بڑے لوگ اور روف کلاسرا
گمنام گائوں کا آخری مزار کی تحریریں پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ روف کلاسرا نے شیکسپیئر اور دوسرے مغربی ادیبوں کی طرح یونان و روما کے بادشاہوں شہزادوں اور شہزادیوں کے قصے نھیں گھڑے اور نہ ہی وہ راجوں،مہاراجوں کی حویلیوں سے متاثر ہوا۔ روف نے جدید دور کی چکا چوند میں ابھرنے والے کرداروں کو اپنی تحریروں کا حصہ نھیں بنایا بلکہ اس نے Van Gogh(وین گاگ) کی طرح ستاروں پر نظمیں نھیں لکھیں اس نےAbstract (مجرد) اور Dominant کرداروں پر نظر نھیں رکھی بلکہ معاشرے کے ان کرداروں کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مشاہدہ کیا اور انھیں اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا جو ہمارے ہاں اکثر نظر انداز کردیئے جاتے ہیں۔
گمنام گائوں کا آخری مزار ایسے افراد کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جو ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں ان کہانیوں میں روف کلاسرا نے بظاہر تو ان چند کرداروں کو نچلی درجے کے طور پر پیش کیا ہے مگر حقیقت یہ یے کہ روف کلاسرا اونچ نیچ کے فلسفے سے بغاوت کا شعوری ادراک رکھنے والا قلم کار ہے۔روف کلاسرا نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کیا یے کہ معاشرہ ترقی کی کسی بھی منزل کو پالے مگر ان کرداروں کے بغیر معاشرہ نھیں کہلا سکتا ان کی کہانیوں میں جتنے بھی کردار ہیں وہ اس بھرپور ہیجان سے بھری اور خود غرضی کے لبادے میں اوڑھی ہوئی زندگی میں، لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں، مگر روف نے ان کرداروں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ طبقاتی نظام کیسے انسان کو توڑ کے رکھ دیتا ہے کیسے غربت آدمی کو بکھیر دیتی یے کیسے کم مائیگی قوت اظہار کو چھین لیتی ہے ۔
روف کلاسرا نے معاشرے میں ایسے موجود زندہ کرداروں کو شامل کیا جو الف لیلوی داستانوں کے کرداروں کی طرح غیر مرئی کردار نھیں ہیں بلکہ ہمارے اردگرد جیتے جاگتے کردار ہیں ان کرداروں میں چاچا میرو جو کہ ایک جہد مسلسل کی علامت بنا ملتا یے تو وہیں "اجی بہن” رشتوں کو نبھاتی ایسا "کردار ہے جس پر رشک کیا جا سکتا یے جہاں "اجی بہن” ایسا کردار ہےوہیں” اماں جی” کی حساسیت اس قدر دیدنی ہوتی یے کہ وہ منو بھائی کے ٹی وی چوری کے کالم پر اپنی بکریاں بیچنے کو محض اس لیے تیار ہوتی یے کہ منو بھائی اب ٹی وی کیسے لیں گے،گورنمنٹ ڈگری کالج میں شبیر نیئرصاحب،بہادر ڈلو صاحب اور جی ایم صاحب کے کردار سماج کے نباض ہیں۔ کھیں تو جی۔ ایم صاحب سیزر کے مرنے کا غم لیے بروٹس کو قصور وار اس لیے قرار دیتے ہیں کہ وہ تو سیزر کا دوست تھا۔
کھیں ماسٹر اسلم اپنی بیٹی(زرمینہ خان) کا دکھ لیے تو کھیں نسرین کوثر اور ہاشم خان اپنے بیٹے کے قتل پر غم زدہ ، کھیں لیہ کی حسینہ بی بی کینسر سے لڑتے لڑتے اس لیے دم توڑ جاتی یے کہ بیماری سے لڑنے کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نھیں ، چاچا خدا بخش کا کردار عجیب کردار ہے جو اپنے بیٹے کے مرنے کا کرب سے ابھی مکمل طور پر نھیں نکلا ہوتا کہ بہو اور نواسوں کے جانے کا غم اسے کھاجاتا یے ، حلمیہ اور نذیراں ایسے کردار ہمارے چاروں طرف پھیلے پڑے ہیں۔
