حیدر جاوید سید
میلہ ’’پھخ‘‘ رہا ہے، انصافی دوستوں کی آخری امید اب ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر منتخب ہونا، امریکہ میں پی ٹی آئی کے حامی پاکستانی نژاد امریکی ووٹر باجماعت ٹرمپ کی محبت کے اسیر ہیں۔ کیوں نہ ہوں، ٹرمپ تب امریکہ کے صدر تھے جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پینٹاگون میں سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے نجی دورہ امریکہ کو سفارتی و سفارشی کوششوں سے سٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا گیا دونوں (باجوہ اور عمران) ’’واری واری‘‘ وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ سے ملے (یہ وہی دورہ امریکہ ہے جس کے بعد اسلام آباد میں قدم رنجہ فرماتے ہوئے عمران خان نے نے کہا تھا ایسا لگتا ہے دوسری بار ورلڈ کپ جیت کر وطن واپس آیا ہوں)
ان ملاقاتوں کےبعد بھارت نے اپنے زیرقبضہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے تین حصوں میں تقسیم اور باضابطہ بھارت کا حصہ بنالیا۔
تب ان سطور میں عرض کیا تھا ’’مسئلہ کشمیر حل ہوگیا جو جس کے پاس ہے اس کا ‘‘۔ ٹرمپ جیت جائیں گے یا آخری دنوں میں برتری حاصل کرنے والی کملا ہیرس؟ پاکستانی ووٹروں کا ایک حلقہ کملا کا حامی ہے ایشیائی نژاد امریکی ہونے کی وجہ سے، تارکین وطن اور امریکی خواتین خاتون صدر منتخب کرنے کے لئے پرجوش ہیں لیکن اگر ٹرمپ نہ جیتا تو ہمارے قائد انقلاب و مسلم امہ کے اس بلا مقابلہ رہنما کاکیا ہوگا جو اڈیالہ جیل میں مقیم ہے اور ان کی اہلیہ نے گزشتہ روز بھری عدالت میں روتے ہوئے شکوہ کیا کہ منصفوں کو 9 ماہ سے بے گناہ قید شخص دیکھائی نہیں دیتا۔
جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے امریکہ صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوچکے ہوں گے۔ ٹرمپ جیتے تو کیا واقعتاً ان کے ایک ٹلیفون پر چاچا فورمین اور پیر سید حافظ جی ڈھیر ہوجائیں گے جیسے کمانڈو آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف ایک اسسٹنٹ امریکی وزیر خارجہ کے فون پر ڈھیر ہوا تھا؟
یہ سوال غور طلب ہے البتہ آپ کے پاس وقت نہیں تو دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں۔
میلہ ’’پھخ‘‘ رہا ہے سپریم کورٹ کے دو سینئر ’’ترین‘‘ ججز نے 31 اکتوبر کو چیف جسٹس کو خط لکھا کہ بلاتاخیر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ پھر خود ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا دو رکنی اجلاس بلانے کا فیصلہ دے دیا صرف یہی نہیں بلکہ اپنے کرش کے حامیوں کی درخواستوں سمیت 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ کے 4 نومبر کے اجلاس میں سماعت کے لئے فکس کردیں۔
چیف جسٹس نے ان کے خط پر کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا نہ ان کے فیصلے پر فل کورٹ اجلاس ہوا یوں پارلیمان کو قانون سازی سے روکنے کے لئے حکم امتناعی جاری کرنے کا منصوبہ اپنی موت آپ وفات پاگیا۔
دو سینئر ’’ترین‘‘ ججز نے 4 نومبر کو چیف جسٹس کو ایک اور خط لکھا اس خط میں فل کورٹ اجلاس نہ بلانے پر افسوس ظارہ کیا گیا ۔
اندرون خانہ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق فل کورٹ میں تماشا لگانے کا پورا انتظام تھا جو نہیں لگ پایا ادھر حکومت نے 4 نومبر کو میلہ مزید ’’پھخا‘‘ دیا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 34، مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت سربراہی 3 سے 5 سال کردی اور لگے ہاتھوں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تریم کرتے ہوئے اسے 4 رکنی سے بدل کر 3 رکنی کردیا اب چیف جسٹس اور سینئر جج کے ساتھ آئینی بنچ کا سربراہ بننے والا سینئر جج پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن ہوا کرے گا۔
اس ’’پھخے‘‘ ہوئے میلے میں یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا مجاہدین کی دہائیاں ہیں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی کہا جارہا ہے کہ آئین سے کھلواڑ ہوگیاہے
میرا خیال ہے کہ جب مختلف ایکٹوں اور قوانین میں ترامیم ہورہی تھیں اپوزیشن کو ہنگامہ اٹھانے کی بجائے اس بات پر زور دینا چاہیے تھا کہ ترامیم کا مسودہ ارکان کو دیا جائے اس پر بحث کرائی جائے۔
