ووٹ قوم کی امانت ہے۔ اس کا استعمال ضرور کیجئے اور سوچ سمجھ کر اپنے ضمیر، فہم و فراست، سیاسی شعور و سوجھ بوجھ سے کام لے کر ملک اور اپنے اجتماعی مفاد میں کیجئے۔ اور صحیح نمائیندوں کا انتخاب کیجئے۔
بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں سوچنے والے اور دور اندیش لوگ کم ہوتے ہیں اور ہمارے ملک میں تو ویسے بھی قحط الرجال ہے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہر بار پرانے لوگ چہروں پر نئی نقابیں پہن کر اور نئے وعدوں کے ساتھ ہمیں لوٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
وطن عزیز میں سیاست سب سے بڑا کاروبار ہے۔پاکستان کے عوام عمومی طور پر اور لیہ جیسے چھوٹے شہروں کے لوگ خصوصی طور پر احساس محروی کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ پیسے، رتبے، عہدے، رعب داب، بڑی گاڑیوں اور محل ماڑیوں سے نفسیاتی طور پر زیادہ مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے عام، صحیح اور مخلص نمائیندوں کا انتخاب نہی کر پاتے۔ اس طرح پیسہ لگا کر منتخب ہونے والے لوگ اپنی دولت اور جائیداد میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور اپنی نسلیں سنوار جاتے ہیں لیکن اپنے ووٹرز کو مزید پسماندگی اور غربت میں دھکیل جاتے ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں یہ مکروہ کھیل جاری رہتا ہے۔
ذرا سوچئے، کہیں اس بار بھی ہم اس مکروہ کھیل کا حصہ تو نہی بن رہے؟ اگر ہم لیہ کی سیاست پر کریں تو اکثر لوگوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ "ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں” یہ سوال کسی حد تک درست ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سردار فرید خان میرانی کی صورت میں ایک بردبار اور عوام کی امنگوں کا ترجمان ایک حقیقی اور مخلص امیدوار موجود ہے۔ اس تاریخی موقع کو ضائع نہ کریں اور ان کو ووٹ دیکر جتوائیں۔ اگر اب بھی لوگ ان کو ووٹ نہ دیں تو پھر آنے والے وقتوں میں پہلے سے آزمائے ہوے موروثی لوگوں سے کوئی توقع نہ رکھیں اور قسمت کا رونا نہ روئیں۔
علاقائی ترقی اور مسائل کے حل کی صلاحیت، ارادہ اور منصوبہ صرف میرانی صاحب کے پاس ہے۔
میرانی صاحب کو ووٹ دینا ان کے اپنے اور پورے حلقے کے مفاد میں ہوگا۔ان کو ووٹ دیں۔ اپنے لئے، حلقے کی ترقی کے لئے۔
اگر سردار فرید خان میرانی کے علاوہ اگر کوئی بہتر آپشن ہے تو وہ راقم الحروف کی نظر میں انجم صحرائی، حفیظ تھند بہتر شخصیات ہیں۔
لیکن لوگ صرف محل ماڑیوں، گاڑیوں، پیسے، رتبے، پیری مریدی اور چودھراہٹ سے متاثر ہوتے ہیں۔ پھر نظریات، برادری، دوستی، تعلقات، خاندان کے سربراہ اور بڑوں کی ہدایات، کسی کے ماضی کے احسانات یا مستقبل کی توقعات کو بھی مد نظر رکھنا ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ درایں حالات کسی مفاد کے بغیر محض اعلی و ارفع مقصد کے لئے ووٹ دینا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہی رہتی۔
یہ ہمارے معاشرے کی چند قابل ذکر حقیقتیں ہیں جن کی موجودگی میں
کسی شخص کا محض خلوص، مضبوط کردار یا شخصیت کی بنیاد پر جیتنا مشکل ہوتا ہے۔
ہم نے تو محترمہ فاطمہ جناح کو بھی ہرا دیا تھا۔