مفاد عامہ کا چورن اور اشرافیہ کی حاکمیت
لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کا سیمنار ہال میڈیا اسٹڈیز کے طلبہ سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ نیا جاننے کی جستجو میں یہ نوجوان کافی پرجوش نظر آرہے تھے۔ تب پہلا سوال میں نے ان سے یہی پوچھا کہ ’لاہور جم خانہ‘ کون کون جاتا ہے؟
گنتی کے چار ہاتھ کھڑے ہوئے۔ وجہ پوچھی تو جم خانہ کی لاکھوں روپے سالانہ فیس اور فارمیلٹیز تھیں، جو صرف بیوروکریٹس اور امراء ہی پوری کر سکتے تھے۔ میں نے تب طلبہ سے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں یہ کنالوں پر محیط زمین کس کی ہے؟ حیرت اور سوالیہ نگاہیں میری جانب مرکوز تھیں۔
میں نے بتایا کہ یہ زمین حکومت پنجاب نے 1996ء میں جم خانہ کی انتطامیہ کو 2030ء تک کے لیے سالانہ پانچ ہزار روپے کرایے پر دی ہے۔ یعنی یہ ہماری، عام شہریوں کی زمین ہے مگر ہمارا ہی داخلہ ممنوع ہے۔
یہ کسی ایک ضلع یا صوبے کا مسئلہ نہیں ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں کئی ایکڑ پر محیط اسلام آباد کلب بھی اشرافیہ کو تفریح کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے صرف چار ہزار روپے فی ایکٹر کے حساب سے کرایے پر دیا گیا ہے۔ سال 2020ء میں ایک شہری نے اسلام آباد کلب میں داخل ہونے کی اجازت تو دور کی بات صرف ممبرشپ کا طریقہ کار پوچھا تو جواب ملا کہ ہم پاکستان کے شہریوں کو جواب دہ نہیں ہیں۔
آزادی کے اتنے برسوں کے بعد سے اب تک غریب اور امیر کا فرق بالکل ایسے ہی بڑھتا گیا ہے، جیسے غروب افتاب کے وقت انسان کا سایہ بڑھتا ہے۔
یہ 2020ء کی بات ہے، جب اچانک ایک خبر نے آگ پکڑی۔ پڑھنے والے سوچ میں پڑ گئے تھے کہ اس پر ہنسیں، حیران ہوں یا اپنے ہونے کا ماتم کریں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی امدادی رقم، جو بظاہر غرباء کے لیے مختص کی گئی تھی، اس سے سالہا سال تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار اہلکار، جن کا تعلق گریڈ 1 سے 16 تک تھا، مکمل فائدہ اٹھاتے رہے جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی تعداد 2037 تھی۔ یہ افسران یا تو خود ہر ماہ یہ امدادی رقم وصول کرتے رہے یا پھر ان کے خاندان کا کوئی فرد۔
نام ظاہر ہونے پر بلاشبہ ان افسران کی توقیر میں بظاہر کچھ کمی آئی ہو گی مگر اشرافیہ کی بے چارگی اب بھی یونہی قائم ہے۔ اسلام آباد میں قائم شفاء ٹرسٹ اسی طرح کی دوسری بڑی مثال ہے۔ یہ ٹرسٹ سرکاری زمین، جو کہ مفاد عامہ کے کاموں کے لیے حکومت کی جانب سے عطیہ کی گئی تھی، پر تعمیر شدہ ہے مگر خود کو پبلک باڈی سمجھنے سے منکر ہے۔
معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت، جب اس ٹرسٹ کی انتظامیہ سے عطیہ دینے والے احباب کی تفصیل اور عطیہ کی رقم سے علاج کروانے والے مریضوں کی تفصیل مانگی گئی تو ٹرسٹ کی انتظامیہ نے جواب دینے سے مکمل انکار کر دیا کہ یہ ٹرسٹ پرائیویٹ ادارہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قانون 19/اے کے تحت سرکاری زمین پر تعمیر یہ ٹرسٹ پبلک باڈی ہے اور عوام کو جواب دہ ہے۔ مگر ہماری بیچاری اشرافیہ لاکھوں بلکہ کروڑوں کی جائیدادیں ہوتے ہوئے بھی خود کو خیرات کا پہلا مستحق سمجھتی ہے۔
اسلام آباد شہر کے وسط میں سیکڑ ایچ ایٹ میں تعمیر شدہ بہت سے پرائیویٹ تعلیمی اور صحت کے اداروں کو بھی اربوں کی زمین یونہی کوڑیوں کے بھاؤ دے کر سی ڈی اے سمیت تمام احباب اپنی جیبیں بھی گرم کر رہے ہیں اور عوام کے اٹھائے گئے سوالوں پر ان کے لیے زمین کو مل کر مزید تنگ بھی کر رہے۔ مگر اہم بات یہ ہے عموماﹰ کاغذات میں اس زمین کا ذکر کسی نہ کسی عوامی مفاد کے لیے کیا گیا ہے اور قانونی تقاضے پورے ہیں۔
یوں تو سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہر شام ٹی وی شوز میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن اگر عوام ان سے کسی بھی منصوبے یا کام کے حوالے سے معلومات مانگ لیں تو سیاست دان اپنی سیاسی وابستگی کو بھول جاتے ہیں اور بیوروکریسی کے ساتھ مل کر معلومات کو عوام کی دسترس سے دور کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں۔
ہم نے بھارت کو دو حصوں میں اس لیے بانٹا تھا کہ ہمیں انسانیت کو فروغ دینا تھا۔ ہمارے ابا کہتے تھے کہ ہندوستان میں ہمارے ساتھ اچھوتوں والا برتاو ہوا کرتا تھا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانیت کے لائق کسے سمجھا جاتا ہے؟ مفاد عامہ کے لیے چلائی گئی حکومتی امدادی سکیمیں ہوں یا سرکاری کاغذات میں درج زمینیں، ان سب پر قابض حاکم ہے، امر ہے، بیوروکریٹ ہے یا پھر وہ، جس کی پشت پر طاقت اور پیسہ ہے۔
غریب ہندوستان میں بھی بھوکا تھا، لاچار تھا، بے بس تھا اور غریب پاکستان میں بھی اسی حالت میں ہے۔ نہ مذہب نے وہاں پیٹ بھرا اور نہ اس آزاد مملک خداداد میں غریب کے پیٹ کو ایندھن میسر ہے۔ مگر انگریز کا دیا ہوا آمرانہ اور حاکمانہ طرز حکومت ہماری اشرافیہ نے دل و جان سے قبول کیا۔
مفاد عامہ کے نام پر چلنے والی تمام اسکیمیں کہیں نہ کہیں حاکم کے پیٹ کا ایندھن بن رہی ہیں۔ عوام اپنا کشکول لیے کبھی آسمان کے خدا سے رحم کے طالب ہیں اور کبھی زمینی خداؤں سے جبکہ بدقسسمتی یہ ہے کہ جواب کہیں سے نہیں مل رہا۔