میرانی دور حکومت میں 1520 ء تا 1748 لیہ صوبائی صدر مقام رہا، میرانی خاندان کے گورنر یہاں رہ کر علاقہ تھل کو کنٹرول کرتے تھے، میان عبدالنبی کلہوڑہ 1789 تا 1793 تک بھی لیہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنائے رکھا، دیوان ساون مل نے 1836 ء میں لیہ کا انتظام سنبھالنے کے بعد لیہ کو ہیڈ کوارٹر مقرر کرکے اپنے بیٹے کرم نارائن چند کو یہاں مقررکیا، اگلی لیہ کی کہانی یوں ہے کہ انگریزوں نے لیہ کو 1849 ء میں ڈویثرن کا درجہ دیا اور ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور خان گڑھ موجودہ ضلع مظفرگڑھ اس کےاضلا ع تھے۔ لیکن دلچسپ صورتحال اسوقت پیدا ہوئی، جب گیارہ سال بعد لیہ کو ترقی دے کر آگے کا درجہ دینے کی بجائے لیہ جوکہ ڈویثرن تھا، اس کو ضلع بنادیاگیا مطلب پیچھے مڑ اور سیدھا چل کا فارمولا لیہ پر فٹ کردیاگیا۔تاریخی حیثیٰت کے حامل لیہ کو ضلع کی حیثٰیت میں ہی رہنے دی جاتی تو بات تھی لیکن لیہ پہ آیا برا وقت تھاکہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، اس دوران لیہ کی کہانی یوں الجھی کہ اس کو 1861 ء میں اس کی ضلعی حیثیٰت کو ختم کرکے، اس کو تحصیل کا درجہ دے کر ڈیرہ اسماعیل میں شامل کردیاگیا، جی اس ڈیرہ اسماعیل خان میں جوکہ ایک وقت میں لیہ ڈویثرن میں ضلع کے طورپر شامل علاقہ تھا، لیہ کے پیچھے لگی نادیدہ قوتوں کو ایسا لیہ کے ٹوٹے کرنے اور اس کو دیوار کے ساتھ لگانے کا چسکا لگا کہ انہوں نے ایک بار پھر لیہ کے عوام کو ایک خربازی دی کہ رہے نام اللہ کا۔
لیہ کو کو ڈیرہ اسماعیل خان سے الگ کرکے میانوالی ضلع میں شامل کردیا۔ اب دیکھتے جائیں کہ لیہ کہاں سے میرانی دور سے لے کر دیوان ساون مل تک کس حیثیت میں تھا؟ اور اب اس کو میانوالی کے نیچے دیدیاگیا تھا۔ لیہ کی اگلی کہانی بھی یوں دلچسپ ہے کہ ان مسلط کیے گئے فیصلوں سے واضع ہوتا ہے کہ لیہ جیسی تاریخی حیثٰیت اور جغرافیائی اہمیت کی حامل دھرتی کا کوئی ولی وارث نہیں تھا، اگر تھا بھی تو اس قابل نہیں تھا کہ ان لیہ دھرتی خاص طور تھل کے مرکزی شہر کے خلاف فیصلوں پر آواز اٹھاتا اور با آور کراتا کہ اب کی بار ایسا نہیں چلیگا، یوں وارث نہ ہونے کا نقصان لیہ کو یوں ہوا کہ 1901 ء میں لیہ کو میانوالی سے نکال کر مظفرگڑھ میں شامل کردیاگیا، ایک اینڈ سے اٹھاکر دوسرے اینڈ کے ساتھ نتھی کردیاگیا، تاریخ کے اوراق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کسی نے بھی لیہ کو دی گئی اس خربازی پر آواز نہیں اٹھائی تھی، پھر یوں ہوا کہ لیہ کو 1982 ء تک مظفرگڑھ ضلع کی تحصیل رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہی وہ مظفرگڑھ ضلع ہے جوکہ 1840 میں جب انگریزوں نے لیہ کو ڈویثرن کا درجہ دیا تھا تو ضلع مظفرگڑھ اس کے اضلاع میں شامل تھا۔ بہرحال یکم جولائی 1982 میں لیہ کو طویل تکلیف دہ چکر دینے اور دربدر کرنے کے بعد ضلعی صدر مقام بنا دیاگیا، اس وقت ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا اور راجہ ظفرالحق وفاقی وزیر نے افتتاح کیا تھا۔ تاریخ لیہ کے منصف مہر نورمحمد تھند مرحوم نے تو لیہ کے بارے میں لکھتے ہوئے لکھا ہے کہ لیہ کے سن آغاز وبنیاد کے بارے میں عام طور پر سال 1550 ء دیا جاتا ہے اور لیہ کی وجہ تسمیہ، لیاں، سے اخذ کیا جاتا رہا ہے لیکن میں نے ہر دو باتوں سے اختلاف کیا ہےاور اپنے اختلاف کی عمارت ٹھوس اور مدلل تحقیق پر تعمیر کی ہے۔
