حال ہی میں، کچھ سیاست دانوں، خاص طور پر مشاہد حسین، یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد عوامی رائے کو متاثر کرنا اور عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان میں سیاسی حالات اور ان کی تبدیلیوں کا ایک تاریخی پس منظر ہے، جو اس طرح کی باتوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ماضی میں، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کے دوران بھی ایسی ہی کہانیاں سننے میں آئی تھیں۔ جب غلام مصطفیٰ کھر لندن فرار ہو گئے تھے، جب وہ واپس ا رہے تھے لاہور کی سڑکوں پر لکھا گیا تھا، "کھر جدوں آئے گا تو لگ پتہ جائے گا”۔ اس قسم کے نعرے سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں عوام نے باہر کی طاقتوں کے اثرات اور سیاستدانوں کی وفاداری پر سوال اٹھائے۔ آج، جب مشاہد حسین ٹرمپ کے حوالے سے ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں، تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ محض ایک سیاسی چال ہے، جس کا مقصد لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ جیسے امریکی صدور اپنی قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کے تحت کام کرتے ہیں، جو پینٹاگون اور دیگر اداروں کی طرف سے ترتیب دی جاتی ہیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ عمران خان کی حکومت نے جس طرح امریکی مداخلتوں اور پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی، اس نے انہیں ایک مستحکم اور خودمختار رہنما کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ مشاہد حسین کی باتیں دراصل عمران خان کی جدوجہد اور ان کے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں، جو کہ ایک عوامی رہنما کی حیثیت سے ان کی شناخت کو چیلنج کرتی ہیں۔
عمران خان کی حکومت کو جس طرح ختم کیا گیا، اس کی بنیاد پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک آئینی عمل کے تحت ہوا، جس کی بنیاد ووٹ آف نو کانفیڈنس پر تھی۔ اس حوالے سے قاسم سوری کی تقریر خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے، جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ موجودہ حکومت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا پس منظر کیا ہے۔ قاسم سوری نے سچ کہا کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوا، اور اس میں امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دونوں کا کردار شامل تھا۔
اس صورتحال میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عمران خان کا اصل حامی ان کی عوامی طاقت ہے، نہ کہ کسی بیرونی طاقت کا تعاون۔ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف پاکستانی عوام کے ہاتھ میں ہے، اور ان کی جدوجہد کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ ملکی خودمختاری کی حفاظت کی جائے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ کی سیاست کبھی بھی کسی ایک فرد کے لیے نہیں رہی؛ یہ ہمیشہ اپنی قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ لہذا، یہ کہنا کہ عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات ہیں، ایک غیر حقیقی تصور ہے۔ دراصل، یہ صرف ایک پروپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد عوامی رائے کو متاثر کرنا اور عمران خان کے موقف کو کمزور کرنا ہے۔
عمران خان کی جدوجہد کی بنیاد اللہ پر یقین، عوامی حمایت، اور پاکستانی خودمختاری کے دفاع پر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ طاقت کا اصل منبع عوام ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی حمایت کے بغیر دوبارہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایک مضبوط اور خودمختار ملک بنا سکتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر عمران خان نے ٹرمپ کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کیا، تو اس کا مقصد صرف اپنی عوامی حمایت کو بڑھانا ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو کسی بیرونی طاقت کی ضرورت نہیں ہے، اور ان کی جدوجہد پاکستان کے عوام کے لیے ہے۔ ان کی سیاسی تاریخ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ ہمیشہ ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں، اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
اس وقت، جب کہ پورا پاکستان عمران خان کی قیادت میں ایک نئے دور میں داخل ہونے کے منتظر ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کس طرح ہم اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عمران خان کا پیغام ہمیشہ خودمختاری، آزادی، اور عوام کی طاقت پر ہے۔ اور جب ہم اس پیغام کو سمجھے بغیر پروپیگنڈے کے شکار ہوتے ہیں، تو ہم اپنی قوت کو کمزور کرتے ہیں۔
یہ تمام حالات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ عمران خان کا اصل حامی صرف اللہ کی ذات اور پاکستان کے عوام ہیں، اور ان کی کامیابی کا انحصار کسی بیرونی طاقت پر نہیں، بلکہ عوامی حمایت پر ہے۔ ہمیں ان کی جدوجہد کو سمجھنا چاہیے اور ان کے پیغام کو عوام تک پہنچانا چاہیے تاکہ ہم اپنے ملک کی خودمختاری کے لیے ایک طاقتور آواز بن سکیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زمین کو بچائیں اور بیرونی طاقتوں کے اثرات سے دور رہیں، تاکہ ہم اپنے ملک کو صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