"ہم محبت کا دن منائیں گے”
اس کرہ ارض پر انسان نے امن کی ہر کوشش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشت و خون کی ایک درد ناک تاریخ رقم کی، ایسے میں محبت کے تمام مواقع اپنی قدرومنزلت کھو بیٹھے اب ہماری جواں ہوتی نسل کو محبت کے مفہوم کا ادراک بھی نہیں رہاایسے میں ہم اُنھیں کیسے باور کروائیں کہ محبت زمین سے آسمان تک انگنت رنگوں کا مجموعہ ہے۔ یہ پھول، یہ تتلیاں اور جگمگاتے جگنو محبت کا استعارہ ہیں مگر ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہیں جہاں "محبت” کو گالی اور "تشدد "کو محترم جانا جاتا ہے، جہاں لگے بندھے اور فرسودہ خیالات سے وقت گزاری کو، "زندگی” کا نام دیا جاتا ہے، جہاں پچھلے سات دہائیوں سے زائد عرصہ میں سب سے زیادہ کشتے بکتے ہوں، جہاں تعویز گنڈوں سے تقدیریں سنوارنے کا کام لیا جاتا ہوں، جہاں اکثریت منبر و محراب سے نفرت اور تشدد کے واعظ ہوں، جہاں کم عمر بچوں سے ریپ معمول ہوں، جہاں ذاتی رنجشیں مٹانے کے لیے اور لوگوں کو نیچا دیکھانے کے لیے ہر حد تک جایا جا سکتا ہو، جہاں کوئی بھی باپ اپنے بچوں سے اور بچے اپنے باپ سے محفوظ نہ ہوں، جہاں دولت ہی رشتوں کے معیارات طے کرے، جہاں رشتوں کی بنیادیں جھوٹ پر رکھے جانے پر لوگ شرمندہ نہ ہوں ، جہاں اپنے نیچ مقاصد کے لیے لوگوں کے بھروسے توڑے جاتے ہوں،جہاں گلے بھی ملنا ہو اور اندر سے نفرت ہو، جہاں بقول منٹو”کوٹھا چلانے کی اجازت تو ہو مگر ٹانگہ چلانے کی نھیں” جہاں بچیوں کو ونی کردیا جاتا ہوں، جہاں خاندانوں کے صلح کے لیے بچیوں کے ارمانوں کے جنازے نکالے جاتے ہوں، جہاں ظلم و ستم معمول اور جھوٹ و فریب زندگی کا حصہ ہو، جہاں کسی بھی رشتہ کی قدر نہ ہو ایسے میں اگر کھیں کوئی محبت کی بات کرتا ہے امن و آشتی کو اپنی زندگی کا مقصد گردانتا ہے تو وہ اس عہد کا بڑا انسان ہے،کیوں کہ محبت ہی وجہ تخلیق کائنات ہے اس کا پرچارک خدا کا پرچارک ہے اس کی نفی خدا کی نفی ہے۔ کاظم حسین کاظم نے کہا تھا
میں بارگاہ خدا میں نماز لے کے گیا
خدا نے صرف یہ ہوچھا بتا محبت کی
میرا تو ماننا ہے کہ حضرت حسان بن ثابت کی نعت، میر درد کی حمد، سید وحید الحسن ہاشمی کی منقبت، انیس و دبیر کا مرثیہ، علامہ اقبال کی مثنوی،ساحر لدھیانوی کا گیت، ساغر جیدی کی رباعی، حالی کی مسدس، انور مسعود کا قطعہ، ادریس بابر کا عشرہ،اقبال سوکھڑی کی غزل،رفعت عباس کے فردیات، احمد خان طارق کا ڈوہرہ،محسن نقوی کا مرثیہ، کاظم کا نوحہ،خواجہ غلام فرید کی کافی ۔۔۔
ناطق کے ناول، احمد ندیم قاسمی کے افسانے، شمس الرحمان فاروقی کی تنقید، روف کلاسرا کے کالم، فرحت اللہ بیگ کے خاکے، سرسید کے انشائیے، مبشر علی زیدی کی کہانی، امجد اسلام امجد کے ڈرامے، مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے سب محبت کے مختلف روپ ہیں۔
میں تو روز اول سے اس بات کا قائل رہا کہ محبت کا دن منانے میں کوئی قباحت نھیں اگر ہم دوسرے دن خوشی سے مناتے ہیں تو اس دن کو منانے میں کیا قباحت ہے؟ میری زندگی میں تو اس دن کی بہت اہمیت ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا شاید مرے لیے ممکن نہ ہو، میں نے تو اپنی محبت کو شناخت اسی دن دی اور سماج کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا، ہم نے عہد نامے پر دستخط کرکے مہر لگادی کہ زمانہ چاہے جو کرے محبت کا یہی فیصلہ ہے۔ہم محبت کو ماننے والے قبیل کے لوگوں کو فرق نھیں پڑتا کہ لوگ کیا کہیں گے ہم ایسوں کے لیے محبت ہی حرف آخر ہوا کرتی ہے کیوں کہ فطرت ہمیشہ محبت کو سپورٹ کرتی ہے ۔خالد ندیم شانی کا شعر ہے کہ
ایسی تیسی ہے ساری دنیا کی
ہم محبت کا دن منائیں گے
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم منافق سماج میں سانس لے رہے ہیں ۔کئی ایسے جو محبت کے دن منانے پر اعتراضات کرتے ہیں وہ معاشرے کو تعفن زدہ کرنا چاہتے ہیں۔ طاہرہ امان نے کہا تھا
مختصر سی زندگی کم ہے محبت کے لیے
وقت لاتے ہیں کہاں سے لوگ نفرت کے لیے
محبت ایک ایسی خوشبو ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے ایثار اور ہم دردی کی بنا پر جوڑتی ہے۔محبت ہی انسان کا بنیادی وصف اور اس کی پہچان کا ذریعہ ہے۔محبت کے بغیر یہ دُنیا جہنم کے سوا کچھ نہیں اگر ہم پوری کائنات کا جائزہ لیں تو اس کائنات کا وجود محبت کے چار حرفوں پر قائم ہے لیکن افسوس انسان۔۔۔ہاں یہ ہزاروں سال کا بوڑھا انسان، محبت سے زیادہ نفرت کی آگ میں جُھلستا آیا ہےاور آج یہ جُھلستا انسان محبت کی طلب میں کراہ رہا ہے، خُدارا اُسے محبت کا درس دیں اور محبت کو پروان چڑھنے دیں زندگی کو نفرت کے آلاؤ کی نذر نہ کریں۔پیار بانٹیں