کالم

پیپلز پارٹی کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے( مردم شماری اور انتخابات )

حیدر جاوید سید

پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتیں اس امر سے آگاہ تھیں کہ نئی مردم شماری پر 2023ء کے عام انتخابات کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل نے اپنے 2021ء کے اجلاس میں کیا تھا۔ 2017ء کی مردم شماری پر باقی تین صوبوں کو بھی اعتراضات تھے لیکن سب سے زیادہ اعتراضات اور جعلی اعدادوشمار کے الزامات سندھ حکومت نے عائد کئے تھے۔
2017ء کی مردم شماری کے وقت اور پھر 2021ء میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے وقت سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اسی طرح رواں ماہ اگست کے شروع میں جب مشترکہ مفادات کونسل نے ڈیجیٹل مردم شماری کی متفقہ منظوری دی تب بھی سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ سندھ حکومت کا کہنا یہ تھا کہ 2017ء کی مردم شماری کے اعدادوشمار زمینی حقائق اور سندھ کی آبادی کے تناسب سے کم ہیں۔ کہا جارہا تھا کہ ایک سوا ایک کروڑ کی آبادی کم دیکھائی گئی۔
تب ایم کیو ایم دعویٰ کررہی تھی کہ کراچی اور حیدر آباد کی آبادی کم دیکھائی گئی لیکن سندھ حکومت پورے صوبے کا مقدمہ پیش کررہی تھی۔
ان اعتراضات سے پیدا ہوئے بحران پر تجویز آئی کہ کیوں نہ سندھ میں مردم شماری کے مجموعی بلاکوں میں سے 20 فیصد کا دوبارہ سروے کروالیا جائے۔ سندھ حکومت نے رضامندی دیدی۔ معاملات پر بحث جاری تھی کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں ۔
رخصت ہوتی سندھ حکومت نے مردم شماری کے معاملے پر اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا
’’سندھ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے وفاق متاثر ہو ہم انتخابی عمل میں مردم شماری پر اپنے موقف کے ساتھ ہی شریک ہوں گے‘‘۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ احتجاجاً شرکت کریں گے
پھر جب 2021ء میں ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا فیصلہ ہوا تو مشترکہ مفادات کونسل میں ہی یہ طے پایا تھا کہ نئی حلقہ بندیاں بھی ہوں گی۔ مردم شماری کے معاملے میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جب مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہوتاہے تو الیکشن کمیشن پابند ہے کہ پرانی حلقہ بندیاں منجمد کرکے نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع کرے۔
اگست کے آغاز میں جب مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا تو یہ نکتہ کونسل کے ارکان کے سامنے تھا۔ اب دو صورتیں تھیں ایک یہ کہ مردم شماری کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ کیا جاتا کہ الیکشن پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ میری دانست میں اس کے لئے ضروری تھا کہ کونسل کے صوبائی نمائندے (وزرائے اعلیٰ) منتخب ہوں۔ اگست کے اجلاس میں 2 صوبائی وزرائے اعلیٰ نگران اور 2 منتخب تھے اس لئے یہ ترمیمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے (یہ رائے نادرست بھی ہوسکتی ہے) اس لئے یہی طے پایا کہ کونسل کے 2021ء کے فیصلوں کی تجدید کردی جائے اس کے ساتھ ہی مردم شماری کی منظوری دیدی جائے۔
ایسا ہی ہوا مشترکہ مفادات کونسل نے 2021ء کے اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں مردم شماری کی منظوری دیدی۔ اب قانونی پوزیشن یہ ہوئی کہ مردم شماری کی منظوری کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن پرانی حلقہ بندیوں کو منجمد کرکے نئی حلقہ بندیاں کرائے۔
دوسری صورت یہ تھی کہ اگست میں مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا جاتا کہ انتخابات 2017ء کی مردم شماری کے بعد ہوئی حلقہ بندیوں پر ہی ہوں گے۔
غالباً اگر یہ فیصلہ ہوتا تو اس کی منظوری کے لئے پارلیمان جانا پڑتا کیونکہ یہ اعترض موجود تھا کہ کیا نگران وزرائے اعلیٰ فیصلہ سازی کے کسی ایسے عمل میں ووٹ دے سکتے ہیں جو آئینی ضرورت ہو؟
یہ بجا ہے کہ اس سوال کے جواب میں دو مختلف آراء موجود ہیں اولاً یہ کہ ووٹ دے سکتے ہیں ثانیاً یہ کہ کسی ایسے فیصلے کے لئے ووٹ نہیں دے سکتے جس کے لئے پارلیمان سے رجوع لازم ہوجائے۔
اسی لئے مناسب یہی سمجھا گیا کہ 2021ء کے فیصلے کی تائید کردی جائے یہی ہوا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن پر پچھلے برس سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کے آغاز سے رواں ماہ اگست میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس تک تواتر کے ساتھ ان کالموں میں یہی عرض کرتا رہا کہ مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پرانی حلقہ بندیوں کا منجمد اور نئی حلقہ بندیوں کا ہونا قانونی ضرورت ہے۔
