کئی سالوں سے ماہ رمضان اور اس سے قبل چند ہفتے لیہ میں عام اور غریب لوگوں کے درمیان گزارنا ایک معمول ہے۔ گھر میں بیٹھے رہنا اور روزانہ کی بنیاد پر ایک بڑی تعداد میں لوگوں سے ملنا آسان کام نہی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ خود گاڑی چلاتے رہنا اور ضلع کے طول و عرض میں گھومنے پھرنے میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے اور یہ ایک میرا پسندیدہ مشغلہ سا بن گیا ہے۔
دوست تو میری گھر سے اکثر غیر حاضری کی وجہ سے ناراض ہو جاتے ہیں لیکن میرے لئے خود مختلف اور انجان لوگوں سے ملنا، کھیت کھلیان، چک، گاوں اور فطرت کے بیش بہا نظاروں کا مشاہدہ زیادہ خوشی کا باعث بنتا ہے۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔
اس سفر میں میری گاڑی میں بچوں کے لئے چھوٹی موٹی کھانے پینے کی چیزوں کے پیکٹس، کاپیاں، ڈائیریاں، پین، پینسلیں وغیرہ اور بڑوں کے لئے کچھ کپڑوں کے جوڑے گاڑی میں موجود رہتے ہیں۔ اور دوران سفر بچوں اور بظاہر مالی طور پر کمزور نظر آنے والے لوگوں کے چہروں پر اچانک ملنے والے ان معمولی سے تحفوں کی وجہ سے جو خوشی نظر آتی ہے وہ قابل دید ہوتی ہے۔ یہ تحفے تقسیم کرکے ماضی میں جب بھی ایسے سفر سے میرانی ہاوس واپس لوٹتا تھا۔ خوشی اور مسرت کے ایک سمندر میں ڈوبا محسوس کرتا تھا۔ اور ایسا لگتا تھا جیسے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر لوٹا ہوں۔
لیکن اس سال ایسا نہی ہوا۔
سالہا سال سے جاری اس مشغلے سے خوشی نہی بلکہ دل کا بوجھ بڑھ گیا۔ اور چند روز بعد ہی یہ شغل موقوف کرنا پڑا۔ اور شائید آئیندہ بھی میرے لئے اس طمطراق سے نکلنا ممکن نہی ہوگا۔
جتنی غربت اس سال دیکھی پہلے کبھی نہی دیکھی تھی۔ جتنی بڑی تعداد میں خیرات اور زکات کے مستحق لوگ، مرد خواتین بوڑھے بچے سب ایک ساتھ جگہ جگہ قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔ یہ ایک انتہائی دلخراش منظر تھا۔یہ لوگ شوقیہ گھروں سے آسان روزی کے لئے نکلے ہوئے نظر نہی آتے تھے۔ غربت، بے کسی اور بے بسی ان کے چہروں اور لباس پر لکھی ہوئی تھی۔ کہیں راشن تقسیم ہورہا تھا، کہیں بے نظیر انکم سپورٹ وصول کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ اور کہیں اہل خیر خیرات اور زکات کیش اور اشیاء کی صورت میں تقسیم کر رہے تھے۔
کچھ جگہوں پر منظم طریقہ کار نظر آیا لیکن اکثر جگہوں پر دھکم پیل اور قدرے افراتفری نظر ائی۔ ایک جگہ تو سائیلین کے درمیان جھگڑا بھی چل رہا تھا۔ دوسری جگہ لوگوں کا اتنا جم غفیر تھا کہ مال و اسباب تقسیم کرنے والے تاجر نے اپنی دوکان کا شٹر ہی گرا دیا۔
لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں خیرات، عطیات اور زکات کے لئے گھروں سے نکلنا، گھنٹوں انتظار کی کوفت سہنا اور خوار ہونا کسی بھی معاشرے اور حکومت کے لئے باعث فخر نہی بلکہ باعث تکلیف اور باعث شرمندگی ہونا چاہیے۔
میرے لئے بھی یہ دلخراش مناظر باعث شرمندگی اور ناقابل برداشت تھے۔
ایک جگہ دور گاڑی روک کے لائن میں لگے ایک بوڑھے سے شخص کے پاس گیا جو وضح قطع اور بے شکن لباس سے بظاہر غریب نظر نہی آتا تھا۔ سلام کے بعد مشورہ نما اور محتاط انداز میں قدرے دھیمے لیجے میں بولا کہ "بزرگو آپ جیسے لوگوں کو تو خیرات زکات کے لئے لائن میں نہی لگنا چاہیے”۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے لگا کہ کوئی سخت جواب دینے لگا ہے۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ وہ نظریں نہی ملا رہا تھا لیکن اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار بہت نمایاں تھے۔ توقف کے باوجود بھی وہ کچھ نہی بولا۔ بس جیب میں ہاتھ ڈالا اور بجلی کا بل میرے سامنے کر دیا۔
میں نے پڑھا۔ ادائیگی کی تاریخ کب کی گزر چکی تھی۔ واجب الادا بل 43500 روپے تھا۔
ساتھ والا شخص بولا، ریٹائیرڈ پرائمری سکول ٹیچر ہیں، ماہانہ پنشن تقریبا” 17000 ہزار روپے ہے۔ اولاد کوئی نہی۔ بیوی بیماری کی وجہ سے ایک سال سے بستر پر ہے۔ اپنا گھر نہی۔ 4000 روپے ماہانہ کرائے پر رہتے ہیں۔ اب شرمندہ ہونے کی باری میری تھی۔ ایک لمحے میں ماضی کے اس استاد کی مشکلات ایک کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے تھیں۔ ایسے لگا کہ صرف بے حس حکمران ہی نہی، میں اور میرے جیسے لاکھوں لوگ اس شخص کے مجرم ہیں۔ میری نظریں زمیں میں گڑ گئی تھیں۔ بڑی مشکل سے اس سفید پوش شخص کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش تھا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کے لئے کسی محدب عدسے کی ضرورت نہی تھی۔
میں نے بھی جلدی سے آنکھیں پھیر لیں کہ نہی چاہتا تھا کہ وہ شخص یا مجمعے کے دیگر لوگ میری آنکھوں میں اتری نمی کو دیکھ لیں۔