کالم

پاکستان کے نام کھلا خط

احمد خان طارق کی سنت میں کی جانے والی چڑیا کی "دھاں" /فریاد

پاکستان کے نام کھلا خط

سی سی : گورنمنٹ آف پاکستان
چیف جسٹس آف پاکستان
چیف آف آرمی سٹاف
میڈیا مقننہ انتظامیہ جمہوریہ

چند سو سال پیشتر کی بات ہے۔سرائیکی وسیب سمیت پورے ہندوستان پہ فرنگی راج ہے۔ انگریز راجوں مہاراجوں سے ساری دولت سمیٹ کر لے جا چکے ہیں۔مغرب میں انڈسٹریل دور کا آغاز ہو چکا ہے۔نت نئی ایجادات سے انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہوا جاتا ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان نامی اس کالونی سے لگان وصولنے اور بطور حاکم اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ہندوستان میں بہت سے منصوبوں کا آغاز کر چکے ہیں۔بجلی کا نظام لایا جا رہا ہے،کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے مشینی اوزار منگائے جا رہے ہیں ساتھ ہی دریاؤں سے یہ بڑی بڑی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کے زرخیز رقبہ سیراب کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کا نہری نظام دنیا کا ساتواں بڑا نہری نظام ہے۔اس نظام کو رواں رکھنے کے لیے محکمہ انہار تشکیل دیا گیا۔ہر چند کوس کے فاصلوں پہ نہری امور کے ماہر انگریزوں کے لیے کینال ریسٹ ہاؤس بنائے گئے۔ریسٹ ہاؤس انگریز بولتے تھے ہمارے لوگ انہیں بنگلہ کہتے تھے۔دیہاتوں میں انگریزوں نے یہ بنگلے بنائے اور انہی بنگلوں کی وجہ سے کئی مواضع جات کے نام پڑے،کئی قصبے اور گاؤں مشہور ہوئے جیسے میں اگر اپنے شہر کوٹ ادو یعنی ہیڈ تونسہ بیراج کے ارد گرد کے چند بنگلوں کے نام لوں تو تاریخی کراڑی والا بنگلہ،بنگلہ شاہجمال،فتو والا بنگلہ،اور ہنجرائی بنگلہ وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح جہاں جہاں ضرورت تھی وہاں محکمہ انہار کے ملازمین کے لیے انگریزوں نے دفاتر سور ساتھ ہی ملازمین کے لیے کینال کالونیاں بنائیں،جیسے کینال کالونی کوٹ ادو،کینال کالونی ڈی جی خان،کینال کالونی ساہیوال اور کینال کالونی گوہر والا وغیرہ۔
میں بھی ایسی ہی اک کینال کالونی کوٹ ادو کے اک بوسیدہ سے مکان کا رہائشی ہوں۔یہ مکان کلاس فور کے ملازمین کے لیے بنایا گیا تھا۔یہ کینال کالونی کوٹ ادو شہر کی قدیم ترین کالونی ہے۔انگریزوں نے جب اس نہری نظام بہتر کیا تو کوٹ ادو میں کچے مکانات پہ مشتمل اک کالونی بنائی۔یہ مکانات اپنے فن تعمیر کی وجہ سے خود اپنی مثال آپ ہیں۔گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہنے والے ان مکانوں کی چھتوں میں سیمنٹ سے بنے بڑے بلاک استعمال کیے گئے تھے۔کچی اینٹوں سے بنی دیواریں ایسی مضبوط کہ ان میں سے گولی پار نہ نکل سکے۔صندل یا اسی قسم کی خاص لکڑی کے دروازے جو وزن میں ہلکے لیکن مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہیں۔