تھل سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی سونا کے پہاڑ ہیں۔تھل پنجاب کا سات اضلا ع پر مشتمل علاقہ ہے جس میں خوشاب، میانوالی، بھکر،لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ شامل ہے۔ تھل کو پنجا ب کا اعزاز بھی یوں حاصل ہے کہ تھل کے مغرب میں دریائے سندھ ہے۔ مشرق کی طرف چناب، بیاس، راوی اور ستلج ہے جبکہ شمال کی طرف دریائے جہلم اور جنوب کی طرف ہیڈ پنجند ہے۔ اس کے درمیان تھل لیٹاہوا ہے جوکہ پچاس لاکھ ایکٹر پر پھیلاہواہے۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنی کتاب تھل(جوکہ لوک ورثہ اشاعت گھراسلام آبادسے شائع ہوئی)میں یوں رقمطراز ہیں کہ پاکستان کے نقشہ پھیلا کر سامنے رکھیے۔ 71 اور 72 درجے طول بلد اور 30سے 32.5درجے عرض بلد کے درمیان، ساڑھے سولہ ہزار مربع رقبہ پر پھیلے مشتمل ایک ایسا علاقہ نظر آئیگا جس کے ایک طرف تین دریا جہلم، چناب، راوی اور دوسری طرف دریائے سندھ بہتادکھائی دے گا۔ اس علاقہ کو تھل کہتے ہیں۔کسی زمانے میں اس کا نام دوآبہ سندھ ساگر بھی تھا لیکن ابتداء یہ نام اس خطے کو دیاگیا تھا جو دریائے جہلم کے دائیں کنارے سے کوہستان اور پنڈدادن خان سے کالا باغ تک پھیلا ہوا تھا۔ شمال کی طرف اس کے احاطے میں پوٹھوہار تھا جوکہ ہزارہ اور مری کی پہاڑیوں تک چلاجاتاہے۔ چونکہ یہ علاقہ دو دریاؤں جہلم اور سندھ کے درمیان تھا اس لیے بجاطور پر اسے دوآبہ کا نام دیا گیا۔ خوشاب کندیاں سے ملانے والی ریلوے لائن اس اصلی دوابہ سندھ ساگر کو تھل سے علیحدہ رکھتی تھی، لیکن اب تھل کو بھی یہی نام دیا جاتاہے۔ مذکورہ ریلوے لائن کو تھل کی شمالی سرحد قرار دیاجائے تو تھل کے آخری کونے تک کی لمبائی تقریبا 190 میل بنتی ہے۔ اس طرح اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 70 میل ہے۔تھل کی شکل بے قاعدہ مثلث کی سی ہے۔ جہلم چناب اور راوی باہم مل کر ایک خط مستقیم کی صورت میں اس کی مشرقی سرحد بناتے ہیں اور دریائے سندھ میں جوا س کی مغربی سرحد، جنوبی کونے سے تقریبا پچاس میل دور جاملتے ہیں۔اس طرح تھل کی یہ قدرتی حدبندی اسے علیحدہ شناخت عطاکرتی ہے۔ اس خطے کا کچھ حصہ ضلع جھنگ، کچھ خوشاب، کچھ ضلع میانوالی اور کچھ ضلع مظفرگڑھ میں اورباقی اضلاع بھکر اور لیہ میں شامل ہے۔آج سے 3200سال پہلے پامیر کی پہاڑیوں سے لے کر گوادر تک پھیلی ہوئی وادی سندھ کے یہ مرکزی جعفرافیائی خط تاریخ عالم کو انمٹ نقوش مہیا کرتارہاہے لیکن آج اس کے تاریخی واقعات کو یکجا کرکرنے کیلئے بھی ہمیں چھ مختلف اضلاع کے اس ریکارڈ کو کھنگالنا پڑرہاہے جو انگریزوں نے رعایا کی نفسیات کو سمجھنے کیلئے مقامی ذرائع سے مرتب کرایا تھا۔ اس ریکارڈ کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔یہاں تک کہ سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات بھی باقی نہیں رہیں، بلکہ مختلف بستیوں کے ناموں کے ساتھ جوتاریخی نیم تاریخی یا دیومالائی قصے وابستہ تھے وہ بھی عوامی باداشتوں سے مٹ چکے ہیں۔ مثال کے طورپر مظفرگڑھ سے سات میل دور مغرب کی طرف بڑے بڑے ٹیلوں کے درمیان بدھ نام کا ایک گاؤں اور ایک قوم آباد ہے جس کا براہ راست تعلق یقینی طورپر مہاتما بدھ اور اس کے قدیمی مذہب بدھ مت سے ہے لیہ کے تھل میں دو مواضوعات کفل کے نام سے موسوم ہیں جوکہ راجہ اشوک کا بیٹا تھا۔اور بدھ مت کا پیروکار تھا آریاؤں کو ہماری وادی سندھ کے لوگوں کو شدید نفرت تھی اس کے بے شمار ثبوت ان کی تحریروں اور تاریخی کتابوں میں ملے ہیں۔ اس نفر ت کے اظہار کا ایک لفظ پہل ہے۔اس لفظ کی بازگشت ہمیں مہا بھارت اور بدھیانہ کے دھرما سوترا میں بھی سنائی دیتی ہے۔نفرت سے بھرا ہوا یہ لفظ کٹڑ اور معتصب برہمنوں نے ان لوگوں اور علاقوں کیلئے استعمال کیاجو کہ ان کے عقائد اور رسم و رواج کے مخالف تھے اور باختری طورپر پسند کرتے تھے۔اب دیکھئے بھکر کے جنوب میں پہل ہے جواس تاریخی واقعہ کو یاد دلارہاہے۔ سکسیرنام کے صحت افزا ء مقام سے کون واقف نہیں۔ اصل میں یہ لفظ ساکاسر ہے جس کے معنے ہیں، ساکا قوم کا تالاب۔ مائھتیٹن اقوام کو ساتھا، زط، جت، جٹ وغیر ہ کے علاوہ ساکا بھی کہا گیا۔مہاتما بدھ کو ساکیہ منی یعنی، جٹ قوم کا بزرگ، کہا گیا
