روف کلا سرہ کی تنخواہ ؟
آجکل آزادی اظہار اور آزادی تحریر کے نام پر
لذت اٹھانے کی اصلیت ہی اخلاقی اصول ہے!
فیس بک اور وی لاگ پر چھڑنے والی اکثر بحثوں میں سے صرف ایک ہی مسلہ سامنے آتا ہے اور وہ ہے "لذت” کا مسئلہ ہے آجکل میرے شہر کا اک صحافی یعنی روف کلاسرہ اور اس کی تنخواہ پر قصے کہانیوں نے مجھے یونانی فلسفیوں کی یا د دلادی ہے تنخواہ کی فلسفیانہ بحث میں سے اہم نقطہ ہے دروغ گوی مبالغہ آمیزی دشنام طرازی اور اس سے حاصل ہونے والی ایک” لذت” ہ
گویا پاکستان کی تمام صحافتی تاریخ اور مساٸل اسی
ایک مسئلے کے گرد گھومتے ہیں ۔ مگر اہل قلم سے معزرت کے ساتھ کہ ایپیکورس نے لذت سے مراد جسمانی اور زبانی و تحریری لذت نہیں بلکہ عقل کی اطاعت اور حکمت کے معیارات کے مطابق زندگی کو گزارنے میں لذت کہا تھا ۔ ایپیکورس نے اہل علم کو سکھایا کہ چیزوں کے اچھے اور برے کا تعین کرنے کا انسانی معیار عقل ہے۔اور روف کلاسرہ شاٸد اسی عقل کے استعمال کی وجہ سے ان دنٶں زیر عتاب دانشوران ہے اور ان دانشوروں کے نزدیک زندگی کا آغاز اور تکمیل صرف لذت ہے۔ اور یہ لزت بہت آسان ہے اس میں صرف زبان ہلانی پڑتی ہے عقل نہیں ؟
میں مانتا ہوں کہ لذت فطری اور اچھی شے ہے۔ اور ہر انتخاب یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر شخص کی لذت اپنے آپ میں اچھی ہوتی ہے لیکن عقلمند انسان ہر لذت کا انتخاب نہیں کرتا کیونکہ بہت سی لذتیں ایسی چیزوں سے حاصل ہوتی ہیں جو زیادہ تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ میرے خیال کے مطابق، سب سے زیادہ لذت درد کی عدم موجودگی ہے، اور جو چیز درد کو دور کرتی ہے وہ حکمت ہے، اور حکمت یہ ہے کہ ہوس، لالچ، مذہبی توہم پرستی اور موت کے خوف سے چھٹکارا حاصل کریں، اور مقابلہ، حسد اور شہرت کی طلب سے بچیں۔ میں بہتان طرازوں سے کہتا ہوں کہ اندرونی سکون کے لیے روف کی طرح مطالعہ کے بارے میں سوچیں۔
خوشی کا اصول ایک اخلاقی اصول ہے جسے "ذہنی سکون” کہا جاتا ہے۔ اور خوشی کی صحیح سمجھ ہمیں جینے کا صحیح طریقہ دکھاتی ہے۔ عقلمندانہ زندگی کے بغیر، آپ خوشگوار زندگی نہیں گزار سکتے۔ یعنی کے روف کلاسرہ کی طرح زندگی نہیں گزار سکتے کیونکہ اس کے لیے مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور وہ آپ کرنا نہیں چاہتے -(مانی)