پھر ان کمروں میں یہ بڑی بھاری موٹر والے چھت کے پنکھے جو چلنے کے ساتھ گھرر گھرر کی اک مخصوص آواز بھی پیدا کرتے ہیں۔جس طرح انگریز دور کے بنے ڈی سی ہاؤس یا ڈی پی ہاؤس خوب صورتی مضبوطی اور تاریخی طرز تعمیر سے منفرد نظر آتے ہیں۔خوش قسمتی سے چھوٹے ملازمین کے لیے بنائے گئے یہ نسبتاً چھوٹے مکانات طرز تعمیر میں تاریخی ہیں۔ان کالونیوں کو بناتے وقت انگریزوں نے بے تحاشا درخت لگائے اور کالونی کے لیے علیحدہ سے موگا جات دیے یوں جہاں جہاں جس جس شہر میں کینال کالونی ہے وہ شہر کے پھیپھڑوں کا کام کرتی ہے۔درختوں سے بھرپور سرسبز اور تاریخی۔ہر کالونی کے گرد چار دیواری اور سینئرز کے گھروں کے سامنے گراسی پلاٹ جب کہ چھوٹے ملازمین کے مکانات چاروں طرف بنا کر درمیان میں اک بڑا گراسی پلاٹ۔پھر یوں ہوا کہ ہمیں فرنگیوں سے آزادی مل گئی۔سارا سسٹم دیسیوں کے ہاتھ میں آ گیا اتنے خوب صورت بنگلے جو فن تعمیر میں شاہکار تھے وہ ویران ہونا شروع ہوئے۔فلی فرنشڈ بنگلوں کا پہلے پہل فرنیچر غائب ہوا پھر آلات زندگی اس کے بعد سرکاری درختوں کی باری آئی اور آخر میں ان بنگلوں کے دروازے کھڑکیاں اور کئی کیسز میں اینٹیں تک اکھاڑ لی گئیں۔لیکن یہ بنگلے آج بھی موجود ہیں بھوت بنگلے بنے ہوئے کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکے ہیں مگر پھر بھی اپنی بنیاد پہ کھڑے اپنی گزری شان و شوکت اور کئی سو سالوں کے عرصے میں اپنے اندر رہنے والے مکینوں کے ان گنت واقعات کے رازوں کے امین۔
ہماری کینال کالونی کوٹ ادو بھی کبھی ایسے ہی ہوا کرتی تھی۔یہاں کے مکین ملازمین اپنی تنخواہ میں سے اک مختص رقم ہر ماہ کرائے بجلی کے بل اور دیگر اخراجات کی مد میں تنخواہ لینے سے پہلے ہی ادا کر دیا کرتے۔اگر زراعت ملکی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو محکمہ انہار زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔سرکار ہر سال اک مناسب بجٹ محکمہ انہار کو دیا کرتی ہے۔اور جب سے ہم اس کینال کالونی کے مکین ہوئے ہیں ہر سال افسران بالا اک اس مناسب بجٹ کا اک مناسب حصہ کھانے کا بندوبست کرتے آئے ہیں۔ہر سال جون کے مہینے میں محکمے کا بجٹ بنتا اور اس میں کینال کالونی کے ان تاریخی مکانات کی تھوڑی بہت مرمت اور چونے وغیرہ کا بجٹ مختص کیا جاتا یوں سال میں اک آدھ بار یہ کچے مکانات تھوڑی سی سرکاری باقی سرکاری ملازم کی ذاتی جیب سے بھرے گئے بجٹ سے اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے۔پھر آتا ہے سال 2010 اور کوٹ ادو میں عباس والا بند ٹوٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں اک خوفناک سیلاب آتا ہے۔شہر کا پیشتر حصہ اس سیلاب سے محفوظ رہتا ہے مگر ریلوے لائین کے نیچے اک پل سے پانی اک کلومیٹر دور سے واپس کینال کالونی کوٹ ادو کی طرف آتا ہے اور ان صدیوں پرانے مکانات کو اچھا خاصا نقصان پہنچا جاتے ہیں۔