علاقہ تھل جو سات مختلف اضلاع تک پھیلا ہوا ہے جس میں میانوالی، بھکر، خوشاب، جھنگ ، لیہ ، کوٹ ادو اور مظفرگڑھ شامل ہیں اس کے ایک طرف دریا سندھ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کالا باغ کے مقام سے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے تو زمین کا سینہ چیرتا ہوا تھل میں داخل ہو جاتا ہے دریا سندھ سے مشرق کی طرف چلیں تو پنجاب کا خوبصورت نہری نظام آپکا استقبال کرے گا ، جگہ جگہ پھیلی نہریں یہاں کی زرعی زمینوں کی ہریالی کا سبب بن رہی ہیں ، اس سے مزید مشرق کی طرف روانہ ہوں تو تھل کا اصل چہرہ یعنی صحرا کا آغاز ہو جاتا ہے، ریگستانی علاقہ جس میں اونچے نیچے ٹیلے ، ریت کے پہاڑ ، بل کھاتی پگڈنڈیاں ، کچے پکے راستوں سے گزر کر مٹی کے گھروں میں رہائش پزیر دیہاتی آبادی آپکو نظر آئے گی ۔۔ علاقہ تھل سے مزید مشرق کی طرف چلتے چلیں تو شمالی طرف دریائے جہلم اور پھر مشرقی طرف دریائے چناب کا پانی جو دریائے سندھ سے ادھار مانگ کر جاری رکھے ہوئے ملے گا۔ ان دو دریاؤں کے نشیب و بیٹ میں آج سے دو دہائیاں قبل کیکر، جنڈ ، ٹالہی ، پیپل، بوہڑ ، نیم کے درختوں کی بہتات تھی ، دریائی کناروں پر مختلف خاندانوں کی بستیاں آباد تھیں جو کہ سینکڑوں سالوں سے یہاں آباد تھے لیکن دریا سندھ کی تباہ کاریوں اور زمینی کٹاو سے یہ ہزاروں گھروں پر مشتمل آبادیاں نیست و نابود ہو گئیں ، علاقہ تھل کے باسیوں نے درختوں کی کٹائی سے دریائی بیٹ خالی کردیا اور یہاں فصلیں کاشت کردیں علاقہ میں چراہگاہیں ختم ہونے سے بیٹ کے علاقوں میں جو کثیر تعداد میں دودھ دینے والے جانور، گائے ، بھینس ، بکریاں صحرائی علاقوں کے ساتھ شہری آبادیوں میں منتقل ہونے لگیں ، دریائی کٹاو سے متاثرہ ابادی نے بھی شہروں کا رخ کیا جس سے منصوبہ بندی کے فقدان نےشہری آبادیوں میں اضافہ کردیا ، اور زرعی رقبوں کی جگہ کالونیوں نے گھیر لیا ، دریائی علاقوں میں غیر ممالک سے کثیر تعداد میں غول در غول پرندوں جس میں تیتر، بٹیر ، مرغابی ، تلئیر کی آمد ہوتی تھی ، دریائی علاقوں میں درختوں کے ساتھ جھاڑی نما پودوں کی بہتات سے کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات کو یہاں اپنی نسل بڑھانے، خوراک کے حصول میں ماحول میسر تھا لیکن وہ سرکنڈے ختم ہونے سے دریائی علاقہ میں فصلات کی کاشت سے یہ حشرات ، کیڑے مکوڑے اور پرندوں کی خوراک کے زرائع ختم ہو گئے جس سے اب غیر ممالک سے آنے والے پرندوں کی خوراک ختم ہو گئی اور وہ یہاں ناپید ہو گئے ، دوسری کسر ہر انسان نے خودکو شکاری سمجھ لیا اور بیٹ کے علاقے میں ان پرندوں کا شکار کرنا شروع کردیا جس سے مہمان پرندوں سمیت مقامی پرندے جس میں گھریلو چڑیا ، فاختہ ، طوطا و مینا ، کوا ، ہدہد، گدھ بھی معدوم ہو چکے ہیں اسی طرح نہری علاقوں میں نہر اور سڑک کنارے بڑے درختوں کی کٹائی سے درخت ختم ہو چکے ہیں ، ان درختوں کی کٹائی سے جہاں زرعی زمینوں کی زرخیزی میں کمی واقع ہوئی ہے وہاں پرندوں کے لئیے موجود گھروں یا گھونسلوں کے ختم ہونے سے مقامی پرندے بھی مر چکے ہیں ، اسی طرح علاقہ تھل جو مکمل بارشوں یا مصنوعی طریقہ آبپاشی پر منحصر ہے میں صرف چنا کی پیداوار ممکن ہے جو مکمل آرگینک ہوتا ہے ، صحراء تھل میں چناکی فصل پر کھاد اور زرعی ادویات کا استعمال نہیں کیا جاتا ۔ تھل یا صحرائی علاقے میں سرکنڈوں ، جھاڑیوں ، کھگل ، جنڈی ، آک ، سرو کے پودے ختم ہونے سے بہت سی حیوانات ، نباتات،چرند و پرند علاقہ تھل سے ناپید ہو چکے ہیں،چونکہ تھل میں درختوں کی کمی تھی لیکن اس علاقے میں جھاڑی نما پودوں کی بہتات تھی جس میں آک، سرو ، جنڈی ، کھگل نمایاں تھے ان مقامی پودوں اور جھاڑیوں میں مختلف اقسام کے صحرائی حشرات اپنی جاہ پناہ حاصل کرتے تھے جس سے یہاں کے مقامی پرندوں کے ساتھ مہمان پرندے اترتے اور اپنی خوراک حاصل کرتے تھے لیکن ان مقامی پودوں کے خاتمے سے حشرات اور کیڑے مکوڑے ختم ہوئے پرندوں کو خوراک نہ ملنے کے باعث وہ معدوم ہو گئے یا اس علاقہ میں اترنا بند کردیا ، اسی علاقہ تھل میں ہرن ، لومڑی، لگڑبگڑ خرگوش بھی کثیر مقدار میں دستیاب تھے لیکن موجودہ دنوں میں اسکا نظر آنا بھی ناممکن ہو چکا ہے ، درختوں کے ختم ہونے سے صحراء تھل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے ، یہاں کا درجہ حرارت جو شدید گرمیوں میں 40-45 ڈگری ہوا کرتا تھا اب 50سے اوپر پہنچ جاتا ہے ، اس کے ساتھ ہی یہاں آندھیوں کے جھکڑ چلتے ہیں جو یہاں کے ریتلے ٹیلوں کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں ، موسم کی تبدیلی سے جہاں گرمی کا موسم میں اضافہ ہو چکا ہے کیونکہ یہاں کے دن سخت گرم اور راتیں ٹھندی ہوتی تھیں لیکن اب راتیں دن کے ساتھ شامل ہو چکی ہیں ، پانی کی کمی ، درجہ حرارت میں اضافہ ، درختوں کی کٹائی ، جنگلات کی کمی ، مقامی ابادی میں آئے روز اضافہ ، مقامی پرندوں سمیت جنگلی جانوروں کا خاتمہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہی ہے ، اسکے علاؤہ حکومتی توجہ نہ ہونے اور صوبائی دارلحکومت سے دوری کے باعث یہاں مقامی آبادی کے لئیے بنادی سہولیات بھی کم میسر آتی ہیں جس کے باعث ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومتی سرپرستی میں مقامی آبادی کو یہاں کے مقامی درختوں کو دوبارہ اگانے کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے تو تھل میں موسمیاتی اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے