فرزندان تھل
"تھل” سات اضلاع پر پھیلا ایک ایسا خطہ ہے جسے سونے کے پہاڑوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سرائیکی میں کہا جاتا ہے کہ یہ برصغیر کا واحد ‘تھل” ہے جو دریاؤں کی آغوش میں اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے۔تھل کی شناخت پر ڈاکٹر مہر عبدالحق نے بنیادی کام کیا اور انہوں نے ایک کتاب”تھل” کے عنوان سے لکھی اس میں جغرافیائی لحاظ سے لے کر تہذیب و ثقافت ایسے موضوعات کو زیر بحث لایاگیا۔
لیہ سے تعلق رکھنے والے معروف کالم نگار و سینئر صحافی خضر کلاسرا نے بڑی شدومد سے تھل کا مقدمہ لڑا، ان کا تھل کے حوالے سے ایک اپنا تھیسز ہے جس پر چند ایک تحفظات کے علاوہ میں ان کے تھیسز سے متفق ہوں، (چوں کہ بات خضر کلاسرا کی ہورہی ہے تو یہاں تھل کے راج پوت قبیلہ سے تعلق رکھنے والے عاصم کھچی جو کہ اس وقت ایسوسی ایٹ پریس آف پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں کا ذکر بھی لازمی کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ ان کے حوالے سے بھی بہت سے تحفظات ہیں جن پر وآگے چل کر تفصیل سے بات ہوگی)۔
"تھل” کو لے کر بہت سے لوگوں کی مختلف آرا موجود ہیں کئیوں کا کہنا ہے کہ تھل سونے کے پہاڑ کو کہا جاتا ہے اس کی دلیل میں وہ سرائیکی کی ضرب المثل کا حوالہ دیتے ہیں،” تھل سونے دا محل” (یعنی تھل کا علاقہ ایسے ہے جیسے سونے کا بنایا ہوا محل ہو) کچھی سونے دی پچھی (یعنی نشیب کا علاقہ ایسے ہے جسے سونے کی بنائی ہوئی اوڑھنی یا چنریا ہو) جب کہ بعض کا ماننا ہے کہ تھل کے معنی ہیں ایک ایسی جگہ جہاں مچھلیاں انڈے دیتی ہیں، کئی روایات میں ایک ایسا صحرا جہاں ریت اور ٹیلے ہوں تھل کہلاتا ہے۔ راقم کا ماننا ہے کہ کسی بھی نام کا لسانی پس منظر ہوتا ہے تھل کا لسانی پس منظر دیکھنے کے لیے اس کے متضاد لفظ سے سہارا لینا پڑے گا، ایسے میں تھل کا متضاد ہے نشیب، اس سے ثابت ہوا کہ تھل کے معنی اونچائی کے ہیں اور یہ لفظ سرائیکی کے "تھلہ ” سے نکلا ہے۔ مطلب اونچ اور نیچ، جیسے سرائیکی میں "اچ ، جھک”۔
کئی ایک دانش ور نے تو تھل کو مشہور مثنوی کدم راؤ پدم راؤ مختلف صوفی شعرا کے کلام میں بھی تلاش کیا ہے مگر لسانی اعتبار سے دیکھا جائے تو زبانوں کا اختلاط ایک معمول کی بات ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی برس قبل چوبارہ روڈ لیہ ایک مقامی ہوٹل میں ہونے والی تھل کانفرنس میں ناچیز کو شرکت کا موقع ملا ۔ جس میں تھل کے باسیوں کے استحصال اور ان کے حقوق کا ایشو نمایاں رہا۔کانفرنس میں سرائیکی وسیب کے قدآور دانشور ،وکلاء ،ڈاکٹرز ،لیہ اور دیگر اضلاع کے معروف صحافی موجود تھے مگر تھل کا مقدمہ اسمبلی فورم پر لڑنے والے مہر فضل حسین سمرا ، معروف محقق تاریخ دان برکت اعوان ، پروفیسر طارق مومن ، ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال کا مؤقف موضوع کے حوالے سے انتہائی جاندار تھا۔