2023ء کے عام انتخابات نئی مردم شماری پر ہونا ہیں یہ مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کو ایک تو کسی عدالت کو بدلنے کا اختیار نہیں دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ اس پر غور ہی نہیں کررہی کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 2023ء کے انتخابات ہی ہیں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق یہ نئی مردم شماری کے بغیر نہیں ہوسکتے۔
ان کالموں میں اپنے پڑھنے والوں کو اس امر سے بھی آگاہ کیا تھا کہ ایک سماعت پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ نکتہ عدالت میں اٹھایا تو ہم خیال بنچ نے حقارت کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا کہ ’’یہ کیس سے غیرمتعلقہ باتیں ہیں عدالت کا وقت برباد نہ کیا جائے‘‘۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ ابتدائی سماعتوں (کیس کے پہلے مرحلہ میں) کسی سیاسی جماعت یہاں تک کہ تحریک انصاف جس کے دور میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وکیل نے اس حساس معاملے پر بات تک نہیں کی۔ تبھی یہ عرض کیا تھا کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوں گے۔
اب آیئے اگست کے اوائل میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر جسے میں کم از کم 2021ء کے فیصلے کی تجدید سمجھتا ہوں اجلاس کے صاحب صدر، وزیراعظم شہباز شریف، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور متعدد وفاقی وزراء دودھ پیتے بچے نہیں تھے اکثر تین سے چار دہائیوں سے سیاسی عمل میں موجود ہیں وہ اس امر سے باخبر تھے کہ مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن قانونی طور پر نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہوجائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس قانونی ضرورت سے بچنے کا راستہ یعنی پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کی صورت کیا ہوسکتی تھی؟ کم از کم یہ کہ پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا معاملہ پارلیمان میں لے جایا جاتا۔ یہاں ایک ضمنی سوال ہے 2017ء کی مردم شماری پر اعتراض کرنے اور 2021ء میں آئندہ 2023ء کے انتخابات نئی مردم شماری پر کرانے کے فیصلے کی تائید اور پھر اگست کے اجلاس کے فیصلے کی منظوری کے عمل میں شریک وزیراعلیٰ سندھ ( ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ) نے مشترکہ مفادات کونسل میں کوئی اختلافی نوٹ دیا یا اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اگر نئی مردم شماری کے نوٹیفکیشن کے ساتھ حلقہ بندیوں والا معاملہ مدنظر نہ رکھا گیا اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں 90 دن میں انتخابات کرانے کا آئینی تقاضا کیسے پورا ہوگا؟
کونسل کے اجلاس میں شریک وزیراعلیٰ سندھ اور وہ وفاقی وزراء جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا اس اہم نکتے کو کیسے بھول گئے کہ اگر حلقہ بندیوں والا معاملہ طے نہ ہوا تو اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن وہی کرے گا جو قانون کہتا ہے اور قانہن یہ کہتا ہے کہ جونہی نئی مردم شماری کی منظوری ہو الیکشن کمیشن پرانی حلقہ بندیاں منجمد کرکے نئی حلقہ بندیاں کرائے۔
مشترکہ مفادات کونسل کے اگست کے ابتدائی دنوں میں منعقدہ اجلاس اور فیصلوں کے بعد ان سطور میں ہی عرض کیا تھا کہ ہم ایک آئینی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ مقررہ مدت سے قبل اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں 90 دن میں انتخابات ہوں گے۔
مردم شماری کا قانون کہتا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے اعلان کے بعد حلقہ بندیاں لازم ہیں
درمیانی راستہ صرف ایک تھا وہ یہ کہ 31مئی یا 10جون تک مردم شماری کے نتائج کا اعلان ہوجاتا۔ الیکشن کمیشن 4 یا ساڑھے 4 ماہ کا عرصہ حلقہ بندیوں کے لئے مانگتا ہے اس سے بات کی جاتی اور وہ یہ عمل (حلقہ بندیوں کا) 3 ماہ میں مکمل کرلے اس طور یہ کام تقریباً 10 یا 15 ستمبر تک ہوجاتا پارلیمان فیصلہ کرلیتی کہ الیکشن اس عمل کے مکمل ہونے کے 60 دن کے اندر ہوں گے
یعنی 15 نومبر تک اس سے مسائل پیدا نہ ہوتے اور آئینی بحران سے بھی محفوظ رہا جاسکتا تھا۔
یہ وہ نکات ہیں جن کی بنیاد پر مسلسل معروضات پیش کرتا آرہا ہوں اب بھی یہی گزارش ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی ذمہ داری کا بوجھ پیپلز پارٹی سمیت سب اٹھائیں جھوٹ بولیں نہ سیاسی دکانداری کیلئے حقائق کو مسخ کریں

بشکریہ روزنامہ ” بدلتازمانہ ” ملتان

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com