ملازمین اپنے مال مویشی زیور اور دیگر قیمتی سامان سے محروم تو ہوتے ہی ہیں۔مرے کو مارے شاہ مدار کی مانند محکمہ انہار کے افسران بالا ہر سال مرمتی کے لیے دیے گئے فنڈ کو ہڑپ کرنے کے لیے پوری کالونی کو مسمار لکھ کر رپورٹ بھیج دیتے ہیں۔جب ملازمین صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ان کو یہ خوشخبری سنا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے کہ مکانات کو پہنچنے والے نقصان کو جیب سے پورا کر لو آپ کو فائیدہ یہ ہو گا کہ اب آپ کی تنخواہ سے رینٹ نہیں کاٹا جائے گا۔یوں ملازمین کی زبان بندی کرانے بعد آہستہ آہستہ سہولیات بند کر دیتے ہیں۔کینال کالونی کوٹ ادو کی چار دیواری تو پہلے سے مسمار کر کے شہر کے قبضہ مافیا کو بیرونی احاطے کے ساتھ مکانات تعمیر کرانے کا موقع فراہم کر چکے تھے۔چار دیواری گئی سیکیورٹی گئی کینال کالونی کے ساتھ ساتھ چلتی نہر کو پختہ کراتے وقت گراسی پلاٹ کا موگا بھی بند ہونے کی بدولت پلاٹ سوکھ کر خشک بنجر زمین کی شکل اختیار کر چکا تھا۔اب دن بھر اس خشک پلاٹ میں ہوا کے بگولوں سے دھول مٹی اڑتی رہتی اور سرشام یہاں "جہاز” لینڈ کرنا شروع ہو جاتے تھے۔ملازمین کی زبان بندی کے بعد ان کا پانی بند کیا گیا پھر بجلی کاٹی گئی کہ رینٹ تو کٹتا نہیں۔

بہت مرمتی وغیرہ کرا دی جاتی تھی اور فنڈز مل جل کر کھا لیے جاتے تھے۔
درجہ چہارم کے چھوٹے ملازمین جن میں کوئی چوکیدار کوئی مالی کوئی نائب قاصد کوئی بیلدار کوئی کسی دیہات گاؤں سے آ کر رہائش پذیر ہوا کوئی کسی شہر سے۔یہاں کینال کالونی کوٹ ادو میں لیہ مظفرگڑھ شجاع آباد جیسے جنوبی پنجاب کے شہروں کے علاوہ،کراچی کوئٹہ نارووال جیسے بلوچستان،سندھ اور اپر پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے ملازمین فیملی سمیت رہتے ہیں۔سال گزرتے گئے خرچے بڑھتے گئے مکانات کی حالت مخدوسش سے مخدوش تر ہوتی گئی۔افسران بالا کی رہائش گاہوں کی مرمت اور بل سرکاری کھاتے سے بنتے رہے جبکہ چھوٹے ملازمین تنخواہ اور پیٹ کاٹ کاٹ کر ان مخدوش مکانات کو رہائش کے قابل بنائے ہوئے ہیں۔آپ مکانات کی حالت زار دیکھ لیں تو ان ملازمین کی جرات کو سلام کریں گے کہ آثار قدیمہ کی مثال بنے مکانات میں بیوی بچوں سمیت رہائش پذیر ہیں کہ وہ یہاں سے اٹھ کر کہاں جائیں؟ اس کالونی میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے دو پرائمری سکول ہیں۔پھر ملازمین نے اپنی مدد آپ لے تحت گھروں کے ساتھ بے تحاشا درخت لگائے کہ گرمیوں میں ان کی چھاؤں میں بیٹھ کر لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بلوں کے مسئلے نپٹا جائے۔