تھل کانفرنس کا انعقادایک ایسے وقت میں ہورہا تھا جب تھل کے کئی مسائل کی دیواریں اتنی بلند ہو چکی تھیں جنہیں گرانا وقت کی اہم ضرورت تھی مقررین نے 17ہزارمربع میل پر پھیلی اپنی دھرتی سے وفاکی سوگند(قسم)کو خوب نبھایا۔ان کا مؤقف بھی بڑا واضح تھا تھل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں ریت ہے وہاں تھل ہے۔تھل اور تھل کی محرومی کا کرب ان کے چہرے اور الفاظ سے جھلک رہا تھا ان کے الفاظ کی سچائی کو جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا ، ٹی ڈی اے ایکٹ کے نفاذ کے بعد ہماری بستیوں ،ہمارے قصبوں کو چکوک کانام دے کر ہماری شناخت کو ملیا میٹ کردیا گیا۔مہر فضل حسین سمرا تھل کا کہنا تھا کہ مملکت خدادادپاکستان میں تین بڑے صحرا۔ تھر ،چولستان ، تھل ہیں علاقہ تھل جو صدیوں سے ایک ویران ریگستان پر مشتمل تھا اس وسیع عریض علاقہ کی تعمیر و ترقی کی خاطر سند ھ ساگر دو آب ایکٹ 1912ء کی شکل میں ہوا۔ تھل کے زمینداران اور گورنمنٹ پنجاب کے مابین ایک معاہدہ طے پایا کہ حکومت وقت ایک مقررہ عرصے کے اندر تھل میں نہری نظام جاری کرنے کا بندوبست کرے گی اور نہری علاقہ کے زمیندار اس کے عوض اپنے رقبہ کا دو تہائی حصہ حکومت دیں گے۔مگر جنگ عظیم اوّل میں اورچند دیگر وجوہات کی بناء پر گورنمنٹ پنجاب مقررہ میعاد کے اندر نہر لانے سے قاصر رہیں حتیٰ کہ سندھ ساگر دو آب ایکٹ سال 1932 ء میں ختم ہوگیا۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے پر پاک پنجاب گورنمنٹ کو جب مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس سنگین صورتحال میں کثیر تعداد رقبہ کی ضرورت کو مد نظررکھتے ہوئے گورنمنٹ کو اس علاقہ کی طرف توجہ مبذول کرنا پڑی کہ کن ذرائع سے کمی رقبہ پوری کی جانی مناسب ہے چنانچہ ان حالات کے پیش نظر ٹی ڈی اے ایکٹ 1949 منظورہوا اور ایک نیم خود مختار ادارہ ٹی ڈی اے وجود میں آیا تاکہ مہاجرین کی آباد کاری کا کام جلدی نمٹایا جاسکے اور گنجان آباد اضلاع سے مہاجرین کا بوجھ کم کیا جائے۔اس پیش رفت میں گورنمنٹ پاک پنجاب نے مختلف نوٹیفکیشن ہائے کے ذریعے اور ایک فارمولے کے تحت لوکل مالکان سے ضلع لیہ میں 2لاکھ 71 ہزار 269ایکڑ رقبہ حاصل کیا۔ لوکل مالکان سے حاصل کی گئی اراضی مدت ہوئی گورنمنٹ اپنے تصرف میں لا چکی مگر تھل کے اضلاع کو آبپاش کرنے کے لیے جو تھل کینال دی گئی اس میں وعدہ کے مطابق 10ہزار کیوسک پانی آج تک تھل کی سلگتی اور پیاسی دھرتی کے لیے ایک سراب ہے۔ اس طرح تھل کا مقدر صدیوں جو پیاس تھی۔وہ آج بھی بدستور ہے۔دیگر مقرین کے اندردرد تھا ایک چبھن تھی اور ایک کسک تھی۔