ہے۔ واردی سندھ کے دریاؤں پر صدیوں تک مور قوم کا تسلط رہاہے۔
سیاسی اکائی کے طور تھل پنجاب کی سیاست میں ایک بڑا مقام یوں رکھتاہے کہ تھل کے سات اضلاع کی
19قومی اسمبلی اور 40صوبائی اسمبلی کی نشتوں کے ساتھ سات ضلعی حکومتیں ہیں۔ تھل کے ضلع خوشاب سے لے لیہ تک چار اضلاع بنتے ہیں اور ان ضلعوں کی بالترتیب دو دو قومی اسمبلی نشتیں ہیں۔ ادھر تھل کے ضلع مظفرگڑھ کی چھ قومی اسمبلی کی نشتیں ہیں جبکہ جھنگ اور چینوٹ ضلع کی پانچ قومی اسمبلی نشتیں ہیں۔تھل کا بہاول پور کے ساتھ سیاسی اکائی کے طورپر موازنہ کریں تو بہاول پورڈویثرن کے تین ضلع (رحیم یارخان۔ بہاول پور۔بہاول نگر) ہیں اور قومی اسمبلی کی 15 نشتیں ہیں جبکہ تھل 19 قومی اسمبلی کی نشتوں کیساتھ چار نشتوں کی برتری رکھتاہے۔ادھر ملتان ڈویثرن کے چار ضلع (ملتان۔ لودھراں۔وہاڑی۔خانیوال)ہیں اور قومی اسمبلی کی 16 نشتوں کے ساتھ تھل سے تین نشتوں کے ساتھ پیچھے ہے۔ادھر تھل بلوچستان جوکہ پاکستان کا چوتھا صوبہ ہے۔ اس کی قومی اسمبلی کی 16 نشتیں ہیں جوکہ تھل کے مقابلے میں تین نشتیں کم ہیں جوکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تھل بلوچستان کے مقابلے میں ایک بڑی سیاسی اکائی ہے۔
تھل جوکہ واضع طورپر بہاول پور، ملتان اور بلوچستان سے بڑی سیاسی اکائی کا حامل علاقہ ہے لیکن یہاں جو بات تھل کی طرف متوجہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ تھل بہاول پور، ملتان ڈویثرن سمیت بلوچستان سے ترقی کے سفر میں یوں پیچھے کھڑا ہے کہ تھل کے سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں ایک میڈیکل کالج، ایک ڈئینٹل کالج، ایک ٹیچنگ ہسپتال، ایک ویمن یونیورسٹی، ایک زرعی یونیورسٹی، انجئیئرنگ یونیورسٹی، ایک انٹرنیشنل ائرپورٹ چھوڑیں ایک لوکل ائیر پورٹ تک نہیں ہے۔ ذرا او ر تھل پر توجہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ تھل کے اضلاع خوشاب میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ پر ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔ پورے تھل میں ایک ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے۔ تھل میں ایک نرسنگ یونیورسٹی سے لے کر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد چھوڑیں، پنجاب یونیورسٹی لاہور چھوڑیں، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور اور بہاو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان جیسی تعلیمی درسگاہ قیام پاکستان کو ہونے کے باوجود نہیں ہے جوکہ اس موقف کو تقویب دیتی ہے کہ تھل کو یکسر انداز کیاگیا ہے۔پاکستان میں موٹرویز کے بارے میں پروفیسر احسن اقبال کی طرف سے ایک دعوی کیاجاتاہے کہ اس وقت تک پاکستان میں 21 ہزار کلومیٹر موٹرویز بن چکی ہیں لیکن تھل میں موٹرویز کا وجود نہیں ہے بلکہ تھل کا مرکزی روڈ مظفرگڑھ میانوالی روڈ المعروف قاتل روڈ کے نام سے پکارا جاتاہے۔تھل کی بدحالی کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ تھل میں انڈسٹری کا وجود نہیں ہے۔
