پنجاب کو پنج آب پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں کی سونا اگلتی زمین ، ندی نالے، اونچے نیچے درخت اور ہر ایک سو کلومیٹر بعد بدلتی زبان و لہجہ ، روایات، ثقافت ،رہن سہن بھی ہیں آپ شمال سے مشرق چلیں تو کشمیری ، بیاری، پوٹوھاری، سرائیکی ، سندھی بلوچی زبانیں ملیں گی جو کہ دریا سندھ کے ساتھ چلتی رہیں گی اسی طرح آپ کسی ایک کونے سے شرقاً غرباً رخ کر لیں تو آپ کو بلوچی، تھلوچی ، جھنگوچی، پنجابی اور لاہوری ثقافت کا حسین امتزاج ملے گا ۔ ہندوستان سے پہلے پنجاب میں جوپانچ دریا تھے ان میں بیاس ، ستلج، راوی ،جہلم اور چناب بہتے تھے جس کی وجہ اس علاقے کو پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا تھا جس کے بعد علاقہ تھل کا صحراء ہے اور بعد میں دریا سندھ بہتا ہے اور اپنے اردگرد بہت سی قوموں ، روایتوں، زبانوں کو سموئے ہوئے ہے۔
دریا سندھ کی ابتدا تبت کے علاقے میں مانسروور جھیل کے قریب سے ہوتی ہے۔ اسے سنسکرت میں "سندھو” کہا جاتا ہے اور انگریزی میں "Indus”۔ یہ دریا تبت کے علاقے میں واقع سِن کاآب کے قریب سے نکلتا ہے اور پھر شمال مغربی ہندوستان (موجودہ جموں و کشمیر) میں داخل ہوتا جاتا ہے یہ علاقہ بھارت کے کنٹرول میں ہے اس پہاڑی علاقوں سے گزرتا پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا خیبر پختونخوا میں داخل ہوکر دریا دریائے کابل سے آ ملتا ہے۔پنجاب کے موجودہ علاقوں اٹک کے مقام سے میدانی علاقے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں سے دریا سندھ کا میدانی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اٹک کے بعد، دریا سندھ پنجاب کے میدانی علاقوں سے گزرتا ہوا مختلف اضلاع جیسے میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، اور پھر صوبہ سندھ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اٹک سے پنجاب کے میدانی علاقوں میں داخل ہونے کے بعد، دریا سندھ کا پانی زرعی زمینوں کی آبیاری کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ نہری نظام کا ایک اہم حصہ بن جاتا ہے، جو کہ پاکستان کی معیشت اور زراعت کے لیے نہایت اہم ہے۔
پنجاب کے مختلف اضلاع سے گزرتا ہے اور پنجند کے مقام پر جہاں پنجاب کے پانچ دریا (جہلم، چناب، راوی، بیاس، ستلج) ملتے ہیں کے کچھ فاصلے پر مل جاتا ہے اور پھر دریا سندھ پنجاب سے نکل کر صوبہ سندھ میں داخل ہوتا ہے اور سکھر، حیدرآباد اور ٹھٹھہ کے علاقوں سے گزرتا ہوا وسیع ڈیلٹا
بنا دیتا ہے جو کہ کئی چھوٹی چھوٹی نہروں اور شاخوں میں تقسیم ہو کرکراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر ختم ہوتا ہے۔ دریا سندھ چونکہ اب پاکستان کا ایک بہت بڑا دریا ہے اور وسیع تر علاقے کو سیراب کرتا ہے کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے دریا سندھ پاکستان کے لیے زندگی کی ایک اہم شاہ رگ ہے۔ یہ نہ صرف زرعی زمینوں کی آبپاشی کرتا ہے بلکہ صنعتی اور گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی فراہم کرتا ہے۔ اس دریا کے کنارے کئی اہم شہروں کی بنیاد رکھی گئی ہے اور یہ ہزاروں سالوں سے اس علاقے کی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔دریا سندھ کی کل لمبائی تقریباً 3,180 کلومیٹر (1,976 میل) ہے۔ یہ لمبائی دریا سندھ کو جنوبی ایشیا کے طویل ترین دریاؤں میں سے ایک بناتی ہے۔
دریا سندھ پاکستان کے مختلف علاقوں پر اہم اثرات مرتب کرتا ہے، اور تھل کے علاقے میں اس کے اثرات اور نمایاں ہیں۔ تھل ریجن (میانوالی، بھکر، خوشاب، جھنگ، لیہ ،کوٹ ادو، مظفر گڑھ) جو کہ زیادہ تر صحرائی علاقہ ہے میں دریا سندھ کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ دریا سندھ سے نکلنے والی نہریں تھل کے علاقے کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں، جس سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ پانی کی دستیابی سے کاشتکاری ممکن ہوتی ہے تھل کے علاقے میں پینے کے پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے، جو کہ انسانی بقا کے لیے ضروری ہےنہروں اور کنوؤں کے ذریعے مقامی آبادی کو صاف پانی دستیاب ہوتا ہے۔