کہانی بڑے گھر کی
پاکستان میں سنجیدہ صحافت کے سرکردہ ناموں کی فہرست عاصمہ شیرازی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ ایک ایسی خاتون صحافی جو گھر داری کو پہلی ترجیح سمجھتی ہیں ۔ عاصمہ شیرازی کو ٹک ٹاک سیاست کے سوشل مسخروں نے اپنی بدزبانی کا نشانہ بھی بنایا اور ان پر تنقید بھی کی گئی ۔ انہوں نے لکھا “ قلم کی کمان میں الفاظ کے تیر کس قدر طاقت ور ہیں اس کا اندازہ پہلے بھی تھا اور اب بھی ۔ لفظ کی حرمت کا تقاضا پہلے بھی تھا اور اب بھی ۔ حرف پر آنچ نہ آئے یہ احساس پہلے بھی تھا اور اب بھی۔ اقتدار کے ایوانوں میں موجود ارباب اختیار قلم کو قید نہ پہلے کر سکے ہیں اور نہ اب کر سکیں گے “ اپنے بچوں اور گھرداری سے بچے ہوئے وقت کو انہوں نے کتاب ، قلم اور سکرین سے جوڑے رکھا ۔ وطن عزیز کے اہم صحافتی اداروں کے پلیٹ فارم سے بے حسی کی دہلیز پر آگہی کی نرم پوروں سے دستک جاری رکھی ۔ بین الاقوامی نشریاتی ادارے میں 14 اگست 2018 سے 19 اپریل 2022 تک جو کالم لکھے گئے وہ بڑے گھر کی کہانی کے مختلف اظہارئیے ہیں ۔ کہانی میں شائستگی اور صحافتی آداب کا پاس اس طور رکھا گیا کہ ڈاکٹر محمد امین کا شعر صادق آ گیا ۔
“ داستاں اک اور تھی اس داستاں کے بیچ بیچ
گم ہوئی جو قصہ گو کی ہچکیوں کے درمیاں۔۔”
بڑے گھر کی اگر بات بڑی ہوتی ہے تو ذمہ داری بھی بڑی عائد ہوتی ہے ۔ بڑے امتحان اور بڑی شاباش بڑوں کے حصے میں آتی ہے تو پھر بڑی غلطی پر سزا چھوٹی کیوں ہو ۔ بڑے گھروں کو حوصلہ بھی بڑا رکھنا چاہئیے ۔ بڑے بڑے فیصلے کرنے والے تحمل اور برداشت بھی اپنے قد کے برابر رکھیں تو توازن برقرار رہے۔
عاصمہ کا یہ کہنا کہ “ طاقت کے کھیل میں لڑائی کے اصول طے کیے جاتے ہیں ۔ دیکھا جاتا ہے کہ کس وقت پر کس رنگ میں کون سے پہلوان اتارنے ہیں ، کیسی ٹیم کھلانی ہے اور جیتنے کے لئے کیا لائحہ عمل طے کرنا ہے ۔ اچھے کپتان ساری توقعات کسی ایک کھلاڑی سے نہیں لگاتے بلکہ ہر ایک کا بیک اپ ضرور رکھتے ہیں “۔ طاقت کے اس کھیل میں اتارے گئے پہلوان مقابل کو شکست دینے کے بجائے شائقین سے تالیاں ہی بجواتے رہ جائیں تو پھر اچھے کپتان کو اپنے انتخاب کی غلطی بڑے دل کے ساتھ قبول کر لینی چاہئیے کیونکہ بڑے گھر کے دروازے بھی کشادہ ہوتے ہیں ۔
عاصمہ نے بڑے گھر کی کہانی میں عالمی گدھوں کے منڈلاتے خوف کا تذکرہ بھی بے خوف ہو کر کیا ہے ۔ شاہ دولے کے چوہوں سے لے کر ریاست کے گونگے بہروں کی بے بسی تک کا ذکر سولہ دسمبر کی معصوم چیخوں کی شکل میں ابدی نیند سو چکے ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے ۔ مفادات کا جن جب اے پی ایس میں اپنے ہی بچوں کو نگل جائے تو پھر ساہیوال کے نامعلوم قاتل دن دہاڑے اولاد کے سامنے ان کے زمینی خداؤں کو چھلنی کر دیتے ہیں ۔ انصاف نام کا اندھا انعام واقعی قسمت والوں کو ملتا ہے اور یہ قسمت کی دیوی ہمیشہ بڑے گھر پر مہربان رہتی ہے ۔
عاصمہ کو ادراک ہے کہ جھوٹ کی قبا میں لپٹا یہ معاشرہ سچ کی دستار کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ۔ جہاں جھوٹ کے سرکاری فیسٹیول منعقد کروائے جاتے ہوں وہاں سچ ایک گالی بن کر سامنے آتا ہے اور گولی کی طرح منافقت بھرے اجسام میں پیوست ہوتا ہے ۔ امید ہے عاصمہ شیرازی کبھی چھوٹے گھروں کی کہانیاں بھی لکھے گی جہاں بڑے بڑے خواب ہوتے ہیں ۔ جہاں وہ مائیں ہوتی ہیں جو بانگ دہل کہتی ہیں کہ ہم نے تو اپنے بچے پڑھنے کے لئے بھیجے تھے ، لڑنے کے لئے نہیں ۔ ہمیں ان کی لاشوں پر شہادت کی چاندی چڑھا کر مبارک باد نہ دو ، ہمیں پرسہ دو ، کہ ہم نے ان کے کندھوں پر بندوق نہیں کتابوں کے بستے لٹکائے تھے ۔ عاصمہ شیرازی چھوٹے گھروں کی کہانیاں ضرور لکھیں گی کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ریاست مدینہ میں کوفے کی شام امڈ آئے تو وظیفوں سے ملک چلائے جاتے ہیں اور استخاروں سے پالیسیاں بنتی ہیں ۔
عاصمہ شیرازی کے لئے دعاؤں کا حصار بھی ضروری ہے کہ بڑے گھروں سے نکلنے والی کہانیاں اپنے ساتھ ایسے کردار بھی تخلیق کرتی ہیں جن میں موت کے انجام چھپے ہوتے ہیں ۔ کردار پر انگلی اٹھانے سے لے کر اولاد کی آزمائش سے گزارا جاتا ہے ۔ کبھی زمین تنگ کر دی جاتی ہے اور کبھی سر سے سایہ ہٹانے کے سندیسے آتے ہیں ۔ حرف دعا عاصمہ کے لئے اور ان کے خاندان کے لئے ۔ “ کہانی بڑے گھر کی “ چھوٹے دل والوں کے لئے مضر ہے ۔