تھل میں اکثریت ارکان اسمبلی کا تعلق جاگیر دار، گدی نشین خاندانوں سے ہے جوکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اقتدار میں آرہے ہیں۔ تھل کے خاندانوں میں سے نواب کالا باغ، ایوب خان کے دور اقتدار میں، گورنر پنجاب جیسے اعلی منصب پر فائز رہے۔پوری طاقت کے ساتھ اقتدار کو انجوائے کیا۔اھر مظفرگڑھ سے مشتاق گورمانی مغربی پاکستان کے گورنر رہے۔ اسی طرح مظفرگڑھ کے کھر خاندان کے چشم وچراغ ملک غلام مصطفے کھر وزیر اعلی پنجاب اور گورنر پنجاب کے اعلی منصب کے عہدوں پر فائز ہونے کے ساتھ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی سیاسی لیڈروں میں شامل تھے۔لیہ کے ملک قادر بخش جھکڑ وزیررہے۔ اسی طرح جھنگ سے فیصل صالح حیات اور بیگم عابدہ حسین اعلی حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ اسی طرح میانوالی سے ڈاکٹر کوثرنیازی سمیت ڈاکٹر شیر افگن نیازی اور حال ہی میں میانوالی سے منتخب ہوکر عمران خان وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی تھل کے ارکان اسمبلی اقتدارکے ایوانوں میں پہنچتے رہے ہیں لیکن تھل کے بارے میں جو پہلے عرض کیا ہے۔ اس صورتحال میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ہے؟
تھل کو پاکستان میں ایک خاص مقام اپنے محل وقوع کے ساتھ اپنے قدرتی وسائل کی بدولت حاصل ہے۔ مثال کے طورپر تھل جوکہ دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے گھیرے میں ہے۔ جب کہ دوسری طرف اس وقت پاکستان [پانی کے شدید بحران کا سامنا کررہاہے۔مثال کے طورپر لاہور پنجاب کا دارلحکومت ہے لیکن دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے ریت کے دریا میں تبدیل ہونے کے بعد لاہور کو پانی کی کمی کا سامنا اس حدتک ہے کہ اس وقت لاہور میں پانی کا واٹر لیول بہت نیچے چلاگیا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق لاہور میں پانی بورنگ کیلئے تین سو فٹ پہ چلا گیا ہے۔ ادھر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور اس کے ساتھ جڑواں شہر راولپنڈی میں پانی چار سو فٹ پہ ملتاہے اور گرمیوں میں وہ لیول بھی گرنے لگتاہے۔ اسی فیصل آباد میں پانی کا لیول اس حد تک ہے کہ لوگ پینے کیلئے نہروں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ سندھ کا درالحکومت کراچی بھی اس وقت پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ٹینکر سروس کی زد میں ہے۔ لیکن تھل میں پانی نلکا بیس فٹ پہ لگ رہاہے جبکہ زرعی بور جوکہ پانی کیلئے لگائے جارہے ہیں وہ 70 فٹ پر ہورہے ہیں۔ صحرائے تھل کو یہ اعزاز کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس کا پچاس لاکھ ایکڑ رقبہ ہے اور یہاں پر چنا جوہے وہ ایک دو قدرتی بارشوں کی بدولت پک جاتاہے اور اس جیسا چنا دنیا میں اور کہیں نہیں ہے جوکہ اس طرح بارش پر تیار ہوتاہے۔دریاؤں کے گھیرے میں ہونے کی بدولت تھل کے ایک طرف کچہ کا علاقہ چلتاہے تو دوسری طرف صحرائے چلتاہے۔ کچہ کے علاقہ میں گنا، چاول، کپاس، تلی اور دیگر فصلیں بڑے پیمانے پر پیدوار دیتی ہیں۔ اسی طرح تھل میں لائیوسٹاک جس میں بکرے، بکریاں، بھینیس،اونٹ، گائے، بکری شامل ہیں، بڑی تعداد میں ہیں جوکہ تھلوچی کی زندگی میں خوشحالی کا سبب ہیں۔ تھل میں پھل بھی ہرقسمی پیدا ہوتاہے۔ تھل کا کنوں اور آم ایک خاص ذائقہ کی بدولت خاص پہچان رکھتاہے۔
تھل کا تاریک پہلو: تھل کو قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکومتوں کی طرف سے نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے تھل کے لوگ اب تھل سے بڑے شہروں کی طرف سے ہجرت کرنے پر یوں مجبور ہیں کہ تھل میں اعلی تعلیمی اداروں کا وجود نہیں ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبہ میں بھی یہی صورتحال ہے کہ ایک بھی میڈیکل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال کا وجود نہیں ہے۔ یوں تھلوچی صحت، تعلیم،دیگر بنیادی سہولتوں اورروزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لاہور جیسے شہر میں تسلسل کیساتھ تھلوچیوں کی ہجرت نے لاہور کیلئے آبادی کے دباؤ کے ساتھ دیگر مسائل پیدا کردئیے ہیں۔یہی حال راولپنڈی اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کا ہے کہ تھل کے لوگ بالخصوص نوجوان تعلیم اور صحت سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کیلئے آرہے ہیں۔