کینال کالونی کے مکینوں کی آزمائش یہیں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ شروعات ہوتی ہے۔پچھلے دور میں کوٹ ادو کو دو میگا منصوبے ملتے ہیں اک مدر اینڈ چائیلڈ کئیر ہسپتال اور دوسرا تحصیل کوٹ ادو کا ضلع کوٹ ادو بننا۔اور دونوں منصوبوں سے ڈائریکٹ متاثر ہوئے تو محکمہ انہار کے ملازمین،مدر اینڈ چائیلڈ کئیر کے لیے برلب سڑک کینال کالونی کا رقبہ لے لیا جاتا ہے،دوسرے منصونے یعنی ضلع بننے کے بعد انہار کی ذیلی کالونی جو واپڈا کالونی کے نام سے معروف ہے اس میں موجود انہار کے دفاتر کو خالی کرا کے ڈی پی او آفس بنا دیا جاتا ہے اور تاریخی کراڑی والے بنگلے جو شاید پوری تحصیل میں واحد بنگلہ ہے جو اپنی اصل میں موجود تھا وہ بھی یوں کہ وہ بیراج کے بالکل نزدیک تھا اور شہر کے ممبران اسمبلی اور انتظامیہ کے اہلکار وہاں شب بسری کے لیے دعوتیں اڑانے جاتے تھے اس پہ قبضہ کر کے ڈی سی آفس بنا دیا جاتا ہے۔چھوٹے ملازمین کو کہا جاتا ہے کہ یہ عارضی سیٹ اپ ہے جلد ہی ضلعی دفاتر کی تعمیر کا فنڈ آ جائے گا یوں یہ دوبارہ آپ کے ہینڈ اوور کر دیا جائے گا۔آپ شہر کی ترقی کے لیے عارضی طور پہ قربانی دیں۔شہر کی ترقی سے یاد آیا ہماری کینال کالونی کی اک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ فرنگیوں کی بنائی یہ کالونی آزادی کے بعد بھی پاکستان کا حصہ نہیں بن سکی۔ہم کالونی کے مکین ووٹ دینے کی حد تک شہری ہیں ورنہ ہمارے ووٹ سے منتخب ہونے والے بی ڈی ممبر یعنی کونسلر سے لے کر ایم پی اے ایم این اے تک اک اینٹ تک کا ترقیاتی کام نہیں کرا سکتے۔بلدیہ کے صفائی سسٹم میں ہماری کالونی شامل نہیں ہو سکتی،یوں نہ تو یہاں کوئی سیوریج بنی ہے نہ سولنگ۔حتیٰ کہ شہر کے پھیپھڑوں کا کام کرتی شہر کی قدیم ترین کالونی میں آج تک گیس تک کی بنیادی سہولت تک فراہم نہیں کی جا سکی۔اس کی وجہ کچھ یوں بتائی جاتی ہے کہ یہ سرکاری کالونی ہے اس لیے یہ ممبران اسمبلی کی جیورڈیکشن میں نہیں آتی،جو کام کرائیں گے خود محکمہ انہار کے افسران بالا کرائیں گے وہی افسران بالا جو یہ سوچ کر دلچسپی نہیں لیتے کہ چند مہینوں میں ویسے بھی ان کا ٹرانسفر ہو جاتا ہے تو وہ کیوں برسوں سے مقیم ان تیسرے درجے کے چوتھے سکیل کے ملازمین کے لیے سر درد پالیں اس سے بہتر تو یہی ہے فنڈز ہضم کر لیے جائیں اور دوسرے تیسرے مہینے یہ جا وہ جا۔اگر آپ نے ہم مجبوروں کی یہاں تک کی داستان پڑھ لی ہے اور ہمارے ساتھ ہمدردی محسوس کرتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا نہیں ہو رہا تو رکیے اصل ایٹم بم تو ہم پہ اب چھوڑا جا رہا ہے۔کینال محکمے کے مکانات کو عارضی طور پہ دفاتر بنانے والے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے مستقل دفاتر کے لیے جگہ چن لی ہے اور وہ جگہ ہے ہماری کینال کالونی۔
