بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں رونما ہونے والے المناک سانحے کے پس منظر پر لکھے گئے کالم ’’سرائیکی وسیب کے لئے ایک اور سیاہ دن’’ میں دو غلطیاں تھیں، پہلی غلطی لسبیلہ کے فوجی کیمپ پر خودکش حملہ کرنے والی بی ایل اے کی فدائی ماہل بلوچ کا نام مناہل بلوچ لکھا گیا یہ بنیادی طور پر پروف ریڈنگ کی غلطی تھی۔ کالم پڑھتے وقت مجھ سے بھی سہو ہوا۔ دوسری غلطی ماہل بلوچ اور ایک دوسری بلوچ خاتون کو جو فروری 2023 میں کوئٹہ سے گرفتار ہوئی تھیں ایک ہی کردار کے طورپر لکھنا ہے ( البتہ فروری 2023 میں کوئٹہ سے خودکش جیکٹ وغیرہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کی گئی 27 سالہ خاتون کا نام بھی ماہل بلوچ ہی تھا )۔ یہ غلطی سہواً ہرگز نہیں ہوئی بلکہ کوئٹہ سے جس صحافتی ذریعے نے مجھے جو معلومات فراہم کیں وہ درست (کرداروں کی حد تک) نہیں تھی۔
ان دو غلطیوں کی نشاندہی ایک بلوچ دانشور نے کی ساتھ ہی فیس بک کے ایک اور دوست نے بھی البتہ دونوں کا نشاندہی کرنے کا انداز مختلف تھا۔ بلوچ دانشور کا انداز تکبرو نخوت اور غیرمقامیوں سے نفرت سے گندھا ہوا توہین آمیز تھا دوسرے دوست نے شائستہ انداز میں متوجہ کیا۔ دانشور سے یہ ضرور عرض کیا کہ میں نے آپ سے کالم پڑھنے کی درخواست نہیں کی۔ لیکن یہ بھی کہا کہ اگر کالم کے مندرجات میں کوئی غلطی ہوئی تو تسلیم بھی کروں گا اور وضاحت بھی دوسرے دوست سے بھی تقریباً یہی عرض کیا کہ پروف اور واقعاتی غلطی ہر دو کو دیکھتا ہوں۔
بعدازاں دو کرداروں کو ایک کے طور پر لکھی گئی سطور کالم سے حذف کردیں اور نام بھی درست کردیا لیکن اسی دوران بلوچ دانشور نے فتویٰ داغا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ اس وقت تم لوگ بدترین بلوچ نفرت کی نفسیات کے زیراثر ہو مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ سوگوار ماحول میں جذباتیت، غصہ اور نفرت سمجھ میں آتے ہیں‘‘۔
( واقعی نفرت میں دھنسے دانشور کو پرواہ ہونی بھی نہیں چاہئے خصوصاً بعض مقتولین کی قومی شناخت کے حامل لوگوں کے جذبات کی )
گزشتہ کالم میں ہوئی دو غلطیوں جن کا تحریر نویس اعتراف اس کالم کے اوپر ایک نوٹ لکھ کر کرچکا کے علاوہ کیا غلط اور نفرت پر مبنی تھا؟ کیا 23 محنت کشوں کو درندگی کے ساتھ قتل و ذبح کرنا ان کی گاڑیوں کو جلادینا اور اپنے درندگی بھرے فعل کو من گھڑت الزام سے جواز فراہم کرنا کہ قتل ہونے والے سرکاری اہلکارتھے ۔ پر بات کرنا نفرت کے زمرے میں آئے گا؟
حالانکہ اسی گزشتہ کالم میں تحریر نویس نے یہ بھی عرض کیا کہ ’’یقیناً گزشتہ سے پیوستہ روز کے المناک سانحہ کے حوالے سے سوال ریاست سے ہی کرنا چاہیے لیکن اگر کسی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی وغیرہ سے دہشت گردی کے اس واقعہ کی مذمت کا کہہ بھی دیا ہے تو اسے جواباً گالی دینے کی بجائے دلیل سے سمجھایئے کہ آپ کا یہ مطالبہ درست نہیں بلکہ آپ کو یہ سوال بلوچستان حکومت اور سکیورٹی اداروں سے کرناچاہیے‘‘۔
