کالم

اپنے حصے کی شمع تو جلاتے جاتے

مصنف ۔ ارمان شوکت

تھائی لینڈ ,چائنہ اور ہانگ کانگ میں زیادہ تر بدھ مت رہتےہیں۔ ان کے مذہبی راہبر کو سادھو( مانک) کہتے ہیں۔ یہ بھکشوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں ۔دنیا داری کے معاملات سے دور پہاڑوں یا پرسکون جگہ پر بسیرا کرتے ہیں اور اپنے خاص طرزِ زندگی کو اپنا ئےرکھتے ہیں ۔ 1957میں یہ اپنے مذہبی پیشوا ’’بدھا ‘‘کا ایک بہت بڑا مجسمہ ہانگ کانگ کے ہائی وے سے دوسری جگہ لے جارہے تھے کہ راستے میں بارش آن ٹپکی۔ یہ دیو قامت مجسمہ چکنی مٹی سے بنا ہوا تھا، بھیگنا شروع ہو گیا۔ سب سادھوں نے اپنے رہبر سادھو کے احکامات کے مطابق اسے بچانے کا ہر جتن کیا، یہ کسی طرح اسے ہائی وے سے نیچے اتار کر ایک محفوظ مقام پر لے جانے میں کامیاب ہوگئے، مگر اسی دوران اس مجسمہ میں ایک گہری دراڑ آگئی ۔ انہوں نے مل کر مجسمے پر چھت بنائی اور اس کی ’’پراتنا ‘‘ میں محو ہوگئے۔ کچھ شاگرد سادھو اس کی دیکھ بھال پر تعینات ہو گئے۔ ایک شاگرد سادھو رات کے وقت مجسمہ کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ اس نے لالٹین دراڑ کے قریب کی دراڑ سے روشنی نکلی، گھبراہٹ اور حیرت میں اس پر سکتہ طاری ہوگیا، حواس بحال ہونے پر اس نے پھر ہمت کی، اس نے اردگرد دیکھا سب سو رہے تھے۔ اسے لگا کہ یہ اس کے جاگنے اور ’’گیان ‘‘کا انعام ہے اسے یہ ضرور پا لینا چاہیے۔ اس نے روشنی کے سامنے اپنا ماتھا کیا اور نورانی لہروں کو اپنی آنکھوں سے قلوب و اذہان کو معطر کرنے کی سعادت کی سعی کرنے لگا ،مگر صرف روشنی سے اس کی تسکین نہ ہوئی اس نے ہاتھ سے چھو کر خود کو نورانی کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس نے ہاتھ دراڑ کے اوپر رکھا، لالٹین قریب کرتا گیا، سنہری روشنی بڑھتی گئی، اس نے زبردستی ہاتھ دراڑ کے اندر ڈالنے کی کوشش کی ،مٹی گیلی تھی اس کا کچھ حصہ ٹوٹ کر گر گیا، روشنی اور بڑھ گئی یہ جہاں سے مٹی اتارتا وہاں سےروشنی بڑھتی جاتی۔ سادھو عقیدت،حیرت اور تجسس میں مجسمے کے گرد لگی مٹی کی موٹی موٹی پرتیں اتارتا گیا اور سارہ مجسمہ نورانی ہوتا گیا۔ صبح ہونے تک اس نے مجسمہ سے ساری مٹی اتار دی اور وہ جو مٹی کا مجسمہ دیکھنے میں بھدہ سا لگ رہا تھا اب اس کی جگہ چھوٹے سائز کا سونے کا چمکدار مجسمہ کھڑا تھا ۔الصبح سارے سادھو جاگے ، معجزہ دیکھا ،اس شاگرد کو متبرک جان کر سلامی پیش کرنے لگے۔ دراصل وہ مجسمہ سینکڑوں سال پرانا تھا جو بھی راہبر سادھو آتا وہ اپنے رہبر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عقیدت سے اس پر مٹی کی ایک اور تہہ یا پرت لگاتا جاتا۔

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل اس سونے کے مجسمے کی طرح چمکدار اور معصوم ہوتا ہے، وہ ہر طرح سے مختاج ہونے کے باوجود بھرپور خوش ہوتا ہے

ایک بچہ ایک دن میں تقریبا چار سو مرتبہ مسکراتا اورخوش ہوتا ہے جبکہ ایک جوان اور مکمل خود مختار انسان تقریبا بیس سے چالیس مرتبہ ہنستا اور مسکراتا ہے۔ بچہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اس کے اردگرد انسان اس سونے کے مجسمے پر مٹی کی تہیں لیپنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ تہیں دراصل ہماری شخصیت ،سوچ بلکہ مکمل نفسیات پر لگائی قید وبند کی پرتیں ہوتی ہیں ۔ جو انسان کو اتنا محدود اور تنگ نظر بنا دیتی ہیں کہ یہ سوچ کے اعتبار سے سونے سے مٹی کا بننا شروع ہوجاتاہے۔ جدید نفسیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ زیادہ تر لوگ دوران تربیت بچے کی خود اعتمادی کوکم اور نقطہ نظر کو محدود کردیتےہیں ۔فطرتی طور پر بچہ خود اعتمادی اور موٹیویشن سے بھرپور ہوتا ہے ۔پھر وہ زندگی میں جتنے سادھوں کے پاس جاتا ہے ہر کوئی حسب توفیق اس پر تنگ نطری کی تہیں چڑھانا شروع کر دیتا ہے اور اسے اپنےجیسا بنانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ بچے میں بچا کھچا اعتماد اس لیے ہوتا ہے کہ، یا تو یہ اعتماد اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ تہہ لگنے کے باوجود بھی کچھ بچ جاتا ہے یا اس کے گرد کچھ پرتیں اتارنے والے بھی موجود ہوتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com