کالم

تھل کی بیٹیاں کس عذاب میں مبتلا؟

خضرکلاسرا

تھل پنجاب کے سات اضلاع پر مشتمل علاقہ ہے ٫ تھل جو ہے سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی سونے کے پہاڑ ہے۔ تھل سیاسی کے طور پر یوں خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے سات اضلاع کی قومی اسمبلی کی 19 نشتیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 40 نشتیں ہیں ۔ اسی طرح بلدیاتی نظام میں تھل کی 7 ضلعی حکومتیں بنتی ہیں۔ تھل کی جغرافیائی پوزیشن اس کو پاکستان بالخصوص پنجاب میں ایک خاص اہمیت دیتی ہے۔ تھل پاکستان کا مرکز بنتا ہے۔ اسی طرح تھل کے ایک طرف شیر دل دریا سندھ بہتا ہے اور دوسری طرف چناب بہتا ہے۔ اسی طرح اس کے سر کی طرف دریائے جہلم لیٹا ہوا ہے جبکہ تھل کے پاؤں ہیڈ پنجند سے جا ملتے ہیں جہاں پانچ دریائے ایک مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ تھل کو یوں بھی ایک خاص مقام حاصل ہے کہ کالا باغ ڈیم کا مقام بھی تھل کے تاریخی ضلع میانوالی کے کالاباغ مقام پر ہے۔ تھل کو پنجاب کے گوادر کا درجہ یوں حاصل ہے کہ تھل دریاؤں کے گھیرے میں ہے۔ اسی طرح تھل کی قومی اسمبلی کی 19 قومی اسمبلی کی نشستوں کے مقابلے میں صوبہ بلوچستان کی 16 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں اور ملتان ڈویژن کی 16 قومی اسمبلی نشتیں ہیں مطلب تھل سے 3 قومی اسمبلی کی نشستیں اس کی بھی ہیں۔ آگے چل کر جیسے ہم بہاولپور کو دیکھتے ہیں تو بہاولپور ڈویژن جوکہ تین اضلاع پر مشتمل ہے اسکی قومی اسمبلی کی 15 نشتیں اور تھل کے مقابلے میں اس کی چار قومی اسمبلی کی نشتیں کم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوئے کہ تھل پاکستان کا ایک بڑا علاقہ ہے لیکن تھلوچیوں کی شومئی قسمت تھل کو بلوچستان ‘ بہاولپور اور ملتان کے مقابلے میں ذرا برابر تخت لاہور اور اسلام آباد کی طرف سے قیام پاکستان کو پچھتر سال گزرنے کے باوجود اہمیت نہیں دی گئی ہے مثال کے طور پر تھل جو کہ 19 قومی اسمبلی کی نشستوں کیساتھ ایک بڑی سیاسی اکائی ہے ٫ اس کیساتھ اضلاع خوشاب ٫ میانوالی ٫ بھکر ٫ لیہ ٫ مظفرگڑھ ٫ جھنگ میں ایک بھی میڈیکل کالج ٫ ٹیچنگ ہسپتال ٫ ڈینٹل کالج تک نہیں ہے۔ اسی طرح تھل کے سات اضلاع میں ایک زرعی یونیورسٹی ٫ ایک انجیرنگ یونیورسٹی کا نام و نشان نہیں ہے ٫ ذرا اندازہ کریں تھل کو کس حال میں رکھا گیا ہے ۔ آگے چلتے ہیں تھل کے سات اضلاع پر مشتمل تین چھوڑیں ٫ دو چھوڑیں ایک بھی ڈویژنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔ اسی طرح تھل کیساتھ اضلاع کے سات اضلاع جن میں خوشاب ٫ میانوالی ٫ بھکر ٫ لیہ ٫ مظفرگڑھ ٫ جھنگ اور چنیوٹ میں ایک بھی انٹرنیشنل چھوڑیں لوکل ائیر پورٹ نہیں ہے۔ جناب والا ٫ پورے تھل مطلب سات اضلاع اور 19 قومی اسمبلی کے علاقہ جوکہ پنجاب کا گوادر ہے وہاں پر ایک ہائی کورٹ کا بنچ اور وویمن یونیورسٹی تک نہیں ہے۔ نوازلیگی لیڈر نوازشریف اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ انہوں نے پورے ملک میں 21ہزار کلومیٹر موٹرویز بنائی ہے لیکن تھل کو ان کی طرف سے اور دیگر پارٹیوں کی طرف سے تھل کے مظفرگڑھ میانوالی روڈ المعروف قاتل روڈ کو مؤثر وے چھوڑیں دورویہ سڑک تک نہیی دی گئی ٫ تھل میں انڈسٹری کا وجود ہی نہیں ہے۔ تھل پسماندگی کی دل میں حکومتوں کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود دھنستا جارہا ہے۔ تھل کی محرومیوں کی طویل داستان ہے جوکہ ساری ایک آرٹیکل میں لکھنا ناممکن ہے ٫ یوں آگے بڑھتے ہیں ٫ تھل میں جہاں اور بڑھے اییشوز ہیں جوکہ جہاں کے لوگوں بالخصوص خواتین اور بچیوں کی زندگیوں کو مشکلات میں گھیرنے کے بعد نگل رہی ہیں۔ چھوٹی عمر کی شادیاں بھی یہاں کا بڑا ایشو ہے ٫ اسی طرح تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہیں۔ تھل میں جلدی شادیوں کے پیچھے جہاں قبائلی نظام کی موجودگی ہے تو دوسری طرف گدی نشینوں اور جاگیر داروں کا طاقت کیساتھ سیاسی نظام میں کھڑا ہونا ہے۔

