معروضی حالات، اسٹیبلشمنٹ کی نالائقی، سیاسی جماعتوں کی غفلت اور دیگر امور و مسائل پر متوجہ کرتے ہوئے لگ بھگ چار دہائیوں سے ان سطور میں عرض کرتا چلا آرہا ہوں کہ عدم توازن کا شکار فیڈریشن کو طالع آزما جس طرف دھکیل رہے ہیں اس سمت کے اختتام پر گہری کھائیاں ہیں۔میں اب بھی پوری دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ فیڈریشن کے کمزور طبقات کھائیوں کا رزق بنیں یا سیاسی عدم استحکام سے جنم لینے والی معاشی ابتری کا اسٹیبلشمنٹ کو اس کی فکر ہے نہ اس کے ٹوڈیوں کو جن کے چہرے بوقت ضرورت تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر "کردار” میں رتی برابر فرق نہیں آتا۔
لگ بھگ چار دہائیاں قبل جب ان سطور میں پہلی بار نئی نسل سے درخواست کی تھی کہ صلاحیت کے مطابق سماجی حیثیت کی خواہش ہے تو کسی تاخیر کے بغیر ملک چھوڑدیجئے کیونکہ یہاں ہر آنے والا دن پہلے سے سخت نامہربان اور قاتل دن ہوگا۔ اس بات پر مجھے بہت واہیاں تباہیاں سننا پڑیں لیکن پچھلے چالیس برسوں کے ہر دن مہینے اور سال نے کم از کم مجھے یہ اطمینان ضرور دلایا کہ کچھ غلط نہیں کہا تھا آپ چالیس برسوں کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ ہر صفحہ پر اقربا پروری، اختیارات سے تجاوز، دستور سے ماورا اقدامات، شوق ملکیت میں ہوئے قاتل تجربوں کے نتائج رقم ہیں۔ پھر ایک بار اپنے چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے آپ کو ہر سُو مایوسیوں کا ننگا ناچ دیکھائی دے گا۔
معاف کیجئے گا میں مایوس آدمی نہیں ہوں لیکن چار اور جو ہوتا دِکھتا ہے وہی عرض کرتا ہوں۔ اس عرض گزاری کی جو قیمت نصف صدی میں ادا کرچکا اس پر رتی برابر ملال نہیں اور یہ خواہش بھی نہیں کہ تعریف و تحسین ہو۔ میرے والدین اور پرکھوں کی قبریں اس سرزمین پر ہیں خود میں نے قدم قدم چلنا اسی سرزمین پر سیکھا یہی دو رشتے مجھے اپنے حصے کا سچ وقت پر کہنے لکھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
چند دن قبل ’’جہاد سے فساد تک کے پچاس سال‘‘ اور پھر ‘‘ریاست کے پاس وقت بہت کم ہے‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے دو کالموں میں تفصیل کے ساتھ معروضی حالات پر اپنی آراء پیش کرتے ہوئے ان ضروری اقدامات کی طرف متوجہ کرچکا جو اگر ہنگامی طور پر ہوں تو بچت کا کوئی راستہ نکل سکتاہے۔
ان معروضات اور تجاویز کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ’’ریاست کے پاس وقت کم ہے‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں عدم احساس کی صورت میں جن بھیانک نتائج کی ابتداء کی طرف متوجہ کیا تھاان کا آغاز ہوچکا خدا کرے میں غلط ہوں لیکن سامنے دیوار پر لکھی حقیقت سے آنکھیں چرانا میرے بس میں نہیں۔ دیگر مسائل و مشکلات کے ساتھ گزشتہ چند کالموں میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ بلوچستان میں سلگتا آتش فشاں پھٹنے کو ہے۔
اگر میں یہ کہوں کہ وقت ریاست کی مٹھی سے ریت کی طرح پھل رہا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
اس امر کی کوئی پروا نہیں کہ تحریر کردہ سطور سے کوئی کیا اخذ کرے یا تکبر و غرور کے ہمالیہ پر چڑھی اسٹیبلشمنٹ کے ٹوڈیوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ بی این اے کے سربراہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان روایتی سیاست کا ہتھکنڈہ نہیں بظاہر یہ ریاست اور نظام سے کامل طور پر مایوس ہوکر اٹھایا گیا قدم ہے۔ اختر مینگل سے ایک شکوہ ضرور ہے وہ یہ کہ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے حکمران اور ایلیٹ طبقے کو پارلیمنٹ کا بلوچستان کے مسئلہ پر اجلاس بلانا چاہیے تھا‘‘۔
یہ درست نہیں وہ خود کئی بار ایوان اقتدار میں اعلیٰ منصبوں پر فائز رہ چکے ہیں ان سے بہتر کون اس حقیقت سے واقف ہے کہ ابھی دو اڑھائی برس قبل منتخب ایوانوں کا کورم پورا کرنے کی ذمہ داری ایک کرنل کی ہوا کرتی تھی تب وہ اس حکومت کے اتحادیوں میں شامل تھے
کیا دو اڑھائی برس میں ’’قطب مینار‘‘ کی جگہ تبدیل ہوگئی ہے۔ انہیں صاف اور دوٹوک انداز میں کہنا چاہیے تھا کہ بلوچستان کے معاملات پارلیمنٹ کے لئے نوگوایریاز ہیں جیسی تیسی بھی ہے ایک حکومت اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں رکھتی۔