لیہ ہزاروں سال پرانا شہر ہے، چینی ساح ہیون سانگ 634 ء۔ 640 ء نے لیہ کو FALANA کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ یہ شہر ساتویں صدی عیسوی تک دریائے سندھ کے غربی کنارے پر آباد تھا لیکن دریائے سندھ کے کٹاؤ کے باعث آٹھویں صدی میں دریا برد ہوکر مشرقی کنارے پر پرانے نام لیہ سے آباد ہونا شروع ہوا۔ یہاں مسلمانوں کی آمد سلطان محمود غزنوی کے حملوں سے شروع ہوئی، اس سے قبل ہندو شاہی پال خاندان نے کروڑ کو مرکز بناکر سارے تھل پر کنڑول حاصل کیا ہوا تھا۔
محمود غزنوی نے اس قلعہ پر حملہ آور ہوکر کوٹ کروڑ فتح کرکے حضرت سلطان حسین قریشی کو بطور جاگیر عطاکیا۔ انہوں نے اس سرزمین پر دین اسلام کی تبلیغ کرکے حق ادا کیا، اسی سرزمین پر اسی خاندان کے قریش میں سے حضرت بہاء الدین ذکریا پیدا ہوئے جن کے توسط سے برضغیر پاک وہند اسلام پھیلا، بعدازاں حضرت لعل عیسن، حضرت راجن شاہ شاہ بخاری اور حضرت شاہ حبیب جیسی برگزیدہ ہستیوں کے علاوہ دیگر اولیا اللہ نے تبلغ کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔
میرانی، جسکانی، کلہوڑے، سدوزئی اور سکھ یہاں لیہ کے حکمران رہے، میرانی خاندان اس لحاظ سے خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ لگ بھگ پونے دوسوسال تک یہ خط، اس میرانی خاندان کے کنٹرول میں رہا۔ مغل خاندان یا درانی خاندان کا اس خط سے تعلق صرف بالواسطہ ہی رہا۔ لیہ کی تاریخی حیثٰیت اور اس کے ساتھ رواء رکھے گئے بدترین سلوک کے بارے میں پہلے کبھی نہیں لکھا ہے لیکن اب اس کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ پنجاب بالخصوص سرائیکی دھرتی میں ہر کوئی اپنے علاقہ کی تاریخ لے کر اپنی پرانی حیثٰیت کی بحالی نہیں تو موجودہ حالات میں لہور سے چھٹکارے کے لئے چوک، چوراہے اور اسمبلیوں میں نعرے لگا رہا ہے، مثال کے طورپر ملتان صوبائی حیثیت کا دعویدار ہے، اسی طرح ملتان کے ساتھ جڑے بہاولپور کے لوگ بھی اپنی ریاست کی بحالی تو نہیں چاہتے ہیں لیکن بہاولپور کی جنرل یحیی کی طرف سے ون یونٹ کے بعد ختم کی گئی بہاولپور کی صوبائی حیثٰیت کی بحالی سے ذرا برابر بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں۔
یہاں یہ بھی ریکارڈ پر رہے کہ لیہ کے ساتھ آج بھی یہاں کی مقامی سیاسی لیڈر اسی طرح خاموش ہے اور لہور اور اسلام آباد کی رضا پر راضی ہے جیسا کہ ماضی میں میرانی دور کا لیہ جوکہ صوبائی مرکز ہونے سے گرتا ہوا، انگریز دور میں ڈویثرن بنا دیا گیا، پھر ڈویثرن سے ضلع اور پھر ادھر سے ادھر؟ اور وہاں سے کہاں کا سلسلہ لیہ کے ساتھ جاری رہا تھا لیکن اس وقت کی قیادت کی طرف سے کوئی آواز اس کی مخالفت میں بلند نہیں ہوئی تھی، یوں صوبائی مرکز کی حیثٰت کا لیہ گرتے گرتے تحصیل کی شکل میں کردیا گیا۔