دوسری طرف غربت ایک بڑا ایشو ہے جوکہ معصوم بچیوں کو ایک کم عمری کے عذاب میں دھکیل رہا ہے ٫ والدین بے بسی کے عالم میں اپنی بیٹی کی جلدی شادی ہر مجبور ہیں۔ ان کے خیال میں بیٹی دوسرے گھر کا مال ہے ٫ اس بار کو جتنا جلدی ممکن ہے سر سے اتار دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح کم عمری کی بچیوں کی شادی کے رجحان کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وٹہ سٹہ جو کہ صدیوں پرانی ایک رسم ہے ٫ اس کی وجہ سے بیٹے رشتہ کیلئے کم عمر بیٹی کو وٹہ کردیا جاتا ہے ٫ اسی طرح بہت ساری ایسی مثالیں تھل میں موجود ہیں کہ باپ بیٹی کو وٹہ کرکے دوسری شادی کرلیتا ہے اور مبارکبادیں بھی وصول کرلیتا ہے کہ اس نے سر بچیوں کا بار اتار دیا ہے۔ادھر ریاست اور حکومتیں دعوے تو بڑے کرتی ہیں اور ایوان بالا اور ایوان زیریں میں قانون سازی بھی کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد وہ کیا کہتے ہیں کہ دلی دور است ٫ دراصل کم عمری کی شادیوں پر پابندی اور بچیوں کیلئے تعلیمی اور صحت کے منصوبوں کے راستے میں روکاوٹ وہ گدی نشین اور جاگیردارں ہیں جوکہ قیام پاکستان سے ایوانوں میں چلے آرہے ہیں لیکن اس بات پر بضد ہیں کہ وہ وہی کرینگے جوکہ ان کے مفادات کے عین مطابق ہوگا۔ ادھر ریاست اور حکومتیں ان کے سامنے معصوم بچیوں کی تعلیم ٫ صحت اور ازدواجی زندگی کی شروعات کیلئے مناسب وقت طے کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ یوں تھل کے سات اضلاع میں ابھی تک بچیوں کو بنیادی سہولتوں سے لے کر ایسی سہولتیں اور استحقاق حاصل نہیں ہے

جوکہ ایک مہذب اور جمہوری معاشرے میں نہیں ہے ٫ یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عالمی ادارے بشمول اقوام متحدہ کا معتبر ادارہ یونیسف پاکستان بھی تھل کے بچوں اور بچیوں کیلئے کوائی بڑی پیشرفت کرنے میں ناکام ہے۔ اسی طرح دیگر ادارے بھی جوکہ خواتین بالخصوص بچوں کیلئے مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں وہ بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد یاپھر لاہور ٫ کراچی ٫ پشاور اور کویٹہ میں حکومتی عہدیداروں کیساتھ نشتوں اور فایل ورک میں مصروف ہیں۔ لیکن آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ بنیادی پہلی اور آخری ذمہ داری ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کی ہے کہ وہ نہ صرف بچیوں کی کم عمری شادیوں کیلئے قانون سازی کرے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کروائے تاکہ پاکستان مستقبل بچے اور بچیاں حقیقی معنوں تعلیم کے شعبے میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے کے بعد اپنی مرضی سے مناسب وقت پر اپنی ازواجی زندگی کا سفر شروع کریں۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com