ہم کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں
آپ نے دو تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی دیکھیں ہوں گیں اور آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ شہزادیاں ننھی پریاں کسی بڑے گھر کی بیٹیاں ہیں یا کسی متوسط خاندان کی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلق کسی غریب دیہاڑی دار مزدور طبقے سے ہو بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔
ایک نظر دیکھنے سے آپ کا ان بچوں کے بارے میں کیا خیال ذہن میں آیا ہوگا ؟ تصور ہو گا کہ یہ بچے سکول نہیں جاتے ہوں گے انہیں کوئی سفری مشکل درپیش ہے یا کسی ایسی تکلیف کا سامنا ہے جس کے سبب یہ بچپن میں کسی مسئلہ سے دوچار ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ اس سے بھی زیادہ بہت زیادہ سوچ رہے ہوں ،مگر میری آنکھ ان بیٹیوں کو جب دیکھتی ہے تو میرے خیالات یوں الفاظ بن کر ابلتے ہیں کہ یہ پاکستان کی بیٹیاں ہیں پاکستان کا مستقبل ہیں آنے والے دنوں کی باگ ڈور ان اور انہی جیسے بچوں نے سنبھالنی ہے مگر ان کی انکھیں دور کسی کو دیکھ رہی ہیں کسی کا انتظار کر رہی ہیں کسی کی متلاشی ہیں اپنی معصومیت کی بدولت یہ اپنے سوال کو لفظوں کا پہناوا نہیں پہنا سکتیں انہیں کچھ اندازہ نہیں ہے کہ ان کے خواب و خیال میں اس وقت کیا ہے اور یہ دوسروں کو کیا بتائیں یہ ننھی شہزادیاں اپنے اس ابا کی راہ دیکھ رہی ہیں جو ان بچیوں کو سوتے میں ماتھا چوم کر منہ اندھیرے گھر سے نکلا کہ پیاری بیٹیوں کے مستقبل کے لیے اسے اپنی نیند قربان کرنی ہے محنت کرنا ہے اسے مشقت کے کوہلو کو کھینچنا ہے۔وہ باپ جو اپنی شہزادیوں کی خاطر گھر سے نکلا کیا سوچتا ہے کیسے خواب بنے ہوں گے اپنی پریوں کے ساتھ کس طرح اٹھکیلیاں کرتا ہوگا قدم تو اگے بڑھتے ہو نگے مگر اس کا دل اور دماغ پیچھے رہ جانے والی مالکن اور اپنی پریوں کے لیے سوچتا ہوگا دھوپ چھاؤں نیند آرام سردی گرمی بارش اندھی کی پرواہ نہ کر کے اپنے گھر اور گھر والوں کی گاڑی کو کھینچنے والے کو باپ کہتے ہیں ان ننھی پریوں کا باپ بھی بے شمار لوگوں میں سے ایک تھا اسے اپنے زیر کفالت فیملی ممبران کی دیکھ بھال مطلوب تھی یہی اس کی زندگی کا مشن تھا یہی اس کی اخری خواہش تھی کہ وہ جب بھی اپنے گھر لوٹے اپنے جگر گوشوں کے لیے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے لے کر واپس ائے باپ اپنے بچوں سے ان کی پسند کی چیز پردیس سے لانے کے لیے سوال کرتا ہے والد اپنی جگر گوشوں کو تسلی دیتا ہے کہ وہ جب بھی لوٹے گا اس کے ہاتھ میں اپنے پیاروں کے لیے سیب انگور قدرتی نعمتوں کے شاپر ہوں گے مگر کیا خبر تھی کہ جو سورج ان کی زندگی میں غروب ہو گیا اس کا طلوع ہونا اب وہ قیامت سے پہلے نہیں دیکھیں گے موسی خیل لورالائی بلوچستان کی شاہراہیں، روڈز کے ہمسائے پہاڑیاں اور سنگلاخ پتھریلی زمین اس بات کی گواہی دے رہی ہیں اور زبان حال سے چہار سو پکار رہی ہے کہ اس کے پشت پر اللہ کے بندوں کو کسی جرم کے بغیر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان معصوم مسافروں محنت مزدوری کرنے والوں مشکلات کے دامن کو چیر کر اپنے بچوں کے لیے کچھ اچھے خواب دیکھنے والوں کے لیے موت مقدر بنا دی گئی بلوچستان میں 23 معصوم مسافروں کا بہیمانہ دہشت گردی میں قتل عام اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں کہرام برپا ہے لیہ کے دو سگے بھائی بھی شہداء میں شامل ہے جن کی ننھی پریاں اج سماج سے وزیراعظم پاکستان،حکمرانوں سے سوال کر رہی ہیں کہ ان کے والد سرپرست کو کس جرم میں مارا گیا بیٹیوں کے ننھے خواب بیدار ہونے سے پہلے ہی کس نے پھوڑ دیے،
ضلع لیہ کا کوئی بھی شہر خاموشاں ایسا نہیں جن کی اباد کاری میں لیہ کے معصوم شہریوں کی میتیں سپرد خاک نہ کی گئی ہوں۔ ضمیر حسین بلوچ سکنہ 125 ٹی ڈی اے لیہ کی یہ بیٹیاں اور ان کی انکھوں میں تیرتے سوالات اج ضمیر حسین اور ان کے بھائی غلام مرتضی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے اندوہناک سانحہ پر تعزیت کرنے کے لیے انے والوں سے سوال کر رہی ہیں ہے کوئی جواب دینے والا کہ یہ بیٹیاں کس کےہاتھ پر اپنے باپ کا لہو تلاش کریں۔