دوسری بات انہیں ایلیٹ کلاس کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کہنا چاہیے تھا۔ ہاں اگر ان کی ایلیٹ کلاس سے مراد وہ اشرافیہ ہے جو سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب ہوکر یا منتخب کرانے کے نتیجے میں اسمبلیوں میں جلوہ افروز ہوتی ہے تو پھر کسی حد تک درست بات ہے لیکن وہ خود بھی تو اسی سیاسی اشرافیہ کا حصہ ہی ہیں جو باری باری اقتدار میں حصہ لینے اور ناراض قیادت کا کردار آدا کرتی ہے ۔
میری دانست میں سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا عام سی بات نہیں یہ غیرمعمولی فیصلہ اور قدم ہے گوکہ کچھ لوگ اس استعفے کو پچھلے دور میں اعلان کردہ استعفے جیسا قرار دے رہے لیکن خیر ہر آدمی کے حامی و ناقد اور مخالف تو ہوتے ہی ہیں ۔
ان کے فیصلے پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ گو مجھے امید نہیں کہ ایسا ہوگا لیکن اگر نہ ہوا تو پھر خاکم بدہن ’’ملک ٹوٹ جائے تو لکھیں گے مرثیے‘‘ کے مصداق صورتحال دیکھنے میں آئے گی ۔
سردا اختر مینگل ایک طویل عرصے تک مسلم لیگ (ن) کے اتحادی رہے۔ 2018ء آر ٹی اے برانڈ انتخابات کے بعد وہ تحریک انصاف کے اتحادیوں میں شامل ہوگئے۔ 2022ء کی تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے تھے لیکن 2024ء کے انتخابات کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کردیا کاش کسی دن وہ اس فیڈریشن میں بستی اقوام اور خصوصاً بلوچستان کے لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ دوہزار اٹھارہ میں انہیں تحریک انصاف کے جہاز پر کس نے سوار کروایا اور دوہزار بائیس میں پی ڈی ایم کے ڈالے میں کس کے کہنے پر بیٹھ گئے تھے
البتہ حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی نے ان سے بات چیت کی ضرورت محسوس کی نہ ان کی ان شکایات پر توجہ دی جو وہ لگ بھگ 20 برسوں سے پیش کرتے آرہے ہیں۔ میں اس خیال کا حامی نہیں ہوں کہ پیپلزپارٹی کے لئے سردار اختر مینگل نے اپنے دروازے بند کررکھے تھے بالفرض ایسا تھا بھی تو سیاسی جماعت کا کام بند دروازوں پر دستک دیتے رہناہے۔
اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں لگتی کہ مسلم لیگ (ن) نے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی سے بچنے کےلئے اختر مینگل کے ساتھ اعتماد سازی کو اہمیت نہیں دی۔
ہر دو باتوں کے باوجود یہ امر حیران کن ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کی عوامی اور پارلیمانی سیاست کے ایک اہم کردار سے سردمہری برتی۔ ان کا یہ شکوہ درست ہے کہ بلوچستان کے مسئلہ پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جانا چاہیے تھا جسے غیرضروری سمجھا گیا۔ حکمران اتحادی اشرافیہ کو شاید احساس نہیں کہ اس سے کتنی بڑی غلطی بلکہ ’’غلطان‘‘ سرزد ہوگیا ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ سردار اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے عمل سے جو بات مجھے سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ (اختر مینگل) یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ بلوچ سماج کے بدلتے ہوئے سیاسی و قومی منظرنامے میں غیرموثر ہوچکے ہیں اب ان کا اسمبلیوں میں بیٹھنا نہ بیٹھنا ایک جیسا ہے۔
وقت اور بلوچ سماج دونوں کسی اور سمت دیکھ رہے ہیں۔ میری اس رائے سے آپ کو اختلاف کا پورا پورا حق ہے مگر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ اگر اختر مینگل جیسا جہاندیدہ سیاستدان بھی "مایوس” ہوکر اسمبلی سے مستعفی ہوجائے تو چند ٹوڈیوں کے بل بوتے پر نظام اور دیگر معاملات کو کتنی دیر اور کتنی دور تک کھینچا جاسکتا ہے؟ ویسے باقی ملک کی طرح بلوچستان میں بھی ٹوڈیوں کا اپنا اپنا ” سیزن ” ہوتا ہے
باردیگر عرض ہے انا کے خول سے باہر اور تکبر و نخوت کے ہمالیہ سے نیچے اتر کر بلوچوں کی بات سننا ہوگی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وقت ہاتھوں سے نکلتا چلا جارہا ہے۔
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آج وقت ہے جب اس ملک کے سنجیدہ فہم سیاسی کارکنوں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، سماج سدھاروں اور دوسرے صاحب الرائے حضرات کو مصلحتوں سے نجات حاصل کر کے بلوچستان کے لئے آواز اٹھانا ہوگی۔
وقت بہت کم ہے اور اگر یہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر افسوس و ملال کا اظہار کرنے والوں کیلئے خودکشی کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا کیونکہ وہ بھی تاریخ کے مجرم ہی کہلائیں گے۔
بدھ 4 ستمبر 2024 ء