جی ہاں وہی کینال کالونی جس میں ہم اتنی مشکلات کے باوجود برسوں سے اس وجہ سے رہ رہے ہیں کہ درجہ چہارم کے تیس پینتیس ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والے ملازمین نے اپنے بچوں کو پڑھانا ہوتا ہے گھر کا راشن لانا ہوتا ہے مہنگائی کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے صرف اس آسرے سے کہ کرائے کے مکانات دس ہزار ماہانہ سے شروع ہوتے ہیں ذاتی مکانات کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا وہ تو جب ریٹائر ہوں گے تو پنشن سے کوئی چھوٹا موٹا گھر خریدیں گے جیسے خوابوں کے سہارے بوسیدہ مکانات میں چپ چاپ بنا سہولیات جیے جا رہے تھے۔ہم سے وہ بوسیدہ چھت بھی چھیننے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ شہر میں دوسری جگہ موجود نہیں۔نئی کچہری جوڈیشل کمپلیکس کے ساتھ آئیڈیل لوکیشن موجود ہے دفاتر اور صاحب بہادروں کی رہائش گاہوں کے لیے۔مگر تین چار ماہ کے لیے آنے والے ان صاحب بہادروں کا کہنا ہے کہ وہاں ہمارے بچوں کو کتے نہ کاٹ لیں کیونکہ وہ شہر کے درمیان میں نہیں۔کامن سینس بھی یہی کہتی ہے کہ کچہری ڈی سی آفس ڈی پی او آفس ساتھ ساتھ ہوں جوڈیشل کمپلیکس ججز کی رہائش گاہوں کے ساتھ ڈی پی او اور ڈی سی حضرات کی رہائش گاہیں بھی وہیں ہونی چاہیں مگر چونکہ یہ درجہ چہارم کے ملازمین کی کالونی ہے لہذا ان کو بے گھر کر کے یہیں نئے خوشحال کوٹ ادو کی بنیاد رکھیں گے۔
صرف یہی نہیں کہ نئی کچہری کے ساتھ جگہ ہے،پرانی کچہری مین جی ٹی روڈ پہ ہے وہ جگہ موجود ہے،پرانی مویشی منڈی جو شہر کے اندر ہے وہ جگہ موجود ہے،سٹیڈیم جو صرف عوام نیں آٹا تقسیم کرنے کے وقت کام آتا ہے وہ موجود ہے،جنوبی پھاٹک سے لے کر شہر بھر میں ریلوے ٹریک کے ساتھ عیدہ گاہ کے ساتھ یعنی شہر میں جگہ کی کمی ہرگز نہیں ہے مگر نجانے کیوں صاحب بہادر اس کینال کالونی کو ملیا میٹ کرنے کا مصمم ارادہ باندھ چکے ہیں۔دو سے تین بار جب یہ صاحب بہادر وزٹ کرنے آئے تو ہٹو بچو کی صدائیں ہوٹر کی آوازوں اور گاڑیوں کے قافلوں میں وارد ہوئے مکینوں کو محافظوں نے دو سو فٹ دور روک کر اپنی بربادی کے لیے سجائے جانے والے تماشے کی تیاریاں دیکھنے کی اجازت دی بس۔ہم کینال کالونی کے مکین اس دن سے پریشان ہیں،بزرگوں کی کمریں مزید جھک چکی ہیں،ادھیڑ عمروں کے بال مزید سفید ہو چکے ہیں ہماری ماؤں کے چہروں کی جھریوں میں اضافے کے ساتھ آنکھوں میں آنے والے وقت کا خوف صاف دکھائی دیتا ہے۔ہمارے بچے جو اس آنگن میں پیدا ہوئے اپنے پہلے قدم اٹھائے جن کو تمام عمر انہی بوسیدہ مکانات کے خواب آیا کریں گے ان کا مستقبل داؤ پہ ہے ہماری کنواری بہنیں جن کے جہیز کی تیاری کئی سالوں سے بس جاری ہے ان کو اپنے والد کو دیکھ کر اپنا وجود بوجھ محسوس ہونے لگا ہے۔ہمارے ہاتھوں لگائے گئے درخت اس پہ اگنے والے پھل،جیسے ہر صبح ہم سے ہمکلام ہوتے ہوں اور پوچھتے ہوں کہ ان کی زندگی کے کتنے دن بچ گئے ہیں کیونکہ منصبوبہ ہے کہ انگریز کے ہاتھوں لگا درخت ہو یا مالی کے ہاتھ کا لگا درخت سب کو کاٹ کر اس جیتی جاگتی کالونی کو چٹیل میدان بنا کر پھر بڑے آرکیٹیچرز کی ٹیم کوٹ ادو کی خوشحالی اور ترقی کے مراکز بنانے کے لیے نقشے بنائیں گے۔گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کی سینکڑوں طالبات اور گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول کینال کالونی کوٹ ادو کے سینکڑوں پہلی دوسری سے پانچویں کلاس کے بچے سوال پوچھتے ہیں کہ نجانے ان سکولوں کو ملیامیٹ کر کے شہر کے کس کونے میں انہیں شفٹ کیا جاتا ہے۔ان کے والدین کس کونے میں مکان کرائے پہ لیتے ہیں۔اور اگر کرائے پہ مکان لیتے بھی ہیں تو کیا تعلیم جاری رکھوا پائیں گے؟ اگر تعلیم جاری رکھوائیں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں بنا چھت کے تیس پینتیس ہزار میں کون کون سی ضرورت پوری ہوتی ہے۔میں رضوان ظفر گورمانی جو محکمہ انہار میں درجہ چہارم کے ملازم مالی کم چوکیدار ظفر حسین گورمانی کا بیٹا ہے۔
جس کو ظفر حسین نے نامساعد حالات کے باوجود تعلیم دلوائی جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ اس ڈگری کے ساتھ مجھے نوکری نہیں ملنے والی میری خواہش پہ جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے سے نہیں روکا اور میرے تعلیمی اخراجات بھرتے رہے۔وہ مالی کم چوکیدار جو اپنے بیٹے کے لکھے کالموں پہ جب کسی وزیر اعظم کسی وزیر اعلیٰ کسی آئی جی کو نوٹس لیتے دیکھ کر فخر محسوس کرتے رہے۔
وہ جو سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں میرا مقدور بھر ساتھ دیتے رہے کہ رضوان ظفر گورمانی 2020 میں اپنے ضمیر کی آواز پہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس پہ تنقید کرتے ہوئے کالم لکھتا ہے تو قلمکار ہونے کا فرض نبھاتا ہے جو کینال کالونی کوٹ ادو کے بوسیدہ کمرے میں بیٹھے اپنے بیٹے رضوان ظفر گورمانی کو مین سٹریم میڈیا کے جرنلسٹ سے حالات حاضرہ ڈسکس کرتے ہوئے دیکھ کر مسکرا پڑتے ہیں۔آج وہ ظفر گورمانی مجھ سے آس بھرے لہجے میں پوچھ رہے ہیں کہ بیٹا کیا تم اگر لکھو گے تو قاضی فائز عیسیٰ صاحب نوٹس لے لیں گے؟بیٹا مین سٹریم کے صحافی ہمارا آشیانہ شہر کا ماحول بچوں کا مستقبل اور دو سکولوں کے ساتھ ہماری آخری آس امید بچانے کے لیے آواز اٹھائیں گے؟
بیٹا وائس آف امریکہ،انڈیپینڈنٹ اردو اور قومی روزناموں میں دوسروں کے مسائیل پہ لکھنے والے،کینسر کے مریض کے لیے لاکھوں روپے اک کالم پہ اکٹھا کرنے والے،خوراک کی نالی تیزاب سے سڑ جانے والی دو سالہ ناجیہ کے سی ایم فنڈ سے سرکاری علاج شروع کرانے والی تحاریر لکھنے والے رضوان ظفر گورمانی کے خود کے آشیانے کو بچانے کے لیے کی جانے والی ارداس کو کوئی پڑھے گا ؟ کیا کوئی میڈیا کوریج کرے گا؟ کیا کوئی منصف نوٹس لے گا؟ کیا ہمارا آشیانہ ہماری کالونی ہمارا باغیچہ ہمارا آنگن بچ پائے گا۔اور جواب میں میرے پاس فی الحال اندھیرا ہے دیکھ رہا ہوں کہ اس اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی کوئی بنتا ہے ؟

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com