کالم

ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں

وسعت اللہ خان

پاکستان جہاں ہر ایک کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں وہاں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی ہے۔ یہ کیفیت عموماً تب پیدا ہوتی ہے جب صاحب مسکراہٹ کو بخوبی علم ہو کہ اب ہنس مکھ نظر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

مجھے جن جملوں سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے ان میں یہ جملہ سرِ فہرست ہے، ” بس جی آپ بے فکر ہو جائیں۔ سمجھیں کام ہوگیا۔ تسلی رکھیں‘‘۔ پھر ننانوے فیصد یہ ہوتا ہے کہ یا تو کام مکمل نہیں ہو پاتا۔

یا اتنا ناقص ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا ہے اس سے بہتر تھا کہ میں خود ہی کر لیتا ۔یا پھر بالکل کام نہیں ہوتا اور جواباً کوئی نہ کوئی کہانی سننے کو ملتی ہے کہ یہ وجہ ہو گئی وہ وجہ ہو گئی ۔لیکن آپ پریشان بالکل نہ ہوں۔دیر سویر تو ہوتی رہتی ہے مگر انشااللہ یہ کام سو فیصد ہو جائے گا۔

ہم چونکہ ایک جگاڑو سماج میں رہتے ہیں جہاں ضرورت مند بھی جگاڑ پر قانع ہے اور کاریگر بھی جگاڑی ہے۔ (جگاڑ کا تسلی بخش اردو مفہوم مجھے نہیں معلوم)۔ تکا لگ گیا تو اپنا ہی سینہ چوڑا کر لیا۔ نہ لگا تو اپنی ناکامی حالات یا اللہ پر ڈال کے کپڑے اور ہاتھ جھاڑ لیے۔ ایسا ہنر بنا مستقل مزاجی نہیں آتا (بعض جہلا مستقل مزاجی کو ڈھٹائی بھی کہتے ہیں)۔

اب یہی دکھ لیجے کہ صرف آٹھ ماہ میں پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھنے کے بجائے ساڑھے دس ارب ڈالر سے کم ہو کر پونے چھ ارب ڈالر رہ گئے۔ ان آٹھ ماہ میں زرِ مبادلہ کی شرحِ تبادلہ ایک سو اسی روپے فی ڈالر سے بڑھ کے دو سو چھبیس روپے تک جا پہنچی جبکہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر دو سو ستر روپے تک میں دستیاب ہے۔

سیاسی بے یقینی اور دہشت گردی کی تازہ لہر کے سبب اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی ہاتھ کھینچ رکھا ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی روپے کی قدر میں تیز تر گراوٹ کے سبب اپنا پیسہ بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجنے پر مائل ہیں۔

کرنسی دلالوں اور اقتصادی پنڈتوں سے لے کر سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل تک ہر کوئی متفق ہے کہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے اور اگر آئی ایم ایف کے پیکیج کی اگلی قسط ملنے میں مزید تاخیر ہوتی ہے یا چین و سعودی عرب جیسے ممالک کم ازکم تین تین ارب ڈالر کا اضافی ڈپازٹ اسٹیٹ بینک میں جلد نہیں رکھواتے اور اس کی واپسی کے شیڈول میں رعائیت نہیں دیتے تو اگلے چھ ماہ میں کوئی معجزہ ہی پاکستان کو واجب الادا بیرونی ادائیگیوں کی قسطیں بروقت دینے کے قابل بنا کے دیوالیہ پن سے بچا سکتا ہے۔

مگر ایک شخص مسلسل ڈٹا ہوا کہے چلا جا رہا ہے کہ دیوالیہ پن کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اگلے چند ماہ میں نہ صرف موجودہ اقتصادی بحران کا رخ موڑ دیا جائے گا بلکہ افراطِ زر کے جِن کو بھی بڑی حد تک قابو کر لیا جائے گا اور ڈالری بخار سے پھک رہے روپے کو وینٹی لیٹر سے اتار لیا جائے گا۔ اس مستقل مزاج شخص کا نام ہے اسحاق ڈار۔

