جنگ یزید جیتا تھا کامیاب حسین ہوا تھا
تحریک انصاف کے کارکنان پر 9 مئی کے واقعات کے بعد سے چھائی ہوئی مایوسی 26ویں جعلی آئینی ترمیم کے بعد اور گہری ہو گئی ہے۔ یہ ترمیم ایک طرف جہاں ملک کے قانونی اور سیاسی ڈھانچے کو ایک نیا رخ دے رہی ہے، وہیں دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان اور اس کے رہنماؤں کے لیے ایک اور کٹھن مرحلہ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان کی رہائی ممکن نہیں رہی یا تحریک انصاف پر مزید مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ یہ وہی سوالات اور شکوک ہیں جو تحریک کے کارکنان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود عمران خان کی شخصیت اور ان کا پیغام ہمیشہ قوم کے لیے امید اور حوصلے کی علامت رہا ہے۔
اس آزمائش کے دور میں، عمران خان نے اپنی جماعت اور قوم کو کبھی ناامیدی کی گہرائیوں میں جانے نہیں دیا۔ وہ ایک ایسا لیڈر ہیں جنہوں نے نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بلکہ ہر موقع پر اپنی قوم کو اس پیغام کے ساتھ کھڑا کیا کہ ابھی شکست نہیں ہوئی اور ہمیں اپنے مقصد کی جانب بڑھتے رہنا ہے۔ جب ہمارا لیڈر اتنی مشکلات جھیل کر بھی ہمت اور حوصلے کا پیغام دے رہا ہے، تو ہم کیوں پیچھے ہٹیں؟ یہ سوال ہر اس کارکن کے ذہن میں ہونا چاہیے جو تحریک انصاف کا حصہ ہے۔
9 مئی کے بعد، جب کئی رہنما تحریک کا ساتھ چھوڑ چکے تھے، تب بھی پاکستانی عوام نے عمران خان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ 8 فروری کو ملنے والا عوامی مینڈیٹ ایک واضح پیغام تھا کہ یہ انقلاب رکنے والا نہیں ہے۔ یہ مینڈیٹ اس بات کا ثبوت تھا کہ عوام کا اعتماد آج بھی عمران خان اور تحریک انصاف پر ہے، اور یہ وہ اعتماد ہے جو کسی وقتی لالچ یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ایک سچے نظریے پر قائم ہے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی شاید یہ سمجھتی تھیں کہ وہ اپنے مرضی کے ججوں کو تعینات کر کے عمران خان اور تحریک انصاف کو انصاف سے محروم کر دیں گی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حق اور انصاف کے فیصلے ہمیشہ ضمیر کی آواز کے مطابق ہوتے ہیں، اور یہی ہوا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے بھی تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انصاف کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی سیاسی سازشوں سے حق کو دبایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آج جو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں، ماضی میں وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو لاڑکانہ اور ملتان کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کیا کرتے تھے، اور آج وہی اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا یہ اتحاد وقتی ہے اور اقتدار کی ہوس کے علاوہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی، جو کبھی ایک قومی جماعت تھی، آج صرف ایک صوبے تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے جو اب بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید انہیں پاکستان کا صدر بنا دیا جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب لوگ اپنی سازشوں کے جال میں خود پھنس چکے ہیں۔
اس تمام سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران، میں نے عمران خان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ جب مشکلات آئیں، تو میں ڈٹ کر کھڑا رہا اور آج بھی اپنے قول پر قائم ہوں۔ میں نے خان صاحب سے پہلے بھی کہا تھا کہ میں آپ کا ساتھ دوں گا، اور آج بھی اللہ کے فضل سے میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہ وقت آزمائش کا ہے، اور اس آزمائش میں وہی کامیاب ہوں گے جو صبر اور حوصلے کے ساتھ حق کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