عرض اتنا کرنا ہے کہ اگر پنجاب کی تقسیم اس بنیاد پر ہونے جارہی ہے کہ ماضی میں کون کتنے قد کاٹھ کا چودھری تھا اور کتنا علاقہ اس کے قبضہ میں تھا تو ہمارے خیال میں لیہ بالخصوص تھل کی تاریخی وجغرافیائی حیثٰیت کو بھی ذہن میں رکھ لیا جائے تاکہ ریکارڈ درست رہے اور اس کو بھی تقسیم میں وہی حیثٰیت دی جائے جوکہ میرانی دور میں اس کی تھی۔ اب دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ جو علاقے ایک وقت میں لیہ کے زیر اثر تھے، اب لیہ کو ان کی عدالت میں بطور ملزم پیش کردیاگیا ہے مطلب ان کے زیر اثر کردیاگیاہے جوکہ سراسر زیادتی اور بے انصافی ہے، اور کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
لیہ ہی نہیں پورے تھل کے سات اضلاع مطلب خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ، بدترین پسماندگی کاشکار ہیں، زندگی کی کوئی بنیادی سہولت تھلوچیوں کو حاصل نہیں ہے؟ مثال کے طور پر تھل میں کوئی سرکاری، پرائیوٹ میڈیکل کالج نہیں ہے، کوئی انجیئرنگ یونیورسٹی نہیں ہے۔ تھل کے پورے سات اضلاع میں کوئی ائرپورٹ نہیں ہے۔ کوئی ٹیکنکل کالج نہیں ہے، پنجاب یونیورسٹی لاہور، ذکریا یونیورسٹی ملتان سے لے کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جیسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے، جی تھل میں کوئی وویمن یونیورسٹی نہیں ہے، کوئی انڈسٹری کا یونٹ نہیں ہے، تھل جیسے پورے علاقہ میں جوکہ زراعت کا مرکز ہے، وہاں پر کوئی فیصل آباد جیسی کوئی زرعی یونیورسٹی کا نام ونشان تک نہیں ہے، گورنمنٹ کالج لاہور جیسا تعلیمی ادارہ، اس دھرتی کے لئے خواب میں دیکھنے پر بھی پابندی ہے، ہائی کورٹ کا بنچ بھی تھل کیلے ممنوع ہے، اسی طرح ان سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ پر مشتمل کوئی ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔
گھپ اندھیرا ہے، موٹروے تھل کے لئے یوں لگتا ہے کہ منع ہے یا پھر قیامت کے دن تھل میں بنائی جائے گی، کیونکہ پورے ملک میں موٹروے بن رہی ہیں اور بنائی گئی ہیں، یہاں پر قاتل روڈ ایم ایم پر ہزاروں لوگ بدترین روڈ حادثوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں لیکن حکومت، ریاست نے کبھی غلطی سے بھی اس علاقہ کے لئے موٹروے بنانا تو درکنار، موٹروے جیسا لفظ بھی استعمال نہیں کرنے کی غلطی نہیں کی ہے، ایم ایم روڈ مطلب قاتل روڈ کو دورویہ کرنے کی خوشخبری ایک تقریب میں معروف صحافی روف کلاسرا کو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے دی تھی لیکن اب پتہ چلاہے کہ وہ گپ تھی کیونکہ اخبارات میں رپورٹ ہواہے کہ اس کے لئے فنڈز ہی جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