میری اب بھی یہی رائے ہے کہ دو غلطیوں کے باوجود کالم میں بلوچوں سے نفرت سے بھرا کا ایک لفظ بھی نہیں تھا غلطیاں بھی ایک پروف ریڈنگ کی ہے اور دوسری کرداروں کے حوالے سے اور یہ ناموں میں مماثلت کی وجہ سرزد ہوئی ۔
ہمارے وہ بلوچ احباب جو ذہنی اور فکری طور پر بی ایل اے و بی ایل ایف کی مسلح جدوجہد کو سوفیصد درست سمجھتے ہیں ایک سے زائد بار کہہ لکھے چکے کہ مارے گئے غیرمقامی ریاستی جاسوس تھے۔ جنگ زدہ علاقوں میں یہ محنت مزدوری کے لئے نہیں مخبری کے لئے آتے ہیں۔
اسی طرح یہی احباب بلوچستان میں مارے جانے والے غیرمقامی محنت کشوں کی قومی شناخت تبدیل کرکے اپنی نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں خیر ان کی نفرت و نخوت ہمارا مسئلہ نہیں انہیں مبارک ہو ہماری رائے آج بھی نصف صدی قبل والی ہی ہے کہ مقامی وسائل پر مقامی آبادیوں کا حق تسلیم نہ کرنے اور جبرواستحصال کے نظام نے فیڈریشن کی اکائیوں میں عدم توازن اور بداعتمادی کے جو بیج بوئے وہ آج تناور درختوں کی صورت میں موجود ہیں۔
اسی طرح جسے ہم ( ان میں میں بھی شامل ہوں ) طنز اور نفرت سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اس پنجابی اسٹیبلشمنٹ میں پنجابیوں کے علاوہ پشتون، سرائیکی، سندھی، اردو بولنے والے سندھی اور بلوچ اقوام کی اشرافیہ کے "دلارے ” بھی ہمیشہ شامل رہے اور اب بھی ہیں ۔ پھر ہم سبھی صرف پنجابی اسٹیبلشمنٹ کیوں کہتے ہیں۔ اقوام کی مفاد پرست اشرافیہ کی اسٹیبلشمنٹ کیوں نہیں کہتے؟
سانحہ موسیٰ خیل کے بعد 18 سرائیکی مقتولین کے ساتھ دو ظلم ہوئے پہلا بی ایل اے و بی ایل ایف اور ان کے ہم خیالوں نے ان محنت کش مقتولین کو ریاستی جاسوس اور مخبر کہا۔ دوسرا پنجابی قوم پرستوں نے اپنی روزی روٹی کے لئے انہیں پنجابی قرار دے دیا اب اگر انصاف سے دیکھا جائے تو سرائیکی مقتولین کو ایک قوم کے جنگجوئوں نے قتل و ذبح کیا دوسری قوم نے ان کی قومی شناخت پر خودکش حملہ کردیا۔
یہاں پھرایک سوال ہے وہ یہ کہ کیا دونوں اقوام کے مخصوص ذہنیت اور مقاصد رکھنے والے دھڑوں کے عمل اور فہم پر دونوں اقوام کو کامل ذمہ دار اور مجرم سمجھا جانا چاہیے اور اس پر ان سے نفرت کی جانی چاہیے؟
ہماری دانست میں نفرت کااظہار مسئلہ کا حل نہیں بلکہ نفرت مسائل کی اماں جان ہے۔
سرائیکی وسیب کی قومی اور فیڈریشن میں اکائی کی شناخت کے حصول کے لئے جاری جدوجہد کے سرائیکی قومی شناخت کے علمبردار بہت سارے بلوچ دوست ہماری ذاتی زندگی کے تعلق دار ہیں۔ ہم تو ان دوستوں اور عزیزوں سے بھی نفرت نہیں اختلاف رائے کا حق استعمال کرتے ہیں جو بلوچستان میں جنگجوئوں کے ہاتھوں مارے جانے والے محنت کش سرائیکی یا دوسرے لوگوں کے قتل کو بی ایل اے وغیرہ کا ردعمل بتاتے لکھتے ہیں ۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ بی ایل اے بی ایل ایف ان کے ہم خیال و پرجوش ترجمان بنے بلوچ و غیر بلوچ دانشورآج تک بلوچستان میں قتل ہونے والے کسی سرائیکی باشندے کا سکیورٹی اہلکار ہونا دستاویزاتی طور پر ثابت نہیں کرسکے۔