دریا سندھ میں پانی موجودگی علاقہ تھل میں زیر زمین پانی کی سطح کو بلندرکھتی ہے اور زمینی پانی میٹھا رہتا ہے دریا سندھ کی موجودگی ہمارے علاقہ تھل میں ماحولیاتی نظام کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے دریا کے کنارے اور نہری نظام کے ذریعے بننے والے چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر علاقے کی ماحولیاتی بحالی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔نباتات اور جنگلی حیات کے لئے مسکن فراہم کرتے ہیں۔ دریائی علاقوں میں پودوں کی بہتات سے جنگلی جانور کی بہتات رہی ۔ مفید اثرات کے ساتھ اس کے نقصان دہ اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ دریا سندھ میں سیلاب آنے کی صورت میں تھل کے علاقے میں بھی سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے، جو کہ زمین، فصلیں اور املاک کو نقصان پہنچا سکتا ہے سیلابی پانی مٹی کے کٹاؤ اور زمین کی ساخت میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔دریا سندھ کے پانی کی تقسیم میں مسائل اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تھل میں پانی کی قلت بھی ہو سکتی ہے۔پانی کی کمی سے زرعی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور پینے کے پانی کی فراہمی میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
دریا سندھ تھل کے علاقے کی معاشرتی اور معاشی زندگی کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس کے مثبت اور منفی اثرات کو سمجھنا اور ان کے مطابق حکمت عملی تیار کرنا وقت کی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کا دریا سندھ میں سیلاب کی شدت پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو موسمیاتی نظام میں بھی تغیر وتبدل ہوتا جو سیلاب کی بڑھتی ہوئی تعداد اور شدت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عالمی ، ملکی اور علاقائی سطح پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے بارش کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ شدید بارشیں اکثر سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ اور دریا سندھ میں شمالی علاقہ جات میں بارشوں سے پانی بہتا ہوا میدانی علاقوں میں پہنچتا ہے دوسرا کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں بارشوں نے سیلابی ریلا کا رخ اختیار کرلیتے ہیں اور جب یہ دریا سندھ میں گرتے ہیں تو پانی کا رخ مشرقی کنارے ا پہنچتا ہے جو کہ سیلاب کے ساتھ دریائی کٹاو میں شدت اختیار کر جاتا ہے تھل کے علاقہ بھکر ، کروڑ لعل عیسن ، لیہ کا نشیب اور کوٹ سلطان کے نشیبی علاقوں میں سابقہ دو تین سالوں میں ہزاروں ایکڑ رقبہ دریائی کٹاو کا شکار ہو چکا ہے اور درجنوں بستیوں سمیت ہزاروں گھر دریا برد ہوچکے ہیں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یہ پانی دریا سندھ میں بہہ کر ان کی سطح بلند کرتا ہے، جو کہ ہمارے علاقہ تھل میں سیلاب کا باعث بنتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ شدید موسم کے واقعات، جیسے طوفان اور ہیٹ ویوز علاقہ تھل میں زیادہ ہو جاتے ہیں۔ جس سے علاقہ تھل شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور ہیٹ ویوز کے باعث سکولوں میں بچوں کو شدید مشکلات ہیں تو کسانوں کو فصلات کی کاشت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے دریا سندھ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے دریائی علاقوں سے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں جس سے شہری آبادی میں بے ہنگم اضافہ ، وسائل میں کمی کے باعث روزگار کی تلاش میں روزانہ کی بنیاد پر شہر کی طرف نقل و حمل سے گاڑیوں کا شور ، آلودگی ، دھواں بڑھ رہا ہے یہ تمام عوامل مل کر روزمرہ کے معاملات کی شدت اور تعدد میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، جو کہ انسانی آبادی، بنیادی ڈھانچے اور ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس لیے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور دریا سندھ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے موثر حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔ دریا سندھ کا موسمیاتی تبدیلیوں میں کردار پر ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ ہمیشہ سے ہی حکومتی مشینری سے ہی ممکن ہے ادارے دریا سندھ میں موسمیاتی تغیر و تبدل سے رونما اثرات تھل پر بھی پڑتے ہیں لیکن وسائل کا رخ بڑے شہروں سے موڑ کر تھل کے علاقوں کی طرف لائیں تاکہ بڑے شہروں میں اسکے مزید اثرات بڑھنے سے کم ہو سکیں۔