5ستمبر میری زندگی کا وہ یادگار دن ہے جب قدرت نے ماں کی دعاؤں سے مجھے نئی زندگی بخشی، 3ستمبر2015کی رات نقاب پوش 12نامعلوم افراد نے لیہ ٹوڈے آفس سے مجھے اغوا کیا، آنکھوں پر پٹی، سر پر غلاف چڑھادیاگیا، کنپٹی پر ایک شخص گن تانے رہا، 9گھنٹے کے طویل سفر کااختتام ایک بڑی عمارت کے دروازے پر ہوا، راستے میں پانی کی طلب یا کچھ پوچھنے کی جسارت پر چپ رہنے کی سختی سے تلقین کی جاتی، بتایاگیا کہ انہیں مجھ سے ہم کلام ہونے سے روکا گیا ہے تاکہ میں ان کی شناخت تک نہ پہنچ پاؤں، میری تلاشی اور جیبوں میں موجود سامان کو تحویل میں لینے کے بعد مجھے عمارت کے ایک کے بعد ایک کھلتے دروازوں سے گزار کر آٹھویں دروازے کے اندر بنی چھ بائی چھ کی بیرک میں پہنچادیاگیا، وہاں صرف دو ہی بیرکس تھیں، دوسری بیرک پہلے سے آباد تھی جس میں بڑے بالوں اور بکھری داڑھی والاایک نوجوان نامعلوم کتنے عرصہ سے بند تھا، وہ گھنٹے، دن اور راتیں کیسے اور کتنے کرب میں گزریں،بیان کرنا آج 9سال بعد بھی سوہان ِ روح ہے۔
قلم کے جہاد سے نالاں صاحبان اختیار میری جسارت پر مجھے سبق سکھانے کے درپے تھے، میری حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی، پوچھ گچھ کے مراحل میں میرے خلاف بنائی گئی بوگس چارج شیٹ کی حقیقت آشکار ہوتی چلی گئی، پردے سرکتے رہے، دھند کے بادل چھٹتے چلے گئے، ماحول سازگار ہونے پر مجھے جلد رہائی کا پیغام دے دیاگیااور پھر رات کے پچھلے پہر جس مشکوک انداز میں مجھے ویرانے میں چھوڑا گیا وہ بھی ایک ڈراؤنا خواب ہے، زندگی کی امید باقی نہ رہی تھی، دوست احباب، رشتہ داروں، قلمکار ساتھیوں، شہریوں نے جس پرخلوص انداز میں میری رہائی کیلئے جدوجہد کی، جس تڑپ کا مظاہرہ کیا آج بھی وہ ناقابل بیان اور ناقابل فراموش حقیقت ہے جس کا میں مقروض ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ میری رہائی میرے دوستوں،قلمکاروں،بہن بھائیوں، اہلیہ، بچوں اور خصوصاً ماں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔
ہر 3ستمبر کو میں کالم کی صورت اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھال کر لیہ ٹوڈے کے صفحات کاحصہ بناتا رہا، چوتھے سال استاد محترم انجم صحرائی نے آئندہ مجھے اس موضوع پر لکھنے سے روکدیا، گزشتہ پانچ برسوں سے ان ایام کو فراموش کرتے ہوئے اُستاد ِ محترم کی ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کی، اس سال یادوں کی یلغار کو روکنے میں ناکام رہا، اس کی وجہ شاید میری دعاؤں کاچھن جانا تھا، مشکل گھڑی میں ماں کی گود ہی سب سے بڑاسہارا ہوتی ہے، ان کی رحلت پر اب پرخلوص دعاؤں کی کمی ہرموڑ پر محسوس ہورہی ہے، کالم لکھنے سے پہلے میں نے ماں کی لحد مبارک پر حاضری دی، جوانی میں بیوگی کی چادر اوڑھ لینے پر ہم کمسن یتیم بہن بھائیوں کی کفالت کیلئے اپنی زندگی اور خوشیاں وقف کردینے کے احسان عظیم پر میں نے رب کریم سے ان پر بھی احسان کرنے کی التجا کی، آپ سے بھی التماس ہے کہ خلوص سے ماں جی کیلئے سوہنڑے رب سے درجات کی بلندی کی خصوصی دعاکیجئے گا۔
