کالم

ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند

راؤ محمد طاہر


دنیا میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کے دکھانے کی خواہش تو ہر شخص میں فطری طور پرو موجود ہوتی ہے مگر کامیاب کوئی کوئی ہوتا ہے منزل کی جستجو میں تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے آگے بڑھنا اور بڑھتے ہی رہنا ہر کسی کا خاصا نہیں ہوتا کامیابی وکامرانی صرف ان کے قدم چومتی ہے جو ستاروں پر کمند ڈالنا جانتے ہوں معروف سینئر صحافی’ کالم نگار’ اینکرز رؤف کلاسرا کا شمار ان شخضیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نا ممکن کو نہ صرف ممکن کر دکھایا بلکہ بہت تھوڑے عرصے میں جس طرح اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا وہ چھوٹے اور پسماندہ علاقوں سے شعبہ صحافت میں آنے والے نئے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے فیض احمدفیض کی ایک بڑی انقلابی نظم ہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول کہ زباں اب تک تیری ہے
تیرا استواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وجاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
اس نظم کا ایک ایک لفظ دل و دماغ میں جسے اترتا چلا جاتا ہے اور جسم وجان میں جوش وولولہ کی ہزاروں جوت جگا دیتا ہے *فیض* *احمد* *فیض* نے اپنی یہ نظم چاہے جس کسی کے لئے بھی تخلیق کی ہو لیکن موجودہ دور میں یہ سب سے زیادہ جس پر صادق آتی ہے وہ رئوف کلاسرا ہے جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ کے علاقہ جیسال کلاسرا کی جٹ فیملی سے تعلق رکھنے والے رؤف کلاسرا اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ کلاسرا لکھتے ہیں رؤف کلاسرا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں زیر تعلیم رہے بعد ازاں گولڈ سمتھ یونیورسٹی آف لندن سے انگلش لٹریچر میں گریجویشن کی ذرائع ابلاغ کے ساتھ والہانہ عشق رکھنے والے سنیئر صحافی نے روزنامہ ڈان کے رپورٹر کے طور پر صحافت کے خار دار میں عملی قدم رکھا بعدازاں دی نیوز کے ساتھ منسلک ہوگئے اور روزنامہ جنگ اور اخبار جہاں کے لئے کالم نگاری شروع کردی اس کے بعد وہ ایکسپریس ٹربیون میں ایڈیٹر انویسٹی گیشن کے طور پر چلے گئے صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں رؤف کلاسرا پیچیدہ مسائل پر جرات مندانہ ‘ منفرد اور غیر مقبول موقف اختیار کرنے کے لئے مشہور ہیں’سیاسی اتار چڑھاؤ ‘ ملک کی موجودہ سنگین صورت حال کی وجوہات’ بیورو کریسی کی ٹوٹتی’ جڑتی لڑیوں اور علاؤہ ازیں پس پردہ بہرپیوں کو جس خوبصورت اور مہذبانہ انداز میں انہوں نے بے نقاب کیا وہ ہر کسی کا خاصا نہیں’ کلاسرا کا شمار ملک کے ان چند گنے چنے کالم نگاروں’ اینکرز اور صحافیوں میں ہوتا ہے جن پر کسی مخصوص جماعت یا گروہ کی حمایت کرنے کا کوئی الزام نہیں جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں کی گلیوں میں پروان چڑھنے والے انتہائی نفیس’ سادگی اور عاجزی کے پیکر رؤف کلاسرا نے کبھی بھی