کالم

نفسیاتی عارضوں میں مبتلا”جتھا”

رانا عبدالرب

رانا عبدالرب

عجیب "جتھے” ہیں جن کو رشتوں کی قدر ہے اور نہ ہی زندگی گزارنے کا ڈھب۔ ہم نفسیاتی عارضوں میں مبتلا جتھا(قوم) ہیں جہاں دن دیہاڑے ایک طالب علم کو 22 گولیاں شہر اقتدار میں مار دی جاتی ہیں، جہاں بیٹا باپ کی کھانسنے کی آواز سے تنگ آکر اسے گولی مار دیتا ہے، جہاں ایک نوجوان شراب کے نشے میں دھت اپنی 90 سالہ ماں سے ریپ کرتا ہے، جہاں 65 سالہ بزرگ پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، جہاں بیٹی اپنے باپ پر ریپ کا الزام محض اس لیے لگاتی ہے کہ اس کی من چاہی سے اس کی زندگی کا فیصلہ نھیں کیا جاتا، جہاں انصاف دینے والے ججز انصاف لینے والی خاتون کو اپنے چیمبر میں زیادتی کا نشانہ بنائے، جہاں دن دیہاڑے لوگوں کی زندگیوں کو ختم کرکے پولیس مقابلے دکھائے جائیں اور ان پولیس مقابلوں پر ترقی لی جائے، جہاں دیواروں پر مردانہ کمزوری، محبوب آپ کے قدموں کے اشتہارات ہوں، جہاں مردہ کھانے سے مردوں کے ریپ تک واقعات عام ہوں وہاں معاشرہ بے سمتی کا شکار ہوجاتا ہے۔ عدم تحفظ اور اپنے ہونے کاجواز ختم ہو جاتا ہے ہر عمل مشکوک اور بے نتیجہ محسوس ہوتاہے. ماضی کی آرکی ٹائپس جاگ جاتی ہیں ہم وحشی تو پہلے ہی ہیں وحشت طاری ہوجاتی ہےاور جانے کیسے کیسے جرائم جنم لیتے ہیں،پرورش پاتے ہیں اور مرنے سے پہلے اپنے ایک بُہت بڑا قبیلہ چھوڑ جاتے ہیں۔جانتے ہو کیوں؟کیوں کہ ہمارے یہاں جزا اور سزا کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ریپ کے واقعات کو سرے سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔کبھی آپ نے سُنا یا پڑھا!کہ اس قسم کے واقعات بارے ہمارے مذہبی رہنماؤں نے کبھی مذمت کی ہو یا سڑکوں پر آکر احتجاج کیا ہو؟کبھی کسی بھی واقعہ یا حادثہ کے خلاف سزا ہوئی ہو؟ مرا ماننا ہے کہ سزا کا نہ ہونا،گناہ کا دوسرا بیج بو دیتا ہے اور پھر وقت اس بیج کی پرورش کرتا ہے اور وہی گناہ نئی شکل میں تازہ دم ہو کر ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔
ہم من حیث القوم جتھے ہیں مختلف شکلوں کے جتھے معاشرہ نھیں کیوں کہ معاشرہ افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں یہ لازمی نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر عام طور پر اس کا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں مندرجہ بالا کچھ بھی نہیں ۔ہم ریوڑ کی مانند ہیں جسے برس ہا برس سے ہانکا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز ایک خبر نظر سے گزری کہ پشاور میں بہنوں کے ساتھ زیادتی کے الزام میں بھائی کو گرفتار کر لیا گیا میں تو ایک عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ یہ معاشرہ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہے. پرسن تو پرسن فرسٹریشن اور ڈپریشن کی نوعیتیں مختلف اور نتائج بھیانک تر۔اس انحطاط یا انتشار کی وجوہات سیاسی فیصلوں اور اقتدار کے ایوانوں سے جاری شدہ فیصلوں کا نتیجہ ہیں یہ محض غربت کی بات نہیں.
ان حالات میں جب معاشرہ سخت قسم کی شکست وریخت سے دوچار ہورہا ہو تومکالمے کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے ۔مکالمہ ہو گا سوال اُٹھیں گے اُن کے جوابات سے کوئی نئی بات بنے گی ہمارے ہاں اسٹٹدی سرکل موجود نہیں ہے۔ پہلے ہر دس بیس کوس کے فاصلے پر کہیں نہ کہیں کوئی چراغ جل رہا ہوتا تھا۔ اب تو گُھپ اندھیرا ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا۔
اگر ہم موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو ریاست کی عملداری پر سوال اٹھ رہے ہیں جب تک ایسے عناصر کو سخت قسم کی سزائیں نہیں دی جاتیں اُس وقت تک معاشرہ عدم تحفظ کا شکار رہے گا ۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com