ڈسٹرکٹ پریس کلب کی صدارت یقینا کسی بھی صحافی کیلئے اعزازہے، یہ سب اللہ کی رحمت، سرور کورنین ؐ کے فضل وکرم اور ماں کی دعاؤں کا ثمر ہے، یہ سفر مشکل تھا، میرے راستے میں بے بہاروڑے اٹکائے گئے، پریس کلب سے بیدخلی برداشت کرلی گئی، عمارت کو تالے لگوادینا گوارا ہوا لیکن اللہ جسے عزت عطاکرناچاہے، سارا جہان بھی ملکر اس ہونی کو نہیں روک سکتا۔
جون ایلیا نے کہاتھا کہ بہترین، خوبصورت ترین اور ذہین ترین ہونے کے باوجود المیہ یہ ہے کہ ہم سب کو ایک دن مر جانا ہے، اس کے باوجود ہم محبتوں کی بجائے دنیامیں نفرتیں بانٹنے کے مقابلے میں جتے ہیں، زندگی موت، رزق مفلسی، عزت اور ذلت رب نے اپنے پاس رکھی ہے، یہ چیزیں اگر انسانوں کے ہاتھ میں ہوتیں تو تصور کیجئے کیا ہوتا؟، دنیامیں صرف ایک شخص کے گودام بھرے ہوتے باقی سب کنگال، اگر زندگی چھین لینے کااختیار ہوتا تو دنیا کی آبادی صرف ایک شخص پر مشتمل ہوتی،موت باقیوں کا مقدر ہوتی، عزت دینا کسی چھچھورے کے ہاتھ میں ہوتا تو عزت دار صرف وہ ہوتا باقی بے عزت قراردیئے جاتے۔
کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے، نفرت اندھاکردیتی ہے، محبت پیدائشی اندھی ہوتی ہے اس لیے جینے کاہنر جانتی ہے، نفرت کے سفرمیں لوگ نفرت کی ہی آگ میں جل کر بھسم ہوجاتے ہیں، نسلیں یاد نہیں رکھیں گی کہ آپ نے کتنے لوگوں سے نفرت کی، البتہ یہ ضروریاد رکھیں گی کہ کتنوں سے محبت کی، یہ یاد نہیں رکھیں گی کہ کتنوں کا آپ نے راستہ روکے رکھا، یہ یاد رکھیں گی کہ کتنوں کیلئے آپ نے راستہ بنایا۔
میں بھی اسی فلسفے کاقائل ہوں، ڈسٹرکٹ پریس کلب کے درودیوار پر بلاتفریق راستہ دینے اورروکنے والوں کی تصاویر آویزاں کیں، تنقید برائے تعمیر آپ کیلئے اصلاح کی راہ ہموار کرتی ہے، کامیابی کیلئے کوشش کرنا سب کا حق ہے لیکن یہ کیا منطق ہے کہ اگر آپ خود کامیابی کی سیڑھی پر نہ چڑھ سکیں تو جو کوشش کررہے ہیں ان کے سر چڑھ کر تنقید کرتے چلے جائیں۔
اندھے نکالتے ہیں چہرے میں میرے نقص
بہروں کو شکایت ہے غلط بولتا ہوں میں
ہم سب انسان ہیں، خوبیاں ہیں تو خامیوں کا بھی مرکب ہیں، عہدوں پر ہوں تو کیے گئے فیصلوں کے نتائج کبھی حسب منشاء، تو کبھی خلاف توقع نکل سکتے ہیں، پریس کلب کی تزئین کے وعدے کو خلوص نیت سے نبھایا، دوسے تین افراد کے علاوہ پورا شہر تو کیا پورا ضلع بلکہ پورا پنجاب اس شاندار کاوش کامعترف ہوا، مجھے عہدوں سے چمٹے رہنے کاشوق نہیں، ایمرا کی کامیاب صدارت کے باوجود دوسرے سال یہ ذمہ داری فرید اللہ چوہدری کو سونپ دی تھی، پریس کلب کی ذمہ داری کی صورت ملنے والے منصب پر بھی تب تک موجود رہوں گا جب تک دوستوں کااعتماد مجھے حاصل رہا، میڈیا ٹاؤن کے قیام، آڈیٹوریم کی تکمیل، پریس کلب کے نئے آئین کی تشکیل، قلمکاروں کی فلاح کیلئے فنڈز قائم کرنامستقبل کا خواب ہے، دوستوں نے اعتماد بخشا تو ان کی رہنمائی میں اس سنہرے سفر کو آگے بڑھاؤں گا، بصورت دیگر ممبر کی حیثیت سے ادارہ کی بہتری، ان خوابوں کی تکمیل میں نئے عہدیداروں کی معاونت کو اپنے لیے فخر سمجھوں گا۔
میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے نہ صرف ڈسٹرکٹ پریس کلب کے دوتہائی ممبران کی واضح اکثریت حاصل ہے بلکہ ضلع بھر کے پریس کلبز نے تاریخ میں پہلی بار مشترکہ طور پر سرمحفل اعتماد کی پگڑی میرے سر سجارکھی ہے جس پر میں اپنے صحافی دوستوں، بھائیوں کا جتنا شکریہ اداکروں کم ہے، ادارہ کی تزئین وآرائش قطعی طور پر میرے اکیلے کا کریڈٹ نہیں، ہرممبر، ہرعہدیدار، ایمرا کے ساتھیوں، ضلع کے صحافیوں کانام پریس کلب کی اینٹوں پر کنندہ ہے، مرزا محمدیعقوب، انجم صحرائی، مرزا گلزاراحمد،قاضی امیرعالم، جمیل احمدڈونہ، سید عمران علی شاہ، لطیف قمر، یونس بزدار، فرید اللہ چوہدری، ارشاد رونگھہ، ناصر حیات، تنویراحمدخان، فیض بھلر، حاجی محمداحسن، ظہور درانی، چوہدری محمدشفیق، جاوید کلاسرا، اویس ٹونی، یامین مغل، آفتاب چوہدری، خلیل قریشی،رانا شکیل، سلمان راں،سیف اللہ حسینی،خالد شفیق،زاہد مغل،فیاض حسین، عظیم اعوان، رانا عبدالشکور، وقار اعوان،ڈاکٹرجاوید اقبال کنجال، زاہد سلیم،عارف نعیم ہاشمی، کاشف شیخ، رضوان علوی، اسماعیل میرانی، زاہد سرفراز واندر،کامران روحانی،ایوب مرزا، ریاض جکھڑ، شہروز ساجد، ماجد لطیف،ریاض ملغانی اور خصوصاً رانا خالد محمودشوق کا ساتھ، بابائے صحافت عبدالحکیم شوق کی سرپرستی ورہنمائی حاصل نہ ہوتی تو کالج روڈ پرپرشکوہ عمارت کا اضافہ نہ ہوپاتا، تعاون کرنیوالے اداروں اور مخیر حضرات کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں
نئے خوابوں کی تعبیر ادارے کے وقار کو بلند کریگی جس کیلئے مجھے سبھی ممبران، قلمکار ساتھیوں کی حمایت درکار ہے، آئیے! اس عمل میں میراساتھ دیجئے۔
اگر کسی کو میری ذات سے کوئی مسئلہ ہے،پسند نا پسند کا معاملہ ہے، پالیسیوں، عمل اور طریقہ کار سے اختلاف ہے تو ادارہ کی بہتری کیلئے اسے بالائے طاق رکھیے،میں آپ کی نظر میں براسہی لیکن میرے ساتھیوں نے مجھے اعتماد بخشا ہے، جو جیتا وہی سکندر ہوتا ہے،پالیسیاں بنانے، فیصلے کرنے کااختیار بھی اسی کا ہے، اس حقیقت کو تسلیم کیجئے، کل اگر ساتھی آپ کو اعتماد بخشیں گے تو آپ کو لیڈ کرنے، فیصلے کرنے کااختیار ہوگا، آج کیے جانیوالے فیصلوں میں میری اور میری کابینہ کی رہنمائی کیجئے، ادارہ مضبوط ہوگا تو ہم سب مضبوط ہونگے، محبتوں کی اقدار پروان چڑھیں گی تو سبھی کا وقار بلند ہوگا،کہتے ہیں کہ نفرتوں کے سفر میں انسان کی ساری صلاحیتوں کو جلا کرراکھ کردینے کیلئے صرف حسد کی آگ ہی کافی ہے، سو اس راستے پرچلنے کی بجائے آئیے نفرتوں کی بجائے آنیوالی نسلوں اور صحافیوں کیلئے محبتیں بانٹنے کے راستے استوار کریں، دلوں میں گھر کرنے کا بھی یہی راستہ ہے