کالم

مظفر گڑھ کا مقدمہ کون لڑے گا؟

مظفرگڑھ کے ساتھ جو سلوک قیام پاکستان کے بعد ہوتا چلا آ رہا ہے، اس بارے میں تو کتاب کی ضرورت ہے، ایک کالم میں کیا لکھا جاسکتا ہے؟ مظفرگڑھ کے عوام کو توحد یہ ہے کہ بنیادی سہولتیں قیام پاکستان کو 73 سال گزرنے کے باوجود بھی حاصل نہیں ہیں جو کہ ابتدائی ادوار میں ان کا حق تھا۔ سیاست کے میدان میں مظفرگڑھ کو بڑے نامور سیاستدان ملے، لیکن نام کی حد تک ملے، یوں ان کی سیاسی چالوں کا خمیازہ مظفرگڑھ کی عوام آج تک بھگت رہی ہے۔

مثال کے طور پر مشتاق گورمانی سے لے کر مصطفے کھر اور پھر نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے سیاستدان جو کہ مظفرگڑھ سے تھے، اقتدار کے قریب بھی رہے اور پھر اس کا حصہ بھی رہے، اس کو انجوائے بھی کیا لیکن انہوں نے مظفرگڑھ کی عوام جس کی بدولت وہ اقتدار تک پہنچتے رہے، اس مظفرگڑھ کی محبتوں کا قرضہ ادا کرنے کی طرف دھیان نہ دیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے اقتدار کی کہانی صرف گورمانی، کھر اور نوابزادہ تک محدود نہیں رہی بلکہ مظفرگڑھ کے نمائندے کی حیثیت سے جتوئی، قریشی، دستی اور ہنجرا، وغیرہ وغیرہ بھی ایوانوں میں پہنچتے رہے ہیں اور اب بھی اقتدار میں ہیں لیکن مظفرگڑھ کا حق نمائندگی ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔

مظفرگڑھ کا مقابلہ لاہور سے تو چھوڑیں، وہ بہت دور ہو جائے گا، مظفرگڑھ کا مقابلہ اس کے ساتھ جڑے ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کی ترقی کے سفر کے ساتھ موازنہ کریں تو مظفرگڑھ کہیں دور بہت دور پسماندگی کی دلدل میں کھڑا ہوا ملتا ہے۔ مظفرگڑھ کی حالت دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اس کا کوئی ولی وارث نہیں ہے۔ شاید نواب مظفر خان کے بعد مظفرگڑھ ایک یتیم کی حیثیت میں اپنے دن پورے کر رہا ہے، اور مظفرگڑھ کے سیاسی میدان سے کوئی ایسا سیاستدان نہیں ابھر جو کہ اس کی نواب مظفر خان کی طرح آواز بنتا، اس تاریخی ضلع مظفرگڑھ کے قد کاٹھ اور وسائل کے مطابق اس کے حقوق کے لئے لڑتا، آواز بلند کرتا، اس کے لئے تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے ایوانوں کے در و دیوار ہلا دیتا کہ اس کے مظفرگڑھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟

اس کے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کے فنڈز کہاں جا رہے ہیں؟ لیکن ایسا یہاں کے سیاستدانوں کی طرف سے نہ ہوا، جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ قیام پاکستان کو 73 سال ہونے کے بعد بھی مظفرگڑھ اپنے شہریوں کے لئے بنیادی سہولتوں کے لئے تن تنہا سراپا احتجاج ہے۔ کیوں کہ یہاں کے عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے والے نمائندوں میں سے کوئی بھی اس کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں میں اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔

اتنی زرخیز مٹی کے لوگ اپنے بچوں کو وہ سہولتیں جو کہ اس سے جڑے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے شہریوں کو حاصل ہیں، وہ بھی تخت لاہور سے لے کر دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میرے لیے یہ بات حیران کن اور پریشان کن تھی کہ مظفرگڑھ ضلع جو کہ پانچ تحصیلوں جن میں علی پور، جتوئی، کوٹ ادو، مظفرگڑھ، کوٹ ادو اور اب ایک نئی تحصیل کا وارث بھی بن چکا ہے، اس کے ارکان اسمبلی صوبائی اسمبلی کی تعداد 12 ہے۔ حیران اور پریشان ہونے کی کہانی طرف آتا ہوں۔

ہوا یوں کہ میں نے اس بارے میں جاننے کے لئے کہ مظفرگڑھ کے ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی تعداد کتنی ہے؟ پہلی فرصت میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب کی ویب سائٹ پر گیا کہ آخر دیکھوں تو سہی کہ مظفرگڑھ کے ارکان اسمبلی ہیں بھی سہی؟ یا پھر ایسے واویلا ہے کہ مظفرگڑھ اپنے ارد گرد ضلعوں سے زیادہ تعداد میں ارکان اسمبلی کی نشستیں رکھتا ہے، قومی و صوبائی اسمبلی کی ویب سائٹس پر وزٹ پر پتہ چلا کہ واقعی ایک درجن صوبائی اسمبلی پنجاب کے ارکان ہیں جبکہ آدھا درجن ارکان قومی اسمبلی ہیں۔

