کالم
سب بدلا لیکن تھل کب بدلے گا ؟
کہانی جہاں سے چلی تھی، قیام پاکستان کو 72 سال گزرنے کے باوجود بھی معاملہ گھوم پھرکر وہیں کھڑا ہے۔ وقت بدلا، حکمران بدلے، چہرے بدلے اور فوجی اور جمہوری حکمران بھی آئے اور چلے گئے ہیں لیکن تھل (خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ، چینوٹ) کی قسمت نہ بدل سکی۔ وہی پرانا سیلبس چل رہا ہے۔ لکھنے والے تھک گئے ہیں، پڑھنے والوں نے امیتازی سلوک پر منہ میں انگلیاں دبالیں لیکن اقتدار میں آتے جاتے حکمرانوں کو ذرا برابر بھی نوازلیگی لیڈر خواجہ آصف کے قومی اسمبلی کے فلورپر کہے گئے تاریخی الفاظ نے بھی شرمندہ نہ کیا کہ ”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتا ہے“۔
یوں لگتا ہے کہ تھل کے سیلبس لکھنے والے نے اپنے پیاروں کو سختی سے تاکید کی تھی کہ تھل کے عوام کو بھیٹر بکریوں کی طرح ایک ڈربے میں بند رکھنا ہے، یہاں کے وسائل کو تخت لاہوراور اسلام آباد تسلسل کے ساتھ منتقل کرنے ہیں، تھل کے لئے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا ہے کہ یہ خوابوں میں بھی اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ”بغاوت“ جیسے لفظ کے بارے میں بھی سوچنے کی جرات کریں۔ اور تعلیم اور صحت سے لے کر زندگی کی بنیادی سہولتوں مانگنے کے بارے میں اظہار خیال کریں۔
تھل کے عوام کو ایک طرف تخت لاہور اور اسلام آباد کے حکمرانوں نے جمہوریت اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا تو دوسری طرف یہاں کے مقامی جاگیرداروں اور وڈیروں نے بھی کبھی پارلیمنٹ یا پھر عوام کے سامنے تھل پر مسلط کیے گئے، سیلبس کے حوالے دوحرف کہنے کی جرات نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر تھل سے منتخب ہونیوالے عوامی نمائندوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر ایسی خاموشی کا روپ دھارا کہ گونگے بھی شرماگئے، اگر بولے تو اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کی شان میں بولے اور اتنے بولے کہ سننے والے حکمران شرما گئے کہ بہت ہوگئی لیکن ان خوشامدیوں کو شرم نہیں آئی کہ اب تو بس کردیں۔
پانچ سال سال گزر گئے، اسمبلیاں ٹوٹ گئیں، یاپھر تحلیل ہوگئیں لیکن ان کی طرف سے جاری چپ کا روزہ نہیں ٹوٹا، اگر کبھی فلور ملا بھی تو اس کو اپنے ذاتی مفادات کے ایجنڈے تک محدود رکھا، رہے نام اللہ کا۔ تھل سے اسوقت قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 18 ہے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 37 ہے۔ یوں تھل کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیوں کی تعداد بلوچستان سے لے کر بہاولپور ڈویثرن اور ملتان ڈویثرن سے زیادہ ہیں۔
ادھر بہاولپور اور ملتان ڈویثرن کے اضلاع کی تعداد سے بھی تھل کے اضلاع کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن کہانی وہی ہے کہ تھل کے لئے جو سیبلس تخت لاہور اور اسلام آباد کے حکمرانوں کے گارڈ فادر کی طرف سے طے کیاگیا تھا کہ اس کو دیوار کے ساتھ لگا کر رکھنا ہے اور یہاں پسماندگی کا ڈانس کروانا ہے، وہ ہورہا ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ کمی آنے کی بجائے تیزی آرہی ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں سے تنگ آمد بجنگ تک پہنچ چکے ہیں، لیکن ادھر سے وہی اعلان سننے کو مل رہا ہے کہ ہوجائے گا، کررہے ہیں، فنڈز کا ایشو ہے، اس سال نہیں اگلے سال ہوجائے گا۔