سرائیکی وسیب کے لوگوں نے اپنے محنت کشوں کے قتل کا کبھی بھی عام بلوچ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ سانحہ موسیٰ خیل میں قتل ہونے والے سرائیکی وسیب کے 18 افراد میں سے 4 مقتولین نسلاً بلوچ تھے۔
اسی طرح گزشتہ روز سرائیکی وسیب اور پنجاب میں کوئٹہ ہوٹل اور کوئٹہ بلوچستان ہوٹلز کے بائیکاٹ کے اعلانات و مہم کی ہم نے نہ صرف کھل کے مذمت کی بلکہ اسے غیرضروری قرار دیتے ہوئے عرض کیا کہ یہ نسلی فسادات کا راستہ ہموار کرنے کی سازش ہے سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ فسادات اگر خاکم بدہن ہوئے تو فائدہ کس کو ہوگا؟
گزشتہ 30 برسوں سے تواتر کے ساتھ اپنی تحریروں میں پاکستانی فیڈریشن میں مقیم اقوام کے درمیان نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت کی طرف پڑھنے والوں کو متوجہ کرتا آرہا ہوں۔ میری رائے میں وقت اور حالات کے ساتھ تقاضائے ہائے اقوام بھی بدل گئے ہیں اس لئے دستوری ترمیم کے ذریعے فیڈریشن کو اقوام کی کنفیڈریشن قرار دیناہوگا اور اعتماد سازی کے لئے نیا عمرانی معاہدہ ناگزیر ہے۔
اس پر احباب اور بہت سارے "دانشوڑ ” مذاق اڑاتے ہیں، کچھ اپنی آراء دیتے ہیں میں نے کبھی کسی کو نام نہاد حساس دانشور کہا لکھا نہ اس کی قومی شناخت بدلنے کی ننگی گالی دی۔
ہاں میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ جس کسی نے بلوچستان یا یوں کہہ لیجئے بلوچ عوام کا مسئلہ اور ناراضگی ہر دو کو سمجھنا ہے اسے اس سارے معاملے کو 1948 میں ریاست قلات پر کی گئی فوج کشی سے ابتداء کرنا ہوگی۔
بدقسمتی سے ہماراالمیہ تقریباً ہم سبھی کا یہی ہے کہ ہم جس نفرت میں خود دھنسے ہوتے ہیں دوسروں پر ایسی ہی نفرت کا شکار ہونے کا گمان نہیں بلکہ ایمان رکھتے ہیں ۔
میں نے ہمیشہ ان سطور میں عرض کیا کہ دہشت گردوں کا مذہب، عقیدہ اور قومی شناخت تینوں ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ دہشت گرد ریاستی ہو یا غیرریاستی، دونوں انسانی اقدار، سماجی روایات اور انسانیت کے قاتل سفاک درندے ہوتے ہیں۔
سو ہم اگر اپنے پشتون بلوچ سندھی سرائیکی یا دوسرے دوستوں کے ساتھ پنجاب کے محکوم طبقات کے حقوق کی پامالی پر آواز اٹھاتے ہیں تو یہ کسی پر احسان ہرگز نہیں بلکہ انڈس ویلی کی اقوام کے مظلوم طبقات کی حمایت کرتے ہوئے ان اقوام کی مفاد پرست اشرافیہ سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ کسی انسان کو قتل کرنا انسانیت کو قتل کرنا ہے تو بالکل اسی طرح کسی مقتول کی قومی شناخت کو مسخ کرنا ایک قوم کو قتل کرناہے۔