یقیناً ایک ضلع کے ارکان اسمبلی اتنی تعداد اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ بڑی آبادی والا ضلع ہے، ایسے تو اتنی تعداد میں نشستیں تخت لاہور اور اسلام آباد کے ایوان میں نہیں ملتی ہیں۔ خیال آیا کہ مظفرگڑھ کے شاندار رپورٹر فاروق شیخ سے رابط کروں، فاروق کے ساتھ سرائیکی ٹی وی چینل روہی میں کام کیا تھا، راقم الحروف کو اندازہ تھا کہ فاروق اس حوالے سے اچھی معلومات دے سکتا ہے۔ فاروق نے گرمجوشی سے فون اٹھایا، وہی محبتیں جو کہ ہمیشہ ملتی ہیں۔

میں نے پہلی فرصت میں تو فاروق کی خیریت دریافت یوں کی راقم الحروف کو سوشل میڈیا سے پتہ چلا تھا کہ فاروق شیخ موٹرسائیکل پر تھا اور پتنگ کی ڈور گلے میں آ گئی تھی لیکن پروردگار کا احسان ہوا کہ فاروق بڑے حادثہ سے بچ گیا، فاروق نے بتایا کہ کلاسرا بھائی شکر الحمدللہ، کرم ہو گیا۔ پھر بات آگے بڑھی تو میں نے پوچھا فاروق یہ بتاو، مظفرگڑھ کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد کتنی ہے؟ فاروق شیخ نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ آپ اسلام آباد کے صحافی بھی ہمارے جیسے دور دراز کے علاقوں کے صحافیوں کا امتحان لیتے ہیں؟

او بھائی جی آپ اسمبلی کی ویب سائٹ سے وزٹ کرلیتے۔ میں نے کہا فاروق جو بات آپ کے بحیثیت صحافی کے بتانے میں ہوگی۔ وہ بات ہے اسمبلی کے ریکارڈ میں بھلا کہاں ہوگی۔ اچھا کلاسرا صاحب لکھیں 1۔ ملک غلام قاسم ہنجرا 2۔ اظہر خان چانڈیہ 3۔ اشرف خان رند 4۔ نیاز حسین خان 5۔ میاں علمدار عباس قریشی 6۔ عبدالحیی دستی 7۔ سردار عون ڈوگر 8۔ نوابزادہ منصور علی خان 9۔ خرم لغاری 10۔ زہرہ بتول 11۔ رضا حسنین بخاری 12۔ سبطین رضا۔

یوں بارہ ارکان صوبائی اسمبلی کے بعد فاروق شیخ نے کہا کہ جی یہ مظفرگڑھ کے پنجاب اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے ارکان اسمبلی لیکن کتنی نمائندگی کرتے ہیں؟ اس بارے میں کیا عرض کروں؟ وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں مظفرگڑھ کے لئے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں؟ میں نے عرض کیا شیخ صاحب اس طرف تو آتے ہیں لیکن پہلے میری یہ تسلی کروائیں کہ مظفرگڑھ کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد کتنی ہے؟

فاروق شیخ نے قہقہہ لگایا اور کہا کلاسرا صاحب، ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کو مظفرگڑھ کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد کا پتہ نہ ہو، آپ تو کافی دیر سے جنوبی پنجاب بالخصوص تھل کے اضلاع کے حوالے سے خبریں میں تحقیقی کالم لکھ رہے ہیں۔ چلو آج آپ نے تہیہ کیا ہوا کہ فاروق شیخ کی زبانی ہی مظفرگڑھ کے ارکان قومی اسمبلی کے نام سننے ہیں تو لکھیں 1۔ محمد شبیر علی قریشی 2۔ مہر ارشاد احمد سیال 3۔ ملک رضا ربانی کھر 4۔

نوابزادہ افتخار بابر خان 5۔ مخدوم زادہ باسط احمد سلطان 6۔ عامر طلال گوپانگ۔ جی کلاسرا صاحب یہ مظفرگڑھ کے ارکان قومی اسمبلی ہیں جو کہ مظفرگڑھ کے عوام کے نمائندے کی حیثیت میں آپ کے اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ اور ایوان میں مظفرگڑھ کے ایشوز پر کتنی بات کرتے ہیں؟ اس کے بارے میں آپ بتا سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ شیخ جی ابھی کہانی آگے بھی ہے؟ جی ضرور، میں حاضر ہوں، میں نے عرض کیا کہ مظفرگڑھ میں کس پارٹی کو کتنی اکثریت ملی ہے؟

جی مظفرگڑھ کی صوبائی اسمبلی کی دو سیٹوں پر نواز لیگی امیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں اظہر عباس اور ملک غلام قاسم ہنجرا شامل ہیں جبکہ باقی دس سیٹیوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی میں پہنچے تھے۔ میں کہا شیخ صاحب یہ تو مظفرگڑھ کی عوام نے تحریک انصاف مطلب عمران خان پر بڑے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ لیکن جواباً کیا ہوا ہے؟ فاروق شیخ نے کہا سئیں اگوں آپ سیانٹیرے ہیووے، خان دا بزدار مظفرگڑھ نال کیا کریندا پئے۔