مجھے گجر قوم کی بہادری کی ایک مشہور کہاوت یاد آتی ہے:
"گجر دی یاری، ترک گھوڑے دی سواری نصیباں والیاں نوں ملدی ہے۔”
یہ کہاوت گجر قوم کی وفاداری اور دوستی کی عکاسی کرتی ہے، جو ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دینے کے لیے مشہور ہے۔ یہی وہ دوستی اور وفاداری ہے جو عمران خان کے ساتھ میرا رشتہ ہے۔ میں نے ہمیشہ مشکل وقت میں خان صاحب کا ساتھ دیا اور آج بھی میں اپنے وعدے پر قائم ہوں۔ یہ دوستی کسی وقتی فائدے یا مفاد پر مبنی نہیں بلکہ ایک اصولی موقف اور نظریے کی بنیاد پر قائم ہے۔یاد ہے میرے قائد جب سی ای سی کی میٹنگ میں میں نے کچھ سوال اپ پر اٹھائے تھے اور اپ بہت غصے میں اگئے تھے اور میں نے پاس سے گزرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب اج یہ بہت لوگ سارے لوگ بڑے ٹکڑے لوگ اپ اپنے اس پاس دیکھ کر مجھے غصے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جواب کے اوپر بلوچستان ہاؤس کے باہر میرے بیٹے نوید نبیل اور شکیل نے اپ کے اوپر ڈھال بن کر ساتھ دیا تھا اور جب یہ لوگ اپ کے پاس دائیں بائیں نہیں ہوں گے تو انشاءاللہ ایک گجر کو اپ اپنے پاس پائیں گے اور یقین کریں اس محفل میں جہانگیر ترین بھی تھے شیری مزاری بھی تھی عامر کیانی بھی تھے اور بہت سارے لوگ تھے یہ جو وزیر بنے ہوئے ہیں بے ضمیر لوگ بھی تھے تو خان صاحب نے میری طرف بس دیکھا ہی تھا کچھ کہا نہیں تھا اور خان صاحب نے باہر آ کے پریس کانفرنس کی تھی کہ الیکٹیبل بدمعاش بھی ہو سکتے ہیں اور میں اس پریس کانفرنس سے پیچھے ہٹ گیا تھا اور اج وہ کدھر گئے بدمعاش واقعی بدمعاش تھی چھوٹی موٹی وزارتیں لے کر اپ کو دغا دے گئے جن کی وفا کی اپ قسم کھایا کرتے تھے وہ چوہے کی طرح بلند گھس گئے اپ کو غلط راستے پہ چلا گیا خود اپنے دامن کو بچا لیا وہ راستہ جو پیار اور محبت سے حل کیا جاتا تھا اس کے لیے ہمیں لڑائی لڑنی پڑی اور اتنی بری لڑائی کہ گھر میں ہی ہم الجھ کر رہ گئے
آج جب عمران خان کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا جا رہا ہے، تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو کل تک ایک دوسرے کے مخالف تھے، لیکن آج ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا یہ اتحاد وقتی ہے اور جلد ہی ان کی سازشیں ناکام ہو جائیں گی۔ یہ وقت تحریک انصاف اور اس کے کارکنان کے لیے ثابت قدم رہنے کا ہے، کیونکہ حق کی فتح ہمیشہ حق والوں کا مقدر ہوتی ہے۔
یہ جدوجہد صرف تحریک انصاف یا عمران خان کی نہیں بلکہ یہ پاکستان کے عوام کی جدوجہد ہے۔ یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے 8 فروری کو تحریک انصاف کو عوامی مینڈیٹ دیا تھا، اور یہ وہی عوام ہیں جو آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس تحریک کا مقصد صرف اقتدار نہیں بلکہ انصاف، قانون کی حکمرانی اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر ہے۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں عمران خان کا ساتھ دوں گا، اور آج بھی میں اپنے وعدے پر قائم ہوں۔ اللہ کی مدد اور عوام کی حمایت کے ساتھ، ہم اس جدوجہد کو کامیابی تک پہنچائیں گے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے حوصلے کو بلند رکھنا ہے اور اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا۔
اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے، اور وہ دن دور نہیں جب حق کی فتح ہوگی اور یہ تمام سازشیں دم توڑ جائیں گی۔ انشاللہ یہ پاکستان قائدا اعظم کا پاکستان بنے گا علامہ اقبال کے اشعار کی روشنی میں خوبصورت پاکستان بنے گا اور نکاش پاکستان چوہدری رحمت علی جن کے بارے میں اپ کہا کرتے تھے کہ چوہری رحمت علی کچھ صدی بعد انے والے وقت کو دیکھ کر بات کیا کرتے تھے خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را