نالی سولنگ کا فنڈز تو جاری کردیاگیا ہے، وغیرہ وغیرہ، راقم الحروف کو اکثر اسپیکر پنجاب اسمبلی و سابق وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کے اس بیان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے بلکہ قہقہ نکل جاتاہے کہ میرے دور میں پنجاب میں ترقی ہوئی تھی، تھل کے سات اضلاع (خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ، چینوٹ) میں تو ٹکے کا کام نہیں ہوا، وہی قاتل روڈ پر لاشیں گر رہی ہیں، اس بات کے باوجود زیادہ دور نہ جائیں تو چوہدری پرویز الہی سے شہبازشریف اور پھر اب وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار تک کہانی پہنچ چکی ہے۔
پنجاب کے دیگر اضلاع بدلے ہیں تو وہی بتاسکتے ہیں لیکن تھل میں کچھ بھی نہیں بدلا، لوگ خواب میں بھی تبدیلی کا نہیں سوچ سکتے ہیں کہ تھل کے سات اضلاع سمیت چاروں صوبوں کے مرکزی روڈ ایم ایم روڈ المعروف قاتل روڈ پر عوام ٹریفک حادثات میں لوگ گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، وہاں موٹروے تو درکنار دورویہ سڑک کے اعلان کو بھی حقیقی شکل ملے گی، ہاں اتنی کہانی ضرور بدلی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے وسیم اکرم پلس وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے وہی کہانی کہ ہورہا ہے، کررہے ہیں اور ہوجائے گا، لیکن اب تو عثمان بزدار کی غلط بیانی بھی عوام پر آشکار ہوگئی ہے۔
ادھر وزیراعظم عمران خان جوکہ تو میانوالی سے منتخب رکن قومی اسمبلی لیکن وہ بھی تھل (خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ، چینوٹ) کے حوالے سے گارڈ فادر کے سیلبس کو چھیڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ میانوالی سے لے کر مظفرگڑھ اور پھر جھنگ سے چینوٹ تک ایک بھی سرکاری اور پرائیوٹ میڈیکل کالج کا نام ونشان نہیں ہے۔ جی تھل کے سات اضلا ع میں ڈینٹنل کالج سے لے کر میڈیکل کالج بنانے کی ریاست اور حکومت کی طرف سے ایک بھی کالج بنانے کی 72 سال میں ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے، مطلب ان کی 2020 میں بھی یہ ترجیح نہیں ہے کہ تھل میں ایک میڈیکل کالج بنانے کی منصوبہ بندی کیجائے۔
راقم الحروف نے بھکر کے شاعر انتخاب احمد بشر سے ایک بار پوچھا کہ بھکر جوکہ تھل کا مرکزی شہر کی حیثٰیت رکھتا ہے، وہاں پر تھل میڈیکل کالج کا اعلان سنا تھا، پہلے تو انتخاب احمد بشر نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا، مجھے لگا شاید کوئی غلط سوال پوچھا لیا ہے لیکن پھر وہ بولے کون سا تھل میڈیکل کالج؟ میں نے پھر عرض کیا کہ ایسے اخبار میں پڑھا تھاکہ بھکر میں میڈیکل کالج بن رہا ہے تو بولے آپ اس تھل میڈیکل کالج کا پوچھ رہے ہیں جوکہ ”قیامت“ کے دن بننا ہے۔