مطلب آپ خود سمجھدار ہیں، خان کا بزدار مظفرگڑھ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ میں نے کہا رکیں اس طرف بھی آتے ہیں کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے مظفرگڑھ کے ساتھ کیا سلوک رواء رکھا ہوا ہے لیکن پہلے یہ بتائیں، مظفرگڑھ کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر پارٹی پوزیشن کیا ہے؟ تو فاروق شیخ نے بتایا کہ مہر ارشاد سیال، ملک رضاربانی کھر اور نوابزادہ افتخار بابر پیپلز پارٹی کی ٹکٹوں پر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ محمد شبیر علی قریشی، مخدوم زادہ باسط احمد سلطان، عامر طلال گوپانگ تحریک انصاف کی ٹکٹوں پر کامیاب ہوئے تھے۔

مطلب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مظفرگڑھ میں تین تین نشستوں کے ساتھ برابر رہی ہیں۔ اچھا شیخ صاحب اب مظفرگڑھ کے حوالے سے یہ بتائیں کہ یہاں کوئی یونیورسٹی ہے؟ سچی بات ہے کہ فاروق شیخ کی آواز بھرا گئی اور بتایا کہ کلاسرا بھائی مظفرگڑھ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، میں نے کہا کیا مطلب؟ جی کچھ بھی نہیں ہے مظفرگڑھ میں یونیورسٹی چھوڑیں، کیمپس تک نہیں ہے۔ اور یہاں انجنیئرنگ یونیورسٹی سے لے کر زرعی یونیورسٹی سے لے کر یونیورسٹی آف ایجوکیشن تک کا نام و نشان تک نہیں ہے۔

میڈیکل کالج سمیت ڈینٹل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال بھی مظفرگڑھ جیسے تاریخی ضلع میں نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے ترکی کے صدر طیب اردگان صاحب کا انہوں نے سیلاب کے بعد 250 بستروں کا جدید ہسپتال دیا تھا، اس سے صحت کی سہولت ملی اور پھر ہسپتال کے سیکنڈ فیز کے لئے 250 بستروں پر ہسپتال دیا لیکن وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار سیکنڈ فیز کے فنڈز تونسہ شریف لے گئے، رہے نام اللہ کا، جبکہ ہم مظفرگڑھ کے لوگ پانچ سو بستروں کے ہسپتال کی تکمیل پر میڈیکل کالج کا خواب دیکھ رہے تھے کیوں کہ ٹیچنگ ہسپتال کی جو میڈیکل کالج کے لئے ضرورت ہوتی ہے وہ تو ترکی کے صدر اردگان صاحب نے پوری کردی تھی لیکن دلی دور است، شاید ابھی ہمارے اچھے دن آنے میں اور انتظار کی سولی ہے۔

مظفرگڑھ کی تحصیلوں کی ضلعی ہیڈکوارٹر تک سڑکوں کی حالت مظفرگڑھ میانوالی روڈ مطلب قاتل روڈ سے کوئی اچھی نہیں ہے۔ یہاں بھی زندگی اور موت کا سامنا قاتل روڈ کی طرز پر آئے روز ہوتا رہتا ہے اور زندگی موت کے منہ میں جاتی رہتی ہے۔ میں نے فاروق شیخ کو ریلیکس کرنے کے لئے کہا شیخ جی، چلو آپ ڈیرہ غازی خان، بہاول پور اور ملتان سے ترقی کے سفر میں پیچھے ضرور ہیں، آپ کے پاس غازی میڈیکل کالج ڈیرہ غازی خان، قائد اعظم میڈیکل کالج بہاول پور، نشتر میڈیکل کالج ملتان نہیں ہے۔

کوئی یونیورسٹی نہیں ہے لیکن آپ کے پاس ارکان اسمبلی کی تو فوج ظفر موج ہے، دوسری طرف خاموشی چھا گئی، شاید فاروق میرے لفظوں پر خفا ہو گیا تھا۔ لیکن ادھر راقم الحروف کو مظفرگڑھ کے سینئر صحافی فاروق شیخ کی خاموشی سے ایسے لگا جیسے دھاڑ مار کر جواب دے رہا ہو کہ کلاسرا صاحب ایسے نمائندوں کی فوج کا کیا کرنا ہے جو کہ ہمارے مظفرگڑھ کے حقوق کے معاملے میں گونگی اور بہری ہے۔ اور ہماری مظفرگڑھ کی نسلیں پسماندگی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں میں تو اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ کوئی ہے جو نواب مظفر خان کے مظفرگڑھ کے حقوق کا تخت لہور اور تخت اسلام آباد کے ایوانوں میں مقدمہ لڑے؟ کوئی ہے؟

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com