مجھے جہاں ایسے کرداروں کو پڑھتے ہوئے کرب سے گزرنا پڑتا یے وہیں طمانیت و اطمینان بھی ملتا ہے کہ ان کرداروں میں خیال امروہوی ایسے بڑے نام بھی شامل ہیں جن کے بارے میں منو بھائی نے کہا تھا” خیال ایسا ادیب جہاں قدم رکھتا یے وہاں سو ادیب پیدا ہوجاتے ہیں”۔ خیال صاحب نے مری دھرتی کو فکر و شعور دیا یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاسی و ادبی حوالے سے لیہ کا ایک اپنا مقام ہے ۔ڈاکٹر افتخار بیگ نے ایک بار لکھا تھا کہ ہر صاحبِ بصیرت چاہے وہ خیال کا شاگرد رہا ہو یا نہ رہا ہو وہ خیال کا شاگرد ہے۔ اسی طرح ایک اور کردار اس کا تعلق باقاعدہ لیہ سے نھیں مگر ان کو لیہ سے الگ بھی نھیں کیا جا سکتا وہ محمود نظامی ہیں ۔ محمود نظامی کی سیاست پر گہری نظر ہوتی ہے اسی کردار سے میل کھاتے مرے دوست ڈاکٹر رشید اولکھ اور محمد فاروق گل سے جب بھی کسی سیاست پر بات ہوتو وہ سیاسی تاریخ کو ہمارے سامنے ایسےپیش کرتے ہیں جیسے سیاست کی بساط ان کے سامنے بچھائی گئی ہو۔ان کی نہ صرف مہروں پر نظر ہوتی ہے بلکہ ہر سیاسی چال سے بھی وہ بہ خوبی آگاہ ہوتے ہیں۔
کتاب میں موجود کرداروں کو پڑھتے ہوئے عجیب کرب سے گزرنا پڑا کیوں کہ یہ کردار مری دھرتی سے جڑے ہیں روف کلاسرا اور مرا دکھ اس لیے بھی سانجھا ہے کیوں کہ اس کی جڑت بھی اسی دھرتی سے ہے یوں لگتا ہے کہ مرے سامنے یہ کردار موجود ہیں مگر اب ان کے نام تبدیل ہیں۔
روف جن اساتذہ سے متاثر ہے ان میں سے شبیر نیئر صاحب اور بہادر ڈلو صاحب کا میں باقاعدہ شاگرد تو نھیں رہا مگر ان دونوں اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع اکثر ملتا ہے۔ اللہ بھلا کرے کامران اولکھ کا جس نے لیہ میں اخوت کلب بنایا ہوا یے وہاں بہادر ڈلو صاحب سے آئے روز فیض یاب ہونے کا موقع ملتا ہے جہاں علم و ادب ،سیاست سمیت ہر موضوع زیر بحث آتا ہے۔
ہماری خوش بختی رہی کہ ایسے اساتذہ ہمیں بھی میسر آئے جو سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب، میاں نور الہی ایڈووکیٹ صاحب، مہر اختر وہاب اور ریاض راہی ایسے اساتذہ سے ہم نے فیض حاصل کیا۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی ایسے کردار جو سماج میں بدلاؤ کا سبب بنتے ہیں وہ مرے اردگرد موجود تھے کھیں وہ اقبال حیدر ،ظفر اقبال عدم ،وقار خان کھیتران اور ضیا انجان سرائیکی کی شکل میں ہیں تو کھیں ساجد کلاچی،جاوید لودھی اور ایاز محمود کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ ایسے کردار کئی صدیوں بعد بھی ہوں گے مگر ان کے نام تبدیل ہوں گے
۔اس کتاب کے بارے سب سے پہلے مجھے پروفیسر طاہر مسعود مہار صاحب نے بتایا انھوں نے بتایا کہ روف کلاسرا کی نئی کتاب "گمنام گائوں کا آخری مزار” شایع ہوئی ہے جس میں روف کلاسرا نے زمانے میں بھکری ہوئی کہانیوں کو اپنے اندر سموئے ایک داستان جس میں اپنی داستانوں کا ہیرو ایک عام آدمی کو بنایا یے” مری دلچسپی بڑھی پھر یہ کتاب مجھے ڈاکٹر زری اشرف صاحبہ نے تحفتاً مجھے دی ۔ڈاکٹر زری اشرف صاحبہ سے میں بہت متاثر ہوں میں انھیں ایک رول ماڈل کے طور پر لیتا ہوں۔
دونوں احباب کا شکریہ کہ اتنی قیمتی کتاب پڑھنے کو ملی