اپنے ماضی کو چھپانے کی کوشش نہیں کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ بہت بڑے تحقیقاتی صحافی ہیں ڈان اخبار سے بطور رپورٹر اپنی عملی صحافت کا آغاز کرنے والے رؤف کلاسرا صحافتی میدان میں آگے بڑھنے کے لئے شارٹ کٹ کا استعمال کیا نہ ہی زرد صحافت کا سہارا لیاجس بات کو درست سمجھا ہمیشہ کھل کر کہا چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے’ وہ آج صحافت کے میدان میں جس بلند مقام پر موجود ہیںوہ ان کی محنت’ لگن اور اپنے پیشے کے ساتھ اخلاص کا ثبوت ہے قلم کی حرمت ‘حق وسچ کی سربلندی کے لئے انہوں نے کبھی کوئی بھی قیمت ادا کرنے سے گریز نہیں کیا ملک بھر کی صحافتی برادری بالعموم اور شہر اقتدار کی صحافتی برادری بالخصوص اس بات کی گواہ ہے کہ حاکم شہر ہو یا کوئی اعلی افسر کلاسرا کو کبھی اپنے حقیقی مقصد اور موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہوسکا اور نہ خرید سکا رؤف کلاسرا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دنیا کی زندگی ثانوی ہے ہر ذی روح نے ایک دن یہ جہاں چھوڑ کر واپس اپنے مالک حقیقی کے پاس جانا اور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے جبکہ قلم کی تھامنے کے بعد تو ہم ہر روز پل صراط پر کھڑے ہوتے ہیں ہماری تھوڑی سی لرزش ہمیں پل سے نیچے پھینک سکتی ہے جہاں دھکتی ہوئی آگ ہماری منتظر ہےہم اگر دنیا کی معمولی آگ کی کی معمولی سی تپش بر داشت نہیں کرسکتے تو پھر جہنم کی آگ کو کیسے برداشت کریں گے قلم کو پکڑنے کے بعد بس یہی ایک نکتہ میری راہنمائی کرتا اور مجھے حق وسچ پر ڈٹے ر ہنے کا حوصلہ دیتا ہے انشاء اللہ جب تک سانسوں کا رشتہ قائم ہے قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دوں گا چاہے جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے
صحافت کے حوالے سے اگر گزشتہ ڈیڑہ سو سال کے طویل عرصے پر نظر ڈالی جائے تو اردو صحافت کے بے باک اور نڈر’ علم وعمل کے شیدائی اور فکر وفن کے سرتاج صحافیوں میں سے ایک نام رؤف کلاسرا کا بھی ہے ان کے نزدیک صحافت کوئی پیشہ یا محض تفریح طبع بہم پہنچانے کا ذریعہ نہیں’ انہوں نے صحافت کو فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ ضرور برتا مگر وہ اسی میں الجھ کر نہیں رہ گئے وہ فن اور لوازمات فن سے آگے اور بہت آگے چلے گئے انہوں نے اس سے وہی کام لیا جو کسی زمانے میں شمشیر وسناں اور تیر و تفنگ سے لیا جاتا تھا بلا شبہ انسان جب آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہے تو دوستوں کے ساتھ ساتھ اس کے دشمنوں کی تعداد میں بھی خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور ان میں دوست نما دشمنوں کی تعداد کچھ زیادہ ہوتی ہے جو موقع ملتے ہیں طنز وطعن’ الزام تراشی’ بہتان تراشی اور دشنام تراشی کی انتہاء کردیتے ہیں کچھ اسی قسم کی صورتحال کا اس وقت رئوف کلاسرا کو بھی سامنا ہے انہوں جب جب سے ایک چینل کے مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کچھ نامید مایوس اور دوست نما