جہاں ہر ایک کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں وہاں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے چہرے پر دائمی مسکراہٹ کھیل رہی ہے۔ یہ کیفیت عموماً تب پیدا ہوتی ہے جب صاحب مسکراہٹ کو بخوبی علم ہو کہ اب ہنس مکھ نظر آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

یا پھر اس کے پاس مسائل کو حل کرنے کے لیے الہ دین کا چراغ یا کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہو جس کی موجودی سے علمِ اقتصادیات کا کوئی اور ماہر ناواقف ہے ۔یا پھر یہ طنزیہ مسکراہٹ بھی ہو سکتی ہے کہ ”دیکھا یہ مجھے کوئی مالیاتی جادوگر سمجھ رہے ہیں‘‘۔

اس ” ڈاریانہ‘‘ مسکراہٹ کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب بندے کو پتہ ہو کہ اسلام آباد سے لندن تک کا یکطرفہ ٹکٹ پہلے کی طرح جیب میں ہے۔کسی چمتکار کے سبب حالات خودبخود سدھرنے لگے تو ” دیکھا میں نہ کہتا تھا ‘‘ کہتے ہوئے سارا کریڈٹ خود لے لوں گا۔ حالات نہ سدھرے تو پتلی گلی سے ہوتا ہوا اگلی فلائٹ پکڑ لوں گا۔ پرنتو مسکراتا چہرہ برقرار رکھنے میں کیا جاتا ہے۔

مجھے ان سپاٹ چہروں سے خوف نہیں آتا جو تمام تر تلخ حقیقی صورتِ حال عام آدمی کے سامنے رکھ کے کہتے ہیں کہ کشتی بچانا ہے تو ہم سب کو تیزی سے بھرتے پانی کو باہر پھینکنے کے انتھک کام میں آستینیں اور پائنچے چڑھا کے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

مجھے بس خود کو انجینیر کہلوانے والے مستری سے خوف آتا ہے۔ یا پھر اس مسکراہٹی ملاح سے ڈر لگتا ہے جو آخری وقت تک بتاتا رہے کہ گھبرانا نہیں اور پھر سب سے پہلے چھلانگ مار کے کنارے کی جانب تیرنا شروع کر دے اور ساحل پر پہنچ کے سمندر میں اٹھنے والے بلبلوں اور تیرتی چڈیوں کی جانب ہاتھ ہلاتے ہوئے کہے کہ بس جی کوشش تو پوری کی آپ کے بھائی نے پر قدرت کو شائد یہی منظور تھا۔

یہ اسی طرح کا جگاڑو دماغ ہے جو پندرہ دسمبر انیس سو اکہتر کی شام تک پوری قوم کو تھپک تھپک کے لوری سناتا رہا کہ دشمن افواج میری لاش پر سے گزر کے ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتی ہیں اور پھر اگلے روز اسی لاش نے پلٹن میدان میں کھچا کھچچ ہجوم کے درمیان ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر ستے ہوئے چہرے کے ساتھ دستخط کر دیے۔

خیر ابھی یہ نوبت تو نہیں آئی مگر اسحق ڈار کی مسکراہٹ اور ان حکیم صاحب کے اطمینان میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے جن کے پاس ایک نوجوان اپنے والد کو لایا۔حکیم صاحب نے بہت سکون سے مریض کا تفصیلی معائنہ کیا اور پھر خود تیار کردہ گولیوں کی پڑیا تھماتے ہوئے کہا۔ گھبرانا نہیں ہے۔ یہ گولیاں والد صاحب کو صبح شام تین دن استعمال کروائیے۔ انشاللہ دست رک جائیں گے۔

تین روز بعد نوجوان لٹکے چہرے کے ساتھ پھر حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا سناؤ میاں والدِ محترم کیسے ہیں کچھ افاقہ ہوا۔نوجوان نے کہا کہ حضورِ والا آج صبح والد صاحب گذر گئے۔ حکیم صاحب ماتھے پر کوئی ندامتی شکن لائے بغیر بولے ” جان تو اللہ کی امانت ہے برخوردار کم ازکم والدِ مرحوم کو دستوں سے تو افاقہ ہو گیا۔‘‘

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں

شکریہ ڈی ڈبلیو نیوز

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com