ٹراما سنٹر سے لے کر ٹیچنگ ہسپتال اور ڈیٹنل کالج تک کچھ بھی تو تھل کی دھرتی میں نہیں ہے۔ ادھرتھل کے ضلعی ہسپتالوں کی صورتحال یوں خراب ہے کہ لیہ ہسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر میں کام کررہا ہے۔ بجائے لیہ ضلعی ہسپتال کو اس کے لئے مختص کی گئی زمین پر منتقل کرنے کے ہسپتال کے ساتھ جڑے گورنمنٹ ڈگری کالج لیہ کی زمین پر ہسپتال کا ایک بلاک بنادیا گیا ہے جوکہ غیر قانونی عمل تھا اور ہے لیکن لیہ میں بدانتظامی، سرکاری زمینوں اور خزانہ پر ہاتھ صاف کرنیوالوں کے خلاف قومی احتساب بیورو نے کبھی ایکشن لینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
جی دلپشوری کے لئے کبھی کبھار نیب کی پریس ریلیز میں یہاں کے کرپٹ عناصر کے نام پڑھنے کو ضرور مل جاتے ہیں؟ لیکن یوں لگتاہے کہ ان کے لئے یا تو نیب کے پاس اختیار نہیں ہے یا پھر وہ سب مایا کام دکھا رہا ہے کہ یہ ملزم سے خان، ملک اور چودھری بن کر بیٹھے ہیں۔ لیہ میں کالج کی زمین پر ہسپتال کا بلاک بنانے تک کارروائی محدود نہیں ہے بلکہ گلبرگ ہوٹل جوکہ لیہ شہر کے وسط میں ہے، اس کے ساتھ جڑے جی ٹی ایس کے اڈے کے پلاٹ پر ایک پلازہ راتوں رات یوں کھڑا کردیاگیا ہے کہ شہباز شریف دور میں ضلعی انتظامیہ کو حکم ملا کہ اس اربوں کے پلاٹ کا تیایا پانچہ یوں کرنا ہے کہ ملتان کی ایک پارٹی کو کاغذوں میں جع تفریق کرکے بس دینا ہے اور دیدیا گیا ہے۔
اور آج تک میڈیا چیخ کر چیخ کر تھک گیا ہے لیکن کسی تحقیقاتی ادارہ یا انصاف کی دعویدار حکومت پر جوں تک نہیں رینگی ہے کہ وہ اس اربوں روپے کے پلاٹ کی فائل کو ہی دیکھ لیتی کہ اس پلاٹ کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوا ہے؟ اسی طرح گلبرک ہوٹل لیہ کے پیچھے مائی ماتاں مندر اجڑ تو گیا ہے لیکن اب وارداتوں میں مصروف مافیا اس کی قیمتی شہری کمرشل زمین پر ہاتھ صاف کرنے کے درپے ہے۔ ادھر ضلعی انتظامیہ لیہ سے لے کر صوبائی دارالحکومت لہور تک لیہ کے مفادات سے یوں لاتعلق نظرآتاہے کہ دل دہل جاتاہے، اسی طرح دریائے سندھ کے کٹاؤ نے سونا اگلتی زمینوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن واویلا ہوا کہ چوالیس کروڑ روپے کے فنڈز آگئے ہیں، رکن قومی اسمبلی کروڑ مجید خان نیازی اور رکن صوبائی اسمبلی احمد علی اولکھ وقت سے پہلے اس چوالیس کروڑ کے وارث بن کر میدان میں آگئے لیکن کہانی یوں یوٹرن لے گئی کہ دونوں کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں آیا اور دریا کی تباہی کے شکار لوگ بھی رل گئے ہیں۔
طارق خان نیازی جوکہ یونیورسٹی فیلو ہیں، اور آج کل فیصل آباد میں ڈپٹی کمشنر ہیں، ان کی طرف سے واڑاں سہیٹراں کروڑ لیہ کے علاقہ میں دریائے سندھ کے کٹاؤ کی ویڈیو ملی، ان کو کسی نے بھیجی تھی جوکہ موصوف نے مجھے بھیجی دی، کٹاؤ کی ویڈیو دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ لیکن حیرت ہے کہ پنجاب حکومت سے لے کر ضلعی انتظامیہ لیہ اور ارکان اسمبلی خاموش ہیں، اس کٹاؤ کے مستقل حل کے لئے کوئی حکمت عملی دینے کو تیار نہیں ہیں۔وہ چوالیس کروڑ روپے کہاں گئے؟ اس بارے میں بھی خاموشی ہے۔
بہ شکریہ ہم سب