دشمنوں نے ایک خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا ہے ٹیلن نیوز کے ایک خط کو بنیاد بنا کر رؤف کلاسرا کی ماہانہ تنخواہ پر تنقید کی جا رہی ہے اور صحافتی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ بڑی شخصیات اور صحافی بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں میڈیا انڈسٹری بھی بڑی ظالم چیز ہے ایک تو اس کا ،،چسکا ،،کسی بھی تیز نشے سے کم نہیں اوپر سے اس شعبے میں ایک سے بڑھ کر ایک استاد بیٹھا ہے جو اپ کی ٹانگیں کھینچنے میں ایک منٹ بھی دیر نہیں لگاتا اور ایک بار اپ کے پائوں پھسل گئے تو پھر دوبارہ پائوں جمانا بڑا مشکل ہوتا ہے ٹیلن نیوز نے رؤف کلاسرا کو جس بھی تنخواہ اور شرائط پر ہائر کیا یہ ان کا باہمی معاملہ ہے اول تو ہمارا ان پر تنقید کا کوئی حق نہیں بنتا کیونکہ یہ پیشہ ہماری جیب یا سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ ایک سرمایہ دار کی جیب سے جارہا تھا دوسرا چینل کے مالکان نے ہائرنگ سے قبل رؤف کلاسرا کی مارکیٹ ویلیو کا پتہ چلایا اور اس کے بعد ہی انہیں پیکج آفر کیا اگر انہوں نے ایسا نہیں تو تو یہ ان کے بیوقوف ہونے کی نشانی اور چینل بند ہونے کی بڑی وجہ ہے اب جبکہ چینل مالکان اور رئوف میں تنازعہ کھڑا ہوا ہے تو فورا اوور ریٹڈ اوور پیڈ جیسے طعنے مارنا انتہائی قابل افسوس امر ہے رؤف کلاسرا کے خلاف ہر چھ ماہ بعد سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم شروع ہوجاتی ہے اس مخالفانہ مہم کو شروع کرنے والے کبھی اپنے ہوتے ہیں تو کبھی غیر لیکن چند مخصوص عناصر اس مہم میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا اور اس کو بام عروج پر پہنچانا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور اس وقت بھی یہی کچھ ہورہا ہے ٹیلن نیوز کے حوالے سے کلاسرا کے خلاف مکمل اور باقاعدہ منصوبہ بند یک طرفہ سوشل میڈیا مہم کو دیکھ اور پوسٹوں کو پڑھ کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے یاروں کی خاموشی کا بھرم کھولنا پڑا اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا رؤف کلاسرا نے اپنا حق مانگا اور بغض کلاسرا کے شکار مردو زن لٹھ لے کر رؤف کے ہی پیچھے پڑ گئے اور سیٹھ کی دلالی کرنے لگے(معذرت لفظ ذرا سخت ہے لیکن اس عمل کیلئے اس سے بہتر لفظ نہیں ملا)اب ذرا کہانی سنیں رؤف صاحب ایک چینل میں شاندار سیلری لے رہے تھے ٹیلن نیوز نے رابطہ کیا ترلے کئے سفارشیں کروائیں اور ایک طے شدہ رقم پر کلاسرا صاحب کو چینل جوائن کروایا ٹیلن کو یہ خوف تھا کہ ہمارا چینل نیا ہے کہیں زیادہ آفر پر رؤف صاحب چلے نہ جائیں تو انہوں نے دو سال کا معاہدہ کیا کہ اگر آپ 2 سال پہلے چھوڑ کے گئے تو جو تنخواہیں لیں ہوں گی وہ بھی واپس کرنی پڑیں گی اور اگر ہم نے آپ کو نکالا تو ہم آپ کو بقایا تنخواہ دیں گے ٹیلن چاہتا تھا کہ الیکشن کے دوران روف کلاسرا ان کی سکرین کی زینت رہے سرمایہ دار کبھی پاگل نہیں ہوتا رؤف کلاسرا کا شمار اس وقت تحقیقاتی صحافت کرنے والے پہلے دو تین