تھل کانفرنس میں انہوں نے علاقہ کے ان ستم رسیدہ لوگوں کی مظلومیت کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا جن کی معیشت نہ رہی۔مال و اسباب جاتا رہا جنہوں نے ایک کثیر رقم کے عوض اراضی حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ریت کے ٹیلوں کو گل و گلزار بنایا لیکن کلیم مافیا نے یہ اراضی ان سے آر ایل ٹو کے ریکارڈ میں ردو بدل کرکے چھین لی اور ان کی نسلوں کو عدالتوں کے جھمیلوں میں ڈگمگانے کیلئے چھوڑ دیا یہی نہیں تھل کی تہذیب و تمدن اور ثقافت تباہی سے دو چار ہوئے۔
یہ حقیقت ہے کہ تھل کے باسیوں کا سب سے زیادہ استحصال بیور کریسی ، مقامی اشرافیہ ،لینڈ مافیا کی ٹرائیکا نے کیا۔جعلی کلیموں کے ذریعے اصل مالکان کو ان کی حقیقی اراضی سے محروم کردیاگیا۔ وہ غریب باسی اور تھلوچی جنہوں نے زمین کا سینہ چیر کر ریگزاروں کو گلزار بنایا۔اپنی حقیقی اراضی کے حقوق ملکیت سے محروم کردیئے گئے۔تھل کا علاقہ دریائے جہلم دریائے سندھ اور دریائے چناب کی درمیانی پٹی پر واقع ہے ضرورت کے تحت 1950ء میں جناح بیراج سے نہریں نکال کر قابل کاشت بنانے کا اقدام اٹھایا گیا۔ یہ تاریخ کا انوکھا جبر ہے کہ تھلوچیوں کی ہر 15 ایکڑ سے زائد زمین کا دو تہائی بحق سرکار تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر ضبط کر لیا گیا جس سے 40 فیصد تھلوچی حقوق ملکیت سے محروم ہوئے۔تین اضلاع۔لیہ ، بھکر ، خوشاب کی ترقی کے لیے اتنے صنعتی ادارے قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا جن میں تین لاکھ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع ملنا تھے۔ لیکن ان اضلاع کے لوگوں کا استحصال یہ ہوا کہ لیہ میں صرف ایک شوگر ملز ایک زرعی ورکشاپ کے ذریعے صرف 11سو افراد کو رو زگار دیا گیا۔ ایک ضروری وضاحت یہ ہے کہ کہ اربو ں کے عوامی و قومی اثاثہ لیہ شوگر ملز کو تخت لاہور کے وارثوں نے چند کروڑ میں قومی ملکیت سے نجی ملکیت میں اپنے حواریوں کو دے دیا۔اور آج لیہ کے اس کارخانہ میں دیگر اضلاع کے نوجوانوں کو روزگارکے مواقع میسر ہیں۔یہ اس نسل کی محرومیوں کا کیس ہے جو ہاتھوں میں ڈگریاں اُٹھائے مایوسی کی آخری دہلیز پر کھڑی ہے۔بھکر میں ایک ٹیکسٹائل ملز کے ذریعے 2000 افراد کو روزگار دیا گیا۔جبکہ خوشاب میں قائد آباد کے مقام پر قائد آباد وولن ملز کے نام سے ایک کارخانہ لگا یا گیا جس میں صرف ایک ہزارمقامی باسیوں کو روز گار ملا۔یعنی تین اضلاع میں تین لاکھ مقامی افراد کو روزگار مہیا کرنے کے بجائے صرف 4100 افراد کو روزگار دیا گیا۔ لوگوں کے استحصال کی یہ انتہا ہے کہ خوشاب ، بھکر اور لیہ میں 30رکھوکھ تھیں تھل کے جو مقامی تھلوچیوں کے لیے لائیوسٹاک کی خاطر مختص تھیں مگر ان رکھوکھ پر بھی ایسی جارحانہ قوتیں قابض ہوگئیں جن کا کوئی استحقاق نہ تھا اس طرح جنوبی پنجاب میں تھل کے باسیوں کا سب سے زیادہ استحصال ہوا۔