البتہ میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں کہ قومی اسمبلی وسینیٹ میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی حکومت کو کارروائی مکمل کرانے کے لئے ایک طرح سے سہولت کاری تھی۔ پی ٹی آئی کیوں سہولت کاری کرے گی، کیاملے گا اس سے اُسے؟
ویسے کیا پارلیمان تب بلڈوز نہیں ہوتی تھی جب ایجنسیوں کے اکٹھے کئے گئے ارکان کے بل بوتے پر ایک دن میں 50، 50 بل منظور کرلئے جاتے تھے؟
انسداد دہشت گردی ایکٹ میں نئی ترمیم 90 روز کے لئے تحویل میں رکھنے کا اختیار درست نہیں اس معاملے میں ابتداً صرف بلوچستان کی حد تک ترمیم کی گئی تھی تو تب ان سطور میں عرض کیا تھا ’’غلط ہورہا ہے‘‘۔ آج بھی یہی رائے ہے۔
البتہ یہ درست ہے کہ پارلیمان کو قانون سازی کا حق ہےتب بھی تھا اب بھی ہے
تحریک انصاف کا موقف ہے فارم 47 والی حکومت کا یہ کام خلاف آئین ہے۔ 2018ء میں آر ٹی ایس بیٹھاکر بنوائی گئی پارلیمان کی قانون سازی کیسے درست ہوگی؟ ہم میں سے کوئی بھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا۔ دوسروں کے گریبان میں د یکھنے کا مرض پرانا ہے۔
ارے ٹھہریئے گزشتہ روز منظور ہونے والے بلوں کے ذریعے اسلام آباد ہائیکوٹر کے ججز کی تعداد بڑھاکر 12 کردی گئی ہے۔ کیا یہ تعداد صوبوں میں مساوی تقسیم ہوگی؟
منگل کی دوپہر یہ سطور لکھ رہا ہوں منگل کو ہی جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس ہونا ہے۔ تادم تحریر حکومت کو جوڈیشل کمیشن میں 6 سے 7 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ میلہ مزید ’’پھخے‘‘ گا۔ بغاوت اور حکم امتناعی کے انتظامات اپنی موت آپ مرگئے۔
اس وقت حکومت ملٹری کورٹس والے اس قانون میں جو تحریک انصاف کے دور میں منظور ہوا تھا ترمیم کے لئے صلاح مشورے کررہی ہے۔ باوثوق ذرائع بتارہے ہیں کہ ’’اگر کوئی مقدمہ ملٹری کورٹ میں جاتا ہے تو اس کی سماعت مکمل ہونے اور فیصلہ آنے تک کوئی عدالت مقدمے کے ملزمان کو ریلیف دے سکے گی نا مقدمے کے خلاف حکم امتناعی‘‘۔ ایسا ہے تو یہ درست فیصلہ نہیں ہوگا اگر ہوتا ہے تو۔
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ پیرومرشد نے حال ہی میں عمرے کی سعادت حاصل کی دوران عمرہ سعودی عرب میں ایک تقریر اور چند جذباتی گفتگوئیں بھی پھڑکائیں۔ ان کی تقریر اور گفتگو کی ویڈیوز کی بنیاد پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر بھی حکومت کے قانونی ماہرین غوروفکر میں مصروف ہیں ایسا ہوا تو میلہ مزید ’’پھخنے‘‘ کے ساتھ سیاست خصوصاً وکلاء سیاست میں گرمی آئے گی
خوب دیہاڑیاں لگیں گی۔ انویسٹر تیار بیٹھے ہیں۔ افتخار چودھری والی تحریک بھی انوسٹروں کے خرچ پر چلی تھی لیکن تب تقریباً ساری جماعتیں اور ننانوے فیصد میڈیا تحریک کے ساتھ تھا اب صورتحال قدرے مختلف ہوگی۔
چلیں وہ پنجابی میں کہتے ہیں نا کہ ’’سانوں کی‘‘ بس ہمیں کیا سادات کی لڑائی میں اگر ہوئی تو ہم گرائونڈمیں کسی بلند جگہ پر بیٹھ کر تماشا دیکھیں گے۔
اب ایک دو خبریں ، سٹیٹک بینک نے ساڑھے 17فیصد شرح سود میں اڑھائی فیصد کمی کر کے اسے 15فیصد کردیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ خسارہ 98ملین ڈالر رہ گیا ہے۔
علاقائی اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر تبادلہ خیال کے لئے ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی دو روزہ دورے پر پہنچ گئے۔
فقیر راحموں نے کہا ہے کہ پیر سید حافظ جنرل عاصم منیر آبائی طور پر جالندھر سے تعقل رکھتے ہیں۔ ایک بات تو بتانا بھول ہی گیا کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں 25 اور سینیٹ میں 16 منٹ میں ترمیمی بل منظور ہوئے۔ کبھی قومی اسمبلی میں 30 منٹ میں 50 بل منظور ہوتے تھے۔
خیر وہ اُس ایوان اور دیانتدار قیادت کو سجتے بھی تو تھے۔ حرف آخر یہ ہے کہ عمران خان کے ذاتی معالجین کے پینل نے سوموار کو اڈیالہ جیل میں ان کا طبی معائنہ کیا ان کے سینئر معالج ڈاکٹر عاصم کے مطابق عمران خان کی صحت ٹھیک ہے نیز یہ کہ اپریل دو ہزار بائیس سے قبل فضائل آرمی شریف سمجھاتے ہوئے یہ بتانے والے کہ
"پاک فوج سے محبت کے لئے ’’باپ کا ایک اور ماں کا نیک‘‘ ہونا ضروری ہے”
آج کل تتے توے پر بیٹھے ہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