صحافیوں میں ہوتا ہے اگر کسی چینل میں کلاسرا جیسا تحقیقاتی صحافی بیٹھا ہو تو چینل مالک اس سے اپنے لئے کئی آسانیاں پیدا کروالیتا( کیسے) اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی کلاسرا صاحب قبل ازیں ایک چینل سے 75 لاکھ بھی لیتے رہے یہ ٹیلن انتطامیہ کے منہ پر جوتا ہے جو اوور پیڈ جیسا گھٹیا سٹیٹس اپنے سوشل میڈیا پر لگا رہی ہے رؤف کلاسرا صاحب ایک بہترین چینل بریا ر برادرز کے ترلوں منتوں پر چھوڑ کر گئے ایک معاوضہ طے ہوا اور یہ گن پوائنٹ پر نہیں ہوا دونوں پارٹیوں کی باہمی رضا مندی سے طے پایا اب اگر ایک پارٹی اس پر عمل نہیں کرتی تو دوسری پارٹی کو ہر حق حاصل ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کیلئے تمام قانونی رستے اپنائے رؤف کلاسرا کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری انتہائی گھٹیا مہم کا مقصد صرف اور صرف ایک مڈل کلاس سیلف میڈ کو نیچا دکھانا ہے میں اس مہم میں ایسے لوگوں کے چہرے ونام بھی دیکھ رہا ہوں جن کا کسی دور میں گھر اور تعلیم کا خرچہ کلاسرا صاحب کے دیئے گئے پیسوں سے چلتا تھا بہرحال جھوٹ’الزام تراشی کے اس بازار میں کلاسرا صاحب کا سب سے بڑا جرم ان کی عاجزی وانکساری ہے وہ عام آدمی سے بھی ایسے ملتے ہیں جیسے دہائیوں کی شناسائی ہو خدا ترسی اتنی ہے کہ اسی چکر میں نقصان بھی اٹھا بیٹھتے ہیں دوسرا یہ کہ آدھے شہر کو اپنے سچ اور تحقیقاتی خبروں و سکینڈلز سے مخالف کر لیا تو آدھے کو سفارش نہ مان کر اور یہ جرم بعض لوگوں کے نزدیک ناقابل معافی ہے ملک میں جب دو افراد کوئی معاہدہ کر تے ہیں اور ان میں سے ایک پارٹی اس معاہدے سے منکر ہو جاتی ہے تو سب کی ہمدردیاں متاثرہ پارٹی کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن رؤف کلاسرا کے معاملے میں منافقت دیکھیں جو سرمایہ دار اپنی بات سے پھر گیا یار لوگ اس کے گیت گا رہے ہیں اور کلاسرا صاحب کو تنقید و طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں رؤف کلاسرا جیسے صحافی اس ملک میں بہت کم ہیں جن کو رؤف صاحب کے پیکج سے تکلیف ہے ان کیلئے عرض ہے کہ کچھ اینکرز ان سے بھی زیادہ پیکج لے رہے ہیں تو وہاں ان کی زبانیں گنگ کیوں ہیں رؤف کلاسرا صحافت کے خار دار میں قدم رکھنے والے نئے صحافیوں کیلئے ایک انسٹی ٹیوشن اور امید کی کرن ہیں جو اپنے پہلو میں بٹھا کر اس شہر بے وفا کی حقیقت بتاتے ان کو راستہ دکھاتے اور زیرو سے ہیرو بناتے ہیں رؤف کلاسرا اچھا نہیں کیوں کہ وہ آپ کی نظر میں ایک سیلف میڈ مڈل کلاس اور پینڈو ہے وہ امریکا برطانیہ کی بجائے جیسال کلاسرا کی باتیں کرتا ہے وہ گمنام گاؤں کے آخری مزار کا نوحہ لکھتا اور آج بھی اپنے گاؤں کے بابوں کو یاد کرتا ہے ڈائجسٹ کی کہانیوں کے مزے لیتا ہےآپ کو اس کی تکلیف ہے’اور مجھے فخر ہے کہ میں بھی پینڈو ہوں رؤف کلاسرا ایک نام نہیں بلکہ ایک انسٹیوٹ ہیں اور سیکنڑوں نوجوان اس انسٹیوٹ سے فیضیاب ہوکر صحافی دنیا میں اپنا نام کما رہیں ہیں …

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com