مطلب لوگ اس حد تک تخت لاہور اور اسلام آباد کے حکمرانوں سے مایوس ہوچکے ہیں کہ اب ان کو یقین ہی نہیں آتا کہ ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے کوئی کالج یا ادارہ ان کی زندگی میں بن سکتا ہے۔ بات بھی درست ہے جب 14 اگست 1947 میں وجود میں آنے والے پاکستان جوکہ اب 2020 میں داخل ہورہا ہے، وہاں پر ابھی تک اس بات کے دور دور تک آثار بھی نہیں ہیں کہ تھل کے سات اضلاع میں ایک میڈیکل کالج یا پھر ڈینٹل کالج بنانے کی کوئی کاغذی کارروائی بھی ہورہی ہو۔
عملی شکل میں آنا تو کہیں اور بہت دور کی بات ہے، شاید انتخاب احمد بشر کی بات درست ثابت ہو کہ قیامت کے دن تھل میں میڈیکل کالج بنایاجائے۔ تھل کے عوام کا قیام پاکستان کے 72 سال بعد یہ امید لگا کر بیٹھنا، دیوانوں کا خواب ہوسکتا ہے۔ تھل مظفرگڑھ جوکہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل ضلع ہے اور پنجاب کے بڑے ضلعوں میں سے ایک ہے، وہاں میڈیکل کالج نہیں ہے، پچھلے دنوں مظفرگڑھ کے عاشق ظفربھٹی نے وسیم اکرم پلس کو سوشل میڈیا پر تجویز دی ہوئی تھی کہ سردار کوڑے خان جتوئی کی وقف کردہ دس ہزار ایکڑ پر میڈیکل کالج بنایا جائے، تجویز تو معقول ہے لیکن سئیں عاشق ظفر بھٹی کو کون سمجھائے کہ سردار کوڑے خان جتوئی کی تعلیم کے لئے وقف کردہ زمین پر میڈیکل کالج بن گیا تو اس ہزاروں ایکڑ اراضی کی آمدنی پر ہاتھ صاف کرنے والوں کا دھندہ کیسے چلے گا۔
لیہ میں راقم الحروف کی تجویز تھی کہ اوقاف کی سمرا نشیب میں جو چار مربعے زمین مطلب سو ایکڑ اراضی جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ سیاسی شخصیت کے قبضہ میں ہے۔ اس پر سندھ یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بنایاجائے۔ اس سو ایکڑ اوقاف کی کا اراضی کا قبضہ چھڑانے کے لئے ضلع لیہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ذیشان جاوید کو تحقیقات کے لئے لکھا اور عرض کیا کہ اس بارے میں مکمل میڈیا کو آگاہی دی جائے لیکن موصوف کی ترجیحات میں اوقاف کی سرکاری زمین کا قبضہ چھڑانے کی بجائے تھل جیپ ریلی کے دھندے کی اہمیت تھی، یوں موصوف اس میں لگ گئے اور ادھر تبادلہ ہونے پر لیہ سے چلے گئے لیکن اوقاف کی سمرا نشیب میں سو ایکڑ اراضی کے حوالے سے ایک لفظ نہیں بولا تھا جوکہ ڈپٹی کمشنر جیسے اہم آفس کے شایان شان نہیں ہے؟
یوں ابھی تک اوقاف کی سو ایکٹر اراضی سابق ضلع ناظم ملک غلام حیدر کے قبضہ میں چلی آرہی ہے۔ اب لیہ میں نئے ڈپٹی کمشنر اظفر ضیاء دیگر اہم ایشوز کی طرف توجہ ضرور دیں لیکن اس بارے میں بریفینگ لیں کہ موضع سمرا نشیب میں اوقاف کی سو ایکٹر اراضی پر قبضہ کی کہانی کیا ہے؟ انکوائری میں جو بھی بات سامنے آتی ہے وہ عوام کے سامنے لائیں، اسی طرح گلبرگ ہوٹل لیہ کے ساتھ جڑے جی ٹی ایس کے اربوں کے پلاٹ سمیت مائی ماتاں مندر کی زمین پر قبضہ کی کہانی کے بارے میں بھی آگاہ کریں۔
اسی طرح چوک اعظم لیہ روڈ پر جنگلات کی زمین پر تین کالجز کا جو پٹھہ ملک احمد علی اولکھ نے وزرات کے آخری دنوں میں لگایا تھا، اس کے بارے میں بریفنگ لیں اور جان لیں کہ آخر منصوبہ جات کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ آخر پر اتنا عرض کرنا ہے کہ تھل میں ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے جبکہ صرف لاہور ضلع میں یونیورسٹی اور ہیلتھ سائنسز کے مطابق 26 میڈیکل کالجز ہیں، جن میں سے 13 سرکاری اور 13 پرائیوٹ ہیں۔