کالم

ماضی کا ایک سفر!

لاہور سے پنڈی جانے کے لئے میں نے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی اس بس کے لئے ٹکٹ حاصل کیا جو آٹھ بجے شب روانہ ہونا تھی مگر ہوا یوں کہ ساڑھے آٹھ بجے جانے والی بس اس سے پہلے روانہ ہوگئی اور اس کے بعد 9 بجے والی بس نے بھی رخت سفر باندھا اور عازم پنڈی ہوگئی۔ آٹھ بجے والی بس 9 بجے والی بس کے بعد اڈے سے باہر نکل سکی کیونکہ پارکنگ کرتے وقت فرسٹ کم ’’فرسٹ سرو‘‘ کے اصول کو مدنظر رکھا گیا تھا اور یہ امر ذہن سے نکال دیاگیا تھا کہ جو بس اڈے میں داخل ہوئی ہے اسے بالآخر وقت مقررہ پر اڈے سے نکلنا بھی ہے۔ بہرحال یہ مانسہرے جانے والی بس تھی جس کا ایک اسٹاپ پنڈی بھی تھا اور اب یہ مسافروں سے پوری طرح بھر چکی تھی۔

بس نے سفر کا آغاز کردیا تھا۔ میرے ہم نشست نے سر پر مفلر لپیٹا اور پھر اونگھنے لگا حتیٰ کہ اس کا سراگلی نشست کے ساتھ جالگا۔ تبلیغی جماعت کے ارکان گردن جھکائے مسلسل ذکر میں مصروف تھے اور میرے سامنے والی نشست پر بیٹھے تینوں نوجوان پوری طرح کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ میرا دھیان ان کی باتوں کی طرف نہیں تھا کیونکہ میں نے بیگ میں سے ایک رسالہ نکال لیاتھا اور اب اس کی ورق گردانی میں مشغول تھا۔ تھوڑی دیر بعد اگلی نشست کے مسافروں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں اور میری توجہ رسالے سے ہٹ کر ان کی طرف مبذول ہوگئی۔ بائیں جانب سے پہلا نوجوان کہہ رہا تھا ’’ملک میں اینٹی پیپل سرگرمیوں پر کوئی قدغن نہیں مگر اینٹی پیپلز پارٹی سرگرمیوں کی پاداش میں جیلیں بھر ی جاتی ہیں‘‘۔’’حکومت اس میں حق بجانب ہے کیونکہ پیپلز پارٹی عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئی ہے اس لئے اس کے خلاف سرگرمیاں اینٹی پیپل سرگرمیاں ہیں‘‘ دوسرے نوجوان نے بھی اتنے ہی جوش و خروش سے یہ باتیں کیں۔ جتنے جوش و خروش سے پہلا نوجوان بو ل رہا تھا۔
’’ملکی استحکام کا دارو مدار جمہوریت پر ہے، ملک میں جمہوری اداروں کو پھولنے پھلنے کا موقع دیا جانا چاہیے کیونکہ اس صورت میں عوام اسلام کے حق میں فیصلہ دیں گے اور اسلامی نظام ملکی استحکام کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ اس ملک کی بنیاد اسلام ہی پر ہے لیکن پیپلز پارٹی کبھی اس ملک میں جمہوریت کو پھولنے پھلنے نہیں دے گی، اس صورت میں وہ کبھی برسراقتدار نہیں رہ سکتی‘‘۔ تیسرے نوجوان نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے دھیمے لہجے میں یہ باتیں کیں۔

’’تم دونوں عوام دشمن نظریات کے حامل ہو‘‘۔ گفتگو نجانے کہاں سے کہاں پہنچ چکی تھی اور اب پہلا نوجوان ان دونوں سے الجھ رہا تھا۔ ’’غریب عوام کے دکھوں کا حل نہ اسلام میں ہے اور نہ ہی اسلامی سوشلزم میں، انقلاب کا رستہ ہے، صرف مسلح جدو جہد مسائل کا حل ہے۔ اس کے بغیر سکھ کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا

’’تم کون سے اسلام کی بات کر رہے ہو؟ مولانا مودودی کا اسلام جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا محافظ ہے یا ابوذر غفاریؓ کا اسلام جو غریبوں کی حمایت کرتا ہے اور انہیں حوصلہ دیتا ہے؟‘‘۔ پیپلز پارٹی کی حمایت میں گفتگو کرنے والا نوجوان پہلے شخص کو چھوڑ کر اس نوجوان سے الجھ پڑا۔ ’’ہاں ہاں بولو، جواب دو‘‘ پہلے نے دوسرے کی ہم نوائی میں گردن ہلائی ۔
’’تم گفتگو کو الجھانے کی کوشش نہ کرو‘‘ اسلامی نظام کی بات کرنے والے نوجوان نے جواب دیا۔ جب عوام اسلامی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس وقت انہیں اس کی جزئیات طے کرنے میں بھی کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کیونکہ کئی برس پیشتر تمام فرقوں کے علماء اسلام کے بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے کا اظہار کرکے ایک دستاویز پر دستخط کر چکے ہیں‘‘۔
اس اثنا میں سامنے سے غلط موڑ کاٹنے والی بس سے بچائو کے لئے ہماری بس کے ڈرائیور نے بریکیں لگائیں جس پر میرے برابر میں بیٹھا ہوا نوجوان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور چند لمحے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد اس نے اپنے سر کو ہاتھ لگایا اور پھر کہا ،’’ میرا مفلر کہاں ہے؟‘‘ مفلر اس کے پائوں کے نیچے سے برآمد ہوا۔ اس نے ایک بار پھر اسے سر پر باندھا اور اگلی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر دوبارہ خراٹے لینے لگا۔ تبلیغی جماعت کے افراد برابرذکر میں مشغول تھے۔
’’تم دونوں عوام دشمن نظریات کے حامل ہو‘‘۔ گفتگو نجانے کہاں سے کہاں پہنچ چکی تھی اور اب پہلا نوجوان ان دونوں سے الجھ رہا تھا۔ ’’غریب عوام کے دکھوں کا حل نہ اسلام میں ہے اور نہ ہی اسلامی سوشلزم میں، انقلاب کا رستہ ہے، صرف مسلح جدو جہد مسائل کا حل ہے۔ اس کے بغیر سکھ کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا‘‘۔
’’ہمارے ہاں برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں ایک بھی اسلامی نہیں تھی، ان لوگوں نے محض اپنے اقتدار کے لئے اسلام کا نام لیا اور اب پیپلز پارٹی، اسلام اور سوشلزم دونوں کانام لے کر بیک وقت اسلام پسند اور سوشلسٹ حلقوں کے ذریعے برسراقتدار رہنا چاہتی ہے اسلامی نظام کے حامی نوجوان نے کہا:
’’یہ بالکل بکواس ہے پیپلز پارٹی نے عوام کے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں کیا، اس نے جو منشور عوام کے سامنے پیش کیا تھا وہ بتدریج اسے عملی جامہ پہنا رہی ہے، حکومت کے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ مسائل چند برسوں میں حل کر دے‘‘۔ دوسرے نوجوان نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
گفتگو دلائل سے نکل کر جھگڑے کی حدود میں داخل ہو چکی تھی، ان میں سےکسی کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی بس اتنا پتہ چلتا تھا کہ ان میں سے ایک اسلام اور دوسرا اسلامی سوشلزم کا نام لے رہا تھا۔ ان کی آوازیں بلند ہوتی چلی گئیں حتیٰ کہ بس کے دیگر مسافروں نے بھی مڑ مڑ کر ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں تبلیغی جماعت کے ارکان نے بھی تھوڑی دیر کے لئے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ سر جھکا کر ذکر میں مشغول ہوگئے۔ میرے برابر والے نوجوان کی آنکھ ایک بار پھر کھل گئی۔ اس نے سر کو ٹٹولا اور مفلر کو اپنی جگہ موجود پا کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک گولی نکالی اور میرے بے خواب چہرے کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ’’میں نے سلیپنگ پل کھائی ہوئی ہے تم بھی ایک کھالو اور سو جائو‘‘ اس نے ایک گولی میری ہتھیلی پر رکھی اور ایک بار پھر سیٹ کے ساتھ سر ٹکا کر خراٹے لینے لگا۔ تبلیغی جماعت کے ارکان بھی اس سارے جھگڑے سے بے نیاز دوبارہ آنکھیں بند کرکے ذکر میں مشغول ہوگئے تھے۔ بس ڈرائیور بوجھل آنکھوں سے بس ڈرائیو کر رہا تھا۔ دائیں اور بائیں جانب گھپ اندھیرا تھا۔ سامنے دو سو گز کا ٹکڑا روشنی کے دائرے میں تھا۔ اس سے آگے کچھ نظر نہ آتا تھا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com