تھل صرف ایک نام نہیں ہے یہ انسانوں ، جانوروں، حشرات، چرند پرند کے ساتھ ساتھ ان گنت مخلوقات کا مسکن ہے ، اس علاقے کے دو اطراف دو عظیم دریا ہیں جسکی وجہ اس صحراء تھل میں پرندوں کی بہتات تھی جو گرم اور سرد موسم میں ایک دریائی کنارے سے دوسرے دریا کے کنارے تک اٹھکیلیاں کرتے اڑتے تھے تو درمیان میں مقامی آبادیوں اور شہروں ،گاوں، بستیوں ، جنگلات، فصلات، نہر کناروں پر رکتے، خوراک وپانی حاصل کرتے اور اپنی افزائش نسل کو پروان چڑھاتے ، انہی پرندوں میں سے کچھ پرندے انسانوں سے مانوس ہوئے اور انہوں نے اپنے گھونسلے انسانی آبادیوں میں منتقل کردییے، گھروں میں موجود سایہ دار پودوں پر اپنا بسیرا کرلیا ۔ ہر علاقے نے ان پرندوں کو اپنے مقامی ناموں سے پکارنا شروع کردیا ، کہانی سازوں نے اپنی کہانیوں میں ان پرندوں کو اپنی کہانیوں میں شامل کرلیا کسی نے خدا کا دھتکارا ہو ا اور کسی نے خدا کا پسندیدہ پرندہ کہہ کا پکارا ، شاعر حضرات نے انکی سریلی آوازوں اور چہچہاہٹ کو اپنی شاعری میں محبوب کی آواز سے مشابہہ قرار دیا تو شاعری کی لائنوں میں کوائل کی اواز، لالی(عام مینا/شارق) کی اٹھکیلیاں اورڈڈ سہرے (جنگلی بیبلر) سات بھائیوں کا پیار کا نام دے دیا۔ تھل کے علاقے میں دیگر متعدد پرندوں کے ساتھ یہ دو پرندے جن کا ذکر کررہا ہوں کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے، ان میں ڈڈسہڑا ایک مقامی پرندہ ہے جو جنوبی ایشیا کا پرندہ ہے تھل میں کثرت سے موجود رہا ہے اسکو انگلش و اردو میں جنگلی بیبلر کا نام دیا گیا ہے اس پرندہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ جھرمٹ میں رہتا ہے مادہ اور نر کی جسامت اور سائز ایک جیسا ہوتا ہے قدرے بھورے رنگت میں دم سے چونچ تک خاص نشانات یا دھبے ہوتے ہیں یہ پرندہ تھل کے علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے جھاڑیوں اور گھنے درختوں میں اپنا گھونسلہ بناتا ہے، شہتوت، سرو، بیری، شیشم ،پیپل ، بوہڑ کے درختوں میں موجود ہوتا ہے اس کے علاؤہ پرانے دور میں جب کنویں چلا کرتے تھے چونکہ کنوؤں کے اردگرد پانی کی موجودگی کی وجہ سے درختوں کی بہتات ہوتی تھی اور مقامی ابادی اپنے ڈیرے بھی اسکے ساتھ رکھتی تھی جس کی وجہ ان درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ و رہائش سرشام اور علی الصبح کانوں کو مانوس کرتی تھی ، ڈڈسہڑے عموماً جوڑوں اور گروہوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور جب یہ تمام مل کر شور کرتے ہیں تو انکی آواز اور گانے خاصے منفرد ہوتے ہیں اور مقامی لوگ انکو اسی خاصیت پر سات بھائی یا ساتھ بہنیں بلاتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں موسیقی کی سات سریں یہیں سے نکلی تھیں۔
ڈڈ سہڑا یا جنگل بیبلر پھل دار پودوں سے پھل، بیج، حشرات، شہد کے ساتھ فصلوں سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں یہ پرندے عموماً انسانوں سے مونوس ہو جاتے ہیں اور انکی موجودگی میں بھی اپنی چہچہاہٹ جاری رکھتے ہیں ۔ قدرت نے اس پرندے کو کسی مقصد کے لئیے پیدا کیا ہوگا جس کا شاید انسان کے علم میں نہ ہو، کیونکہ یہ پرندہ درختوں پر موجود دیمک کو کھاتا تھا لیکن اب یہ پرندہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اب یہ تھل میں کم تعداد میں ملتا ہے ۔ اسی طرح کا ایک اور پرندہ جسے مقامی زبان میں لالی کہا جاتا ہے جبکہ اردو میں عام مینا اور انگلش میں Common myna کہا جاتا ہے اسکو شارق کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے یہ پرندہ بھی اپنی عادات اور چہچہاہٹ سے انسانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں یہ پرندہ پورے ایشیا میں پایا جاتا ہے، پاکستان، بھارت، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، ملائیشیا، قازقستان، تھائی لینڈ، میانمار اور ترکمانستان میں بھی پایا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی تھل میں کثرت سے پایا جانے والا پرندہ شارق جسے مقامی زبان میں لالی کہا جاتاہے یہ درختوں کی کھوہ ، عمارتوں اور گھروں کے روشن دانوں میں گھونسلہ بنا کر رہائش رکھتے ہیں لالی بھی جوڑا اور گروہوں میں رہتے ہیں اور اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئیے گروہوں کی شکل میں فصلات، باغات، جنگلات اور گھروں میں بھی گھومتی رہتی ہیں ، جبکہ ماہرین اسے جارحانہ مزاج کا حامل پرندہ کہتے ہیں ، جو دوسرے پرندوں کو اپنے گھونسلوں اور انڈوں کے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیتی، اس کے علاؤہ یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ یہ پرندہ دیگر پرندوں کے گھونسلوں پر قبضہ بھی کرلیتی ہیں اور آپس میں بھی گھونسلوں کے لئیے بہت لڑتی ہیں، خوشی کے لمحات میں چہچاہتی ہیں اور بار بار اپنے سر کو زور سے اپنے سینے کی طرف جھکاتی ہیں۔ عام مینا یا لالی کے پر سیاہ چمکدار، پروں اور دم پر سفید سیاہ دھبے، ٹانگیں اور چونچ پیلی ہوتی ہیں اور یہ پرندہ ذہانت میں بھی تیز ہوتا ہے، یہ ہمہ خور پرندوں میں شمار ہوتا ہے یہ کھیتوں ،باغات ، جنگلات سے کیڑوں، پھلوں، اناج پر گزربسر کرتے ہیں گھروں میں گھس کر کھانے پینے کی اشیاء پر اپنی چونچ مارنا لازم سمجھتی ہیں ، چونکہ یہ پرندہ خوراک کے دوران گروہ کی شکل میں ہوتی ہیں اس لئیے مقامی لوگ انہیں سات بہنیں کا خطاب دیتے ہیں ۔ تھل میں یہ دونوں پرندے لالی اور ڈڈ سہڑا ناپید ہوتا جا رہا ہے، اسکی شاید وجوہات مختلف ہوں لیکن موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیاں ان پرندوں کو ختم کررہی ہیں تھل میں موسم کی شدت ، درجہ حرارت میں اضافہ، اور غیر معمولی حالات سردی اور گرمی میں اچانک تبدیلی بھی ان پرندوں کی افزائش میں اثر ڈال رہی ہیں، خشک سالی، اور پانی کی قلت بھی انکی بقا کے لئیے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں، گھنے درختوں کی کٹائی، جنگلات میں کمی، نہرکنارے درختوں کا خاتمہ کے ساتھ شہری آبادی میں پختہ مکانات، روشن دانوں کی کمی، ایگزاسٹ فین کا استعمال، سے انکی رہائش گاہیں کم ہو چکی ہیں ، چونکہ یہ پرندے فصلات سے حشرات اور کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں اور فصلات پر زرعی زہروں کے استعمال سے حشرات اور سنڈیوں کومارا جاتا ہے سے بھی مررہے ہیں ، اسکے علاؤہ انسانوں نے ہر حلال اور حرام پرندے میں تمیز ختم کردی ہے ان پرندوں کی ساخت بٹیروں اور چڑیا سے مماثلت کے باعث بطور خوراک استعمال کرلیتے ہیں اور ہر بندہ شکاری بن چکا ہے جو ان پرندوں کا شکار کرکے اپنی خوراک کا حصہ بنا لیتے ہیں اس کے علاؤہ ان پرندوں میں بیماریاں اور انفیکشنز پیدا ہورہی ہیں جو انکی نسل کو ختم کررہی ہیں اس کے ساتھ ہی پانی اور زمین کی آلودگی بھی ان پرندوں کی بقا کے لئیے خطرناک ہے کچروں میں پلاسٹک اور زہریلی ادویات ، ہسپتالوں کا فضلہ بھی ان پرندوں کی صحت کو متاثر کررہا ہے جس سے یہ ناپید ہوتے جارہے ہیں، تھل کی خوبصورتی کو بچانے اور ان پرندوں کو واپس لانے کے لئیے ہمیں اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنا لازم ہو چکا ہے ورنہ ہم جس طرح اب شدید گرمی اور شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کو دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں کہ دوسروں کی پیداوار ہے کل ان پرندوں کے خاتمہ کا ذمہ دار بھی دوسروں کے سر ٹھونک کر بری الزمہ ہو جائیں گے، ان پرندوں کی حفاظت کے لئیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں انکے گھروں /مسکن کی بحالی کے لئیے جنگلات، باغات اور گھنے درختوں اور جھاڑیوں کو اگانے ،غیر قانونی شکار پرپابندی، مقامی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور جنگلی حیات کی حفاظت بارے معلومات دینا ہیں انسانوں کے ساتھ جانوروں، پرندوں کے لئیے پانی کے زخائر میں اضافہ، صاف اور محفوظ رکھنے بارے اقدامات کرنا چاہئیے، تھل کے ڈڈ سہڑا (جنگل بیبلر)اور لالی (شارق/عام مینا)جیسے پرندوں کی بقا اور افزائش نسل کے لئیے تمام تر وسائل اور مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ان تمام وجوہات پر تھل میں لالی اور ڈڈ سہڑا کی آبادی کم ہورہی ہے اور اسکی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور انسانی اقدامات ہیں ہمیں ان کے بقاکے کئیے اقدامات کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔
(جاری ہے)